[blockquote style=“3”]
ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساتھ یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے
[/blockquote]
باب-11
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
بھری بھری سانسوں کی آواز آرہی تھی، جیسے نرخرے میں کوئی چیز اٹکی ہوئی ہو، بلغم یا پھر کٹھل کا کوئی بیج۔ مرنے والا ایسی سانسیں نہیں لیتا۔ بدلتے ہوئے گہرے سرد اور ہلکے سرخ اجالے میں ایک شخص اپنی ہی کھال کی پوشاک پہنے ہوئے بستر پر الٹا پڑا تھا، کولہوں پر سے ڈولتی ہوئی ایک سفید رنگ کی چادر اس کو اور زیادہ لائق دید بنارہی تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ آس پاس کی ساری چیزیں اسے گھور رہی ہیں، دیکھ رہی ہیں اور مستقل اس کے وجود میں اپنے نکیلے اور تیز ناخن اتار کر اس کو لہو لہان کردینا چاہتی ہیں۔ آس پاس بکھری ساری کھردری اشیا کو اس بدن سے الجھن ہورہی تھی۔ بستر اور بدن کے درمیان گونجتی ہوئی دھک دھک کی صدا نے پورے ماحول کو موت کی آہٹوں سے ہم آہنگ کردیا تھا۔ ہواؤں کا تجسس پھیکا پڑتا جارہا تھا کیونکہ وہ کب سے بند دروازے سے اپنا سر مارے جارہی تھیں، باہر ڈرائنگ روم کا دروازہ بھٹم بھاٹ کھلا ہوا اتھا، جیسے کوئی چور اچکا اس پورے شہر میں نیندوں کی پھیلتی ہوئی سیاہی میں غوطہ نہ لگانا چاہتا ہو۔شراب کی ایک بوتل دروازے کے پاس چٹخی ہوئی پڑی تھی اور اس کا ڈولتا ہوا بے روح وجود بار بار دروازے کے سٹاپر سے ٹکرارہا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے پوری فضا غنودگی میں ہے، ہر شے کی پلک بھاری ہے اور نیند کی بلیا ں اپنے پھولے ہوئے ، گدگدے جسم کے ساتھ اس خاکی قالین پر بیٹھی جمائیاں لے رہی ہیں، آوازوں پر چونک کردیکھنا اور پھر اپنے منہ کو بغل میں دبا لینا، کب سے اس ہلکی شفق مائل اداس کردینے والی دنیا میں یہی کھیل تماشا جاری تھا۔لیکن باہر ڈرائنگ روم میں کوئی وجود اپنے سائے سمیت صوفے کے نیچے اپنا ایک ہاتھ پھیلائے دراز تھا، اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ساکت جسم کی بے جان پتلیاں دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے جان نکل چکی ہے۔ ہونٹ ہلکے اودے ہورہے تھے اور ننگے بدن پر پھیلے ہوئے ، گول اور چکنے سینے میں کھنچی ہوئی سبز رگوں کے جال پر لگتا تھا کسی نے کبودرنگ چھڑک دیا تھا۔کمر دو چار بار پھڑکی تھی اور ایک ننھا کیڑا ہتھیلی سے رینگتا ہوا بغل کے باریک پسے ہوئے بھورے گچھے کی طرف کسی گھونگھے یا کچھوے کی طرح دوڑ رہا تھا۔ سیلنگ فین یوں چرچرارہا تھا جیسے کسی بات پر خفا ہو، اس کی ناراض نگاہوں میں دھول جمی ہوئی تھی ، اچانک نیچے پڑے ہوئے وجود کے پاؤں اکڑنے لگے، تمام انگلیاں ایک معدوم رسی سے باندھ کر کھینچی جانے لگیں، انگلیاں خون کے انجماد سے گھبرا کر پچکنے لگیں، کیا وہ خون کا انجماد تھا یا کچھ اور، لگتا تو یہی تھا۔ مگر لگنے سے کیا ہوتا ہے۔اچانک اس وجود کے نتھنوں سے چنگھاڑتی ہوئی ہوا نکلی، آنکھوں کی سٹی ہوئی پتلیوں میں حرکت پیدا ہوئی ، گال سرخ ہوگئے، کان کی لویں گہری لال اور سینے کے پھیلے ہوئے ننھے ننھے راستوں کے نقشے پر سے نیلے تھوتھیے کو جھاڑ کر گویا کسی نے کنارے سے لگادیا، اب وہاں پھر وہی سبز رنگ کی شام مسکرانے لگی، جس میں نیلاہٹ کے اجلے آثار صبح اور دوپہر کے ملے جلے رنگوں کی طرح اپنی نکھری ہوئی صورتیں ابھارنے لگے۔
این نے گھبراکر آنکھیں کھولیں، اپنے گال پر دو طمانچے مارے اور اس بات کی تسلی کی کہ وہ زندہ ہے، اس کی سانس اپنے پورے جوبن سمیت جسم کی اینٹوں میں چنی ہوئی ہے۔وہ مسکرائی،ایک لمبی سانس اس نے باہر کی سمت دھکیلی اور پھر ایک خیال کے آتے ہی دوبارہ اداسیوں کی پگڈنڈی پر رینگنے لگی۔اچانک اسے محسوس ہوا جیسے بغل میں کسی نے زور کی چٹکی لی ہے، بلبلا کر اس نے ایک سرعت میں میلے بھورے سے لپٹے ہوئے ایک ننھے وجود کو ہوا میں اچھال دیا، کچھ بال بھی ٹوٹ گئے تھے، اور جس جگہ چٹکی کا احساس ہوا تھاوہاں ایک سوجن زدہ سرخ دھبہ اجاگر ہوگیا تھا۔ وہ بغل اٹھا کر ترچھی نظروں سے دیکھنے لگی اور جب آنکھوں کا وجود اس دھبے کی گولائی کو پوری طرح اپنے دائرے میں لینے سے قاصر رہا تو این نے انگلیوں کے پوروں پر سجی اور سلی ہوئی بے شمار ننھی ننھی آنکھوں کو اس کام پر لگا دیا۔وہ نہ جانے کب تک اپنی بغل کو سہلاتی رہی۔ہلکی ہلکی گدگدی اور اداسی نے اس کے اندر ہنسی اور مایوسی کی بالکل متضاد اور مختلف دھاراؤں کو بدن کی ندی میں گرایا، آخر کار اس نے تنگ آکر گدگدی کے آبشار سے خود کو الگ کر لیا اور دھپ سے زمین پر لیٹ کر دوبارہ مایوسی کے اندھے غار میں گم ہو گئی۔
این جس رات صدر کے پاس آئی تھی، وہ مل نہیں سکا تھا، کسی دوست کے یہاں تھا، گھر میں تالا تھا، چنانچہ اس نے بھری رات کے پیٹ میں اتر کر پھیلی ہوئی سڑکوں کی آنتوں پر مجبوری میں ایک غلیظ ہوٹل کا سہارا لیا۔اس ہوٹل میں پوری رات وہ ایک بدبودار کمرے میں بیڈ پر ہلکی روشنی کا لباس اوڑھ کر عریاں حالت میں سوچتی رہی کہ صدر سے سامنا ہونے پر آخر کیا کیا باتیں ہونگی۔وہ ضرور ناراض ہوگا اور اس کی ناراضگی غلط بھی تو نہیں ہوگی۔