[blockquote style=”3″]
ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساتھ یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے
[/blockquote]
باب-8
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے ہیں۔
این گاڑی میں تھی، مگر ابھی تک ہوائی جہاز کی وہ ژووووں ں ں کرتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ وہ ہوائی سفر پسند نہیں کیا کرتی تھی۔ باہر تیز برسات ہو رہی تھی۔ طویل راستہ تھا تو اس کے پاس سوائے موسیقی سننے اور دھیمے ٹریفک میں رینگتی ہوئی گاڑی کے درمیان یادوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنے کے، کوئی دوسرا کام نہ تھا۔ اس نے ایک لمبی سانس بھری اور اس کے گول سینے کی ابلتی ہوئی ہانڈی میں دو خاموش طبع لوگوں کی یادیں گڑگڑانے لگیں۔وہ آنکھیں، وہ خوبصورت آنکھیں، جن سے بچھڑے ہوئے اسے قریب ڈیڑھ سال ہوگیا تھا۔ اس عرصے میں اس نے ہر دن ان آنکھوں کو بہت یاد کیا تھا، آخر کیا تھا ان آنکھوں میں جو صدمے کی طرح رہ رہ کر اس کے شانوں کو دباتا ہوا محسوس کرتا۔ راتوں میں جب وہ تکیے کے ساتھ لپٹ کر سو رہی ہوتی تو اس کی تنگ تاریک عریانی میں وہ آنکھیں دھڑکتی ہوئی آن پہنچتیں۔ اور اپنی پلکیں پھیلا کر اس کا پورا وجود خود میں گھول لیتیں، ملا لیتی۔ وہ رات بھر انہی آنکھوں کی تجوری میں کسی گرم خزانے کی طرح ہانپتی رہتی۔
این جب صدر سے بچھڑی تھی تو وہ وجہ اس قدر معمولی تھی کہ کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ لیکن ان کا ملنا ایک عالیشان محل کے پھاٹک کی طرح ہمیشہ شاندار اور جاذب نظر معلوم ہوتا تھا۔ جسے جب بھی دیکھو، کتنی بھی دور سے، کتنی بھی ظلمت یا کیسی بھی روشنی میں، وہ خوبصورت ہی معلوم ہوتا تھا۔ وہ چقماق جیسی آنکھیں جو این کے سینے سے رگڑ کھاتے ہی سرخ ہونے لگتیں، خمار کی گرم اداسیوں اور محرومیوں کی کائیوں سے اٹی ہوئی۔ وہ نیلی، کالی، سرخ اور سبز آنکھیں۔ بہت سے رنگ بدلتی تھیں۔ این نے اس عرصے میں ہر دفعہ یہی سوچا تھا کہ وہ پلٹ کر صدر کے پاس نہیں جائے گی۔مگر اس کے جسم کی بو اور اس کے ذہن کے اتہاس کا یاتری بار بار رات کی ٹرین کو آنکھوں کے اسی سنسنان سٹیشن پر موڑ لاتا تھا اور وہ رات بھر ان آنکھوں کی پٹریوں، بنچوں، سیڑھیوں اور ریلنگ پر بیٹھ کر سوچا کرتی کہ کیا اسے واقعی واپس جانا چاہیے۔ صدر اس سے ملنے سے پہلے شاید یہی سمجھتا رہا ہوگا کہ وہ دنیا کا سب سے عجیب اور آزاد انسان ہے، مگر این نے اس کی طبیعت کی ساری تیزی اور انا کی ساری کراری ختم کردی تھی۔ وہ راتوں میں اس کے ایک بوسے کے لیے بھکاریوں کی طرح گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر اسے خود کے نزدیک آنے کے لیے منتیں کرتا رہتا اور این اپنے آپ کو اس منظر سے تسکین پہنچایا کرتی۔ اسے محسوس ہوتا کہ وہ شخص جو خود کو ذہانت کا پتلا سمجھتا ہے، اپنے برش سے عورتوں کے جسم کے ایسے باریک ریشوں اور دھبوں اور رنگوں کو نمایاں کرتا ہے کہ خود عورت کا آئنہ بھی اس پر اتنی صفائی کے ساتھ خود کو روشن نہ کرسکے۔ کیسے اس کے لیے ماہی بے آب بنا ہوا تڑپ رہا ہے۔ یہ روز ہوتا تھا۔ صدر کو اب اس طلب میں اور این کو اس اذیت دہی میں لطف آنے لگا تھا۔ صدر ان دنوں شہر کی کسی سرائے میں ایک کام سے ٹھہرا ہوا تھا، جب این سے اس کی ملاقات ہوئی۔ این اس سرائے کی مالک تھی، مگر وہاں اس کا اتفاق سے ہی جانا ہوا کرتا تھا، کیونکہ اس کا بوڑھا باپ ساری ذمہ داری اٹھائے تھا۔وہ کسی صورت این کا باپ معلوم نہ ہوتا تھا۔ چہرے پر جھریوں کا ایسا جال تھا، جیسے لگتا ہوکسی پھوہڑ عورت نے آٹا گوندھنے کی کوشش کی ہو۔ اکثر و بیشتر جب وہ کاؤنٹر پر کھڑا ہوکر اپنے گلے کی لٹکتی ہوئی کھال کو چٹکیوں میں بھر کر کالر میں ڈالا کرتا تو دیکھنے والے جھرجھری لیتے۔ مگر وہ چکنی اور بلاگوشت کی جھولتی ہوئی کھال بار بار پھسل کر باہر آجایا کرتی۔ اس کے بائیں ہاتھ میں رعشہ تھا۔ صدر نے ایک دفعہ این سے پوچھا بھی کہ آخر تمہارا باپ اس قدر بوڑھا کیوں ہے، تو این نے بتایا کہ اس کے باپ نے پچاس سال کی عمر میں شادی کی تھی اور قریب ساٹھ سال کی عمر میں وہ پیدا ہوئی تھی، اس کی ماں ڈلیوری کے وقت ہی دنیا سے سدھار چکی تھی۔ بقول این وہ کافی جوان تھی، اور اگر وہ اس رات بچ جاتی تو شاید این کا باپ پچھلے سترہ اٹھارہ سالوں میں اس قدر بوڑھا نہ ہوا ہوتا۔ این اس کے مقابلے میں بہت خوبصورت تھی، ایک سال پہلے ہی اس کا سکول پورا ہوا تھا، این کو شکایت تھی کہ اس کے پستان زیادہ بڑے نہیں ہیں۔ وہ انہیں انگلیوں سے چھوا کرتی تھی، عجیب بات یہ تھی کہ سکول میں اس کا کسی کے ساتھ افیئر نہیں ہوا تھا۔ بدن پتلا دبلا تھا، بال گردن تک جھولتے ہوئے، ٹھوڑی آگے کو نکلی ہوئی اور آنکھیں بڑی بڑی، ناک البتہ کچھ موٹی تھی، مگر گالوں کے گڑھے اور چوڑے دہانے کی آمیزش نے اس کی ناک کے اس عیب کو دبا لیا تھا۔
اس روز صدر کسی کام سے بازار گیا تو واپسی میں اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھلا پایا، احتیاط سے اندر داخل ہوا تو بالکنی میں ایک لڑکی کو اپنی ایک کتاب پڑھتے ہوئے دیکھ کر چونک گیا۔ اس نے کہا:
‘معاف کیجیے گا، لگتا ہے میں کسی غلط کمرے میں گھس آیا ہوں۔’
لڑکی نے کہا:’ہیلو ! میرا نام این ہے۔ آپ کسی غلط کمرے میں نہیں آئے ہیں۔ ایکچولی یہ کتاب ہماری کنٹری میں بین ہے۔’
‘معاف کیجیے گا، لگتا ہے میں کسی غلط کمرے میں گھس آیا ہوں۔’
