[blockquote style=“3”]
ادارتی نوٹ: عرفان شہزاد کا تحریری سلسلہ ‘مفتی نامہ’ ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں مذہبی طبقات اور عام عوام کے مذہب سے متعلق معاشرتی رویوں پر ایک تنقید ہے۔ اس تنقید کا مقصد ایسے شگفتہ پیرائے میں آئینہ دکھانا ہے جو ناگوار بھی نہ گزرے اور سوچنے پر مجبور بھی کرے۔
[/blockquote]
مفتی نامہ کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
مفتی نامہ- قسط نمبر 4
مدارس کی فضا بھی ہماری مجموعی معاشرتی بودوباش کی عکاس ہے یعنی جس کا جہاں تک بس چلتا ہے اپنے اور اپنوں کے عیوب پر پردہ تان کر دوسروں کی اصلاح کے لیے اوزار اٹھائے پھرتا ہے۔
مدارس کی زندگی اتنی سہل نہیں، دین کی تعلیم کا سلسلہ کچھ اس انداز سے جاری ہےکہ کبھی کبھار اس سب سلسلے سے جی اکتا جاتا ہے۔ ہم نے تقدیس کے اس پاربھی ابلیس دیکھا اور اسی قدر دیکھا جس قدر کسی بھی عام انسان میں ہو سکتا ہے۔ یقین جانیے اگر آپ علمائے دین کو عام انسانوں سے الگ کوئی “مخلوق” خیال کرتے ہیں تو بہت غلطی پر ہیں۔ دین دار بھی اب اتنے ہی دنیا دار ہیں جتنا کہ دنیا دار دین دار ہیں۔ سچ پوچھو تو اس حمام میں سبھی اتنے ہی ننگے ہیں جتنے کہ کسی بھی اور حمام میں ہیں اور یہاں کی دال میں بھی اتنا ہی کالا اور اتنا ہی پیلا ہے جتنا میری اور آپ کی دال میں ہے۔ علمائے دین بھی اسی طرح سے ہیں جس طرح سے کوئی بھی اور برادری۔ یہ بھی انسان ہیں اور انسانوں سے وابستہ انہی تمام خصائل و اوصاف کے مالک ہیں جو کسی بھی اور طرح کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ وہ احباب بھی جو ہر برائی کا کھرا مدرسے تک کھوج لاتے ہیں اور وہ بھی جو ہر دوا کا دارو منبر ومحراب سے پانے کے خواہاں ہیں وہ یہ جان لیں کہ یہاں نہ کوئی فرشتہ ہے ان میں اور نہ کوئی شیطان۔۔۔۔۔ سبھی انسان ہیں۔ چراغ تلے یہاں بھی اتنا ہی اندھیرا ہے کہ جس میں اچھے برے کی پہچان مٹ جاتی ہے اور بہت کچھ خود پر حلال کر لیا جاتا ہے۔
مدارس کی فضا بھی ہماری مجموعی معاشرتی بودوباش کی عکاس ہے یعنی جس کا جہاں تک بس چلتا ہے اپنے اور اپنوں کے عیوب پر پردہ تان کر دوسروں کی اصلاح کے لیے اوزار اٹھائے پھرتا ہے۔ صاحبو تسبیح پھیرنے والے احباب بھی اتنے ہی گناہ گار ہیں جتنے کہ تم اور میں، انصاف اور اخلاقیات کے قاعدوں میں یہاں بھی اپنے لیے ویسی ہی گنجائشیں نکال لی جاتی ہیں جیسی میں اور آپ اپنے اپنے دفتروں کی فائلوں اور ضابطوں میں ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ یہاں کی چھلنی میں بھی اپنوں کے لیے چھید کھُلے رکھے جاتے ہیں اور غیروں کے لیے تنگ۔ صاحبو سچ ہے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی گوار نہیں۔
