وہ دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا یا اس طرح کہا جائے کہ آدھی دھوپ اور آدھے سائے میں، سایہ بھی ٹین کے ایک پترے کا تھا، تپش ایسی تھی کہ لوگوں کی آنکھیں ابلی پڑرہی تھیں۔ آسمان پر دیکھنے کا دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ جس لکڑی کی بینچ پر وہ بیٹھا تھا، اس میں لوہے کا ایک بڑا سکریو آدھا پیوست تھا، اس طرح کہ دو انگلیوں کی مدد سے گھماؤ تو گھوم جاتا، مگر باہر نہیں نکالا جاسکتا تھا، غالبا بھوسے نے اس کی کمر کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ کانچ کی چھوٹی سی پیالی اس کے سوکھے ہونٹوں پر گرم اور خاکی بوسہ دینے کو تیار تھی، گلے کی بنجر سرنگ میں یہ خاکی تیر تیزی سے اترتا اور سینے کو سینکتا ہوا، پیٹ میں پھیلے لمبی آنتوں کے جال میں پتہ نہیں کس طرف کو نکل جاتا۔ جب وہ کرسی پر بیٹھا تووہ خاصی گرم تھی، اتنی زیادہ کہ سائے والا حصہ بھی ہانپتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ کولہے کو ایک گہری تپن سے داغدار کرنے کے بعد کچھ دیر میں اس کے بدن کی گرمی نے بینچ کے ساتھ مصالحت کرلی تھی۔ وہ کھسک کربیٹھ جاتا مگر ذرا سی دور پر ایک شخص بیٹھا تھا، جس نے غالبا تین چار روز سے کپڑے نہیں بدلے تھے، اس کے مٹیالے پنجے اور پنڈلیاں بتارہی تھیں کہ وہ بہت دور تک پیدل چلتا رہا ہے۔ سر پر ایک انگوچھا بندھا تھا اور ہاف شرٹ کی بغلیں کسی بیمار گٹر کی طرح ہوا کے بلبلے چھوڑ رہی تھیں، جن کو برداشت کرنا بڑا مشکل کام تھا،اس کے دماغ نے بڑے حساب سے فاصلے کا ایک نقشہ تیار کیا اور اس کی ہتھیلیاں ، ہلتی ہوئی رانیں اور زمین بجاتے ہوئے بوٹ سب ایسی جگہ براجمان ہوگئے، جہاں سے اس شخص کی بدبو ہوا کے کسی اور رخ کے ساتھ بہتی ہوئی نکل جارہی تھی، بالکل ہوائی جہازوں کی طرح بدبوؤں اور خوشبوؤں کے بھی اپنے راستے ہوتے ہیں، وہ انہی مصور نقشوں کے مطابق بہتی ہوئی چلی جاتی ہیں اور راستوں میں آنے والے مختلف نتھنوں میں اپنی سڑاند، بساند یا پھر مہک کے گھونسلے بنالیتی ہیں۔
وہ ایک عورت کا پیچھا کررہا تھا۔ ورنہ اس بری دھوپ میں اپنے سات سالہ بچے اور جوان بیوی کو چھوڑ کر کون باہر نکلتا ہے۔شادی کے نو سال ہوچکے تھے، پہلا بچہ پیدا ہوا اور دوسری بار چیچک کے حملے کی تاب نہ لاکر دنیا سے چل بسا۔دوسرے ہی سال اس نے پھر کوشش کی ،کامیابی ملی اور اس کی بیوی کی زندہ اولاد کا سکھ بھوگنے کی خواہش مکمل ہوئی۔دراصل وہ اپنی بیوی کو کہیں سے بھگا کر لایا تھا، شادی سے پہلے کوئی ٹٹ پنجیہ سے قسم کے کیس میں جہاں اس کی بڑی تضحیک ہوئی تھی، ذلت اٹھانی پڑی تھی اور پورے پیسے بھی نہیں ملے تھے، صرف یہی ایک عورت تھی، جو اس کے ہاتھ لگی۔