پہلا منظر:
ایک سرکاری دفتر میں کچھ سرکاری اور غیرسرکاری تنظیموں کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ چائے کا پرتکلف دور چل رہا ہے اور یہ آپس میں قہقہے بکھیرتے ہوئے اس بات پر گفتگو کررہے ہیں کہ اب سیلاب آنے والا ہے اور اس سیلاب کے قہر کی بدولت حاصل ہونے والے امدادی سامان کی بندربانٹ کیسے کرنی ہے؟ ان کے چہروں پر طمانیت کے آثار نمایاں ہیں۔
استاد محترم فرماتے ہیں کہ جو کچھ بھی میں کلاس میں آپ کو پڑھا رہا ہوں وہ صرف کلاس تک ہی محدود ہے، اس پر عمل بالکل نہ کریں
دوسرامنظر:
ایک مشہور جامعہ کے سبزہ زار میں صنفی علوم(Gender Studies) کے ایک استاد کے گرد ایم فل کے طلبہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ استاد محترم فرماتے ہیں کہ جو کچھ بھی میں کلاس میں آپ کو پڑھا رہا ہوں وہ صرف کلاس تک ہی محدود ہے، اس پر عمل بالکل نہ کریں کیونکہ اس سےگم راہ ہونے کا خدشہ ہے۔ طلبہ بھی ان کے اقوال پر ایمان لے آتے ہیں۔ اسی جماعت کا ایک طالب علم کہتا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہونی چاہیے کیوں کہ انہیں کون سا نوکریاں کرنی ہیں۔
تیسرا منظر
ایک عزیز دوست کے دفتر میں ایک ڈاکٹر صاحب بیٹھے پچھلے دنوں ٹرین حادثے میں فوجیوں کی ہلاکت پر تبصرہ فرما رہے تھے۔ فرماتے ہیں کہ شہید ہونے والے ایک کرنل صاحب ان کے جاننے والے ہیں ۔ یہ تو اچھا ہوا کہ وہ اس حادثہ میں شہید ہوگئے کیونکہ اگر جیتے بھی تو بس پندرہ بیس سال کی زندگی اورتھی اور کیا پتہ وہ اس شہادت سے محروم رہ جاتے۔
جنید جمشید کی یہ ڈھٹائی اس معاشرے کا عکس ہے کہ جہاں انہیں تو تبلیغی استثناء حاصل ہے لیکن کسی آسیہ بی بی یا اقلیتی مذہبی فرقے کو یہ نعمت حاصل نہیں
چوتھا منظر
پاکستان کے ایک بڑے چینل پر جنید جمشید صاحب بڑی رعونت کے ساتھ عورتوں سے متعلق ہرزہ سرائی فرما رہے ہیں۔ ان کے پیرو مرشد جناب طارق جمیل صاحب کی طرف سے ردعمل کے طور پر مذمت کا ایک لفظ تک نہیں آتا ۔وسیم بادامی سے بھی جرأت نہ ہوئی کہ ایک پروگرام ہی اس موضوع پر کردیتے ۔ جنید جمشید کی یہ ڈھٹائی اس معاشرے کا عکس ہے کہ جہاں انہیں تو تبلیغی استثناء حاصل ہے لیکن کسی آسیہ بی بی یا اقلیتی مذہبی فرقے کو یہ نعمت حاصل نہیں۔
بظاہر یہ چاروں مناظر الگ الگ وقوع پذیر ہوئے لیکن ان میں ہمارا علمی، فکری اور معاشرتی بانجھ پن نمایاں ہے ۔ ہمارے اکثر نیم پڑھے لکھے اور بہت پڑھے لکھے خواہ ان کی تعلیم دینی ہویا دنیاوی کم و بیش ایسی ہی فکر اور سوچ کے مالک ہیں ۔ یہ اس بات کی غمازی ہے کہ ہماری سمت کسی منزل کی جانب نہیں بلکہ ایک بھٹکی ہوئی راہ پر متعین ہے اور کسی کو بھی اس کے بھیانک نتائج کی فکر نہیں ۔ ہم مستقبل کے امکانات اور خدشات کو بالکل بھول بیٹھے ہیں ۔ آنے والی نسلوں کے لیے ہمیں خود کو معمولی تعصبات سے بلند کرنا ہوگا اور ایک تکثیر پسند معاشرہ قائم کرنا ہوگا تاکہ آئندہ نسلیں ایک بہتر انسانی ،جمہوری اور ترقی یافتہ معاشرے میں کسی خوف اور خطرے کے بغیر اپنی پرسکون زندگی بسر کرسکیں۔
بظاہر یہ چاروں مناظر الگ الگ وقوع پذیر ہوئے لیکن ان میں ہمارا علمی، فکری اور معاشرتی بانجھ پن نمایاں ہے ۔ ہمارے اکثر نیم پڑھے لکھے اور بہت پڑھے لکھے خواہ ان کی تعلیم دینی ہویا دنیاوی کم و بیش ایسی ہی فکر اور سوچ کے مالک ہیں ۔ یہ اس بات کی غمازی ہے کہ ہماری سمت کسی منزل کی جانب نہیں بلکہ ایک بھٹکی ہوئی راہ پر متعین ہے اور کسی کو بھی اس کے بھیانک نتائج کی فکر نہیں ۔ ہم مستقبل کے امکانات اور خدشات کو بالکل بھول بیٹھے ہیں ۔ آنے والی نسلوں کے لیے ہمیں خود کو معمولی تعصبات سے بلند کرنا ہوگا اور ایک تکثیر پسند معاشرہ قائم کرنا ہوگا تاکہ آئندہ نسلیں ایک بہتر انسانی ،جمہوری اور ترقی یافتہ معاشرے میں کسی خوف اور خطرے کے بغیر اپنی پرسکون زندگی بسر کرسکیں۔
One Response
اس طرح کی سچی تحریریں لکھنے والے بہت کم لوگ باقی رہ گئے ہیں،چند کالم نگاروں نے بھی یہاں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کی ھے لیکن حاکم وقت کہاں ھے ؟وہ اللہ کے حاکمیت کے بعد اپنے نائب کے حوالے کی جانیوالی حاکمیت کی ان شرائط سے کیوں روح گردانی کررھا ھے ،کیا اس کے پیچھے کوئی سازش کارفرماھے یا پھر پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔ جیسے چلتا ھے ویسے ھی چلا ؟؟؟؟؟؟؟؟