منصور نے کیمرے کو اٹھایا۔ اس کے چہرے کو الکوحل سے صاف کرکے اس کے لینزکو چھوٹی سی مخملی رومال سے صاف کیا ۔جیسےوہ اپنی آنکھوں پرپانی کے چھینٹے ما کر صبح سویرے کام پر جانے سے پہلے صابن لگا کر صاف کیا کرتا ہے۔ منصور کیمرے کو گھورتے ہوئے بولا شکر ہے تمہارے دانت نہیں تھے۔ ورنہ خواہ مخواہ ٹو تھ پیسٹ کا خرچ بھی اٹھانا پڑتا۔ اوپر سے سالا بناہوا بھی جرمنی کاہے۔ ولایتی ٹوتھ پیسٹ کا خرچہ۔ میرا کیا ہے۔ غسل خانے میں ٹوتھ پیسٹ نہیں ہے تو کویلے سے کام چلا لیا۔ شیمپو نہیں ہے تو صابن سے۔ لیکن اس سالے کے نخرے ہی بہت زیادہ ہیں۔
ویسے مجھ میں اور اس میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ یہ بھی رپورٹ کرتاہے اور میں بھی۔ لیکن ایک فرق ہے۔ یہ جھوٹ نہیں بولتا اور میں ۔۔۔۔۔
ویسے مجھ میں اور اس میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ یہ بھی رپورٹ کرتاہے اور میں بھی۔ لیکن ایک فرق ہے۔ یہ جھوٹ نہیں بولتا اور میں ۔۔۔۔۔
کیمرے کو ریکسین کے ڈبے میں بند کیا اور سٹینڈ کو دوہرا کر کے بیگ میں رکھنے لگا تو ایک اور خیال آیا، ایک اور فرق بھی ہے ۔ اس کی تین ٹانگیں ہیں اور میری دوکی لمبائی برابر اورتیسری۔۔۔
منصور لاہور میں پریس رپورٹر ہے۔فری لانس کام کے لیے اس کی پہچان سب اخباروں سے ہے۔ بعض اوقات اتنا کام ہوتا ہے کچھ کام اسے بادل ناخواستہ بانٹنا پڑتا ہے۔ کام بانٹنے کا مطلب ہے کہ پیسے بھی بانٹو۔ اس لیے پوری کوشش کرتاہے رپورٹنگ بھی کرے اور کچھ تصویریں بھی اتارے۔ خبر بھی بنا لے۔ اور کبھی کبھی لکھ لے۔ بھاری لفافے کی اُمید میں کالم بھی لکھ لیتاہے۔ لیکن آج اسے ایک فرانسیسی کھانے کے تبصرہ نگار کے ساتھ کام کرناتھا جو ایک برقی رسالے کے لیے فرانسیسی زبان میں مضمون لکھ رہا تھا۔ اور یہ دنیا کے مشہور کھانے پر تبصرہ کرنے والا اہم نام تھا۔ فرانسواں سائمن۔ منصور دل میں بڑا بڑا یا کاش وہ ہوتاہے تو مہینے کا خرچہ نکل جاتا لیکن شاید یہ بھی اچھی تنخواہ دے رہا ہو۔ اس لیے اس نے ناشتہ ذرا ہلکا کیا کیونکہ ہوسکتاہے ناشتہ کی آفر پرل کانٹی نینٹل کے بوفے کی مل جائے۔
منصور لاہور میں پریس رپورٹر ہے۔فری لانس کام کے لیے اس کی پہچان سب اخباروں سے ہے۔ بعض اوقات اتنا کام ہوتا ہے کچھ کام اسے بادل ناخواستہ بانٹنا پڑتا ہے۔ کام بانٹنے کا مطلب ہے کہ پیسے بھی بانٹو۔ اس لیے پوری کوشش کرتاہے رپورٹنگ بھی کرے اور کچھ تصویریں بھی اتارے۔ خبر بھی بنا لے۔ اور کبھی کبھی لکھ لے۔ بھاری لفافے کی اُمید میں کالم بھی لکھ لیتاہے۔ لیکن آج اسے ایک فرانسیسی کھانے کے تبصرہ نگار کے ساتھ کام کرناتھا جو ایک برقی رسالے کے لیے فرانسیسی زبان میں مضمون لکھ رہا تھا۔ اور یہ دنیا کے مشہور کھانے پر تبصرہ کرنے والا اہم نام تھا۔ فرانسواں سائمن۔ منصور دل میں بڑا بڑا یا کاش وہ ہوتاہے تو مہینے کا خرچہ نکل جاتا لیکن شاید یہ بھی اچھی تنخواہ دے رہا ہو۔ اس لیے اس نے ناشتہ ذرا ہلکا کیا کیونکہ ہوسکتاہے ناشتہ کی آفر پرل کانٹی نینٹل کے بوفے کی مل جائے۔
