حلقہ اربابِ ذوق، کراچی کی خصوصی ہفتہ وار نشست19ستمبر2017 کو کانفرس روم، ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکیشنز، پاکستان سیکریٹیریٹ میں منعقد ہوئی۔’’پاکستانی ادب کے ستر سال ‘‘ کے نام سے معنون اس تقریب کی صدارت معروف افسانہ نگار زاہدہ حنا صاحبہ نے کی۔ اجلاس کے آغاز میں انہوں نے ایک قراردا د پیش کی کہ آج کے اجلاس کو پنجابی کے مشہور ناول نگار افضل احسن رندھاوا کے نام کیا جاتا ہے،تمام حاضرین نے قرارداد کی تائید کی۔صدر محفل کی اجازت سے سید کاشف رضا نے اپنا مضمون ’’قومی زبانوں کا ادب ‘‘ پیش کیا۔انہوں نے بتایا کہ اردو کی بنسبت پاکستان میں دیگر زبانوں کے ادیبوں کی عوام اور جمہوریت سے کمٹمنٹ زیادہ نظر آتی ہے۔اگر ہم صرف آج انتقال کرجانے والے معروف پنجابی ناول نگار افضل احسن رندھاوا کی مثال سامنے رکھیں تو انہوں نے ادب کی تخلیق کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی حصہ لیا۔کاشف رضا نے افضل احسن رندھاوا کی طرف سے مارکیز کے ایک ناول کے پنجابی ترجمے کا اقتباس پیش کیا اور ان کی پنجابی شاعری کے اشعار بھی سنائے۔کاشف رضا نے بات بڑھاتے ہوئے بتایا کہ پنجابی میں نجم حسین سید، منیر نیازی اور احمد راہی نے بھی بہترین تخلیقات پیش کیں۔ سندھی زبان کے ادیبوں نے عوام کے حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد کی، شیخ ایاز نے مختلف اصناف میں نام پیدا کیا۔ پشتو ادب میں ولی خان، عبداللہ جان جمالدینی اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ انہوں بتایا کہ ہندکو اور بلتی زبان کا ادب ہمارے سامنے نہ آسکا جبکہ کتنی ہی ایسی زبانیں ملک میں موجود ہیں جن کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں ہیں۔
سید کاشف رضا کے مضمون پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فاطمہ حسن نے کہا کہ اردو کے ادیبوں نے بھی بہت قربانیاں دی ہیں،ضروری نہیں کہ اردو ادیب اسے ہی کہا جائے جس کے والدین اردو بولتے ہوں،مشتاق احمد یوسفی، فیض، اقبال اور ن م راشد اس کی بڑی مثالیں ہیں۔زاہدہ حنا نے کہا کہ پاکستان میں موجود تمام زبانیں قومی زبانیں ہیں،ہم زبانوں سے نفرت نہیں کرسکتے اور ان کو رد نہیں کرسکتے۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ ہم نے بنگلہ کے ساتھ کیا کیا؟اورہمیں اُ س کی بھاری قیمت اداکرنا پڑی۔
فاطمہ حسن نے اپنا مضمون ’’پاکستان کی ستر سالہ تاریخ اور خواتین قلمکار۔۔۔۔ایک جائزہ ‘‘ پیش کیا۔انہوں نے مضمون میں وضاحت کی کہ بیسویں صدی ادب کے حوالے سے خواتین کی شناخت کی صدی ہے، پاکستان بننے کے بعد خواتین کو لکھنے کے لئے بہت سازگار ماحول ملا،انہوں نے قرۃ العین حیدر، زاہدہ حنا، خالدہ حسین،ادا جعفری، زہرا نگار،فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، پروین شاکر،ممتاز شیریں اور دیگر متعدد قلمکاروں کے ادبی کا کارناموں کا مختصراً اور جامع طور پر ذکر کیا۔انہوں نے بتایا کہ خواتین نے ستر سالوں میں ادب کی مختلف اصناف افسانہ نگاری، ناول نگاری، شاعر ی اور سفرناموں تک میں اپنا ایک منفر د نام پید اکیا۔مضمون پر گفتگو کاآغاز کرتے ہوئے عقیل عباس جعفری نے ایک سوال اٹھایا کہ ہم پاپولر ادب لکھنے والی خواتین کو کس درجے میں رکھیں گے؟ فاطمہ حسن نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاپولر ادب دنیا بھر کے ادب میں موجود ہے، لکھنے والے پاپولر ادب سے بھی سیکھتے ہیں۔فاطمہ حسن نے کہا کہ وہ پاپولر ادب کو ادب عالیہ نہیں سمجھتی اس لئے انہوں ان خواتین ادیبوں کا ذکر اپنےمضمون میں نہیں کیا۔کاشف رضا نے کہا کہ کچھ ادیب خواتین کے ماہر بنے پھرتے ہیں،خواتین کو اپنے مسائل اٹھانے کےلئے خود آگے بڑھنا چاہئے۔فاطمہ حسن کا کہنا تھا کہ مرد ادیب بھی نسائی شعور کے ساتھ ادب تخلیق کررہے ہیں۔
محترم آصف فرخی نے اپنی گفتگو کا آغار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اردو ناول نگاری کی موجودہ اور پچھلی دودہائیوں کی صورتحال پر اظہار خیال کریں گے۔ انہوں نے افضل احسن رندھاوا کو ادبی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ افضل رندھاوا نے عالمی ادب کو مقامی ادب میں ٹرانسفارم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ناول کم لکھے گئے اور ناول پر تنقید اُس سے بھی کم لکھی گئی۔اہم ناول نگار نثار عزیز بٹ کے تخلیقی عمل کا نہایت کم جائزہ لیا گیا،انتظار حسین کے ناول بستی پر اعتراض کیا گیا کہ یہ ناول ہی نہیں ہے۔حسن منظر نے افسانہ نگاری سے اپنے ادبی زندگی کا آغاز کیا، سویرا کے ایک شمارے میں منٹو کے ساتھ ان کا افسانہ بھی شائع ہوا۔العاصفہ، دھنی بخش کے بیٹے اور حال ہی میں شائع ہونے والا ناول حبس ان کے بہترین ناول کہے جاسکتے ہیں۔اکرام اللہ ایک منفرد ناول نگار ہیں ان کے ناول گرگ شب پر پابندی لگادی گئی۔ ’’آنکھ اوجھل ‘‘ میں پہلی مرتبہ بھرپور انداز میں نفر ت کے موضوع کو بیان کیا گیا۔مصطفیٰ کریم کا ناول ’’راستہ بند ہے‘‘ ملک کے تین بڑے اداروں کے آپسی گٹھ جوڑ اور اس کے ذریعے عوام کے استحصال کو بخوبی اجاگر کرتا ہے۔موجودہ دور کا ذکر کرتے ہوئے آصف فرخی نے کہا کہ رفاقت حیات نے اپنے ناول ’’میرواہ کی راتیں ‘‘ میں چھوٹے شہر کی اکتاہٹ کو عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے۔ مرزا اطہر بیگ اپنے قارئین سے سخت مطالبہ کرتے ہیں۔اس کے بعد زاہدہ حنا نے خواتین افسانہ نگاروں کے متعلق اپنا مضمون پیش کیا۔ انہوں اپنے مضمون میں مختلف خواتین افسانہ نگاروں کے معروف افسانوں کا ذکر کرتے ہوئے معاشرے اور عوام پر اس کے اثرات کاجائزہ لیا، انہوں نے بتایا کہ افسانہ نگاروں نے اپنی زبردست تخلیقی صلاحیتوں سے عوامی شعور کی آبیاری کی اور آمریت کے دور میں اہم کردار ادا کیا۔زاہد حنا نے اپنے مضمون کے بعد خصوصی اجلاس کے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نشست کے خاتمے کا اعلان کیا۔