میلہ حکم سنگھ کے نام سے معروف میلہ دراصل عرس بابا دتے شاہ ہے۔ پیر د تے شاہ کا انتقال 1945 میں ہوا جو اپنے سکونتی گاؤں سنگت پورہ ضلع امرتسر میں مدفون ہیں پاکستان بننے کے بعد پیر د تے شاہ کا مرید چوہدری خیر دین اور اس کا خاندان گوجرانوالہ موضع ٹھکر کے میں آن بسا اور وہاں اپنے پیر کے عرس کی داغ بیل ڈالی۔ بعد ازاں وہاں قتل و غارت اور لڑائی جھگڑے سے تنگ آ کر ترکِ سکونت کر کے قلعہ سوجان سنگھ ضلع شیخوپورہ میں رہائش اختیار کی۔ سوجان سنگھ کی کوٹھی میں مقیم خیردین اور ان کے خاندان نے سالانہ 16 تا 17 پھاگن عرس بابا دتے شاہ منعقد کرنا شروع کیا اور اس سلسلے میں پیر دتے شاہ کے مرشد پیر جیون شاہ کے خانوادہ کو عرس کی سربراہی کا ذمہ سونپا۔ عرس میں ختم شریف کے ساتھ ساتھ ڈرامہ، رقص اور قوالی کو شامل کیا گیا شروع میں قوالی کے لیے ایک لمبے عرصے تک مولوی احمد حسن ویراں والا و ہمنوا آتے رہے اس کے علاوہ صفدر ٹیڈی لائلپوری اور مبارک علی ماکھا و ہمنوا عرس کی ذینت بنتے رہے۔ ڈرامہ پیش کرنے والوں میں غلام حسین ناجی جھمرے والا اور طفیلا برج برنالے والا، رقص کے لیے مشہور رقاصہ سیموں اور بالو قریب دو عشرے تک ہر عرس پہ بلوائی جاتی رہیں۔ 70 کے عشرے کے اواخر میں رقص کو حکومتی پابندی کی وجہ سے تمام میلوں میں ممنوع قرار دیا گیا تو میلے کو ختم شریف اور قوالی تک محدود کر دیا گیا۔
پاکستان بننے کے بعد سے بہت سے مہاجر خاندان سوجان سنگھ کی کوٹھی میں رہ رہے تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آپس میں چپقلش بڑھنے لگی تو خیردین اور ان کا خاندان کوٹھی سے رہائش ترک کر کے قریب ہی واقع ڈیرہ حکم سنگھ میں رہائش پذیر ہوا۔ اسی وجہ سے عرس بابا دتے شاہ کو میلہ حکم سنگھ بھی کہا جانے لگا۔
آج کل یہ میلہ 3 روز تک جاری رہتا ہے جس میں قوالی، ڈرامہ، ڈھول بھنگڑا، کبڈی، گھوڑا رقص اور کتوں کی لڑائی میلے کا حصہ ہیں۔
میلہ حکم سنگھ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے تمام رہائشی اس میلے کو اجتماعی عمل گردانتے ہوئے اس کو ہر سال بڑی کامیابی سے منعقد کرتے ہیں اور یہ میلہ محض دو دن کا ہوتا ہے لیکن اس کے پیچھے ان سب لوگوں کا پورے سال پہ محیط صلاح مشورہ کارفرما ہوتا ہے۔
یہ میلہ دو دن کی تفریح نظر آتا ہے مگر یہ یہاں کے رہنے والوں کے درمیان بھائی چارے اور تعاون کی مستقل وجہ ہے اور یہ محض ایک عرس نہیں بلکہ اس گاؤں کی پہچان بن چکا ہے۔
جس طرح کہانیوں میں کسی جِن کی جان ایک پرندے میں ہوتی ہے جس طرح ایک ماں کی جان اس کے بچے میں ہوتی ہے اسی طرح اس گاؤں کے رہنے والوں کی جان اس میلے میں ہے۔
امید کی جاسکتی ہے کہ اس گاؤں کے با سی اپنی جان اور پہچان کو زندہ رکھیں گے اور مزید ترقی اور استحکام سے ہمکنار کریں گے۔