Laaltain

پتھر ناراض ہیں

10 نومبر، 2015

[vc_row full_width=”” par­al­lax=”” parallax_image=“”][vc_column width=“1/4”][vc_column_text css_animation=“”]

یہ موت ناقابل قبول ہوگی،ان پرندوں کے لیے، جو اس ننھی سی جان کی چیخوں کو اپنے سینے میں دہکتا ہوا محسوس کریں گے۔ ان کٹ کھنے، مردار خور کتوں کے لیے، جن کی آنکھوں نے آج سے پہلے کسی انسان کو دوسرے انسان کا بدن اس طرح بھنبھوڑتے ہوئے نہ دیکھا ہوگا۔

[/vc_column_text][vc_empty_space height=“320px”][vc_empty_space height=“320px”][vc_empty_space height=“320px”][vc_column_text]

شادی میں دیے گئے دھوکے کے بدلے، کسی انسان کو زمین میں آدھا گاڑکر اس پر پتھر نہیں برسائے جاسکتے، اسے جانوروں کی طرح کھونٹے سے باندھ کر اسی یا سو کوڑوں کی سزا نہیں سنائی جاسکتی، اور جب تک یہ ہوتا رہے گا، گناہوں کا عمل لحاف کے اندر جاری رہے گا، ایک ایسا عمل، جس کا پول جب کھلے گا، تب اسی قسم کی کسی سزا کی خبر سے دنیا کی ننگی آنکھیں، جلتی ہوئی تصویروں پر چلنے کے لیےمجبور ہوجائیں گی۔

[/vc_column_text][vc_empty_space height=“320px”][vc_empty_space height=“320px”][vc_empty_space height=“320px”][vc_empty_space height=“320px”][vc_column_text]

کیا ہم اب جنگ، نفرت اور غریبی کو مٹانے کے لیے وہ قربانیاں نہیں دے سکتے، جو کبھی ہم نے اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لیے دی تھیں۔

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=“3/4”][vc_column_text]

ان پتھروں سے جن سے صنم تراشے جاسکتے ہیں، جن سے بندگی کی ایک شکل کو پیدا کیا جاسکتا ہے، جن کے اندر ہزاروں رحم، خوف، یقین اور سچائی کی شکلیں چھپی ہوئی ہیں، ایک جرم کروایا گیا ہے، افغانستان میں۔ مجھ جیسے لوگوں تک جو خبر پہنچی ہے، جو ویڈیو ہم تک آئی ہے، اس کے ذریعے ہم یہ جان سکے ہیں کہ ایک لڑکی، جس کا نام رخسانہ تھا، جو پھولوں کی طرح معصوم، وقت کی طرح زندہ اور پانی کی طرح رواں دواں تھی، ایک دن اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کرادی گئی، وہ اس شادی کے خلاف ہی ہوگئی، مگر اس کی کون سنتا ہے، اسے ایک شخص کے پلے باندھ دیا گیا تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ شخص ظالم ہوگا، مذہب سے میری ہزار لاتعلقی اور بغاوت کے باوجود مجھے پورا یقین ہے کہ اس معاملے میں اسلام کا قانون اس لڑکی کے حق میں پتھروں کی سزا سنانے کی اجازت کبھی نہ دیتا۔ اس لڑکی کو وہ شخص پسند نہیں تھا، سماج کا خوف، آس پاس کا ڈر، اوران سب کے درمیان اٹھنے والا کہیں سےمحبت کا وہ معصوم جذبہ، جو اس کے دل میں کسی نامعلوم لڑکے نے جگا دیا ہوگا، وہ لڑکی اس محبت کی سیڑھیوں پر چڑھ کر آگ میں کود گئی، یہ سوچے بغیر کہ وہ آگ میں نہیں کود رہی، پتھروں کے سمندر میں ڈوبنے جارہی ہے، جہاں اس کے چہرے، اس کے لب، اس کی آنکھوں اور بدن کے دوسرے حصوں سے خون ابل پڑے گا، اس کی معصوم کھال ادھڑجائے گی، اس کی چیخوں سے شیطان کے باغیانہ سجدے کا غرور تہس نہس ہوجائے گا، وہ دھیرے دھیرے زخموں کی ایک گہری کھائی میں گرتی جائے گی اور اس کی چیخیں ماند ہونے میں پورے دو سے ڈھائی گھنٹے کا وقت لگے گا۔ اس پورے دور میں آس پاس کی کرخت زمین سفاک لوگوں کے پیروں سے لپٹ لپٹ کر آسمان والے خدا کی دہائیاں دے گی، پتھر اس موم جیسے بدن پرگرنے سے پہلے عارضہء قلب سے مرجائیں گے، وقت کا غرور چکنا چور ہوچکا ہوگا اور سیسہ اگلتی ہوئی دوزخ کی نہروں میں دو گز داڑھیوں کا حصہ لکھا جارہا ہوگا۔ یہ موت ناقابل قبول ہوگی،ان پرندوں کے لیے، جو اس ننھی سی جان کی چیخوں کو اپنے سینے میں دہکتا ہوا محسوس کریں گے۔ ان کٹ کھنے، مردار خور کتوں کے لیے، جن کی آنکھوں نے آج سے پہلے کسی انسان کو دوسرے انسان کا بدن اس طرح بھنبھوڑتے ہوئے نہ دیکھا ہوگا۔کیونکہ یہ پرندے اور یہ کتے ماقبل تاریخ کے کتے نہیں ہیں، یہ ایٹمی جنگوں، ڈرون حملوں اور نیوکلیر طاقتوں کے زیر سایہ پل کر جوان ہونے والے تنومند گوشت پسند ہیں، جن کی بھوک بارود میں لپٹے ہوئے ، بدبودار انسان کے چیتھڑے کھانے سے انکار کرچکی ہے،جو اپنے گزارے کا سوال تقدیر کے ہاتھوں میں سونپ چکے ہیں۔