کسی انسپکٹر کی رکھیل تھی ، حالات سے پریشان اور تنگ دست۔منہ سے کچھ بولتی ہی نہ تھی، انسپکٹر نے حالانکہ اس کیس میں تھوڑی بہت مدد بھی کی تھی، مگر عشق نے مروت کو بالائے طاق رکھ کر ان دونوں کو ساتھ بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔شادی کے بعد یہ پہلا کیس تھا، جس میں اسے دس ہزار دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ ایک بڑے شہر کا چھوٹا پرائیوٹ جاسوس تھا۔ابتدا میں اس کام میں اچھی خاصی کمائی ہوجاتی تھی، اس نے ایک پرائیوٹ ڈیکٹٹو ایجنسی میں کچھ مہینوں نوکری بھی کی، مگر کیسز بہت کم ملتے تھے، تنخواہ بھی زیادہ نہیں تھی اور بہت سے کام کمیشن پر ہی کرنے پڑتے تھے۔کمیشن بھی کیا طے ہوتا، تین ہزار یا چار ہزار۔اس نے سوچا اس سے بہتر ہے کہ اپنا ہی کام شروع کیا جائے، تھوڑا بہت دھکا دینے سے گاڑی چل نکلے گی۔ویسے بھی جاسوس کا دفتر بھی کیا ہوتا ہے، ایک موبائل فون، کچھ تفصیلات اور پھر گلیوں، چوراہوں کی خاک کے ساتھ جیب میں پڑی ہوئی طویل تعاقبوں کی ایک فہرست۔پچھلے کئی برسوں سے وہ ایسے ہی تعاقب پر گزارہ کررہا تھا، جن میں قدموں کی چھاپ سے سکوں کی چھن چھن تک کا بہت معمولی سا سفر اس نے طے کیا تھا۔بریڈ بٹر کے پیسے جٹانے مشکل ہوجاتے، اتفاق سے شادی ہوگئی تو دوجانوں کا بوجھ اور سر پر آن پڑا۔بیوی نے بچے کی ضد کی تھی، ورنہ وہ بچہ نہیں چاہتا تھا۔بیوی بھی کیا کرتی، وہ ہمیشہ سےعدم تحفظ کا شکار رہی تھی، اسے لگا کہ کہیں یہ بھی ایک وقت کے بعد بغیر نکاح نامے کی اس بیوی کو رکھیل نہ سمجھنے لگے اور جاسوس سے انسپکٹر میں تبدیل ہوجائے، چمڑے کے پٹے سے مارے، شراب سے بھری ہوئی تھوتھنی کو اوک بنا کر اودے ہونٹوں میں انڈیلنا نہ شروع کردے۔چنانچہ وہ درمیان میں اولاد کا لگھڑ ڈال کر دیکھنا چاہتی تھی، جس کی مدد سے وہ جب چاہے اپنے نام نہاد شوہر کو اپنی جانب گھسیٹ سکتی تھی۔
وہ سوچتا تھا کہ ہماری فلموں میں بھی تو جاسوس دکھائے جاتے ہیں، کتنے شاندار ہوتے ہیں وہ، ہمیشہ ان کے عقب میں ایک مہیب موسیقانہ لہر رواں رہتی ہے، خوبصورت لڑکیوں سے چالاکی کےساتھ بنائے جانے والے جنسی تعلقات۔دل میں اترجانے والا چہرہ، دو پل میں ہپنٹائز کردینے والی صلاحیت اور کیسے بھی مشکل حالات میں خود کو بچا لینے والا انداز۔اف! کیا جاسوس ہوتے ہیں، مگر وہ آج تک کسی بھی ایسے جاسوس سے نہیں ملا تھا۔اب تو اس کا پیٹ بھی نکل آیا تھا۔پتلی بانہیں، گہرا سانولا چہرا، آنکھوں میں ایسی کوئی خاص بات نہ تھی کہ دیکھنے والا ہپنائز کیا جاسکے۔