Laaltain

پستان – پہلی قسط

12 جولائی، 2016

[blockquote style=”3″]

ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساته یه بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحه قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے

[/blockquote]

باب-1
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے ہیں۔

 

یہ کہانی اس طرح پیدا ہوئی تھی، جیسے رات پیدا ہوتی ہے، بہت اہتمام کے ساتھ، شام کے میلے ہلکے رنگوں کا گاڑھا پن بھاری ہوتا جاتا ہے اور پھر اس میں سے کچھ چھوٹی روشنیاں نکلتی ہیں
یہ کہانی اس طرح پیدا ہوئی تھی، جیسے رات پیدا ہوتی ہے، بہت اہتمام کے ساتھ، شام کے میلے ہلکے رنگوں کا گاڑھا پن بھاری ہوتا جاتا ہے اور پھر اس میں سے کچھ چھوٹی روشنیاں نکلتی ہیں، رات میں دیکھنے والی آنکھوں کی روشنیاں، کچھ آوازیں نکلتی ہیں، جھینگروں کی آوازیں۔جھینگر کی آواز برسات کی شاموں سے ہی شروع ہوجاتی ہے، مینڈک تالابوں والے علاقوں میں اپارٹمنٹوں تک آجاتے ہیں، سیڑھیوں پر پڑے ہوئے، اپنے پھولتے اور پچکتے ہوئے سینوں کے ساتھ ،جیسے ان کی سانس کی تھیلی میں کوئی مٹھی رکھی ہے، جو بند ہورہی ہے اورکھل رہی ہے، ایسے میں سارا منظر ان کی نسبت سے کچھ سبز ہوجاتا ہے، برسات سب کچھ ہرا بھرا کردیتی ہے، جھینگر درختوں کے پتوں پر جھومتے ہوئے یا تنوں پر منڈراتے ہوئے، اچھلتے کودتے،نیلی ، ہری، نارنگی اور سرخ مدھم لائٹوں سے تیار کی گئی کھردری کانچ والی کھڑکیوں پر آبیٹھتے ہیں، مگر ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا، بس آواز ہوتی ہے،کانوں میں سیسہ گھولتی ہوئی ایک غیر متناہی، دن کے چاروں پہر جیسے اس چھوٹے سے کیڑے نے سو کر گزارے ہوں اور رات ہوتے ہی، اس کا سینہ آواز کا ایک ہرا بھرا جنگل بن گیا ہو، جہاں سے بانسریاں پکار رہی ہوں۔ایک ایسے ہی اپارٹمنٹ میں سبز رنگ کے کائوچ پر صدردھنسا ہوا سو رہا تھا، دنیا جہان سے بے خبر، پاس میں ہی اس کی بنائی ہوئی ایک تصویر رکھی تھی، دنیا کی تصویر، گھنی دنیا، اس وقت کی دنیا جب سمندروں کے نمک نے زمین کی سلاخوں کو کاٹنا شروع نہیں کیا تھا، اس وقت کی گہری، سبز اور سیاہ دنیا، جس میں ایک ہول تھا، ایک چیخ تھی یا پھر ایک گہری سانس، اس نے دنیا کے اس بڑے سے پتے کو مگر ایک پستان کی سی شکل میں بنایا تھا، اوپر سے ابھرتی ہوئی ایک مرکز تک سمٹ کر آتی ہوئی دنیا، جس کے اندر کا سارا نظام کسی پستان میں اب تک موجود تمام سانئسی دریافتوں جیسا ہی تھا۔گلٹھیوں کی شکل میں کچھ دھبے بنائے گئے تھے، زمین پر لمبی لمبی پگڈنڈیوں کے نشانات تھے، جو کہ خون پہنچانے والی شریانوں کے سے رنگ میں موجود تھیں، بالکل درمیان میں ایک بڑا سا کالا نپل بنایا گیا تھا، جیسے کہ ٹھیک areolaہوا کرتا ہے۔اس کے بالکل عقب میں دودھ پہنچانے والی نالیوں کو شکل دی گئی تھی، پہلی شکل میں صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی ایسا فنکار یا پینٹر ہے جو بہت ہی پرورٹ یا فحش قسم کا آدمی ہے، کمرے میں کچھ عجیب و غریب چیزیں بکھری ہوئی تھیں، جیسے کہ ٹین کے کچھ ڈبے، کمرے میں ہلکی مگر کسی مہنگی شراب کی سی بو بھی آرہی تھی، وہ خود بھی تو بالکل عریاں سو رہا تھا، بالکل ایسے جیسے کوئی معصوم بچہ ہو، یا پھر ایک ایسی بے حقیقت چیز جسے خود کو چھپانے کا کوئی مطلب سمجھ میں نہ آئے یا پھر وہ بالکل ہی غیر ذمہ دار رہا ہوگا، بہرحال اس کے کمرے میں ایک عدد پرانے وقتوں کا کوئی پی تھری کمپیوٹر رکھا تھا، ہلکی روشنی میں اس کی لکڑی کی چھوٹی سی کتابوں والی الماری پر کسی شاعر کے دو مصرعے لکھے ہوئے تھے۔

 

کمرے کے چوکور پستانوں کے پیچھے
کون چھپ کر ہنس رہا ہے(1)

 

دروازے پر دستک ہونے لگی، دھپ دھپ دھپ۔۔۔۔۔وہ شاید کچی نیند میں ہو گا، اٹھا اور اس نے دروازہ کھول دیا، سامنے ایک مہین لباس میں ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی کھڑی تھی۔اس نے اندر آکر دروزاہ بند کردیا، صدر نے بے دھیانی سے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر واپس جاکر کائوچ پر اوندھ گیا، لڑکی نے اس کے کولھے تھپتھپائے۔

 

‘ہونہہ؟’ اس نے پوچھا؟
‘کچھ کھانے کو ہے؟’

 

پہلی شکل میں صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی ایسا فنکار یا پینٹر ہے جو بہت ہی پرورٹ یا فحش قسم کا آدمی ہے
اس نے انگلی سے ایک جانب اشارہ کیا، لڑکی اس طرف کو گئی اور فرج میں سے کچھ نکال کر کھانے بیٹھ گئی، یہ ایک خوش اندام لڑکی تھی، اس کی رانیں اور پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں، سینہ جھلمل کرتے میں سے صاف دکھائی دے رہا تھا، اس کے سینے کی دونوں گولائیاں ابھی زیادہ نہیں ابھری تھیں، پھر انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی مشاق کمہار نے ابھی تک انہیں چاک پر چڑھانے کی بھی زحمت نہیں کی ہے، یہ بس کسی جنگلی بیل کی طرح فطرت کے رحم و کرم پر بڑھتی جارہی ہیں۔ ابھی تک چونکہ کہانی کا کوئی پس منظر ظاہر نہیں ہوا ہے اور یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آسکی ہے کہ آخر اس لڑکی کا، کہانی کے متوقع مرکزی کردار صدر سے کیا تعلق ہے، اس لیے زیادہ بہتر ہو گا کہ ہم کہانی کو پھر چھپ کر بالکل کمرے کی چوکور پستانوں کے پیچھے سے دیکھنے کی کوشش کریں، آخر کوئی کہانی کمرے میں کیسے جنم لے سکتی ہے۔ اس میں آپ مجھے یعنی راوی کو قصور وار مان سکتے ہیں کہ میں چند ایک باتیں آپ کو بتانا بھول گیا یا یوں کہوں کہ کچھ ایسے واقعات ، جن کے بعد پھر اگر کہانی اسی حصے سے شروع ہوجائے گی تو شاید زیادہ روشن اور چکنی معلوم ہو گی، بالکل کسی نوآفریدہ، ابھرے ہوئے پستان کی طرح ، جس پر چھوٹے چھوٹے دندان نما دانے نہ ابھرے ہوں اور پھر اس کے آگے بڑھنے، بڑے ہونے اور پھر مرجھانے کے مراحل بھی طے ہوتے جائیں گے۔

 