چرسی گھسیٹےکے چکڑچھولوں سے بھرے ہوے پیٹ میں، میز کرسی چھری کانٹے کے سیٹ اور پرل کانٹی نیٹل میں کانٹی نینٹل بریک فاسٹ سٹابری جام کے ساتھ کی گنجائش کہاں بچے گی۔ لہٰذا اپنی پھٹ پھٹی کو وقت سے دو گھنٹے پہلے ہی ایسی ٹانگ رسید کی وہ فراٹے بھرتی ہوئی اپنی منزل کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔ اسے راستے سے فرنچ کلچر سنٹر سے نوید کو بھی لینا تھا۔ جس نے ٹرانسلیٹر کا کام کرناتھا۔ فرنٹ ڈیسک سے مسٹر فرانسواں سائمن کو کال کیا اور اپنے کھڑے ہونے کی جگہ عین کانٹی نینٹل بوفے کے سامنے بتائی کہ قطاروں میں سجے ہوئے ناشتے کے ڈونگے مسٹر فرانسواں کو جکڑ لیں اور ناشتہ وہیں کرنے پر مجبور کر دیں۔ جیسے ہی وہ نیچے پہنچا دونوں نے ہاتھ ملایا تو منصور نے ناشتے کے بوفے کی جانب اشارہ کیا ،سراس طرف ۔ مسٹر فرانسواں کی نظر ناشتے پر پڑی تو انہوں نے اس خیال کو رد کرتے ہوئے آگے بڑھے اور فرانسیسی زبان میں بولے کہ آج ہم دلی گیٹ پر دہلی کی مشہورنہاری سے ناشتہ کریں گے۔ کیونکہ میں لاہور میں صرف اور صرف اس خاص قسم کے پکوان کے لیے آیا ہوں اور مجھے فوڈ ڈاٹ کام کے لیے لکھناہے۔ منصور کی ولایتی ناشتے کی اُمیدوں پر ٹھنڈا پانی پڑگیا۔ سالا اتنا خرچہ کرکے کھائے گا بھی تو وہ بھی دلی دروازے کی نہاری۔ یہ سالا نہاری کھائے گا اور مکھیاں اسے۔ تینوں کرائے کی بڑی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ نوید ترجمہ نگار اور مسٹر فرانسواں پچھلی سیٹ پر اور اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر منصور بیٹھاتھا۔ گاڑی کے ڈیش بورڈ پر کیمرہ رکھا تھا۔
منصور متواتر بولے جارہاتھا جیسے کیمرے کو زبان لگ گئی ہو۔ کیمرے کے سامنے جو جو چیز آتی منصور بولے جاتا اور نوید اس کاترجمہ کرتا۔ حتیٰ کہ گاڑی کے آگے سے کوئی سائیکل یا رکشا والا کاٹنے کی کوشش کرتا تو وہ بھی ترجمے کے ساتھ مسٹر فرانسواں کو پہنچ جاتی۔ یہ قافلہ مال روڈ سے ہوتاہوا الحمرا آرٹ کونسل کو پیچھے چھوڑتا الفلاح اور ریگل چوک سے براستہ داتا دربار دلی دروازےکے قریب جا پہنچا۔ ڈرائیور نے دلی دروازہ کے قریب پہنچ کر بتایا کہ مناسب ہوگاکہ آپ لوگ ذرا پیدل ہی دلی دروازے پہنچ جائیں کیونکہ اتنی بھیڑ میں دروازے تک چار پیہوں کے ساتھ پہنچنا بہت مشکل ہوگا۔ دروازے سے باہر دکاندار وں نے دکانوں کے باہر کپڑے کے شامیانے ٹا نگے ہوئے تھے۔بہت سارے دوکانداروں نے تو لکڑی کے طاقوں کے چھجے رکھے ہوے تھے۔ سونے تاروں کے طلے والی جوتیاں جو دکان کے اندر سے شروع ہوتی تو لگتا تھا جیسے دلی دروازے کے اندر تک بھاگ جائیں گی۔ کئی دکانوں پر دھوپ کے چشمے قرینے سے سجے تھے۔ کسی عینک کی دکان پرتو دکاندار خود ہی آنکھوں کاڈاکٹربنا کمزور نظر والے، بوڑھوں کو موٹے شیشے والی، عینکیں پہناتا اور اتارتا۔ سامنے دوکاندارکے اندر کچھ فٹ کے فاصلے پر اے بی سی ڈی کے الفاظ پوچھتا۔ اگر الفاظ صاف نظر آتے۔ عینک کے پسندیدہ فریم میں شیشے جڑکے بیچ دیتا۔
کہیں زمین پر بیٹھا ہوا موچی اپنے لوہے کے دو لیٹی ٹانگوں والے کلبوت پر جو تاچڑھائے لوہے کے ہتھوڑے سے جوتے کے تلوے کوپیٹ کر نرم کر رہا تھا۔ کہیں زنگ زدہ تالوں میں تیل ڈال کر چابی گھما گھما کر دیکھ رہاتھا تاکہ آرام سے بھی کھلتا اور بند ہوتا ہے یا نہیں۔
صبح کا وقت تھا دکاندار اپنے سامان تجارت کو سجانے اور دکان سے باہر پانی کے چھڑکاؤ کرنے میں مصروف تھے۔
تمام بھیڑکو چیرتا ہوا یہ کھانے کی تنقید والا قافلہ دلی نہاری والے کی دوکان کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ دوکان پر پہنچے تو کافی بھیڑسے لگتا تھا۔ جیسے لوگ سوتے ہی نہیں، نہاری کھانے کے انتظار میں۔ جب دلی نہاری والے نے سفید فام کو دیکھا تو اس نے بڑی آو بھگت کی۔ اس نے منصور سے پوچھا کہ ہماری نہاری میں نمک مرچ ذرا تیز ہوتی ہے۔ یہ انگریز اسے برداشت کرلیں گے۔ اگر نہیں تومرچی کی تیزی کو دور کرنے کے لیے میں دیسی گھی کا تڑکہ لگادیتاہوں اور اس لیے ایک رکابی منصور کو تھماتے ہوئے کہاکہ سامنے گھی والی دکان سے اپنی منشا کے مطابق دیسی گھی لے آو۔ دکان کے شروع میں نہاری کی دیگ کے سامنے رکابیوں کی قطار لگی تھی۔ اشارہ سے بتایا کہ گھی والی رکابی اس قطار میں رکھ دینا۔ حیران کن بات یہ تھی دلی نہاری والے کو ہرکابی کی پہچان تھی کہ کون سی رکابی کس گاہگ کی ہے، حالانکہ سب رکابیاں سلور کی ایک جیسی ہی تھیں۔
جب منصور نے بتایاکہ یہ خاص فرانس سے آئے ہیں اور نہاری پر اپنے رسالے میں لکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے دیگ سے اُٹھ کر اپنے بیٹے کو دیگ پر بٹھا دیا اور خود تینوں کے ساتھ دکان کے اندر چلے گئے بیخ ٹیڑھی لکڑی کے تختےمیں چار ٹھکے ہوئے ڈنڈوں سے بنے ہوئے تھے۔میز بھی و یسے ہی بنے ہوئے تھی۔ لیکن ٹانگیں اونچی اور پھٹے چوڑے تھے۔ زور سے آواز دے کر چھوٹے کام کرنے والے لڑکے کو ڈالا گھی کے ڈبے کو لگے ہوئے ہینڈل سے بنے جگ کو تھماتے ہوے کہا۔ برف والا پانی بھر کے لاؤ۔ ان بنچوں کے پیچھے ایک تندور لگاتھا جہاں سے گرما گرم تازہ نان سیدھے تندور سے بنچوں پے پڑی چھابڑیوں میں آتے تھے۔ مسٹر فرانسواں کو یہ سب چیزیں ایک دلچسپ مہم لگ رہی تھی ۔ لیکن منصور اور نوید سارے ماحول سے منہ بنا رہے تھے۔ فرانسیسی نقاد کے لیے یہ چیزیں بالکل اچھوتی تھیں اور لطف اندوز ہو رہا تھا۔
میز پر تین مٹی کی انگیٹھیاں رکھ دی گئی تھیں۔ جس میں لکڑی کے دہکتے ہوے کوئلے تھے۔ اس کے اوپر تین بڑے سلور کے کٹورے جس میں نہاری کے سالن کی اوپر والی سطح پر دیسی گرم گھی تیرتا ہوا تیز خوشبو چھوڑ رہا تھا جوتینوں کی بھوک اُجاگر کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہو رہاتھا۔ فرانسیسی نقاد سے رہا نہ گیا اور بے تابی سے چھری اور کانٹے کے لیے نوید سے اشارتاً پوچھنے لگا تو دلی نہاری والا نے سمجھاتے ہوئے کہاکہ جناب یہ مسلمانوں کی من بھاتا ڈش ہے اور یہ سنت رسول ؐ ہے کھانا، ہاتھ سے کھایاجائے ،فرانسیسی نقاد انتظار کرنے لگا کہ وہ نوید اور منصور کی نقل کرے گا۔ جیسے وہ نان کے نوالے کو چمچہ بنا کر پوری کوشش کرتے نوالے کے اگلے حصے کو پوری مقدار سے نہاری کے شوربہ سے بھر لیا جائے اور پچھلے حصے کو مضبوطی سے بھیچا جائے تاکہ پچھلے حصے سے نہاری نکل نہ جائے۔
جب دلی نہاری والے نے سب کو کھانے پہ ٹوٹتے دیکھا تو منصور سے بولے صاحب آپ لیموں ہری مرچیں اور ہرا دھنیا تو بھول ہی گئے۔ ذرا نہاری پر ان کا چھڑکاؤ کرو گے تو آپ ہر روز یہاں ناشتہ تناول فرما ئیں گے۔ جیسے ہی نوالہ، منصور اور نوید کے منہ میں پہنچا تو دونوں کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
واہ صاحب لاہور میں ایسی نہاری کوئی نہیں بناتا۔ نوید ساتھ ساتھ ترجمہ کرکے فرانسیسی نقاد کو بتاتا کہ ہمارا خیال ہے ایسی نہاری کوئی اور لاہور میں نہیں بناتا۔ دلی نہاری والا فوراً کاٹتے ہوئے بولا۔ صاحب ہم یقین سے کہتے ہیں کہ لاہورمیں صرف نہیں پوری دنیا میں ایسی نہاری آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ ہمارا مقابلہ دلی میں بھی کوئی نہیں کرسکتاتھا۔ دلی میں ہماری دکان لاہوری دروازے پر بھی۔ جن کا رخ لاہور کی طرف تھا۔ اور اب لاہور میں دلی دروازے کا رخ دلی کی طرف ہے، ارے صاحب ہم تو ہندوستان میں مسلمانوں کا یہ کھانا ہندوؤں کو کھلاتے تھے اور وہ اپنا مذہب بدل کے مسلمان ہوجاتے تھے۔ اجی صاحب ہم نے ہندوؤں میں رہ کر اسلام کی خدمت کی ہے۔ یہاں پر تو مسلمان ہی اپنے مذہب سے غافل ہیں۔ جو اندر سے مذہب اسلام سے اتر گیا وہ اپنی زندگی سے گیا اسے جینے کا کوئی حق نہیں۔
فرانسیسی نقاد نے پوچھا کیا وجہ ہے۔ ان کی نہاری دوسروں سے مختلف کیوں اور ذائقے میں اتنی لذیذ کیوں ہے۔
دلی نہاری والے نے ہاتھ اوپر اٹھا کر کہا جناب یہ سب اوپروالے کی مہربانی ہے۔ میں اللہ و باری تعالیٰ کو دل سے چاہتا ہوں۔