زیادہ بھاگنے سے ہانپنے لگتا اور ٹانگیں جواب دے جاتیں، کسی کا تعاقب کرتے وقت اکثر اسے بیچ میں ہی رک جانا ہوتا کیونکہ کوئی ضروری فون آجاتایا بیوی پڑوس کا کوئی نیا دکھڑا سنانے کے لیے فون کردیتی۔پھر اس نئے شہر میں اس کے زیادہ تعلقات بھی نہ تھے، نیا کاروبار اور وہ بھی اس قدر انفرادی اور پراسرار۔اب تو وہ بال اور داڑھی مونچھ کٹوانے بھی زیادہ نہیں جاتا تھا۔شادی سے پہلے بھی بغل اور ناف کے بالوں سے اسے اتنی الجھن کبھی نہیں ہوتی تھی، مگر وہ مونچھیں اور داڑھی ترشوا لیا کرتا تھا۔مگر اب یہ سب مشکل تھا، وہ ٹائٹ جینز اور دھاری دار شرٹ پہنے، کالا چشمہ لگائے کسی دوسری دنیا کے سادھو جیسا لگتا تھا۔اسے اپنی بھگل پر اتنا افسوس نہیں تھا، وہ جانتا تھا کہ جاسوسی کا کام اس کا پسندیدہ کام ہے۔ورنہ ماں باپ نے بہت ضد کی تھی کہ پرچون کی دکان پر بیٹھ جائے اور آج بھی گاؤں میں اس کا بوڑھا باپ بمشکل وہ دکان چلاتا تھا۔کئی دفعہ اس کے جی میں آئی کہ لوٹ جائے،مگر سوچتا تھا کہ اس صورت میں واپس لوٹنا ممکن نہیں ہے، اسے لگتا تھا کہ بھاگ بدلیں گے، بس کسی کیس میں اس کا نام اخبار میں آجائے اور ذرا سی شہرت مل جائے تو لوگ خود اس کی خدمات لینے آجایا کریں گے۔
رات کو تھک ہار کر جب بیوی کے پاس بیٹھتا تو اس کے کھردرے اور سوراخ دار چہرے کو اپنی سخت انگلیوں سے چھوتے ہوئے بڑے پیار سے باتیں کیا کرتا۔اس کا بیٹا اب پہلی جماعت میں داخل ہوگیا تھا۔وہ رات کو اکثر لنگی پہنا کرتا تھا۔بیوی دنیا بھر کے خرچے بتانے لگتی اور وہ اس فراق میں رہتا کہ بیوی کے بدن کے کون سے پنے سے اسے پڑھنے کی ابتدا کرے۔ایک جاسوس ہونے کی وجہ سے دن بھر وہ اتنے سارے رازوں اور گتھیوں کے ساتھ گزارا کرتا تھا کہ بیوی کو کسی مبہم عبارت کی طرح نہیں پڑھنا چاہتا تھا، اسے بغل میں لیٹی ہوئی اپنی بیوی جس کا جمپر اٹھا کر وہ پیٹ پر گہرے لمبےرنگ بکھیرتا تھا،جب سسکیاں بھرتے کسی معمے میں تبدیل ہوتی نظر آتی تو وہ اس کی گول اور چکنے نقش بنانے والی پسینے دار بغلوں میں اپنا منہ دفن کردیتا۔بیوی کے پسینے سے اٹھتی ہوئی مخلوط گرم و سرد لہریں اس کے منہ میں بھاپ بن کر داخل ہوتیں اور تالو پر چمگادڑوں کی طرح لٹک کر رقص کرنے لگتیں۔وہ اس ہلکی بھیگی دنیا میں دبے پاؤں داخل ہوجاتا اور بیوی کے گدگدے اور فربہ بدن کی سفید چربی اور سرخ گوشت میں اپنی ہانپ کے بیج بونے لگتا،درمیان میں جب نظر اٹھتی تو اس کی بیوی آنکھیں بندکیے ہوئے ایک ایسی ہی بالکل الگ دنیا میں تیررہی ہوتی، جہاں کسی بچے کے ہوم ورک کا سردرد نہیں تھا، پڑوسن کے اوندھے سیدھے نخرے نہیں تھے، دودھ اور راشن والے کی چڑچڑاہٹیں نہیں تھیں، برتنوں کی کھنکھناہٹ اور سندور یا دوپٹے کا تکلف بھی نہیں تھا، بس خلا میں بجتے ہوئے دو گھنگھرو تھے، جن کی صدائیں اس کے جسم میں غوطے لگاتی تھیں،اور انگوٹھی اور انگلی کی شکل میں تبدیل ہوکر اس کے شکن آلود بدن کی چادر کو چٹکیوں میں سمیٹ لیتی تھیں۔۔۔اسے اپنی بیوی کو یوں دیکھنا بہت پسند تھا،ہلکے گہرے اندھیرے میں جب اس کے پسینہ اگاتے ہوئے چہرے پر بیوی کے چپچپے بال دلدل میں پھنسے ہوئے سانپوں کی طرح جم جاتے تھے۔اور پھر وہ دونوں اس پندرہ بیس منٹ کی سخت محنت کے بعد ایک دوسرے کی ٹانگوں پر ٹانگیں پسارے سو جاتے یا کبھی کبھار جاسوس اٹھتا اور گھر کی بالکنی میں جاکر سگریٹ سلگایا کرتا اور دن کے کسی الجھے ہوئے کیس کے بارے میں از سر نو غور کرتا۔سوچنے کا اسے آج تک اس سے بہتر راستہ اور کوئی نہیں لگا تھا، بہت سے معاملات انہی لمحوں میں روشن ہوتے تھے، وہ سوچتا تھا کہ وہ کون سے بدنصیب جاسوس ہونگے، جن کے پاس عورت کے بدن سے دماغ کو تیزتر کردینے والا یہ منتر نہیں ہوگا۔
وہ ان لمحوں کو سوچ کر مسکرایا، چائے آدھی ہی ختم ہوئی تھی ، مگر ہنوز گرم تھی۔لو کے ایک تھپیڑے نے اس کے گال کو تھپتھپایا، اب وہ عورت سامنے موجود بس سٹاپ پر کھڑی تھی۔اتنے میں کوئی بس آئی، عورت جب بھیڑ کے ساتھ بس میں سوار ہوئی تو اس نے آگے بڑھ کر بس کا نمبر دیکھا۔چائے کی دکان کے برابر کھڑی ہوئی ایک پولیس موبائل وین میں بیٹھے ہوئے ڈرائیور نے اسے گھور کر دیکھا، وہ واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔اس نے چائے والے سے معلوم کیا کہ یہ بس کہاں جاتی ہے۔کیونکہ اب اس میں زیادہ پیچھا کرنے کی قوت نہیں تھی، اس نے چائے کے پیسے ادا کیے اور اپنے گھر کی جانب واپس آنے کے لیے فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔قریب ہی سڑک پر دھول اڑاتی ہوئی گاڑیاں گزر رہی تھیں، وہ سوچ رہا تھا کہ ان شیشوں کے پیچھے ٹھنڈی ہوا کھانے والے لوگ کیا کام کرتے ہوں گے، کیا گاڑیوں سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔مثلا سوئفٹ ڈزائر کے پرانے اور ٹاپ موڈل میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں کیا فرق ہوتا ہے، یہ تو ایک کمرشیل گاڑی ہے، مگر اب شہروں میں ذاتی ملکیت کے طور پر بھی زیادہ مقبول ہورہی ہے۔جگہ کم گھیرتی ہے اور بہ آسانی ڈرائیورسمیت پانچ لوگ اس میں بیٹھ سکتے ہیں۔یہ تو عام لوگوں کی گاڑی ہے، مثلا اس بڑے شہر میں یہ چائے بیچنے والا بھی اگر ارادہ کرے تو ایک سکینڈ ہینڈ سوئفٹ ڈزائر خرید سکتا ہے۔ نینو گاڑی کم نظر آتی ہے، لوگ اسے دیکھ کر مذاق اڑایا کرتے ہیں، وہ لگتی بھی کسی حاملہ عورت کے پیٹ کی طرح ہے، اس سے بہتر تو وہ سولر گاڑیاں ہیں، جو ہوتی تو ٹو سیٹر ہیں، مگر ان کی شکل و صورت کتنی کیوٹ ہوتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے کسی بہت بڑی اور رئیس گاڑی کی معصوم اولادیں ہوں۔بہت سی گاڑیا ں ہیں، ورنا، آئی ٹین ، آئی ٹوئنٹی۔ ان گاڑیوں میں کون لوگ ہوں گے۔ سرکاری نوکر، پروفیسر، کلرک، پرائیوٹ کمپنیوں کے ملازمین یا پھر کچھ چھوٹے نجی کاروباری۔اسی سڑک پربی ایم ڈبلیو اور پجیرو جیسی بڑے سائز اور بڑی قیمتوں کی گاڑیاں بھی دوڑتی ہیں۔آٹومیٹک گیئر والی۔بالکل پیروں کی طرح، جن کو کہاں رکنا ہے،کتنی رفتار بڑھانی ہے،کتنا چلنا ہے اچھی طرح پتا ہے۔فٹ پاتھ پر کھل اٹھنے والے ایک ادھ موئے سریے پر سے اس نے چھلانگ لگائی اور ان بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والوں کی حیثیت کا اندازہ کرنے لگا۔ابھی اس کے اندازے کی مٹھیاں ان مخصوص اور بڑے لوگوں کے دروازے پر دستک دینے کی ہمت ہی جٹارہی تھیں کہ اوپر والی جیب میں موجود فون پر ہمنگ کی دائرہ بناتی لہریں پیدا ہونے لگیں۔اس کے فیچر فون میں کانٹے جیسے نمبروں کے اوپر چکنی سکرین کا ایک گنجا اور ہلکا سبز سر تھا، جس پر نئے کلائنٹ کا نام ابھر رہا تھا۔اس وقت وہ کسی کا بھی فون ریسیو کرنے کے موڈ میں نہیں تھا، اس نے فون کو جینز کی جیب میں ٹھونسا مگر اس کا وائبریشن بند نہیں کیا۔اسے وائبریشن کی آواز اورننھی سی گرج بہت پسند تھی۔
گھر پہنچا تو بیوی کھانا کھارہی تھی، اس نے ہاتھ منہ دھویا، لنگی پہنی اور بیوی کی بغل میں بیٹھ گیا۔بچہ پڑوس کے ایک گھر میں ٹی وی دیکھ رہا تھا، دوپہر تھی اور دور دور تک شانتی اور چین کاراج تھا۔اس نے بیوی کے ہاتھ سے نوالہ کھایا اور بیوی کو نئے کیس کے بارے میں بتانے لگا۔یہ کیس ایک دیوالیہ ہو جانے والے رئیس کی طلاق شدہ بیوی کا تھا، رئیس کو اپنی مطلقہ بیوی میں بھی پتہ نہیں کیا دلچسپی تھی کہ وہ اس کے سارے ٹھور ٹھکانوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، مگر مشکل یہ تھی کہ اسے سب کچھ سمجھانا آسان نہ تھا، وہ اونچا سنتا تھا، اس لیے سامنے بیٹھ کر تو کسی نہ کسی طرح ہانپتے کانپتے اسے تفصیلات بتائی جاسکتی تھیں، شور اور دھول بھری سڑک پر ، فون پر چلا چلا کر سب بتانا مشکل تھا۔