مدارس کی زندگی کچھ اتنی سہل بھی نہیں، گھر بار سے دوری، اجنبی ماحول، بے جا گھٹن اور سختی۔۔۔۔ ایسے میں یہاں کے طلبہ کی حیثیت بے حد آسان “شکار” کی ہوتی ہے۔ قصور کے بچے تو پھر اپنے گھر بار میں رہتے تھے مگر سوچیے یہاں تو سبھی اپنوں سے دور غیروں میں گھرے رہتے ہیں۔ گو ایسا نہیں کہ سبھی مدارس کاماحول ایسا ہی حبس آلود ہو مگر پھر بھی دنیا کی نظروں سے چھپانے کو یہاں کے قالینوں تلے بہت سا کوڑاجمع کیا گیا ہے۔
مدرسے میں جب بھی کوئی نیا بچہ آتا، مفتی صاحب ہمیں ان صاحب کی خصوصی نگرانی کی تاکید کرتے تھے۔ کئی بار پکڑے گئے، مار پڑی، بے عزتی ہوئی۔
پوچھتے ہو کہ مفتی صاحب سے کئی روز سے کیوں نہیں ملے؟ تو میاں قصہ کچھ یوں ہے کہ یوں تو مفتی صاحب اپنی ہر دلعزیزی اور دلچسپ شخصیت کے باعث ہمارے لیے ہمیشہ پُرلطف صحبت رہے ہیں مگر ایک عادت ان میں ایسی ہے کہ جس کے باعث ان سے ملنا ملانا چھوٹتا جا رہا ہے۔ ہمارے ممدوح مفتی صاحب کے ایک عزیز از جان شاگرد تھے اور نہایت خوش الحان واقع ہوئے تھے۔ اذان دیتے تو ایسی کہ جس نے نہیں بھی پڑھنی ہوتی تھی وہ بھی نماز پڑھنے مسجد کی طرف کھنچا چلا آتا۔ تلاوت کرتے تو دل نہ چاہتا کہ ختم ہو۔ لگتا تھا مستقبل میں مفتی صاحب کی گدی وہی سنبھالنے والے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ایک فعل بد میں مبتلا تھے۔
مدرسے میں جب بھی کوئی نیا بچہ آتا، مفتی صاحب ہمیں ان صاحب کی خصوصی نگرانی کی تاکید کرتے تھے۔ کئی بار پکڑے گئے، مار پڑی، بے عزتی ہوئی۔ لیکن پکڑے بھی تب گئے جب متاثرہ بچے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا اور وہ اپنے ساتھ ہونے والا ظلم بیان نہ کر دیتا۔ خاموش رہنے والوں کے ساتھ تو معلوم نہیں کب تک کیا کیا کچھ نہ ہو جاتا ہو گا۔ ہم عرض کرتے کہ اس کو نکال کیوں نہیں دیتے۔ اس پر مفتی صاحب اپنی عدیم النظیر فراست اور ان معاملات میں مدرسے کی روایتی ‘رواداری’ کا اظہار فرماتے ہوئے کہتے کہ جس کی برائیوں کا پتا ہو وہ بہتر ہے یا وہ انجان جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ جانے کل کلاں کو کیا کر جائے۔ دوسری بات یہ کہ اس کی جگہ کوئی اور بھی اگر آیا تو کیا بھروسہ وہ “ٹھیک” ہو گا، آخر وہ بھی تو کسی نہ کسی مدرسے سے آیا ہو گا۔ پھر اگر اس کو نکال دیں تو یہ کسی اور مدرسے میں چلا جائے گا اور وہاں بھی یہی کچھ کرے گا، یہاں ہمیں معلوم تو ہو جاتا ہے کسی نہ کسی طرح، وہاں تو شاید کسی کے علم میں آئے بغیر اس کا کام چلتا ہی چلا جائے گا۔ مفتی صاحب کی ان فرمو دات کے بعد ہماری کیا مجال تھی کہ کوئی بات کرتے۔ سلسلہ چلتا رہا س اور موصوف درسِ نظامی کی منزلوں پر منزلیں مارتے دستارِ فضیلت اپنے سر پر سجانے میں کامیاب ہو گئے۔
سنا ہے اب ان کا اپنا مدرسہ ہے۔
Image: Asad Fatemi