لڑکی نے کہا:’ہیلو ! میرا نام این ہے۔ آپ کسی غلط کمرے میں نہیں آئے ہیں۔ ایکچولی یہ کتاب ہماری کنٹری میں بین ہے۔’
صدر کو سمجھ میں نہ آیا کہ اس کی بات کا کیا جواب دے۔اس کے منہ سے صرف اتنا نکلا۔
‘واقعی؟’
لڑکی نے آگے بڑھ کر صدر کو ایک گال پر ایک بوسہ دیا اور کہا:’فی الحال میرے پاس آپ کو دینے کے لیے دوسرا اور کچھ نہیں ہے۔اس سے کام چلائیے، میں کچھ روز میں کتاب واپس کردوں گی۔’
صدر دیکھ رہا تھا کہ لڑکی نے کتاب کو ایک ہاتھ سے مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے اور درمیان میں انگلی پھنسائی ہوئی ہے۔اس کے انہماک کو توڑتے ہوئے لڑکی نے ایک ہاتھ سے اسے ہلکا سا پیچھے کیا اور مسکراتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔وہ بالکنی کی اسی کرسی پر بیٹھ گیا۔ لڑکی کے دائروں کی حرارت ابھی تک کرسی پر جمی بیٹھی تھی۔ پھر وہ کچھ خیال کرکے اٹھا، اس نے لیپ ٹاپ اٹھا کر چیک کیا کہ کیا واقعی وہ کتاب اتنی اہم تھی کہ کسی ملک میں اسے بین کیا جائے۔ وہ دراصل عورتوں کے مختلف پستانوں کے متعلق ایک بہت ہی دلچسپ کتاب تھی۔ خود زیادہ وہ بھی نہ پڑھ سکا تھا، مگر اس کتاب کو لکھنے والے نے ناول اور نالج کو کچھ اس طرح سے ملادیا تھا کہ پڑھتے وقت اگر ایک طرف بہت گرماہٹ محسوس ہوتی تو دوسری طرف پستانوں کے اندرون، ان کی ساخت اور بناوٹ کے اسباب پر جو روشنی ڈالی گئی تھی، اس کی سائنسی، نفسیاتی، فلسفیانہ، تاریخی اور عمرانی وجوہات کو پڑھ پڑھ کو وہ بہت بور بھی ہوا تھا۔وہ کتاب واقعی یہاں بین تھی۔ شاید اس لیے کہ اس کا مصنف ایک ایسا شخص تھا جو پستان اور مرد کے عضو تناسل کے بارے میں دنیا بھر میں ماہر ترین شخص سمجھا جاتا تھا۔اس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ عورت اگر اپنے پستان کاٹ بھی دے، تب اس کے اندر کی پستانی صفت ختم نہیں ہوسکتی۔ قدرت کی جانب سے ہر عورت کے سینے پر یہ ایک ایسا بوجھ ہے جو جس قدر بھاری ہو، اتنا ہی ہلکا معلوم ہوتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ کسی بھی عورت کے پستان برابر نہیں ہوا کرتے، دنیا میں شاید دو تین فی صد عورتیں ایسی ہوں گیں، جن کے پستانوں کا وزن برابر ہوگا۔ پستان اپنی ایک دنیا خود میں آباد رکھتے ہیں۔ اور ان کی غیر برابری بھی ایک قسم کی تاریخی حقیقت کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ اس کے تعلق سے اس نےاپنے ناول میں بڑا عجیب و غریب لیکن دلچسپ اسطورہ بھی بیان کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ شروعات میں کچھ عورتیں ایسی بھی تھیں، جن کے پاس اپنے سارے جنسی احساسات موجود تھے، مگر ان کے پستان ابھرا نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ مردوں کی طرح سپاٹ سینہ رہا کرتی تھیں، بس جس وقت ان کا جنسی عمل کرنے کا دل چاہتا، ان کے سینے پھول جاتے اور وہ اس قدر پھولتے کہ ان کی خواہش کسی سے چھپی نہ رہ پاتی تھی۔ اس نے اس سلسلسے میں ایک بھورے بالوں والے بندر کا قصہ سنایا تھا، جس کی بیٹی کو دنیا بھر میں عفیفہ اور عزت مآب شخصیت سمجھا جاتا تھا۔کئی مرد اس کے پاس آتے، اس کے جسم کا طواف کرتے، مگر وہ ایک دائرے میں اس طرح ننگی بیٹھی رہا کرتی کہ اس کا سینہ کسی بھی پہلوان، گبرو یا باہوبلی کے لیے نہیں پھولا کرتا تھا۔ ایک رات بہت برسات ہورہی تھی، اتنی کہ اس میں بھورے بندر کو احساس ہوا کہ دائرے میں موجود کھلے آسمان کے نیچے بیٹھی اس کی بیٹی بھیگ رہی ہوگی۔وہ خود رات کے پچھلے پہر، سب سے چھپتا چھپاتا اپنی بیٹی کو لینے کے لیے بے تاب سا وہاں پہنچا اور اسے دائرے سے اٹھا کر اپنی خوابگاہ میں لے آیا، اس نے سوچا تھا کہ اگلے پہر جب برسات کا زور ہلکا سا ٹوٹے گا تو وہ بیٹی کو دوبارہ وہاں پہنچادے گا، مگربھاری برسات میں جب وہ اپنی بیٹی کو لارہا تھا، تو اس کے بالوں بھرے ہاتھوں کی رگڑ بیٹی کی ننگی پیٹھ کو ایک عجیب تسکین پہنچا رہی تھی، اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں، بندر کا دوسرا ہاتھ بیٹی کے کولہوں پر تھا، خوابگاہ میں لانے کے بعد جب وہ ایک چھال سے بیٹی کا بدن پونچھنے لگا تو بیٹی نے بے تابانہ آگے بڑھ کر بھورے بندر کا بوسہ لے لیا۔ وہ رات بھورے بندر کے لیے اپنی زندگی کی سب سے گہری طوفانی رات میں بدل گئی اور اس نے سسکتے ہوئے اپنی بیٹی کے سینے پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا، سانسیں جب دونوں جانب بے حد گرم ہوگئیں تو قق قق کی آواز کے ساتھ بیٹی کے منہ سے عین وصل کے درمیان خون نکلنے لگا، لیکن بندر پر اس وقت وحشت طاری تھی، جب وہ جنسی عمل سے فارغ ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیٹی مرچکی ہے۔ احساس ندامت نے اسے اتنا جھنجھوڑا کہ وہ خود جاکر اسی دائرے میں بیٹھ گیا، بھیگتی ہوئی برسات اور ٹھٹھرتی ہوئی لہروں نے اس کے جسم کو لپیٹ لیا، اس کی عفیفہ بیٹی کی روح برسات کے چابکوں میں بدل کر اس کی پیٹھ، چہرے اور رانوں کو سڑاک سڑاک کی آوازوں کے ساتھ چھلنی کرنے لگی۔ صبح لوگوں نے دیکھا کہ بھورے بالوں والا بندر دائرے میں اوندھے منہ پڑا ہوا ہے، اوراس کی سپاٹ سینہ و عفیفہ بیٹی اس کی خواب گاہ میں خون میں نہائی ہوئی،اپنے بڑے بڑے ہوئے پھٹے ہوئے سینوں کے ساتھ رانوں کو اوپر کی جانب کیے ہوئے مردہ پڑی ہے۔اس نے اس قصے کے بعد لکھا تھا کہ پستانوں کی دیوی ‘چوچارو’ کو اس روز احساس ہوا کہ ابلا اور بھرا ہوا سینہ ہر عورت کے پاس ہونا چاہیے تاکہ کسی بھی عورت کو پستانوں کی عدم موجودگی میں اس قسم کے دائروں میں بیٹھنے کی نوبت نہ آئے۔ ناول کے سرورق پر بھی ایک ایسی بے چہرہ عورت کا مردہ وجود بنایا گیا تھا، جس کا بدن خون میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کے پستان پھٹے ہوئے تھے۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ کتاب کے سرورق پر بنی ہوئی مردہ لڑکی یا عورت کا جسم ‘این’ کے فیگر سے کتنا ملتا جلتا تھا۔
صدر نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے اپنے آپ کو واپس ہوش کی دنیا میں پلٹایا، اس نے سوچا کہ این براہ راست اس سے کتاب مانگ کر کیوں نہ لے گئی، کیا اس نے اسے پہلے کوریڈور میں کہیں دیکھا تھا یا لابی میں یا ڈائننگ روم میں۔کہیں تو دیکھا ہوگا،ا ور پھر وہ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی تھی کہ وہ کچھ روز یہاں ٹھہرے گا۔ کہیں وہ کوئی جاسوس تو نہیں تھی۔کوئی جاسوس، جو اس ملک میں صدر کو یہ کتاب لاتے ہوئے دیکھ چکا ہو اور اب اس کا مقصد کسی صورت یہ کتاب وہاں سے ہٹانا ہو۔لیکن ایک کتاب سے اس قدر خوف اس کی سمجھ میں نہ آیا، پستان تو یہاں کی عورتوں کے بھی ہیں، لڑکیوں اور ننھی بچیوں کے بھی، بلکہ خود اس جاسوس کے بھی ہیں۔کیا یہ لوگ اس پر بھی پابندی لگا سکتے ہیں۔کیا یہ پستان کے پیچھے ایک جاسوس چھوڑ سکتے ہیں۔ممکن ہے اس کتاب میں آگے چل کر کہیں کوئی ایسی بات ہو، جس کی وجہ سے اس پر پابندی لگائی گئی ہو۔وہ باہر نکل کر دیکھنے لگا کہ شاید اسے کہیں وہ لڑکی دکھائی پڑے۔ مگر وہ دور دور تک نہیں تھی۔پھر اسے یاد آیا کہ جنس تو دنیا کی ہر شے میں موجود ہے۔خودوہ تو یہی سمجھتا ہے۔وہ کچھ سوچتے سوچتے اپنے کینوس کے نزدیک گیا۔اس نے ایک بکسے سے اپنا پسندیدہ ریکارڈ رنکالا اور اس پر ایک فرانسیسی گیت بجاتے ہوئے شرٹ اتار کر تصویر بنانے میں مصروف ہوگیا۔کافی دیر بعد جب وہ وہاں سے ہٹا تو تصویر میں عورت کی شرم گاہ ایک چھوٹی، مڑے اور جھجکے، بھیگے کاغذوں کی کتاب جیسی نظر آرہی تھی، جسے میں مرد کا عضو تناسل کسی انگلی کی طرح ایک مخصوص صفحے کو روکے رکھنے کے لیے درمیان میں کہیں پھنسا ہوا تھا۔
وقت بیت رہا تھا، شام ہورہی تھی، اس نے کچھ بسکٹ کھائے اوراپنے بستر پر لیٹ گیا، واٹر کلر اس کے چہرے اور ماتھے پر یونہی لگا ہوا تھا، فرانسیسی گیت اس ماحول میں اداسی کی ایک ایسی بے معنی تشریح کرتا معلوم ہورہا تھا جیسے سب کچھ کہیں پیچھے چھوٹ گیا ہو۔وہ اپنی غریب الوطنی اور خود ترحمی کے ملے جلے احساسات میں ڈوبا ہوا چلا گیا، اس نے دروازہ بھیڑنے تک کی زحمت گوارہ نہ کی تھی۔صبح آنکھ کھلی تو کوئی اس کی آنکھوں کے آگے چٹکیاں بجا رہا تھا۔وہ ‘این’ تھی۔