 

میرا جذباتی تاثر جو بھی رہا ہو، مگر یہ مانتا ہوں کہ یہ لوگ اسلام کے پیروکار نہیں ہیں، غور کرنے پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بنیاد کا انکار کرکے، قانون کا اطلاق کرنے والی قوم، اپنی شناخت کی حقدار نہیں ہوسکتی۔ کیا ان لوگوں نے اس لڑکی کو تعلیم دلوائی تھی؟ کیا ان لوگوں نے اس لڑکی کی مرضی کے خلاف نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا؟ کیا ان لوگوں نے اس لڑکی کو شادی کے بعد پیش آنے والے مسائل کے بارے میں ان سے کھل کر بات کرنے کی اجازت دی تھی؟ کیا یہ لوگ اسلامی تاریخ، اسلامی قانون کے وہ سب سے طاقتور دن بھول گئے، جب اسلامی حکومت کا ایک خلیفہ کسی عورت کے جنسی معاملے میں صبر کے تعلق سے استفسار کرتے وقت، اپنی بیٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے بھی نہیں ہچکچایا، اسلام نے عورت کے بارے میں کیا فیصلے کیے ہیں اور کیا نہیں، اس پر بعد میں بات کریں گے، مگر پہلے یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان لوگوں نے کیوں اس عورت کو وہ بنیادی حقوق نہیں دیے، جس کی اجازت ان کا مذہب انہیں دے چکا ہے۔ کیوں صرف سزا دیتے وقت، صرف تکلیف پہنچاتے وقت، انہیں اسلام کی یاد آئی، کیوں انہیں کریہہ معاملے میں، ایک سخت جان، ایک بد شکل عقوبت کے سلسلے میں مذہب یاد آیا اور اس وقت وہ مذہب کی تعلیمات کو بھول گئے، جب اس عورت سے وہ سوال پوچھے جانے چاہیے تھے، جن کی وہ حقدار تھی۔ افغانستان کا وہ معاشرہ جس نے یہ حرکت کی ہے، غیر اسلامی ہے، غیر تہذیبی ہے اور اسے صدیوں کا سفر طے کرنا ہے ان بنیادی انسانی آزادیوں پر مبنی معاشرت اختیار کرنے میں جسے انسانوں کے رہنے لائق قرار دیا جا سکے، مگر ظاہر ہے کہ یہ سب فی الحال ناممکنات میں سے ہے۔

 