وہ اور کچھ بھی سوچنا چاہتی تھی، مگر بدبو کا اثر اتنا گہرا تھا کہ دماغ پوری طرح اس کے شور میں ڈوبنے لگا، قریب ساڑھے چار بجے وہ بے تاب ہو کر کمرے سے باہر نکلی اور اسی ننگی حالت میں رسیپشن پر چلی گئی، سیڑھی پر ایک گیلے اور گہرے اور سرمئی رنگ کے کتے نے اسے دیکھ کر بھونکنا شروع کردیا، وہ اس کے برابر سے نکلی تو وہ ڈر کر بھاگا اور اپنے چکنے وجود سمیت لکڑی کی سیڑھیوں سے پھسلتا ہوا زمین پر گرا، اور بھاگتا ہوا رسپشن کے پیچھے چلا گیا ، اس کے منہ سے اب بھی ہلکی ہلکی غاؤں غاؤں نکل رہی تھی۔کاؤنٹر پر کوئی نہیں تھا، اس نے زور زور سے ٹیبل پر رکھی گھنٹی بجانا شروع کردی۔کئی بار دھاپ دھاپ کی گونج سے کتا سٹپٹا گیا، اسے لگا جیسے اس پر حملہ ہونے والا ہے، وہ دیوار سے چمٹ گیا اور اپنے ہی وجود میں سمٹتا ہوا بالکل خاموش ہوگیا، جیسے خوف سے اسے سکتہ سا ہوگیا ہو۔اس شور سے کئی لوگ ہوٹل کے کچے اور اوبڑ کھابڑ کمروں سے جو بالکل چھپکلی کے زہر سے بنائی جانےو الی ٹھرا شرابوں کے پیپے کی طرح زنگ آلود اور بدبو دار تھے، آنکھیں ملتے باہر نکلے اور جب انہوں نے دیکھا کہ ایک جوان لڑکی بالکل ننگی حالت میں کاؤنٹر پر کھڑی بری طرح چیخ رہی ہے تو کچھ زیر لب مسکرانے لگے، کچھ اس کی ہذیانی کیفیت پر افسوس کرنے لگے ۔عورتیں اس منظر کو دیکھ کر چیخنے چلانے لگیں، ایک آٹھ سالہ بچہ دوڑ کر کہیں باہر سے اتنی رات گئے نہ جانے کیسے ہوٹل میں آدھمکا، اس کے پیچھے پیچھے ایک پھیلی ہوئی توند والا شخص تھا، جس نے ٹائی اور سوٹ میں اپنے مختلف کھانوں اور مٹیوں سے بھرے ہوئے بدن کو کس کر باندھ رکھا تھا۔ایک دو بار اس نے لڑکی کو پکڑنا چاہا مگر جب وہ اول فول بکتی رہی تو اس نے ایک الٹا ہاتھ لڑکی کے منہ پر رسید کیا، جب تک پڑوس کی دکان میں بیٹھ کر گپ شپ کررہے رسپشنسٹ کو بھی اس ہنگامے کی بھنک لگ گئی، وہ دوڑ کر یہاں آیا تو لوگوں نے اسے بھی پیٹنا شروع کردیا۔رو رو کر اس نے اپنی بے گناہی کا یقین دلانا چاہا، لڑکی ایک دراز بینچ پر اوندھی پڑی ہوئی تھی، اس کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا تھا۔ الغرض اس تماشے کا سد باب اس طرح کیا گیا کہ پولیس کو بلا کر این کو اس کے حوالے کردیا تھا۔نتیجتا صبح سوا چار بجے تک وہ ایک کال کوٹھری میں جہاں بہت سے زندہ چوہے، اندھے پروں والے کاکروچ اور دوسرے بے نام کیڑے اڑتے یا رینگتے ہوئے محسوس ہورہے تھے، پڑی ہوئی تھی۔اس تماشے نے اس کے پورے وجود کو تھکا دیا تھا، اسے یاد آیا کہ اس کی کوٹ کی جیب میں ، جوپولیس والوں نے اسے زبردستی پہنایا تھا، ایک ایسا سفوف رکھا ہے، جس کو چاٹتے ہی وہ بہت دیر تک دنیا و مافہیا سے بے خبر ہوسکتی ہے۔اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور وہ ننھی سی پڑیا نکالنی چاہی تو معلوم ہوا کہ وہ پھٹ گئی ہے اور ہلکے سبز رنگ کا وہ سفوف گہری جیب کے دھاگوں سے بری طرح الجھ گیا ہے۔بہرحال اس نے دو بار چٹکیوں میں جیسے تیسے یہ سفوف بھرا اور گلے میں انڈیل لیا۔
اس کے بعد ایک رنگ برنگی ، چمپئی اور بسنتی اداسی کے دو قوی ہیکل جوانوں نے اس کے دل پر بید یں بجانی شروع کردیں ، ان بیدوں سے بڑی مترنم مگر بوفر کی گہری اور حملہ آور آوازیں پیدا ہونے لگیں۔اسے لگا جیسے یہ جوان بیدیں برساتے ہوئے ، دل کو ساز بنا کر کوئی گیت گارہے ہیں ،مگر یہ گیت سننے کے لیے اسے پوری طرح خود کو ان لہروں میں ڈبونا پڑا، مگر اب الفاظ صاف سنائی دے رہے تھے۔
تیرے دل میں پیتل کے جو پتے ناچ رہے ہیں
دھمم اور گھگھر گھگھر جو کیڑے ناچ رہے ہیں
بیلیں، جو پنڈلی سے لے کر چھاتی کو
ہلکے ہلکے ڈھانپ رہی ہیں
سانسیں جو روحوں کے جل تھل میں
کھانس رہی ہیں، کانپ رہی ہیں
دھمم اور گھگھر گھگھر جو کیڑے ناچ رہے ہیں
بیلیں، جو پنڈلی سے لے کر چھاتی کو
ہلکے ہلکے ڈھانپ رہی ہیں
سانسیں جو روحوں کے جل تھل میں
کھانس رہی ہیں، کانپ رہی ہیں
اب وہ ان دونوں قوی ہیکل جوانوں کے بالکل نزدیک پہنچ چکی تھی، وہ دونوں جوان ایک ہی شکل و صورت کے تھے، انہوں نے ماتھے پر انگوچھے باندھ رکھے تھے اور ان کی سفید سلکی لنگیاں، ایسے مشاقی سے بندھی تھیں جیسے پہلوان لنگوٹ باندھا کرتے ہیں، بھرے ہوئے بدن پر ایک کالے رنگ کی بنڈی تھی، دھپ دھپ کی آوازیں زوردار ہوتی جارہی تھیں، وہ جب بھی قدم آگے بڑھاتی تو اسے لگتا کہ وہ ایک پلپلے فرش پر پاؤں رکھ رہی ہے، جیسے بہت سے گدوں کو بچھا کریا بہت سی لاشوں کو سجا کر ایک فرش تیار کیا گیا ہو، وہ پھٹے ہوئے پیٹوں، جمی ہوئی چکنی اور سرد سانسوں اور کچلے ہوئے بھیجوں پر پاؤں رکھتی ہوئی ان دونوں جوانوں کے نزدیک پہنچ گئی، اور پھر ان دونوں جوانوں نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا، بیک وقت، وہ دو وجود تھے، ایک نہیں مگر وہ اس کی رانوں پر ہلکے ہلکے چٹکیاں لے رہے تھے، اس کی سسکیا ںپھوٹنے لگیں، ایک بہت تیز سیاہ رنگ کے بھبھکے والی سانس نے اس کی پوری حلق کڑوی کردی، اس کی آنکھوں میں دھواں بھر گیا، اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی زبان پر ایک لجلجا جھینگا تیر رہا ہو، ان دونوں جوانوں نے اس کی شلوار کو جوش میں چیر دیا اور اپنے مضبوط آلہ تناسل کو اس کے جسم کے دو نچلے اور نہایت پتلے ہونٹوں میں پھنسا کر وہ پھر سے دھپ دھپ کا شور بلند کرنے لگے۔اف کتنا شور تھا، اب یہ پورا شور اس کے پستانوں سے ہوتا ہوا، بدن کے ہر گوشے میں پھیلتا جارہا تھا، وہ چیخنے لگی، اسے لگا جیسے وہ اب بھی اسی ریسپشن پر کھڑی زور زور سے ٹیبل بجارہی ہے۔ اچانک اسے لگا کہ ایک گرم ابلتی ہوئی ہانڈی میں اس کا منہ رکھ دیا گیا ہے، اور ان دونوں جوانوں نے اپنے ننگی ہتھیلیوں کو اس کے کوٹ کے اندر چمکیلی اور چکنی پیٹھ سے چپکا دیا ہے، اسے لگا جیسے اس کی رانوں پر سگریٹ کا دھواں چھوڑاا جارہا ہو، گرم، گیلا اور بے حد سفاک و سفید دھواں، جوا س کے وجود کو ایک بڑی سی ہانڈی میں حلیم کی طرح گھول رہا ہو، گھوٹ رہا ہو۔ اس کی سانسیں پھنسنے لگیں، اس نے پھڑپھڑا کر اس پورے کرب آمیز منظر سے نکلنا چاہا تو زبان پر بیٹھا ہوا وہ لجلجا جھینگا، سانپ بن گیا اور اس کے تالو، زبان، زبان کی نچلی اور اوپر پرت، حلق میں دھنسے ہوئے کوے اور داڑھوں کی باریک سوراخوں تک میں اپنا زہر چھوڑنے لگا۔
آنکھ کھلی تو کال کوٹھری کے باہر ایک سپاہی سلاخوں پر ڈنڈا بجا کر اسے جگا رہا تھا۔ پتہ نہیں کیسے مگر صدر نے اسے ڈھونڈ نکالا تھا۔وہ پولیس سٹیشن کیسے پہنچ گیا ، جب وہ دونوں باہر نکلے تو اس کے پورے وجود میں ایک درد بھرا نشہ اترا ہوا تھا، اس نے بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے صدر سے بس اتنا پوچھا
تم نے مجھے کیسے ڈھونڈا؟
آنکھ کھلی تو کال کوٹھری کے باہر ایک سپاہی سلاخوں پر ڈنڈا بجا کر اسے جگا رہا تھا۔ پتہ نہیں کیسے مگر صدر نے اسے ڈھونڈ نکالا تھا۔وہ پولیس سٹیشن کیسے پہنچ گیا ، جب وہ دونوں باہر نکلے تو اس کے پورے وجود میں ایک درد بھرا نشہ اترا ہوا تھا، اس نے بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے صدر سے بس اتنا پوچھا
تم نے مجھے کیسے ڈھونڈا؟
‘تمہیں پڑوس کی بلڈنگ کے ایک چوکیدار نے دیکھ لیا تھا، اس نے مجھے بتایا کہ کوئی لڑکی میرے گھر گئی تھی، میں نے دماغ پر کافی زور دیا اور پھر یکدم تمہارا خیال آیا، پتہ ہے تم کب سے ہو یہاں؟’
‘کل صبح تو لائے ہیں مجھے؟
‘کل صبح تو لائے ہیں مجھے؟
‘ہمم۔۔۔۔تین دن ہوچکے ہیں ، بڑی مشکل سے مجھے اس ہوٹل کا پتہ چلا جہاں تم نے ہنگامہ مچایا تھا۔’
این کسی بھاری مجرم کی طرح خود کو گھسیٹ کر چل رہی تھی، صدر نے ایک آٹو کیا اور دونوں واپس اس کے فلیٹ میں پہنچ گئے۔
این کسی بھاری مجرم کی طرح خود کو گھسیٹ کر چل رہی تھی، صدر نے ایک آٹو کیا اور دونوں واپس اس کے فلیٹ میں پہنچ گئے۔

