Laaltain

پستان – دوسری قسط

13 جولائی، 2016

[blockquote style=”3″]

ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساته یه بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحه قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے

[/blockquote]

باب-2
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے ہیں۔

 

صدیوں سے لوگ باتوں کے وجود کو ایسے ہی ختم کرتے آرہے ہیں، وہ خدا سے وصال کی بھی یہی صورت نکالتے ہیں، انہوں نے اپنی روحوں کو ایک ایسے جنسی عمل میں ملوث کرلیا ہے، جہاں ہر بات ، ہر سوال کا جواب صرف ایک مثبت’ہوں’ میں دے دیا جاتا ہے۔
کُچ کو صدر کے ساتھ رہتے ہوئے ، ایک مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا تھا، وہ اس سے بالکل بھی بور نہ ہوا۔ ہر لمحہ جب وہ اسے دیکھتا تو لگتا جیسے کہ وہ اپنے پچھلے دن کی پرت اتار کر کچھ اور تازہ ہوگئی ہے، اس میں سے کچھ اور ایسا نکلا ہے، جو اس سے پہلے اس کے اندر تھا، جیسے وہ ہرروز اپنے بدن کا ایک نیا رنگ اس پر ظاہر کررہی تھی، وہ دونوں زیادہ تر گھر میں ننگے رہا کرتے تھے، جیسے وہ جنت کی مخلوق ہوں۔ کُچ نے اس سے دو تین بار اس دوران ضد کی تھی کہ وہ اس کا ایک پورٹریٹ بنا دے، لیکن صدر صاف انکار کردیتا تھا۔ عین جنسی عمل کے درمیان بھی وہ اس کی اس بات پر ‘ہوں ہوں’ کرتا رہ جاتا۔ کبھی فرط جذبات میں ہاں کہہ بھی دیتا تو اگلے دن اپنی بات سے مکر جاتا۔ اس کا کہنا تھا کہ جنسی عمل کے دوران کہی گئی کسی بات کا اعتبار نہیں ہوتا۔اس دوران اگر میں کسی بات کو مان رہا ہوں تو صرف اس لیے کیونکہ مجھے اس بات کے وجود کو ختم کرنا ہے۔ماننے سے باتیں جلدی ختم ہوجاتی ہیں، ورنہ وہ جنس کی طرح انسان کے ذہن پر مسلط رہتی ہیں، صدیوں سے لوگ باتوں کے وجود کو ایسے ہی ختم کرتے آ رہے ہیں، وہ خدا سے وصال کی بھی یہی صورت نکالتے ہیں، انہوں نے اپنی روحوں کو ایک ایسے جنسی عمل میں ملوث کرلیا ہے، جہاں ہر بات ، ہر سوال کا جواب صرف ایک مثبت’ہوں’ میں دے دیا جاتا ہے۔ جیسے کہ اس سے بس نجات پانی ہو، اور یہ رٹی رٹائی باتیں نشے کی اس حالت میں زیادہ کھلتی ہیں جب انسان جنسی عمل کے دوسرے یا تیسرے مرحلے میں ہو۔جب شباب کھل کر پنڈلیوں کے سینے سہلارہا ہو، جوانی امنڈ امنڈ کر سانسوں کے دریائوں سے نکل رہی ہو۔

 