مگر عجیب قسم کا شکی تھا کہ خود سے الگ ہوجانے والی عورت کا بھی حساب رکھنا چاہتا تھا، بقول اس رئیس کے ، اس کے پاس اب چند لاکھ روپے کی ملکیت باقی رہ گئی تھی، سارا کاروبار تباہ ہوچکا تھا، عمر کے اس پڑاؤ پر تھا، جہاں پتہ نہیں کب دل کا دورہ طعمہ ہوس بن کر اس کی روح کو نگل لے ، مگر وہ باز آنا نہیں چاہتا تھا، پچھلی بار جب جاسوس نے اسے اس کی بیوی یا مطلقہ بیوی کے بارے میں بتایا کہ وہ اکیلی رہ رہی ہے اور کسی ایڈورٹزمنٹ ایجنسی میں کام کررہی ہے تو رئیس کے چہرے پر ایک چمک پیدا ہوگئی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسے شاید بمجبوری اپنی بیوی سے الگ ہونا پڑا ہوگا، یا پھر اسی عورت نے دیوالہ نکل جانے کے بعد طلاق لی ہوگی، ورنہ وہ آج بھی اپنی بیوی کے ذکر کی بوچھار میں بھیگ کر ہرا ہوجاتا تھا۔اس کے بوڑھے اور اکڑے ہوئے سخت گیر چہرے پر اپنی بیوی کا ذکر سنتے ہوئے بہت سی ملائم پرتیں جاگا کرتی تھیں، جن میں مختلف رنگ ہوتے تھے، کبھی غصہ، کبھی جھنجھلاہٹ، کبھی بے حد پیار اور ترحم کا جذبہ۔وہ چاہتا تھا کہ اس عورت کی کچھ مدد کی جائے، کسی طرح وہ اس کی زندگی میں واپس آجائے یا پھر اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ اپنی بیوی کو کچھ رقم پہنچا سکے۔جاسوس نے ایک دفعہ کوشش کی تھی کہ رئیس کی دی ہوئی کچھ رقم اس کی بیوی تک ایک بچے کے ذریعے پہنچائی جائے مگر اس نے رئیس کا نام لفافے پر دیکھتے ہی وہ رقم بچے کو واپس لوٹادی تھی اور بہت ڈانٹا پھٹکارا بھی تھا۔رئیس یہ بالکل نہیں چاہتا تھا کہ رقم کسی ایسے طریقے سے عورت تک پہنچے جس سے اسے پہنچانے والے کا نام نہ معلوم ہوسکے، وہ عشق میں بھی ایک کاروباری کے ذہن سے کام لے رہا تھا اور یہ توقع رکھتا تھا کہ عورت کبھی نہ کبھی پیسے کی چمکتی ہوئی ہتھیلی پر اپنا سونے جیسا گال رکھ دے گی۔اب تک اس کیس میں اسے تین ہزار روپے مل چکے تھے، باقی رقم کام ہوجانے کے بعد ملنی تھی۔بیوی نے پوچھا:
‘اب کیا کام باقی رہ گیا ہے، سب تو صاف ہوچکا ہے، بیوی اس بڈھے سے ملنا نہیں چاہتی۔اسے تو اس کے پیسوں میں بھی اب دلچسپی نہیں رہی۔’
‘ہاں بات تو سچ ہے، مگر بوڑھے رئیس کی پرابلم کچھ اور ہے؟’
‘کیا؟’
‘وہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ چھٹی کے روز اس کی بیوی کیا کرتی ہے؟’
‘عجیب بے وقوف آدمی ہے، ایک عورت نے جب اسے چھوڑ دیا ہے تو اس سے فرق ہی کیا پڑے گا کہ وہ چھٹی یا کام کے دنوں میں کیا کرتی پھر رہی ہے؟’
جاسوس خود اس قصے کو پوری طرح سمجھ نہیں پارہا تھا، مگر اس نے بیوی کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ ہمیں تو اس کام کو کرکے بقیہ سات ہزار روپے لینے ہیں، ہمارا اس بوڑھے کی رنگین دلچسپیوں سے کیا لینا دینا۔بیوی مطمئن ہوگئی ، مگر جاسوس اپنے اندر، بہت اندر غیر مطمئن تھا۔رات کے کسی پہر وہ اٹھا اور نہادھوکر باہر نکل گیا۔ آج اس نے اپنی آنکھوں پر لگانے کے لیے کالا چشمہ بھی نہیں لیا تھا۔وہ اس عورت کے گھر کے باہر جاکر ایک کھمبے سے ٹک کر کھڑا ہوگیا، رات کا وقت تھا، لوہے کی گریل اور ہلکے سانولے ، غیر شفاف کانچ میں سے چھلکتی ہوئی ڈم لائٹ کی روشنی دکھائی پڑرہی تھی۔وہ آہستہ آہستہ ڈگ بھرتا ہوا عورت کے فلیٹ کی طرف چل پڑا، دوسری منزل پر پہنچنے کے بعد دروازہ کھٹکھٹانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اندر سے کچھ تیز چاپوں کی آواز آئی، چابی کا ایک گچھا جیسے ہوا میں لہرایا اور اس کی آواز نے جاسوس کے کانوں کے ٹنل سے ہوتے ہوئے چھٹی حس کے خانے میں دھم سے ایک ضرب لگائی، وہ اگلی منزل کی سیڑھیوں پر چڑھا اور دبک کر بیٹھ گیا۔ایک نسوانی وجود کا احساس اس اندھیرے میں موجود تھا۔دروازہ لاک کرنے کی آواز آئی اور عورت نیچے کی طرف اتر گئی، وہ اگلے چند منٹوں تک یونہی دبکا رہا۔انہی چند منٹو ںمیں اس نے ایک خیالاتی دنیا آباد کرلی۔اس دنیا میں اس نے دیکھا کہ عورت کے جاتے ہی وہ لاک کھول کر اندر داخل ہوگیا ہے، اچانک اس کا پھیلا ہوا بدہنگم پیٹ اندر کی طرف چلا گیا، سینہ ابھر آیا، رانوں کے پٹھوں میں نہ جانے کون سی مردانہ طاقت اتر آئی ہے، گال نکل آئے ہیں اور مضبوط مچھلیوں والے بازوؤں سے وہ گھر کی ایک ایک طاق اور دراز کو کھنگال رہا ہے، کاغذوں کے پلندے اتھل پتھل ہوچکے ہیں، باہر سے چھلک چھلک کر آنے والی روشنی میں اس کا پراسرار وجود کسی سرد ملک کے انگریز جاسوس کی طرح سائے جیسا دکھائی دے رہا ہے، دیکھنے والے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہیں اس لیے جاسوس کی ہر حرکت احتیاط اور توجہ سے زیادہ ریاکاری کا تقاضا کررہی ہے۔ہوائی شیشے کھل گئے ہیں، روشنیاں بکھر گئی ہیں اور لیزر بیم کے جال سے بچتے بچاتے جب وہ ایک ایسے لاکر تک پہنچ گیا ہے، جہاں اس کہانی کا سب سے مخفی راز جاسوس کےتیز دماغ اور گرم ہاتھوں کی زیرکی سے بے خبر خاموشی کے دامن میں پڑا سورہا ہے، تو اچانک اس کے گردن پر ریوالرر کی سرد نوک سرسراہٹ پیدا کردیتی ہے۔مگر وہ سرد سرسراہٹ ایک گرم بوسے میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس کی گردن پر زبان سے ایک جوان عورت گلابی رنگ کی گیلی لکیریں پیدا کرنے لگتی ہے، جاسوس آہستگی سے پلٹتا ہے ،یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں مزید روشن ہوجاتی ہیں کہ پچھلے روز ساڑی میں بس کا انتظار کرنے والی بوڑھے رئیس کی بیوی ، سٹریٹ بالوں اور مہنگے پرفیوم کی مہک کے ساتھ اپنےفیشیئل کرائے ہوئے چہرے کے ساتھ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے کھڑی ہے،اس نے سانسوں کی گرم دھاریوں میں جاسوس کی احتیاط زدہ آہوں کو لپیٹ لیا ہے اوراس کے حیرت سے کھل جانے والے ہونٹوں پر اپنے دائمی سرخ اورطلسمی ہونٹ رکھ دیے ہیں۔وہ ہر پرت کے ساتھ جاسوس کے اودے ہونٹوں پر اپنی لال لپ سٹک کی تھاپ جگاتی جارہی ہے اور وہ پھر لمحہ آتا ہے جب وہ جاسوس کی پینٹ کا بٹن کھول کر، اس کا لیدر جیکٹ اتار کر پلنگ پر اسےبستر کے ملائم دریا میں ڈوبنے کے لیے دھکا دے دیتی ہے۔
اس خیالاتی دنیا سے دھکیل دیے جانے کے بعد اتر کر اس نے پہلے دروازہ ٹٹولا، پھر اپنے موبائل فون میں موجود ٹارچ کی ننھی اور تیز روشنی میں دروازے کو دیکھا، اسے کھولنا ممکن نہیں تھا، اس نے آس پاس کوئی اوزار ٹٹولا، ایک چھوٹی سی پن اسے زمین پر پڑی دکھائی دی، اٹھاکر لاک کے پیٹ میں اس نے پن کا پتلا وجود اتار دیا، مگر کافی کوششوں کے بعد بھی لاک نہیں کھل سکابلکہ مصیبت یہ ہوئی کہ پن اس میں اتنی بری طرح اٹک گئی کہ اس کا باہر نکلنا دشوار ہوگیا۔زیادہ دیر تک ٹارچ جلانے کا مطلب تھا کہ آس پڑوس میں کسی کو بھی اس پر شک ہوسکتا تھا، اس نے ٹارچ بند کی اور پن کو جھنجھوڑنے لگا، مگر اس احتیاط سے کہ آواز نہ پیدا ہو اور اچانک جھٹ سے پن کا ایک ٹوٹا ہوا سرا اس کے ہاتھ میں آگیا۔اوپر کہیں کھڑکھڑاہٹ سی سنائی دی تو بوکھلاہٹ میں اس نے لمبے لمبے قدم بھرتے ہوئے بلڈنگ سے نیچے اترنا شروع کردیا، پسینہ اس کے ہاتھوں اور کنپٹی پر بہہ رہا تھا،نیچے اترا تو دو کتے بھونکتے ہوئے اس کی طرف بڑھے، وہ نہ چاہتے ہوئے ایک گلی میں بھاگنے لگا، مگر کچھ دور جانے کے بعد معلوم ہوا کہ گلی بند ہے، اس نے آس پاس موجود پتھروں کو اٹھانا چاہا مگر کتوں کی رفتار بہت تیز تھی، ابھی وہ جینز پر لگی بیلٹ کو کھولنے کی کوشش ہی کررہا تھا کہ کتوں نے اس کے پیروں پر حملہ بول دیا ، ایک کتے نے پنڈلی میں دانت گاڑے تو ہول سے اس کی چیخ نکل پڑی۔اس نے بوکھلاہٹ میں گلی کی دوسری طرف بھاگنا شروع کیا، پنڈلی سے خون بہہ رہا تھا اور درد بھی ہورہا تھا، مگر اس وقت ان کٹ کھنے کتوں سے خود کو بچانا بہت ضروری تھا، اسے لگا جیسے آج اس کے پیچھے بھی ایک مہیب موسیقانہ لہر دوڑ رہی ہے، کتوں کی آوازوں نے اپنی پوشاک تبدیل کی تو آس پاس کی اندھیرے میں اونگھ لگاتی بلڈنگیں بھی شطرنج کے مہروں میں بدل گئیں اور اسے لگا جیسے وہ ایک طویل ، لمبی بساط پر دوڑنے والا بے بس بادشاہ ہے، جسے وزیرکی گھات سے بچنے کے لیے جہاں تک ممکن ہو، خانے بدلتے جانا ہے۔
‘پھر ہر طرف اجالا ہوگیا، اتنا گھنا اجالا کہ کچھ بھی دیکھنا ممکن نہ رہا، بس ایک دھاپ کی آواز سنائی دی، جس میں گونجتے ہوئے دو لبلبلے ڈرم جیسے ہوش کی ڈانڈیوں سے بے نیاز ہوجائیں۔بہت دیر بعد اس کی آنکھ کھلی تو ایک عورت اس کی پنڈلی پر پٹی باندھ رہی تھی۔
اور وہ عورت جاسوس کی بیوی تھی۔