وہ میری ان انگلیوں میں ایسی برکت ڈالتا ہے۔ ہر کھانے والے کے منہ سے اس دل تک اللہ باری تعالیٰ کا پاک پیغام پہنچ جاتاہے۔ دکان کے قریب والی مسجد سے مولوی نے عین اسی وقت بے وقت کی تقریر کرنی شروع کر دی۔ ۔ “اور تم نے نہیں دیکھا کہ مغرب والے نے اپنے عقائد کو ہم پر مسلط کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے پالیٹکس اور معاشی وسائل پر اپنا قبضہ جما کر اپنے مذاہب کو ہم پر مسلط کرنا شروع کردیا۔ ہم کو اکٹھا ہونا ہے اور اسلام کی سیاسی طاقت ہی خداکی اطاعت ہے۔”
سب نے مولانا کی تقریر کو نظر انداز کر دیا۔ نوید اور منصور چپ ہی رہے اور دلی نہاری والے سے بولے مسٹر فرانسواں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔ جسے نہاری والے نے بڑے فخر سے جواب دینا شروع کیا ۔
“صاحب یہ نہاری بادشاہوں کاکھاناہے۔ جب مغل بادشاہ یہ کھانا صبح ناشتے میں کھاکے دوپہر تک سوتے تھے۔
مزدوروں کو بھی نصیب ہوتا تھا۔ ان کو تب یہ بادشاہ لوگ نہاری کھلاتے تھے وہ ان سے فری کام کروانا ہوتا تھا۔ جو غریب لوگ بخوشی بلامعاوضہ ان کے محلوں کی تعمیر میں اپنا خون پسینہ شامل کر دیتے تھے۔ صرف اس نہاری کی بدولت۔” پھر اس نے نہاری کے مصالحوں کے بارے میں کافی لمبی چوڑی باتیں بتلائیں۔ اس کے مصالحہ میں خود باہر سے جا کر خرید کر خود پیستا ہوں۔ دیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ یہ دیگ ساری رات کوئلے کی آگ پر چڑھی رہتی ہے۔ صبح سحری کے وقت تیار ہوتی ہے۔
مسٹر فرانسواں نے جب پوچھاکہ میں نے سناہے۔ تمہاری نہاری باقی نہاری بنانے والوں سے مختلف اور بہت ہی لذیذ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے جب کہ ترکیب استعمال تووہی ہے۔ دلی نہاری والے نے بڑے فخر سے جواب صاحب یہ ہمارا خاندانی پیشہ ہے۔ میری آباو اجداد مغلوں ،شہنشاہوں کے شاہی خانسامےتھے اور خاص ترکیب نسخہ ہمارے پرکھوں سے چلا آرہا ہے۔ سب سے ضروری بات ہے۔ اس میں جو گوشت پڑتا ہے۔ وہ میں خود بہت احتیاط سے دیکھ بھال کر کے ڈالتا ہوں۔ جو اس پکوان کو لذیذ بنا دیتا ہے۔ میں خود اپنے ہاتھوں سے جانوروں کو حلال کرتاہوں۔ جو انسان اپنے مذہب سے غافل ہوتاہے۔ وہ بھی تو انسان کہاں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اس دنیا میں اس کی خدمت کریں اور آخرت میں اس کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔ “منصور کے ساتھ پڑے ہوئے کیمرہ جو باری باری مسٹر فرانسواں کے سوال اور دلی نہاری والے کے جواب ریکارڈ کررہا تھا۔ اس کے ماتھے پر کچھ بل پڑے، کیمرے نے سوالوں جوابوں کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ دلی نہاری والے کے چہرے کے تاثرات کچھ کیمرے کی سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔ منصورنے کیمرے کو غور سے دیکھا تو دل میں شکر کیا۔ شکر ہے تمہارا منہ نہیں ہے ورنہ اپنے نہاری کا حصہ تمہیں بھی کھلانا پڑتا۔ لیکن کیمرہ کا لینز کسی اور خاص جگہ پر فوکس ہوا تھا۔ وہ دیکھ رہاتھا دیوار میں سے ایک کن کھجورا اپنی بے شمار ٹانگوں کے ساتھ بل کھاتا نکل رہا تھا۔ اور پھر اپنے سوراخ میں گھس گیا۔ سب نے پیٹ بھر کے نہاری کو اپنے پیٹ کی دیگ میں ٹھونسا کہ بس دلی نہاری والے کی بات پر یقین آنے لگا کہ یہ شہنشاہوں کا کھانا ہے۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ دوپہر تک سوتے تھے۔ لیکن یہ مغرب سے آئے ہوئے سفید چرم والے لوگوں پر اس کااثر نہیں ہوتا تھا۔ اپنا کام ختم کرنے کے بعد مسٹر فرانسواں دوسرے نہاری والوں سے موازنہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن منصور کی بات اسے دل کو بھائی کہ صاحب، زبان کاتعلق بالواسطہ معدہ سے ہے۔ اگر معدہ میں مزید کھانے کی گنجائش نہ ہو تویہ زبان جو کھانے کے بارے میں معلومات دماغ سے پیٹ کو بھیجتی ہے اس میں انیس بیس کا فرق آپ کے تجربات کو مناسب ثبوت فراہم نہ کرسکے گا۔ لہٰذا کل دوسری جگہوں کامعائنہ کر لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ مشورہ دیاکہ نہاری کی طرح یہاں دوسرے کھانوں کاذائقہ چکھ لینا بہت ضروری ہے۔ مثلاً چوبرجی پر بھنا ہوا گوشت،ناچ گھروں میں گھرا ہوا سری پائے کاذائقہ یا گوال منڈی کا ہریسہ اور تلی ہوئی مچھلی کا جواب نہیں۔ مسٹر فرانسواں نے مزید کھانوں کے تجربات سے منع کردیا کیونکہ انہیں صرف اور صرف نہاری ہی پر لکھنا تھا۔ اور یہ کہہ کر ان کی نوکری کاآخری دن کا اعلان کر دیا کہ باقی نہاری والوں کو اس نے صرف ذائقہ کرناہے تو وہ خود ہی کر لیں گے۔ اور دونوں کا حساب چکتا کیا اور اپنے ہوٹل کی راہ لی۔
ایک ہی دن گزرا تھا۔ مسٹر فرانسواں کی گم شدگی کی خبر سب چھوٹے بڑے اخباروں کے ماتھے کو جگمگا رہی تھی۔ منصور کو بہت افسوس بھی ہوا اور اس نے ایک لمبے چوڑے آرٹیکل کو بہت ساری تصویروں کے ساتھ ملک کے سب اخبار کو بھر دیا۔ منصور کے پاس اتنے پیسے آگئے تھے کہ اگر تین مہینے کام بھی نہ کرتا تو بڑے آرام سے گزر بسر ہوسکتی تھی۔ اپنے کیمرے کو بغل میں دبایا اور بجائے پریس کلب کے میس میں کھانے کی بجائے دلی کی نہاری یا ولایتی بوفے کو چھری کانٹے سے کھانے کے خیال نے اس کے اس مفروضے کو رد کردیا کہ اگر معدہ بھرا ہو تو کھانے کے ذائقہ میں انیس بیس کا فرق مناسب ثبوت نہیں مہیا کرتاہے۔
جیب بھری ہوئی ہو تو کھانے کے ذائقے نخریلے ہو جاتے ہیں۔ اگلے دن کے ٹیلی ویژن اور اخبارات اس اطلاع کی منادی کر رہے تھے کہ مسٹر فرانسواں کو قتل کرنے کادعویٰ کئی دہشت گرد تنظیموں نے کر دیا۔ خبر خاص ہونے کے بعد اس خبر کا شمار بھی عام خبروں میں ہو گیا۔ اگلے روز کی کوئی اور خبر ڈھونڈھنے میں لگ گئے تاکہ کسی اور خبر کو چیخ کر سنایا جائے۔ لیکن منصور اپنے کیمرے کی جانب متواتر دیکھتا جا رہا تھا کہ تم صرف دیکھتے اور دکھاتے ہو، تم کیوں نہیں چیختے۔ منصور کو مسٹر فرانسواں پر لکھی ہوئی خبروں سے خاصی آمدن ہو رہی تھی۔ تو وہ اگلے دن پھر دلی نہاری والے کے پاس جا پہنچا۔ دلی نہاری پر ویسے ہی جمگھٹا تھا۔ گاہک ایسے کھا رہے تھے شاید یہ نہاری کی دکان بند ہوجائے گی۔ منصور کو دیکھ کر دلی نہاری والا کچھ کترا رہا تھا۔ منصور سمجھ گیا کہ سفید فام ساتھ نہیں ہے تو اس لیے ہم بھی عام گاہک ٹھہرے۔ لیکن پھر کسی نہ کسی طرح منصور نے اپنی صحافیوں والی کارکردگی استعمال کر کے انہیں گھیر ہی لیااور لگا ان کی نہاری کی تعریف کرنے۔ دلی نہاری والا اپنی تعریف سن کر پھولے نہیں سما رہاتھا کہ دنیا بھر کے بڑے بڑے تنقید کرنے والے ان کی نہاری پر لکھ رہے ہیں۔ کہنے لگے صاحب جو نور خدانے تیری انگلیوں میں بھراہے میں ان کی راہ میں اس کے دین کے لیے اپنی جان تک دینے کو تیار ہوں۔ میری ہر قربانی کے صدقے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ مجھے اس کا انعام دیتے ہیں۔ مجھے یہ شہرت، عز ت اور دولت اسی سے محبت کا والہانہ تحفہ ہے۔ میری ہر پیاری چیز کی قربانی تو پس صدقہ جو میں اُن کی راہ میں بانٹتا ہوں۔ میں ہرجمعہ کو صدقہ نکالتاہوں۔ سو دوسوآدمیوں کو کھانا کھلاتاہوں۔ اسی دوران کیمرے کے ماتھے پر پھرشکنیں ابھریں۔ اس کیمرے کالینز پھر دلی نہاری کی دکان کی دیوار پر فوکس ہوا جس میں سے وہی کن کھجورا اپنی ان گنت ٹانگوں سے رینگتا ہوا باہر نکلا۔ حیران کن بات تھی سوائے کیمرے کے کوئی اور اسے دیکھ بھی نہیں رہاتھا۔ اور وہ بل کھاتا دکان کے تہہ خانے میں فرا نسیسی سفید فام کی قمیض میں گھس گیا تھا۔ منصور نے پیٹ بھر کے نہاری کے چٹورپن سے اپنی انگلیاں تک چا ٹ لیں۔ کیمرے کو پھر مسکرا کے دیکھتے ہوئے بولا شکر ہے تمہاری انگلیاں نہیں ہیں۔ ورنہ تم چاٹتے تو کیا کھاجاتے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہونے کو تھا۔ پھر ویسے ہی اذان سے پہلے مسجد کے سپیکر سے مولانا نے اپنی تقریر شروع کردی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کاواقعہ بیان کیا کہ کس طرح خدا کی راہ میں قربانی کے لیے انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی قبول کر لی۔ زندگی کی سب سے قیمتی چیز کو خدا کی راہ میں قربان کر دینا سورت کا حوالہ دیتے ہوے۔ابراہیم نے کہا میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں۔ وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ اے میرے رب تو مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔ پھر جب یہ بچہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم نے کہا میرے پیارے بچے! اس خواب میں اپنے تئیں تجھے ذبح کرتے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتاکہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جوحکم کیا جاتاہے۔ اسے بجا لائیے۔ اس بات کا ثبوت تھا کہ ایک انسان کی خدا سے والہانہ محبت ایک پیمانہ ہے اور پھر مولانا نے صدقے کے لیے چندے کا ذکر کیا۔ مسجد کی تعمیر کے لیے اور نمازی کی سہولت کے لیے اپنی گزارشات نمازیوں کے سامنے رکھیں۔ اسے کیمرہ کچھ بھاری بھاری لگ رہا تھا۔ کیمرے کو گھور کے دیکھ کر بولا۔ “نہاری تو میں نے کھائی ہے۔ پیٹ تمہارا بھرا بھرا لگ رہا ہے۔“غور سے دیکھا تو کیمرے کے لینز کے نیچے نہاری کا سالن لگا تھا۔جیب سے رومال نکال کر کیمرے کے لینز کو پونچھا اس میں سے مسٹر فراسواں کے جسم کی جیسی خوشبو آ رہی تھی۔ فوراً اس کا موڈ اچھا ہو گیا ایسے غیر ملکی آتے رہے تو اپنا دھندہ تو خوب چلتا رہے گا۔
منصور نے کیمرہ بغل میں دبایا اور خبریں ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوا۔ دلی نہاری کامالک ہر روز شام کو نہاری کی دیگ کو دھو کر صاف کر کے شام کو ہی اگلی صبح کی نہاری کی دیگ آگ پر چڑھا کر گھر چلا جاتا تھا اور بچی ہوئی نہاری اپنی بیگم اور خاندان کے باقی افراد کے لیے لے جاتا۔ آج بیگم کافی بے تاب تھیں کیونکہ دلی نہاری کے مالک گھر کچھ حسب عادت تاخیر سے پہنچے تھے۔ بیگم کو بھوک بھی لگی تھی۔ جیسے ہی خاوند گھر میں داخل ہوئے بیگم صاحبہ نے دسترخوان سجا دیا۔ باقی لوازمات کے ساتھ نہاری کا سالن بھی چن دیا گیا۔
بیگم صاحبہ کو نہاری بہت ہی پسند آئی اور بولی آج تو کمال ہی کر دیا۔ بہت مزے کی نہاری پکی ہے آج ۔کیا مصالحے تبدیل کیے ہیں اپنے خاوند سے انگلیاں چاٹتے ہوئے پوچھا۔ باقی کا سالن بیٹے کے لیے بچا کر رکھ دیا۔ کیونکہ بیٹا ہمیشہ کچھ دیر سے لوٹتا تھا۔
اگلے دن منصور پھر اپنے کیمرے کے ہمراہ دلی نہاری کی دکان پر جا پہنچا۔ اسے بھی اس نہاری کاایسا چسکا لگا تھا کہ بس دلی نہاری کھائے بغیر اس کا پیٹ تھاکہ بھر تا نہیں تھا۔ لیکن آج تھوڑی تبدیلی محسوس کرنے لگا۔ دیگ پر آج دلی نہاری والے کے بیٹے کی جگہ وہ خود بیٹھاتھا اور منصور کی بغل میں دبا ہوا کیمرے کا
اگلے دن منصور پھر اپنے کیمرے کے ہمراہ دلی نہاری کی دکان پر جا پہنچا۔ اسے بھی اس نہاری کاایسا چسکا لگا تھا کہ بس دلی نہاری کھائے بغیر اس کا پیٹ تھاکہ بھر تا نہیں تھا۔ لیکن آج تھوڑی تبدیلی محسوس کرنے لگا۔ دیگ پر آج دلی نہاری والے کے بیٹے کی جگہ وہ خود بیٹھاتھا اور منصور کی بغل میں دبا ہوا کیمرے کا
لینز دکان کے اندر کن کھجورے کو ڈھونڈ رہا تھا۔ اور کن کھجورا دلی نہاری والے کے بیٹے کے خون میں لت پت کپڑوں میں گھسا ہوا تھا۔