کُچ کو سمجھ میں آ گیا تھا کہ صدر اس طرح اس کی بات نہیں مانے گا، لیکن کیوں، وہ جو اس سے دوران ہم بستری طرح طرح کی محبتوں کے دعوے کرتا ہے، اس کی بغلوں کی بدہیت لکیروں تک کے کلمے پڑھتا ہے، آخر کس وجہ سے ابال کھائے ہوئے دودھ کی طرح ایک پھونک میں نیچے کی طرف بیٹھ جاتا ہے۔اس نے سوچا تھا کہ وہ آج صدر سے اس بات کا جواب لے کر رہے گی، وہ روئے گی، ہاں، شاید رونے سے مسئلہ آسان ہو۔ لیکن پھر وہ یہ سوچنے لگی کہ آخر ایک پورٹریٹ کی ایسی ضد اسے کیوں ہے؟ صدر بھی تو کہتا ہے کہ وہ خود کو آئینے میں دیکھا کرے، روز، اتنا کہ اسے اپنا بدن حفظ ہو جائے، اس کی تبدیلیاں، اس کے خدو خال کا بڑھنا، پھیلنا دکھائی دے، جس طرح پودے خود کو تناور ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ہر دن کے ساتھ، اپنے ننگے بدن کے ساتھ، کبھی دھوپ، کبھی برسات اور کبھی کہرے میں۔ لیکن نہیں، شاید پورٹریٹ ایک یاد ہو، ان چند لمحوں کی جو دوبارہ نہیں آئیں گے، آئینہ تو روز کچھ نہ کچھ بدل دے گا، جسم تو روز ایک پرت اتار دے گا، تو کوئی تو ایسی پرت ہو، جو محفوظ رہ جائے، کوئی ایسی کینچلی جس میں سے اس کا بدن کبھی نہ نکلے، جب تک سیاہی پھیل کر اس کی تصویر کے سارے بدن کو ڈھانپ نہ لے۔ وہ بس چند ایسے ثانیوں کی کھچڑی تیار کرنا چاہتی تھی، جس میں بدن کے سمندر اوراس پر بنائے ہوئے نمک کے کھیتوں کی چبھن موجود رہ جائے۔ کسی ایسے داغ کی طرح جو مٹتا نہیں ہے، جس سے انسان کو رفتہ رفتہ ایک عشق سا ہوجاتا ہے، جو اس کی شناخت بن جایا کرتا ہے اور لوگ کسی کو یاد کرتے ہیں تو سب سے پہلے وہی شناخت، وہی داغ ان کے حافظے میں چھپاکا مار کر ایک دھبہ بناتا ہے اور پھر وہ دھبہ پھیل کر ایک مخصوص انسانی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔

 

کُچ نے بہرحال یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ روئے گی، خوب، اتنا کہ اس کا دکھ، اس کے پورے بدن پر پانی بن کر رینگنے لگے، اس کی آنکھیں ہی نہیں، پستان بھی روتے روتے خشک ہوجائیں
تو کُچ نے بہرحال یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ روئے گی، خوب، اتنا کہ اس کا دکھ، اس کے پورے بدن پر پانی بن کر رینگنے لگے، اس کی آنکھیں ہی نہیں، پستان بھی روتے روتے خشک ہوجائیں اور جب رات گئے صدر اس کے سینے کی پتیلی میں منہ ڈالے اور ایک بھوکی بلی کی طرح اسے چاٹنے، کھروچنے لگے تو وہاں سوائے ایک نمکین کھرچن کے اسے اور کچھ نہ ملے۔ تب تو شاید وہ اس کے بدن کی واپسی کا کوئی راستہ نکالے گا، تب شاید وہ اس کی تصویر بنائے گا۔پھر ایسا ہوا، کہ جب صدر کا دھیان اس کی جانب ہوتا ، وہ واقعی رونے لگتی۔صدر نے اس سے وجہ دریافت کی تو اس نے کہہ دیا کہ اسے وجہ نہیں معلوم۔یہ وہ جواب ہے جو دنیا کے ہر مرد کو ہر عمر کی عورت سے سننے کو ملتا ہے اور اس پر وہ سٹپٹا کر سوچنے لگتا ہے کہ آخر ایسا دکھ بھی کیا، جس کی وجہ کا ہی وجود نہ ہو۔لیکن ایسا دکھ ہوتا ہے، عورت تو اپنے بدن کی پھلتی پھولتی کھیتی کو دیکھ کر بھی رو سکتی ہے اورخود کو بانجھ یا بنجر پاکر بھی۔اس کے رونے کے کوئی اصول طے نہیں، جس طرح اس کے دکھ کا کوئی جواز نہیں ہوا کرتا۔عورت جھیل کی طرح نظر آنے والا سمندر ہے، اس کے وجود پر پھیلے ہوئے دو نکیلے جزیرے اور ایک گہرا غار اسے ہر وقت بدن کا شدت سے احساس دلاتے ہیں، اس غار میں جو جھرنا گرتا ہے، اس کی شرر شرر کبھی یونہی بیٹھے بیٹھے آنکھوں میں اتر آتی ہے، جس طرح موت، جنس اور شعر کے اچانک وارد ہوجانے کا کوئی جواز نہیں ہوتا، اسی طرح عورت کے دکھ کا بھی کوئی ایسا جواز نہیں، جو اسے اس کے بدن کے سرسراتے ہوئے احساس سے الگ کردے۔لیکن یہ بات مرد کو کبھی سمجھ میں نہیں آسکتی، کیونکہ مرد کے پاس بدن کا پھیلا ہوا احساس نہیں ہے، وہ اس معاملے میں بالکل سیدھ میں گرنے والے ایک پتھر کی طرح ہے، جس کا ایک عضو جنسی احساس کے عاری ہوتے ہی سخت ہوکر خلا میں بس ڈھلان کی جانب مشینی انداز میں گرنے لگتا ہے اور پھر اچانک سے وہ عورت کی اس جھیل نما سمندر میں دھڑام سے گر کر بے ہوش ہوجایا کرتا ہے، اس کے بعد بدن اس کے لیے صرف ایک خول کی طرح رہ جاتا ہے، جسے وہ اپنے کمزور ذہن اور تھکی ہوئی روح کو چھپانے کا ذریعہ سمجھتا رہا ہے، اور ایک کچھوے کی مانند وہ اس میں اپنا سارا وجود جنسی انتشار کے ختم ہوتے ہی واپس اندر کرلیتا ہے۔ لیکن صدر جیسے مرد پانی میں تیرتے ہوئے کچھوے کی طرح ہوتے ہیں، ان کے پیر، ان کے پر بن جایا کرتے ہیں، وہ اپنے خول سے ہر وقت باہر رہ کر پانی کی نیلی دنیا میں اپنے لیے طرح طرح کی سنہری ریتیں اور سبز گھانسیں تلاش کیا کرتے ہیں، ان کا ذائقہ چکھتے ہیں اور خطروں کے تصور سے آگے نکل کر اپنے وجود کو قبول کرتے ہیں۔

 

صدر تین چار روز تک تو اس بات کو نظر انداز کرتا رہا لیکن بالآخر جب ایک رات وہ کُچ کے نزدیک آیا تو اس کے پورے بدن سے آنسووں کی بو آ رہی تھی، آنسووں کی بو، ایک ایسی چراند کی طرح اس کے بدن سے اٹھ رہی تھیں کہ جلن کے مارے صدر کی بھی آنکھیں بھر آئیں اور اس نے اپنا سرد ہاتھ کُچ کی جھرنے لٹاتی ہوئی شرمگاہ پر رکھ دیا، وہ روتے روتے’اوووں’ کہہ کر اس کی طرف کروٹ لینے پر مجبور ہوگئی، صدر نے اپنے سیدھے ہاتھ کی درمیانی انگلی کو اس کی شرمگاہ میں آہستگی سے اتار دیا، وہ مکھن کے بیچ بہتی ہوئی چھری کی طرح اندر چلی گئی، آس پاس کی دو لٹکتی ہوئی گلابی جھلیوں میں کچھ لعاب سا تیرنے لگا، صدر نے انگلی کی سانسیں تیز کر دیں، کُچ ہر دو تین سکینڈ میں اس کا نام لے رہی تھی، پھر وہ صدر صدر کہہ کر سرگوشیوں میں چیخنے لگی، صدر نے اس کے پستان کو منہ میں بھر لیا اور اپنے ہونٹوں سے انہیں چبانے کی کوشش کرنے لگا، کُچ کا لہو، اس کے کانوں کی طرف سے بہتا ہوا اس کے گالوں، گردن اور سفید ہڈیوں تک میں بلبلا کر دوڑتا، اچھلتا رہا، اس کے روئیں روئیں کو انگلی کی آگے بڑھتی ہوئی ہر جرات کے ساتھ ایک عجیب سی گھلی ہوئی تکلیف تحفے میں ملتی ، جسے وہ پینے کے لیے بے تاب تھی، غدود جیسا ایک چھوٹا سا لقمہ اس کے گلے میں بار بار اٹکتا اور وہ اسے تھوک سے نگلنے کی کوشش کرتی، کبھی جھلا کر صدر کی پیٹھ نوچتی، کبھی اوہ، آہ کہہ کر اس کی پیٹھ کو کاٹنے کے لیے آگے بڑھتی مگر اپنی دسترس سے اسے کوسوں دور پاکر گردن کو پیچھے کی جانب دھکیل دیتی۔ اس وقت وہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے لائق نہیں رہ گئی تھی، لیکن میں جو کمرے کے چوکور پستانوں کے پیچھے سے چھپ کر یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، اس بات پر واقعی حیرت زدہ تھا کہ اس قدر رونے پر بھی اس کے پستان خشک نہیں ہوئے تھے، بلکہ پسینوں کی تتلیاں اڑ اڑ کر صدر کی زبان اور رال کی ڈالیوں پر بیٹھتیں اور جھن جھن کرتی ہوئی اس کے پیٹ میں اتر جاتیں۔یہ کھیل زیادہ دیر جاری رہتا، اگر صدر کاالٹا ہاتھ دھوکے سے کُچ کی آنکھ سے نہ ٹکرا جاتا۔

 

جب ایک رات وہ کُچ کے نزدیک آیا تو اس کے پورے بدن سے آنسووں کی بو آ رہی تھی، آنسووں کی بو، ایک ایسی چراند کی طرح اس کے بدن سے اٹھ رہی تھیں کہ جلن کے مارے صدر کی بھی آنکھیں بھر آئیں
‘دکھاو تو!’ کہہ کر صدر نے اس کی آنکھوں میں پھونکیں مارنی شروع کردیں۔

 

اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں اور اب وہاں سے پانی نکل رہا تھا۔کُچ نے کہا’کوئی بات نہیں، میں ٹھنڈے پانی سے آنکھیں دھو کر آتی ہوں۔’

 

وہ اٹھ کر چلی گئی، وہ جاتے ہوئے اس کے مٹکتے، گول اور ملائم کولھوں کو دیکھتا رہا، ذرا سے گوشت سے بنے یہ دائرے پھڑکتے ہوئے اس سے دور ہوتے جارہے تھے۔ صدر کی وہ انگلی جو تھوڑی دیر پہلے آبشاروں کے نیچے بنے پتھر پر بیٹھ ناچتے گاتے ہوئے نہارہی تھی، اب دوسری انگلیوں کے ساتھ آہستہ آہستہ، اس کی اپنی شرمگاہ کو سہلانے میں مصروف ہو گئی تھی۔

 

ابھی یہ عمل پورا نہ ہو اتھا کہ کُچ کے بالوں کا احساس اسے اپنے چہرے پر ہوا، وہ صرف اسے دیکھتی رہی، اس نے کچھ نہ کہا، صدر کا مشینی عمل تیز ہوتا گیا، وہ کچ کی سانسوں سے پہلے مدد لیتا رہا، اور مدد کی ضرورت ہوئی تو کچ نے اپنے ہونٹوں کی بھانپ اس کے منہ میں اتاردی۔اس کی زبان، کچ کی زبان سے مل کر ایک نئے قسم کا کیمیکل تیار کرنے لگی، جوش کا کیمیکل، خواب کا کیمیکل اور پھر دھیرے دھیرے جوش اور خواب دونوں ماند ہوگئے، بس ان دونوں کی زبانیں ایک دوسرے میں ضم ہوتی رہیں، پھسلتی اور سنبھلتی ہوئی۔

 

منظر بدل گیا تھا، اب کُچ دونوں ہتھیلیاں اس کے سینے پر پھیلا کر اس پر اپنا منہ رکھے لیٹی ہوئی تھی۔ صدر نے پوچھا۔

 

‘کیا بات ہے؟’

 

‘آج تمہیں ہر حال میں میری تصویر بنانی ہوگی۔’

 

پتہ نہیں صدر کے دماغ میں کیا بات آئی کہ اس نے کہا۔ ‘ٹھیک ہے، میں بناتا ہوں۔ ابھی اسی وقت! لیکن ایک شرط ہے۔’

 

‘کیسی شرط؟’

 

‘تم نہاو، میں نہاتے ہوئے تمہاری تصویر بنانا چاہتا ہوں۔ شاور لیتے ہوئے۔جیسے تم برسات میں بھیگ رہی ہو، ہاں ہاں بارش میں۔ میں اس شور کو پینٹ کرنا چاہتا ہوں ۔تمہارے پستانوں کی چمک کو، تمہارے بدن کی گرج کو، تمہاری شرم گاہ کے آبشار کو۔ لیکن وہ تصویر میں تمہیں نہیں دوں گا۔کیا تمہیں منظور ہے؟’

 

جو لوگ بہت تیزی سے تخلیقی عمل کو انجام دیتے ہیں، وہ ریگستان میں بھاگتے ہوئے قدموں کی طرح ہوتے ہیں، جنہیں اپنے نشانوں کی بنتی اور بدلتی ہوئی شکلوں کو دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا،
اس نے اثبات میں جواب دیا اور آگے کی کارروائی شروع ہوئی۔ صدر نے کہیں سے اسے ایک کالی نائیٹی ڈھونڈ کر دی، یہ نائیٹی کُچ کی جسامت کے لحاظ سے ذرا پھیلی ہوئی تھی، لیکن صدر کا کہنا تھا کہ وہ اسے پہنے اور اس کی ٹائیاں کھلی رکھے۔اور اسی کے ساتھ شاور لے،لیکن یہ ایک اہم مرحلہ ہوگا کہ اسے کم از کم دو سے تین گھنٹے تک شاور میں ہلے بغیر ایک ہی پوز میں کھڑے رہنا ہوگا، کُچ نے اس بات ہلکا سا اعتراض کیا کہ وہ دوسری تصویریں تو جلد بنالیتا ہے، لیکن بہرحال اسے صدر کی بات ماننی ہی تھی، اتنے دنوں بعد کہیں اس کی یہ مراد بر آئی تھی اور وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔وہ سوچ رہی تھی کہ پتہ نہیں کیسے آج یہ تخلیق کار اچانک راضی ہوگیا۔ تخلیق کار بھی عجیب لوگ ہوا کرتے ہیں، مدتوں کسی بات کو ٹالتے رہیں گے، جیسے کسی خاص لمحے کا انتظار کر رہے ہوں، اپنے آپ کو الگ الگ اور غیر ضروری باتوں میں مصروف رکھیں گے۔ایسے جیسے ان کو اس بات کی کوئی فکر ہی نہ ہو، جسے وہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس عمل میں اور تولید کے عمل میں اتنا ہی فرق ہے کہ تولید کے لیے ایک معینہ مدت یعنی سات یا نو مہینے طے ہیں، مگر تخلیق کے لیے کبھی کبھی پوری زندگی کم پڑ جاتی ہے۔ یہ لوگ جو لکھنا، بنانا، تخلیق کرنا چاہتے ہیں اس کی جزئیات کو شاید اپنے ذہن کے پیٹ میں پالتے پوستے رہتے ہیں، اس کے ہاتھوں پیروں کو نکلتا ہوا دیکھ کر لطف لیتے ہیں، آنکھیں بند کرکے ذہن کے سکرین پر اس کچی پکی سونوگرافی کا مزہ لیتے رہنا ان کی عادت ہوتا ہے، جو لوگ بہت تیزی سے تخلیقی عمل کو انجام دیتے ہیں، وہ ریگستان میں بھاگتے ہوئے قدموں کی طرح ہوتے ہیں، جنہیں اپنے نشانوں کی بنتی اور بدلتی ہوئی شکلوں کو دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا، ان کے لیے پچھلے سارے نشانات صرف نشانات ہوتے ہیں، جبکہ دھیرے دھیرے پیدا ہونے والی ہنر مندی، کسی دوشیزہ کے دھڑکتے ہوئے سینے پر اگنے والی دو پھلیوں کی طرح ہوتی ہے،جن میں وقت کے ساتھ لگتا ہے قدرت ہوا بھر رہی ہے ، بہت آہستگی کے ساتھ، پھر ایک دن جب وہ بھاری بھرکم تنومند پستان میں تبدیل ہوجاتے ہیں تو دنیا کے مختلف ہاتھ ان پر کمہار کی طرح پانی اور ہتھیلی کے کٹاو سے ایک گول یا توتا پری عام جیسی شکلیں تیار کرتے ہیں۔

 