آپ کہیں گے کہ میں آپ کو پھر ایک برسات بھرے منظر میں لے آیا ہوں لیکن یہ کہانی کا مسئلہ ہے، اس رات کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا سوائے ابلتی ہوئی، تڑ تڑاتی ہوئی بوندوں کے، جو زمین اور اس پر موجود طرح طرح کی چیزوں سے اپنا سر پھوڑ کر مزید بوندوں میں تبدیل ہوتیں اور پاش پاش ہوکر پانی میں مل جاتیں۔وہ سبزی یا پھل فروش لڑکی، جس کے والد کی طبیعت ان دنوں بہت ناساز تھی، ایک درخت سے ٹیک لگائے کھڑی تھی، اس نے اپنے ٹھیلے پر ایک پلاسٹک ڈال دی تھی، اس کا پورا بدن شرابور ہو چکا تھا، انگ انگ بھیگا ہوا، بالکل تر۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ڈولتا یا تھرتھراتا ہوا کپڑا ہو، جو بھیگے ہونے کے باوجود، ہوا کی تیزی میں کانپ رہا ہو۔اس کے گورے گورے پورے شکن آلود ہوگئے تھے، پانی بار بار اس کے ہونٹوں میں سے رس کر کسی طرح منہ میں چلا جاتا اور وہ کچھ ایک لمحے بعد سڑک پر تھوک دیتی۔ بدن کے جو حصے نظر آ رہے تھے، ان پر بہت سی بوندیں لپٹی ہوئی تھیں، اس کا بغیر دوپٹے کا سوٹ پانی میں تر ہو کر اس کے سینے اور پیٹ پر کسی بندر کے بچے کی طرح لپٹ گیا تھا، ایسے میں صدر کو وہ نظر آگئی تھی، اس گھنگھور برسات میں جب کچھ نہ سنائی دیتا ہو ، نہ دکھائی دیتا ہو، اسی اپارٹمنٹ کی اسی کھردری کانچ والی کھڑکی سے، جہاں اس وقت کوئی جھینگر نہیں تھا، پتہ نہیں کیسے اس نے ایک انسانی وجود کو شناخت کرلیا، وہ بھی اتنی دور سے، اسے برسات کا منہ زور رویہ بہت پسند تھا، جب بادل گھوڑوں کی طرح ہنہناتے ہوئے زمین کی طرف تیزی سے اترتے ہیں، بغیر کسی رکاوٹ یا خوف کے، ایسے میں وہ پانی کی چادر میں سے دور دور تک چیزوں کو جھلملاتی ہوئی لکیروں میں دیکھتا اور قیاس کرتا کہ فلاں چیز شاید ایک مسجد ہے یا جو فلاں لائٹ نظر آرہی ہے وہ الٹی طرف کو گئی ہوئی چوتھی بلڈنگ کے پانچویں فلور کی ہے۔اسے یہ کھیل پسند آتا تھا، خاص طور پر رات کی برساتوں میں، جب کچھ بھی دیکھنا ممکن نہ ہو، وہ کہیں کہیں سے ابھرنے والی آوازوں اور روشنیوں کا پیچھا کرکے ان کی پہچان ڈھونڈا کرتا تھا اور جس چیز کو وہ پہچان نہ پاتا، اس کا اپنی جانب سے کوئی نام رکھ دیتا، کہیں ٹین کے گرنے کی آواز ہوتی تو وہ اندازہ لگاتا کہ اس کے گھر سے کتنی دور پر یہ ٹین گراہوگا، پھر دوسرے دن کسی وقت نکل کر اس ٹین کے ٹکڑے کو ڈھونڈتا اور اپنی شکست یا فتح دونوں صورتوں میں بہت خوش ہوتا، ہنستا اور بعض اوقات قہقہے لگایا کرتا۔

 

دھوئیں کی وہ پہلی پرت، جو آسمان کی طرح ہمیں نظر آتی ہے اور جس کے پیچھے کی بڑی بڑی دنیائیں ہماری اپنی ذہن کی اپج ہیں، آج اپنے ہی وجود سے رس رہی ہے، برس رہی ہے۔
اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں ننگا ہی تھا، ایسی ہی حالت میں وہ اپارٹمنٹ سے نیچے اتر آیا،اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئی لڑکی اس درخت کے نیچے موجود ہے۔ اس نے پندرہ بیس منٹ اس لڑکی کی شناخت پر پہلے وقف کیے تھے، اپنے دل میں یہ بات پختہ کرنے کے لیے کہ واقعی وہ کوئی لڑکی ہی ہے، پھر اس نے سوچا کہ اگر وہ غلط بھی نکلا تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا، وہ تو ویسے ہی آج ٹوٹا ہوا تھا لگتا تھا دھوئیں کی وہ پہلی پرت، جو آسمان کی طرح ہمیں نظر آتی ہے اور جس کے پیچھے کی بڑی بڑی دنیائیں ہماری اپنی ذہن کی اپج ہیں، آج اپنے ہی وجود سے رس رہی ہے، برس رہی ہے۔ نیچے اتر کر وہ بڑے اطمینان سے بارش کا لطف لیتا ہوا لڑکی کی طرف آیا، لڑکی تقریباً نیم بے ہوش سی ہوچکی تھی، اس کے پپوٹے اودے ہورہے تھے اور اب وہ بار بار تھوکنے کے بجائے اس پانی کو پی جارہی تھی، صدر نے اسے اٹھا لیا اور گھر لے آیا،لڑکی کو پورا منظر ابھی بھی یاد نہیں تھا، مگر اس کے پستانوں کے پاس ایک ٹیٹو گدا ہوا تھا، جس پر کوئی نام لکھا تھا۔۔۔ کے، یو، سی، ایچ۔۔۔۔۔ لڑکی نے اندازہ لگالیا تھا کہ صدر نے اس کا پورا نام بڑی غور سے اور بہت نزدیک سے دیکھا ہے، وہ اس کے سینے پر جھکے ہوئے ، اس کا معائنہ کررہا تھا، جیسے اس چھوٹے سے نام کو سمجھنے اور جاننے میں اسے بہت دقت ہورہی ہو۔۔۔۔جب چائے ابلنے لگی تو وہ ادھر متوجہ ہوا، لڑکی کو اس نے ایک کپڑے کی مدد سے سکھایا تھا، جب وہ لڑکی کے بھیگے کپڑے اتار رہا تھا ، تب بھی اس کی آنکھیں بالکل کسی سوتے ہوئے، کمزور بچے کی آنکھوں کی طرح ادھ کھلی تھیں، اس نے لڑکی کو گرم کرنے کے لیے پہلے اپنے ننگے بدن کو اس کے ساتھ گھسنا شروع کیا، وہ اس کی گردن اور ہونٹوں پر بوسے بھی لے رہا تھا، اس عمل سے پہلے اس نے خود کو بھی اسی کپڑے سے سکھالیا تھا، وہ پہلے اپنے اندر گرم گرم سانسیں جمع کرتا اور پھر لڑکی کے بدن کے ایک ایک حصے پر انہیں انڈیلتا۔لڑکی اس عمل سے کچھ دیر بعد ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور اس سے دور ہوگئی، بوکھلاہٹ میں اس نے ہاتھ پیر چلائے تو پاس کی میز پر رکھی ہوئی سیاہی اور کچھ کاغذات بھی گرگئے۔صدر نے اسے چائے دی۔
لڑکی نے ایک نظر اس کے ننگے بدن پر ڈالی اور کہنے لگی۔

 

‘تم مجھے یہاں کیوں لائے؟’

 

وہ لڑکی کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا، وہاں کوئی وحشت نہیں تھی۔اس نے کہا۔ ‘گھبراو نہیں! میں صرف تمہارے بدن کو گرم کر رہا تھا۔ تمہارے بدن پر بہت دیر تک پانی پڑتا رہا ہے، تم شاید پچھلے ڈیڑھ دو گھنٹے سے بھیگ رہی تھیں۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ آخر تم نے کسی اپارٹمنٹ کے ونگ کی پناہ کیوں نہ لے لی؟’

 

‘میں بارش میں بھیگ کر مرنا چاہتی تھی۔’
صدر نے اس جواب پر عجیب سا منہ بنایا۔پھر کہا۔

 

‘معاف کرنا، میں نے تمہاری خودکشی کے لطف کا قتل کر دیا۔لیکن اصل میں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے کسی انگریزی کتاب میں پڑھا تھا۔ انسان کو اس طرح کبھی خودکشی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ پہلے بے ہوش ہو اور پھر دھیرے دھیرے اس کی جان جائے۔ اس لیے نہیں کہ یہ کوئی بہت تکلیف دہ عمل ہے، مگر ایسا اس لیے ہے کہ اس میں بچا لیے جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، اور پھر تم تو ایک ایسی خودکشی کا ارادہ کر رہی تھیں، جو بہت فطری معلوم ہو۔لیکن ٹھہرو! مجھے لگتا ہے کہ یہ خیال تمہیں۔۔۔بارش میں بھیگنے سے پہلے نہیں آیا ہو گا، شاید بارش میں بھیگتے بھیگتے تمہیں اتنا لطف آنے لگا ہو کہ تم نے سوچا ہو کہ کتنا اچھا ہو کہ میں اسی طرح مرجاوں؟۔۔۔۔ہے نا؟’

 

لڑکی ہنس دی، اس کی اس بے وقت کی ہنسی پر صدر کو سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ردعمل دے، جواباً پہلے وہ مسکرایا اور پھر خاموش ہو گیا۔۔۔ جب کچھ دیر تک دونوں طرف خاموشی رہی تو صدر نے کہا

 

‘کیا میرا خیال غلط تھا؟’

 

میں چاہتی تھی کہ بغیر کسی وجہ کے مروں۔۔۔لیکن قدرت نے میرے مرنے کی اتنی وجوہات پہلے سے پیدا کر رکھی ہیں کہ اگر میں آج پنکھے سے لٹک کر یا کسی اونچی عمارت سے جان دے کر خودکشی کر لوں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہو گی
لڑکی نے چائے کی پیالی میز پر رکھتے ہوئے کہا’ خیال کا تو خیر میں خود نہیں جانتی، لیکن مجھے برسات پسند ہے، برسات شاید ایک ہلکا لفظ ہے، بارش ، اس لفظ میں شور ہے۔۔۔ ہاں یہی مناسب ہے۔ میں چاہتی تھی کہ بغیر کسی وجہ کے مروں۔۔۔لیکن قدرت نے میرے مرنے کی اتنی وجوہات پہلے سے پیدا کر رکھی ہیں کہ اگر میں آج پنکھے سے لٹک کر یا کسی اونچی عمارت سے جان دے کر خودکشی کر لوں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہو گی۔۔۔ میں ایک غریب لڑکی ہوں، جس کا باپ ادھ موا ہے، اس کی دن رات کی خدمت نے مجھے بھی پاگل بنادیا ہے، اس کی بیماری کے علاج کے لیے جو ٹھیلا میں لگایا کرتی ہوں، وہ ایک واہیات کام ہے۔۔۔بہت ہی واہیات۔۔۔مجھے سبزیاں پسند ہیں، پھل بھی۔۔۔ مگر میں بیچنا نہیں جانتی، مجھے ان کے دام، نفع و ضرر کا حساب تک یاد نہیں رہتا۔۔۔جس آدمی کا یہ ٹھیلا ہے، وہ کئی بار راتوں کو مرے ساتھ اس غلطی کی پاداش میں سو چکا ہے۔۔۔۔ اسی لیے میں چاہتی تھی کہ میں بارش کے شور میں مروں، جیسے کوئی زلزلے، سیلاب یا پھر ایکسیڈنٹ کے شور میں مرتا ہے۔۔۔۔ جس میں خاموشی سے پہلے چیخیں دب جاتی ہیں، سانسیں گھٹ جاتی ہیں۔۔۔۔’

 

‘تو کیا تمہیں اس آدمی کے ساتھ سونے کا دکھ ہے؟’

 

‘بالکل نہیں۔۔۔اس نے مجھے جنسی لذت سے آگاہ کیا ہے، یہ ایک بہترین سزا ہے، جو میں نے ہی اسے تجویز کی تھی۔۔۔’
‘تم نے؟’

 

‘ہاں!!’ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ‘اس سے اس کے نقصان کی تلافی بھی ہوجاتی تھی اور مجھے بھی کچھ فائدہ ہوتا تھا۔۔۔۔بہرحال، یہ سب چھوڑو۔۔۔ تم کیا سچ مچ میرے بدن کو گرم کر رہے تھے؟ اور تم کیا ہمیشہ ایسے ہی رہتے ہو؟ ننگے؟ تمہارے بدن پر تو ایک دھجی بھی نہیں۔

 

صدر نے آگے بڑھ کر لڑکی کا ہاتھ تھاما اور اسے گھما دیا، سامنے لگے قد آدم آئینے میں وہ بھی بالکل برہنہ تھی، شرمگاہ کی دو جھکی ہوئی پتیوں سے لے کر پستانوں کی بھنچی ہوئی لیکن کمزور مٹھیوں تک اس کا بدن ‘سن’ کھڑا تھا۔وہ سوچ ہی نہیں سکتی تھی۔۔۔کہ اسے ابھی تک اپنے ننگے ہونے کا احساس کیوں نہیں ہوا۔
صدر نے لڑکی کے ٹیٹو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا؟

 

‘اس کا مطلب جانتی ہو؟’
لڑکی ہنستے ہوئے بولی، سنسکرت جانتی ہوں میں۔۔۔۔ لڑکی کے سینے کے لیے بیسیوں نام ہیں میرے پاس، لیکن ان میں سب سے زیادہ مجھے یہی پسند ہے۔

 

‘سنسکرت جانتی ہو؟’وہ واقعی حیرت زدہ تھا۔’تو ایسا سلوک کیوں کررہی ہو اپنے ساتھ۔۔۔ابھی تو تمہاری عمر بھی بہت کم ہے اور یہ ٹیٹو کہاں سے گدوایا تم نے؟’

 

لڑکی نے اپنے سینے پر دونوں ہاتھ باندھ لیے اور زمین پر بیٹھ گئی، اس نے تھوڑی دیر کے توقف کے بعد کہا۔۔۔اس کہانی کے جھنجھٹ میں مت پڑو۔۔۔یہ بتاو کہ اگر تمہیں جسمانی لذت حاصل کرنی ہو تو کیا کرتے ہو؟
لڑکی نے اپنے سینے پر دونوں ہاتھ باندھ لیے اور زمین پر بیٹھ گئی، اس نے تھوڑی دیر کے توقف کے بعد کہا۔۔۔اس کہانی کے جھنجھٹ میں مت پڑو۔۔۔یہ بتاو کہ اگر تمہیں جسمانی لذت حاصل کرنی ہو تو کیا کرتے ہو؟
‘کسی کو بلوالیتا ہوں’

 

‘کس کو؟’

 

‘کسی کو بھی۔۔میرے پاس بہت سی لڑکیوں کے نمبر ہیں، وہ کچھ پیسے لیتی ہیں اور خدمات دیتی ہیں۔۔۔’
‘کیا تم مجھے ایک مہینے کے لیے پناہ دے سکتے ہو؟ میں چاہتی ہوں کہ اگلے دن میرے باپ کے پاس یہ خبر پہنچے کہ میں کہیں غائب ہوگئی ہوں اور وہ اس دکھ سے مر جائے یا پھر میری طرف سے اسے جو آسرا حاصل ہے، اسی کی موت ہوجائے۔۔۔۔اس کے بدلے میں تمہیں ایک مہینے تک اپنے جسم کی گرماہٹ دینے کے لیے تیار ہوں۔۔۔’
‘لیکن تم تو ابھی بہت چھوٹی ہو۔۔۔’

 

اس کے بعد وہ دونوں کچھ دیر تک سوچتے رہے۔۔۔۔ سودا طے ہوگیا اور کہانی آگے چل پڑی۔۔۔۔اندھیرا ہونے لگا اور اس میں ایک ہلکی گنگناہٹ ابھرنے لگی، یہ صدر کی آواز تھی، وہ بارش کے اس شور میں دھیرے دھیرے کچھ گارہا تھا، لڑکی نے اپنے کان کو اس کے سینے سے لگا لیا، وہاں سے نظیر اکبر آبادی کا یہ شعر خوش ترنگی کے سے انداز میں پھوٹ رہا تھا۔

 

کچیں وہ کچھ کچھ ثمر درختی، کچھ ان کی سختی، وہ کچھ کرختی
ہیں جس نے دیکھے وہ پھل درختی، کلیجہ اس کا دھڑک رہا ہے

 

(جاری ہے)

Image: Female Figure with Head of Flowers, 1937 Art Print by Salvador Dalí

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *