ایک لاہوری کا فوج کے سپہ سلار کو معصومانہ خط
جنرل صاحب، ایک بلڈی سویلین کا سلام!
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد آپ نے بھی بعد از ریٹائر منٹ گولف کھیلنے کے لئے امپورٹڈ کِٹ منگوا لی ہوگی۔ کیڈیز کی خدمات فراہم کرنے کے لئے درجنوں افسران آپ کے آگے پیچھے منڈلانا شروع کر چکے ہوں گے۔
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد آپ نے بھی بعد از ریٹائر منٹ گولف کھیلنے کے لئے امپورٹڈ کِٹ منگوا لی ہوگی۔
مگر جنرل صاحب، آپ کی ریٹائرمنٹ کی خبر سنتے ہی ہم عام شہری اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ آپ نے شروع کی تھی، اسے مکمل کون کرے گا؟ کون ہے جو دہشت گردوں کو ان کی تربیت گاہوں سمیت ختم کرے گا؟۔ کون ہے جو آپ کی شروع کردہ جنگ کو گود لے کر اسے منطقی انجام تک پہنچائے گا؟ دہشت گردوں کو کوئی ختم کرے یا نہ کرے لیکن انہیں ختم کرنے کے لیے کسی نہ کسی کو ہر دوسرے چوتھے روز دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اظہار تو کرنا ہی ہوتا ہے اور آپ نہ رہے تو ہم شکریہ کس کا ادا کریں گے اور بینر کس کے نام کے لگائیں گے؟
جنرل صاحب، (تقریباً) سب کو پتہ ہے کہ آپ نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ پھر آپ کو کیا ضرورت تھی کہ بذریعہ آئی ایس پی آر توسیع نہ لینے کا عندیہ دیتے۔ اتنی جلدی کیا تھی؟ کہیں آپ یہ عندیہ دے کر توسیع حاصل کرنے کے لئے ماحول تو نہیں بنا رہے؟ کہیں آپ عوام کو یہ باور تو نہیں کروانا چاہتے کہ میں نومبر میں ریٹائر ہو رہا ہوں، لہذا کچھ کرو۔ خیر چھوڑیں ان شر پسند خیالوں کو۔
جنرل صاحب، آپ نے تو سال 2016 کو دہشت گردی کے خاتمے کا سال کہا تھا مگر جنرل صاحب دہشت گرد تو ابھی بھی موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ 2016 ویسے تو ابھی شروع ہوا ہے مگر جنرل صاحب، دہشت گردی ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی اور پھر آپ بھی بنا اپنا وعدہ پورے کئے گولف کھیلنے کے ارادے بنا بیٹھے ہیں۔ اگر آپ نے ریٹائر ہونا ہی تھا تو پھر ایسے وعدے ہی کیوں کئے تھے؟ آپ کو نہیں پتہ تھا کہ نومبر تک یہ جنگ مکمل نہیں ہوسکتی؟ لیکن ایک جرنیل کا وعدہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں، آپ سے پچھلے جرنیل بھی وردیاں اتارنے اور انتخابات کرانے کی کئی تاریخیں دے چکے ہیں، آپ بھی دہشت گردی کے خاتمے کی اگلی تاریخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر چھوڑیئے۔
یوں لگتا تھا کہ بلوچستان میں ہر بلوچ کسی نہ کسی ملک کا ایجنٹ ہے۔ لیکن آپ کے دم قدم سے آج کل وہ صرف ہتھیار ڈال رہے ہیں، حتیٰ کہ وہ بھی جنہوں نے کبھی ہتھیار اٹھائے ہی نہیں۔
ویسے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ 2001 سے جاری ہے مگر جنرل صاحب، پہلے تو دہشت گرد ہم پر حملے کر رہے تھے اور ہم لاکھوں کی فوج ہونے کے باوجود صرف دھماکوں اور حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد گنتے رہے۔ کوئی ان ہلاک ہونے والوں کو شہید کہتا اور کوئی جاں بحق۔ بھلا کوئی ایسی جنگ میں شہید کیسے ہوسکتا ہے جس میں دشمن آپ پر حملے کرتا رہے اور آپ ڈرپوکوں کی طرح ہلاک ہوتے رہیں؟ اصل جنگ تو آپ نے (فوج کا) اقتدار سنبھالنے کے بعد شروع کی جس میں اگر ہلاکتیں ہو بھی رہی ہیں تو ہمیں تسلی ہے کہ کم از کم ہم نے جنگ لڑنا شروع تو کی وگرنہ پہلے تو دہشت گرد مارتے تھے اور ہم مرتے تھے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں جنرل صاحب کہ ہمارے کچھ علاقوں مثلاً بلوچستان اور کراچی میں ہمارے “اپنے لوگ” ہی “دہشت گردی” میں ملوث ہیں(کم سے کم میں اتنی جرات نہیں کر سکتا کہ جنہیں آپ دہشت گرد کہہ دیں انہیں کچھ اور کہہ سکوں)۔ مگر جنرل صاحب، شکر ہے کہ آپ نے ان کے خلاف بھی کارروائی کی۔ خاص طور پر کراچی کے عوام تو اب گھروں سے نکلنے سے پہلے آپ کو غائبانہ سلام پیش کرتے ہیں جس کا جواب وہ خود ہی بنا موبائل فون گنوائے گھر واپس آنے پر دیتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ موبائل بچاتے بچاتے کچھ اپنے بچے گنوا بیٹھے ہیں۔
آپ کے آنے کے بعد بلوچستان کے حالات کے تو کیا ہی کہنے۔ پہلے آئے روز بلوچستان سے مٹھی بھر ایجنٹ، شرپسند یا ناراض علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں اغوا اور ہلاک ہونے والوں کی اتنی خبریں آتی تھیں کہ یوں لگتا تھا کہ بلوچستان میں ہر بلوچ کسی نہ کسی ملک کا ایجنٹ ہے۔ لیکن آپ کے دم قدم سے آج کل وہ صرف ہتھیار ڈال رہے ہیں، حتیٰ کہ وہ بھی جنہوں نے کبھی ہتھیار اٹھائے ہی نہیں۔ گمشدہ افراد کے لواحقین بھی اپنے پیاروں کی گمشدگی کا رونا خوب روتے تھے۔ آپ کے آنے کے بعد تو بس شکر ہے کہ بلوچستان سے کوئی خبر ہی نہیں آتی۔ بظاہر لگتا ہے کہ بلوچستان، پنجاب کے علاقے مری سے بھی زیادہ پر سکون ہے۔
آپریشن اتنی ہوشیاری سے انجام دیا جارہا ہے کہ وہاں میڈیا کو خبر پہنچانے والا بھی کوئی نہیں بچا۔ نہ ہوگا خبری، نہ نکلے گی خبر۔
وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب میں ہونے والی کامیابیوں کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جہاں سے بذریعہ آئی ایس پی آر آنے والی اطلاعات کے مطابق لگتا ہے کہ وہاں کی تمام آبادی ہی دہشت گرد تھی۔ اسی وجہ سے وہاں ہونے والے آپریشن میں کوئی بے قصور ناحق مرتا ہی نہیں۔ آپریشن اتنی ہوشیاری سے انجام دیا جارہا ہے کہ وہاں میڈیا کو خبر پہنچانے والا بھی کوئی نہیں بچا۔ نہ ہوگا خبری، نہ نکلے گی خبر۔
اس کے علاوہ جنرل صاحب، کیا وجہ ہے کہ رینجرز پنجاب میں ہونے والی کرپشن پر ہاتھ نہیں ڈالتی (ویسے وہ کہیں بھی کیوں کرپشن پر ہاتھ ڈالتی ہے؟)۔ کیا وجہ ہے کہ رینجرز کو سندھ میں ہی کرپشن نظر آتی ہے۔ کیا پنجاب میں سارے شریف ہیں؟ اب اگر نیب جاگی ہے تو یقیناً نواز لیگ اپنے جمہوری اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بذریعہ آئینی ترمیم نیب کے اختیارات سلب کر لے گی، (ویسے نیب کو سابق فوجی گھاس نہیں ڈالتے تو بے چارا نیب حاضر سروس سیاست دانوں کا ہی احتساب کرے گا) اور آپ منہ تکتے رہ جائیں گے۔
جنرل صاحب، ہمیں آپ کے دعووں پر مکمل بھروسہ ہے کہ پاک فوج نے پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں اور ان کے ساتھیوں کو مار دیا۔ مگر جنرل صاحب، جاتے جاتے یہ ہی بتاتے جائیں کہ وہ چار سہولت کار کون تھے جنھیں 16 دسمبر سے چند دن قبل پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور ان سے دوران تفتیش جو معلومات ملیں، ان سے کیا فائدہ ہوا۔
اس کے علاوہ ہم سویلینز یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ کیا وجہ تھی کہ پاک فوج کو آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کے لئے کراچی ائرپورٹ حملے کا انتظار کرنا پڑا۔ کیا وجہ تھی کہ پچھلے سپہ سلار توسیع ملنے کے باوجود دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع نہ کرسکے؟
جنرل صاحب، آپ ریٹائر ہونا بھی چاہیں تو ہم آپ کو ریٹائر نہیں ہونے دیں گے کیوں کہ ہمیں خوف ہے کہ اگر کہیں اگلے جرنیل صاحب آپ کی طرح توسیع لینے سے رضاکارانہ طور پر انکاری نہ ہوئے تو؟
جنرل صاحب، آج نہیں تو کل۔ آپ نے تو ریٹائر ہوکر چلے ہی جانا ہے، پھر جانے کی اتنی جلدی کیوں؟ جن بھڑوں کے چھتے میں آپ نے ہاتھ ڈالاہے۔ اس سے نکلنے والی بھڑوں کو ختم کئے بغیر آپ کیسے جاسکتے ہیں؟ اب جب کہ سنا ہے کہ دہشت گردوں کی کمر متعدد بار ٹوٹ چکی ہے تو جنرل صاحب، اس وقت وہ ٹوٹی کمر کے باوجود اس قابل ہیں کہ انھوں نے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کر دیا؟
جنرل صاحب، ٹھیک ہے کہ آپ توسیع نہیں چاہتے، ٹھیک ہے کہ پیشہ ورانہ دیانت کا تقاضا ہے کہ آپ توسیع نہ لیں، مگر جنرل صاحب، کبھی آپ نے ہم بلڈی سویلینز سے پوچھا کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اور آپ کی توسیع کا معاملہ سول قیاد کے دائرہ کار میں ہے؟
جنرل صاحب، آپ ابھی ریٹائر ہو کر کیسے جاسکتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ آپ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کامیابی سے کر رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ آپ کے شروع کردہ آپریشن سے ہمارے بچے بھی اب نشانہ بننے لگ پڑے ہیں۔ اس لئے اپنی ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ کیونکہ دو شریف بڑی مشکل سے اکٹھے ہوتے ہیں اور اتنے شریفوں کی حکومت آپ کو دوبارہ نہیں ملنی۔ جنرل صاحب، آپ ریٹائر ہونا بھی چاہیں تو ہم آپ کو ریٹائر نہیں ہونے دیں گے کیوں کہ ہمیں خوف ہے کہ اگر کہیں اگلے جرنیل صاحب آپ کی طرح توسیع لینے سے رضاکارانہ طور پر انکاری نہ ہوئے تو؟
فقط
ایک معصوم لاہوری شہری
ایک معصوم لاہوری شہری