کُچ باتھ روم کی طرف نائیٹی پہن کر جارہی تھی تو اسے صدر نے روک دیا، اس کے پاس ایک پرانا ریکارڈ ر پڑا تھا، وہ اسے ایک ٹیبل کے ساتھ گھسیٹتا ہوا باتھ روم کے سامنے لے گیا اورپھر اس نے اپنا کینوس بھی سامنے ہی لگا لیا، اس نے کُچ کے بدن پر پڑی ہوئی نائیٹی کو آگے بڑھ کر ذرا سا شکن آلود کیا، اس کے کندھے ذرا اور کھول دیے، نائیٹی کو پستانوں کے پاس سے ایسے گزارا جیسے دو کالے کالے ناگ ان خزانوں کی حفاظت پر مامور نظر آسکیں۔پھر اس نے اس پنڈلیوں سے اپنی بانہوں میں بھر کر اٹھایا اور شاورکے نیچے لے جاکر کھڑا کردیا۔اس نے کُچ کی گردن کو ذرا سا پیچھے کیا اور اس کا اوپر والا ہونٹ چوسنے لگا اور اسی دوران اس نے آہستگی سے شاور چلا دیا، کچھ دیر میں کُچ کے لیے جب سانس لینے میں دشواری ہوئی تو اس نے جھٹپٹا کر خود کو صدر سے الگ کیا، وہ مسکراتے ہوئے اس سے الگ ہوا اور ایک بار ٹھیک سے اس کے پورے وجود کو ایک خاص پوز میں فٹ کیا، جیسے کسی سخت سانچے میں مٹی کو ٹھونسا جاتا ہے، اب بات بالکل صحیح تھی، رات شباب پر تھی، دور دور تک خاموشی کے سوا کچھ نہیں برس رہا تھا، شاور کی چھش چھش کرتی ہوئی آواز آرہی تھی اور کُچ اپنے وجود کو اس برسات میں سنبھالے ہوئے بس کھڑی ہوئی تھی، اسی طرح جس طرح وہ پہلی بار صدر کو نظر آئی تھی۔بارش کے اس شور میں گم ہوتی ہوئی، بس فرق اتنا تھا کہ وہ منظر قدرتی تھا اور یہ مصنوعی ، مگر پتہ نہیں کیوں ایسے ہی منظروں کی تابناکی سے جل کر قدرت نے انسان کے لیے شاید موت ایجاد کی ہے۔کیونکہ وہ کسی مشاقی، کسی ہنرمندی کو خود سے آگے نکلتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔

 

تخلیق کار خدا کا سب سے بڑا رقیب ہوتا ہے، کیونکہ دونوں کی محبوبہ ایک ہی ہے، قدرت!
تخلیق کار خدا کا سب سے بڑا رقیب ہوتا ہے، کیونکہ دونوں کی محبوبہ ایک ہی ہے، قدرت! خدا کی قدرتی قدرت اور انسان کی مصنوعی قدرت ، خدا کا حقیقی وجود اور انسان کا مجازی۔لیکن کبھی کبھی مصنوعی قدرتی پر اور مجازی حقیقی پر ایسا بھاری پڑتا ہے کہ لوگ انسان کو بنانے والے ماورائی طاقت کو فراموش کربیٹھتے ہیں اور ایک پل کے لیے لگتا ہے جیسے کسی ایک انسان نے ہی اتنے سارے انسان پیدا کیے ہیں۔جیسے وہ خدا کوئی انسانی شکل کا ہی دیوتا یا دیوی ہوگا، جس کی آرٹ کا تمیز ہم سب کی رگ و پے میں یکساں طور پر بہتا ہے۔ موسیقی ہو یا رقص، پینٹنگ ہو یا شاعری، سب میں ایک انسانی شکل کے خدا کی رمق موجود ہوتی ہے، جو کچھ بناتے وقت فن کار کے وجود میں حلول کر جاتا ہے۔

 

صدر نے ایک ریکارڈ لگا کر کانٹا اس پر ٹکا دیا، وہ ایک انگڑائی کے ساتھ بانسری بجاتا ہوا جاگ اٹھا۔بہادر شاہ ظفر کی ایک غز ل کے چار شعر کسی سر پھرے سنگر نے گائے تھے، اور ایک دفعہ بالکل اتفاق سے یہ ریکارڈ اسے کہیں مل گیا تھا، اس کے کانوں میں اسی غزل کا ایک شعر پڑا اور وہ بھاگتا ہوا دوکاندار کے پاس پہنچا۔دوکاندار کو تو شاعر کا نام بھی نہیں پتہ تھا، بس وہ گانے والے کی آواز پر لٹو تھا، اس لیے کبھی کبھی اس غزل کو سنا کرتا تھا، اسے اس کے کچھ لفظ سمجھ میں آتے اور کچھ نہیں۔علاقائی نوعیت سے وہ ایک مراٹھی نوجوان تھا، جسے اردو سے ایک فطری قسم کی محبت تھی۔صدر نے اسے پیسے دیے تو اس نے انکار کردیا، کہنے لگا:

 

نہیں صاحب! یہ وہ گجل ہے، جس کے لیے آج تک کوئی نہیں آیا، میں اسے پچھلے دو برس سے بجا رہا ہوں، ہفتے میں ایک دو بار تو ہر حال میں! لیکن آپ کا مافک کوئی بھی ایسا دوڑ کر نہیں آیا۔’

 

وہ واقعی بھاگتا ہوا آیا تھا ، جیسے میلے میں کوئی ماں اپنے گم ہوجانے والے بچے کی آواز پر سرعت سے لپکتی ہوئی آتی ہے، اسے جلدی تھی کہ کہیں یہ غزل ختم نہ ہوجائے، وہ اس کے آخری شعر سے پہلے اسے دبوچ لینا چاہتا تھا، اور ایسا ہی ہوا۔وہ ریکارڈ لے کر وہاں سے چلا آیا۔ اس سنگر نے بہادر شاہ ظفر کی اس انوکھی غزل کے صرف چار شعر ہی گائے تھے، لیکن ایسے کہ جیسے کانوں میں گھنگھرو بجتے ہوں، وہ جب کبھی اس غزل کو ہلکی آواز میں سنا کرتا، اس کے وجود کے سارے تار سنگر کی آواز کے ساتھ سر سے سر ملاکر گانے لگتے، نہ جانے کیسے غیر شعوری طور پر اس غزل کا اس کے تخلیقی کاموں میں بہت حصہ رہنے لگا، وہ جب بھی کوئی پینٹنگ بناتا، ایسی ہی کوئی غزل اپنے سرہانے بجانا شروع کردیتا تھا، مگر آج اسے ایک ماسٹرپیس بنانا تھا۔ایک مضطرب اور پارہ صفت ہرن جیسے زندہ احساس کو بڑی آہستگی اور ملائمت کے ساتھ وقت لیتے ہوئے اس پھیلے ہوئے سفید کاغذ کی گود میں بٹھانا تھا۔اس لیے اپنی دانست میں سب سے جاندار الفاظ کا سہارا لیا، ایک ایسے بادشاہ کے الفاظ ، جس کی ڈوبتی ہوئی جوانی کے شکن آلود بستر پر زینت محل جیسا جوان، کمسن اور شاداب بدن بیٹھا ہوا نشے سے ڈول رہا تھا،اورزینت محل کی ہر نئی سسکی کے ساتھ بستر سے چرمراہٹ کی جگہ لہراتے ہوئے یہ چار شعر نکل رہے تھے۔

 

گر رنگ بھبھوکا آتش ہے اور بینی شعلہ سرکش ہے
تو بجلی سی کوندے ہے پری عارض کی چمک پھر ویسی ہی
نوخیز کچیں دو غنچہ ہیں، ہے نرم شکن اک خرمن گل
باریک کمر جو شاخ گل رکھتی ہے لچک پھر ویسی ہی
ہے ناف کوئی گرداب بلا اور گول سُریں رانیں ہیں صفا
ہے ساق بلوریں شمع ضیا، پائوں کی کفک پھر ویسی ہی
ہر بات پہ ہم سے وہ جو ظفر کرتا ہے لگاوٹ مدت سے
اور اس کی چاہت رکھتے ہیں ہم آج تلک پھر ویسی ہی

 

لفظ فضا میں گونج رہے تھے اور اس کا برش رقص کرتا جارہا تھا، یہ وہ منظر تھا جس میں حسن بھی تھا، موسیقی بھی، شاعری بھی تھی اور بارش کی دھمک بھی۔اور ان سب کو گوندھ کر ایک شخص تصویر کا آمیزہ تیار کررہا تھا۔ آئیے اب آپ کو کینوس کی چادر پر لے چلیں، وہاں کیا ہورہا تھا۔شروع سے آخر تک اس پوری تصویر کے بننے کی داستان سنائیں۔

Image: Female Figure with Head of Flowers, 1937 Art Print by Salvador Dalí

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *