16 فروری کی شام پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل نمبر 4 میں اونچی آواز میں موسیقی سننے پر ہونے والے تنازعے کے “ذمہ دار” 30کے قریب طلبہ کے نام یونیوسٹی سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ فیصلہ تنازعے کی تحقیقات کے بعد کیا ہے۔ فیصلے میں حالات معمول پر آنے تک پولیس اہلکاروں کو یونیورسٹی حدود میں تعینات رکھنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ، بلوچ کونسل اور پشتون ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ موومنٹ کے اراکین کو سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے شناخت کرنے اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی بناء پر یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ، بلوچ کونسل اور پشتون ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ موومنٹ کے اراکین کو سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے شناخت کرنے اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی بناء پر یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق 16 فروری کی شام ہاسٹل نمبر 4 کے کمرہ نمبر 110 میں مقیم بلوچ طالب علم جمیل احمد بگٹی کے موسیقی سننے پر اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین کی جانب سے منع کیا گیا جس کی وجہ سے تنازعہ شروع ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ ریاضیات کے طالب علم سہیل شاہ دستی کے مطابق شعبہ سیاسیات کے جمیل احمد بگٹی نے آواز دھیمی کرنے پر آمادگی ظاہر کی تاہم موسیقی بند کرنے سے انکار کیا۔ اس پر مشتعل ہو کر جمعیت کے رکن “صائم” کی جانب سے کمرہ نذر آتش کیا گیا جس میں قیمتی سامان جل کر راکھ ہو گیا۔ بلوچ طلبہ نے آگ لگانے والے جمعیت کارکن کو پکڑ لیا۔ پولیس کو موقع پر بلا کر ملزم کو ان کے حوالے کرنے کی کارروائی جاری تھی کہ اسی دوران جمعیت اراکین کی جانب سے حملہ کیا گیا۔ حملے میں کئی بلوچ طالب علم زخمی ہو گئے۔ حملہ آور جمعیت اراکین مسلح تھے اور ان کی تعداد سو سے زائد تھی۔ جھگڑے کے دوران 15 طلبہ زخمی ہوئے جنہیں شیخ زاید ہسپتال میں طبی امداد فراہم کی گئی۔
بلوچ طلبہ کی جانب سے جمعیت کے حملے کو “غنڈہ گردی” جبکہ جمعیت کی جانب سے اس واقعے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے۔ تاہم سی سی ٹی وی فوٹیج میں جمعیت اراکین کو اسلحے کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جن میں سے ایک کی شناخت صہیب خان کے طور پر کی گئی ہے۔ صہیب خان کا تعلق شعبہ ارضیات سے ہے۔ بلوچ طلبہ کی جانب سے پولیس پر خاموش تماشائی بنے رہنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔
واقعے کی تحقیقات کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے 30 کے قریب طلبہ کے اخراج کا فیصلہ کیا گیا ہے جن میں سے زیادہ تر اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین ہیں۔ علاوہ ازیں ایس ایچ او تھانہ مسلم ٹاون خورشید کے مطابق واقعے میں ملوث 200طلبہ کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ 15 کو نامزد کیا گیا ہے۔ یہ مقدمات پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 148، 149، 324 اور 506-بی اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 کے تحت درج کیے گئے ہیں۔ نامزد ملزمان میں سے ایک صائم جو مبینہ طور پر کمرہ نذرِ آتش کرنے کا ذمہ دار ہے پولیش کی تحویل میں ہے جبکہ بقیہ کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں۔