بات رخسانہ کی ہورہی ہے، اس کی تکلیفیں اب نروان پا چکی ہیں، مگر پھر بھی کچھ سوالات ذہن میں آتے ہیں۔ ہم سب کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ سزاوں کے معاملے میں کسی بھی ملک کو گردن ماردینے، پتھروں سے جسم ادھیڑ دینے، گولی ماردینے یا پھانسی پر لٹکادینے جیسی بھیانک باتوں کی مخالفت کرنی چاہیے۔ یہ مخالفت اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ انسان کا کوئی بھی جرم ، ثابت ہونے کے بعد مجرم کو اپنے جرم کی سخت گیری، گندگی اور غلاظت کا بھرپور جائزہ کروانے کی ضرورت ہے، قتل کردینے والے کو ماردینا، ایک دوسرے قتل کی واردات کا منطقی نتیجہ تو ہوسکتا ہے، مگر اس سے دنیا کو کچھ نہیں ملے گا، دنیا بدلے گی تو اپنا کردار بدلنے سے، اسے دیکھنا ہوگا، اسے فیصلہ کرنا ہوگا، خاص طور پر ایشیائی ممالک کو، خواہ وہ کسی مذہب، کسی دھرم، کسی پالیسی یا نظریے سے وابستہ ہوں، کہ آخر جرم کے کوڑھ کو دور کرنے کا صحیح راستہ کیا ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں، ہم ہتھیاروں کے سایے میں اور قتل گاہوں میں سجی ہوئی قبروں پر بیٹھے ہوئے لوگ ہیں، اس لیے اس بارے میں ہماری سوچ ہی شاید کچھ نئی بات پیدا کرسکے۔ ہمیں اس معاملے میں دو باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اول تو یہ کہ جرم کیا ہے، اور دوسرے یہ کہ جرم اگر ہے، تو کتنا سنگین ہے، ان دو باتوں کے بعد ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ایک شخص اپنی شادی سے ناخوش ہوکر کسی دوسرے فرد کے ساتھ بستر میں پایا گیا ہے، تو یہ کسی کے نفسیاتی نقصان کا باعث ضرور ہے، اس نفسیاتی نقصان کی تلافی کے راستے ہمیں ڈھونڈنے ہوں گے۔ ہمیں معلوم کرنا ہوگا، جاننا ہوگا کہ آخر ہم وہ راستے کس طرح پیدا کریں کہ اس طرح کے حادثے، اس طرح کے نفسیاتی نقصانات پیدا ہی نہ ہوسکیں، لیکن اگر ایسا کوئی نفسیاتی نقصان ہوتا بھی ہے، خواہ وہ دنیا میں کتنے ہی بارسوخ شخص کا کیوں نہ ہو، اس کا بدلہ کوئی بھی انسانی جان نہیں ہوسکتی۔ شادی میں دیے گئے دھوکے کے بدلے، کسی انسان کو زمین میں آدھا گاڑکر اس پر پتھر نہیں برسائے جاسکتے، اسے جانوروں کی طرح کھونٹے سے باندھ کر اسی یا سو کوڑوں کی سزا نہیں سنائی جاسکتی، اور جب تک یہ ہوتا رہے گا، گناہوں کا عمل لحاف کے اندر جاری رہے گا، ایک ایسا عمل، جس کا پول جب کھلے گا، تب اسی قسم کی کسی سزا کی خبر سے دنیا کی ننگی آنکھیں، جلتی ہوئی تصویروں پر چلنے کے لیےمجبور ہوجائیں گی۔ لوگوں کو اس معاملے میں تعلیم یافتہ کرنے کی ضرورت ہے، اول تو ایسا کوئی رشتہ بننا ہی نہیں چاہیے، جس میں دو لوگوں کی آپسی رضامندی شامل نہیں ہے، چاہے وہ رشتہ کسی بھی شخص کے لیے کس قدر مادی، سیاسی یا سماجی فائدے کا باعث کیوں نہ ہو۔ ہمیں لڑکے اور لڑکیوں کے اس نفسیاتی معاملے پر کھل کر بات کرنی ہوگی، جس سے ان کے جنسی معاملات وابستہ ہیں، کسی بھوکے کے ساتھ بستر میں خوش رہنے والا بدن، ضروری نہیں کہ کسی رئیس کے ساتھ نان اور قورمہ کھاتے وقت بھی اتنی ہی مسرت محسوس کرے گا، کسی آزاد خیال مرد کے دماغ کا سرا کسی کندذہن یا سخت قسم کی مذہبی عورت کے ہاتھ میں نہیں دیا جاسکتا۔ یہ سارے معاملات وہ ہیں، جن پر ہمارے غریب وامیر طبقے کے ماں باپ کو سوچنے کی ضرورت ہے، جن پر پنچائتوں کو غور کرنا چاہیے، جن پر حکومتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔

 

لیکن ظاہر ہے کہ ہم سیاسی طور پر اتنے رندھے، گندھے قسم کے لوگ ہیں، کہ اپنی بے وقوفیوں سے باز نہیں آتے۔ صدیوں سے استعمال ہوتے آرہے ہیں، مگر مذہبی، سیاسی لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے عذاب سے چھٹکارا نہیں حاصل کرتے۔ ہمیں اوچھے، بیکار قسم کے مسائل سے باہر آکر ، اکھٹے ہوکر کہنا پڑے گا کہ ہم بھوک سے لڑنے والے لوگ ہیں، جنسی عدم تسکین سے لڑنے والے لوگ ہیں، ہمارے ہاتھوں کے کٹوروں میں فرقہ پرستی، اقربا پروری، قوم پرستی اور ایسے دوسرے ٹکڑے مت ڈالو، ہمیں زندہ رہنا ہے، ہمیں چاہیے کہ جو حکومتیں ہمارا پیٹ نہیں بھرسکتیں، جو ہمیں پانچ سال جیسے بڑے عرصے میں ترقی کی ایک ہلکی سی کروٹ نہیں دکھاسکتیں، ان کی مخالفت کریں۔ اس مخالفت کے بدلے میں ہم جتنی بھی مار سہیں، جتنی بھی پریشانی اٹھائیں، ظاہر ہے کہ وہ رخسانہ اور فرخندہ جیسی لڑکیوں سے کہیں کم ہوگی، جنہیں اپنی زندگی کو اپنی ایک بہت چھوٹی سی شرط پر گزارنے کے بدلے میں ایذادے دے کر ماردیا گیا ہے۔ ہم لوگ اگر ان اموات سے بھی نہیں جاگتے ہیں، تو پھر ہم کتنی اور موتیں دیکھنے کا انتظار کررہے ہیں؟ کیا ہم اب جنگ، نفرت اور غریبی کو مٹانے کے لیے وہ قربانیاں نہیں دے سکتے، جو کبھی ہم نے اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لیے دی تھیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی نفرت بھی ختم ہونی چاہیے، یہ دونوں ممالک بالآخر ایک ہی خمیر رکھنے والے ملک ہیں، ان کے عوام کی سوچ میں فرق نہیں ہے، ان کے رہنے سہنے، کھانے پینے، ہنسنے بولنے کے طور طریقوں میں فرق نہیں ہے، میں ایک بھری پری ہندو آبادی والے ملک میں رہتا ہوں، میرے بہت سے ہندو دوست ہیں، اگر آپ کو کوئی مُلایہ سکھاتا ہے، کوئی کتاب یہ بتاتی ہے کہ ہندو قوم نفرت کرنے کے لائق ہے، تو یقین جانیے وہ جھوٹی ہے۔ آپ نے کبھی ہندو دوست بنائے ہیں، کبھی ان کے ساتھ راتیں گزاری ہیں؟ یہ زندگیوں کے حمام میں ہماری طرح خاکی کھالیں لپیٹے ہوئے وہ لوگ ہیں، جو اتنے ہی سچے اور اتنے ہی جھوٹے ہیں، جتنے مسلمان یا کسی بھی اور مذہب کو ماننے والے ہو سکتے ہیں۔ اس سیاست کواب ختم ہونا چاہیے جو اتنے برسوں سے ہمارا اور آپ کا استعمال کرکے خود اپنے ہاتھوں پر چاندی کے غلاف چڑھائے ہوئے ہے، اور ہمیں جنگ، خون اور ٹوٹی پھٹی آنتوں میں لپٹے ہوئے خواب دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ مذہب انسان کی بنیادی شناخت ہوسکتا ہے، اس کی زندگی کا آخری حوالہ نہیں۔ اس لیے آگے بڑھیے، اپنے آگے کھنچی ہوئی اس ریکھا کو پار کیجیے جو کسی لکشمن نے نہیں بلکہ خود راون نے کھینچی ہے۔ جو آپ کو کبھی زندگی کے اس رخ تک پہنچنے ہی نہیں دینا چاہتا، جہاں ترقی میں ڈوبے ہوئے، ہنستے کھلکھلاتے، سچے اور جنت نما نظارے موجودہیں، جن کو جنت کے کسی وعدے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ انہوں نے اپنی جنت خود بنائی ہے، یہ دھرتی، یہ سرزمین بہت پیاری ہے، مگر اس کے پتھر ہم سے ناراض ہیں، آپ خدا کو خوش کیجیے نہ کیجیے، صنم کو خوش رکھیے نہ رکھیے، مگر پتھروں کو ناراض نہ کیجیے، یہ ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *