Laaltain

میر واہ کی راتیں – آخری قسط

4 دسمبر، 2016
رفاقت حیات کے ناول ‘میر واہ کی راتیں‘ کی دیگر اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

شام ڈھلنے سے کچھ پہلے ہی نذیر چائے خانے پر جا بیٹھا۔ وہ گردوپیش کی چیزوں کو دیکھنے کے بجائے باربار فکرمندی سے کاریگر کی بتائی ہوئی باتوں کے متعلق سوچتا رہا۔

 

غفور چاچا کی پریشانی کا راز جاننے کے بعد وہ شدید احساسِ گناہ میں مبتلا ہوگیاتھا۔ وہ خود کو ملامت کرتا رہا کہ اس نے جانے یا انجانے میں چاچی کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ حیران تھا کہ چاچے کو اس معاملے کی خبر آخر کیسے مل گئی۔ اب وہ فرار چاہتا تھا تاکہ اس کی وجہ سے یہ محترم رشتہ کہیں پامال نہ ہو جائے۔ مگر اس کے دل کی گہرائی میں کوئی شدید جذبہ موجود تھا جس کے آگے وہ خود کو پوری طرح بے بس محسوس کر رہا تھا۔ اس کے لیے اب وسوسوں اور اذیت کے مہیب جنگل میں چاچی خیرالنسا ہی واحد پناہ گاہ رہ گئی تھی۔

 

وہ ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ اس نے یعقوب کاریگر کو آتے ہوئے دیکھا۔ وہ آتے ہی چپ چاپ کرسی پر بیٹھ گیا اور جلدی جلدی بیڑی پھونکتا رہا۔ اس کی پیشانی پر دو گہری لکیریں تھیں۔

 

اس نے چٹکی بجا کر بیڑی کی راکھ کو جھٹکا اور استغراق سے نکل کر نذیر کو گہری نظر سے دیکھتے ہوئے وہ کھنکار کر اپنا گلا صاف کرنے لگا۔ پھراس نے اس کی طرف تھوڑا جھک کر دھیمے لہجے میں کہا، “غفور سے میری دوستی بہت پرانی ہے۔ تمھاری عمر سے بھی زیادہ پرانی۔ اس نے بڑی بدفعلیاں کیں۔ تم اندازہ نہیں لگا سکتے۔ تین ضلعوں میں کوئی چکلا نہیں بچا ہو گا جہاں جا کر اس نے زنا نہ کیا ہو۔ اس کے بیسیوں معاشقے اس کے علاوہ ہیں۔ اسی وجہ سے جب اس نے شادی کی تو کچھ عرصے کے بعد اسے پہلی مرتبہ اپنی کمزوری کا احساس ہوا۔ وہ مجھ سے چھپ چھپ کر اپنا علاج کرواتا رہا۔ مگر اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ ایک دن پریشان ہوتے ہوئے اس نے شرمندگی سے مجھے بتا ہی دیا۔ میں اسے رانی پور میں ایک واقف حکیم کے پاس لے گیا۔ اس کی دوا سے غفور کی قوت بحال ہونے لگی اور وہ شادی کے مزے سے ہمکنار ہوا۔” کہتے کہتے وہ خاموش ہوا اور اِدھراْدھر دیکھنے لگا۔

 

نذیر اس کے ہونٹوں سے نکلنے والا ایک ایک لفظ بغور سن رہا تھا۔
کاریگر نے چائے کا گھونٹ بھرا اور سرگوشی میں پھر سے کہنے لگا، “کل پہلی بار اس نے مجھ سے تمھارے قتل کے بارے میں بات کی۔ دکان کے کام میں تمھاری عدم دلچسپی کی وجہ سے اسے شک ہونا شروع ہوا۔ وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگا۔ کئی مرتبہ اس نے تمھاری جاسوسی کی۔ دیوار پھاند کر اپنے گھر میں گھسا۔ رحیم سنار والے مسئلے پر اس نے تم پر ہاتھ اٹھانے کے بارے میں مجھے بتایا تو میں نے اس پر لعن طعن کی کہ اسے تم پر شک نہیں کرنا چاہیے۔” اس نے چائے کی پیالی ختم کی اور نئی بیڑی سلگائی۔

 

تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر گویا ہوا۔ “اس کی باتوں نے مجھے پریشان کر دیا۔ میں رات بھر سوچتا رہا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ تم سے ضرور بات کروں گا۔ شاید غفور اپنی بیوی کو وہ آسودگی نہیں دے سکا جو اس کا حق تھا۔ اسے ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر کسی اور سے اپنا تعلق جوڑ لے گی۔ یہ معاملہ تمھارے حق میں خطرناک ہو سکتا ہے۔ تم اس کے گھر میں رہتے ہو اور تمھاری اس کی بیوی کے ساتھ بے تکلفی بھی ہے۔” وہ جواب طلب نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

 

نذیر ٹھنڈا سانس بھر کر بولا، “تمھارا اندازہ ٹھیک ہے۔”
“میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ تم اپنی عزت اور زندگی بچاؤ اور میرپور ماتھیلو واپس چلے جاؤ۔ تمھیں یہاں سے جانے کے لیے وہ کبھی نہیں کہے گا لیکن اگرکسی دن اس کا مغز گھوم گیا تو پتا نہیں وہ کیا کر بیٹھے گا۔” اس کے لہجے میں تشویش تھی۔
“تم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو؟”

 

کاریگر ہنسا۔ “مت بھولو میں اس کا پرانا دوست ہوں۔ وہ اپنی دو محبوباؤں کے شوہروں کو زخمی کر چکا ہے۔ یہاں غیرت کا مسئلہ بھی ہے اور کل بے ساختگی میں اس کے منہ سے نکل گیا کہ اسے ثبوت ملنے کی صورت میں اس نے تمھیں قتل کرنے کا منصوبہ بھی تیار کر رکھا ہے۔ وہ تمھیں کارا کر کے مار ڈالے گا، کیا سمجھے؟”

 

نذیر یہ سن کر ہکابکا رہ گیا۔ ناقابلِ یقین بات کی حقیقت کو اسے اپنے دل سے تسلیم کرنا پڑا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شام ڈھلے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔ آسمان پرستارے نکل آئے تھے۔ چائے پینے والے سب گاہک بھی جا چکے تھے۔ ہوٹل کا مالک برتن سمیٹ رہا تھا۔ وہ اٹھے اور نہر کے پل تک ساتھ چلتے ہوئے گئے۔ وہاں سے نیچے اترنے والے راستے پر وہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔

 

کچھ دور تک اس کے ذہن میں کاریگر کی باتیں گھومتی رہیں۔ یہ سب تو اس کے سان گمان میں بھی نہیں تھا مگر اب اسے اندازہ ہونے لگا تھا کہ یہاں رہتے ہوئے اس کے ساتھ کوئی بھی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ اسے غفور چاچا پیشہ ور قاتل معلوم ہونے لگا۔ اس کی سماعت میں اس کی پاٹ دار آواز گونجنے لگی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں اسے یاد آئیں جن میں ہر وقت اسے اپنے لیے عناد بھرا محسوس ہوتا تھا۔ اسے گزشتہ روز کی مارپیٹ یاد آئی۔ وہ کتنے نفرت انگیز لہجے میں اسے مخاطب کرتا ہوا چیخ رہا تھا۔

 

نذیر نے خود کو اپنے گھر والوں سے دور، اجنبی لوگوں کے درمیان مکمل طور پر غیرمحفوظ محسوس کیا۔

 

وہ نیم تاریک سڑک پر روشنی کے دائروں میں چلتا رہا۔ اس نے سوچا کہ کیا خبر اس کا چاچا یعقوب کاریگر کے ساتھ مل کر اسے قصبے سے بھگانا چاہتا ہو تاکہ اس کے تمام خدشات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔

 

وہ گھر جانے کے بجاے پہلوان دستی کے چائے خانے پر جا بیٹھا۔
اسے کاریگر پر اعتماد تو تھا مگر وہ فرار ہونے کے خیال سے ہچکچا رہا تھا۔ چاچی خیرالنسا کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کے دل میں باربار ہوک سی اٹھ رہی تھی۔ اسے اس کا طویل قامت جسم یاد آیا، اس کے فسوں کاربدن کے انگ یاد آئے۔ اس نے چاچی کو دیکھنے، اس کے پاس بیٹھنے اور اس سے لپٹنے کی ناقابلِ مزاحمت خواہش محسوس کی۔

 

وہ چائے خانے پر بیٹھا رہا اور ٹھری میرواہ میں اپنے گزرے ہوئے وقت کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے دل میں گناہ کا احساس دھیرے دھیرے ختم ہو رہا تھا۔ کل اسے سوچتے ہوئے جو ندامت محسوس ہو رہی تھی اب وہ مٹتی جا رہی تھی۔ اب وہ عورت واقعی اس کی محبوبہ بن گئی تھی۔ وہ خود سے کہتا رہا کہ پہلی بار اسے محبت ہوئی ہے اور اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے متعلق جو چاہے سوچتا رہے۔ اس نے چاچے کو رقیب جان کر اس کے خلاف اپنے دل میں شدید نفرت محسوس کی۔ نفرت سے ا س کے اعصاب تن گئے اور وہ مٹھیاں بھینچ کے رہ گیا۔ اسے معلوم تھا کہ اپنی محبت کی خودغرضی کے باوجود وہ اسے ہمیشہ کے لیے حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر فرار نہیں ہو سکتا تھا۔ بہت دیر تک وہ ذہنی کشمکش سے دوچار رہا۔

 

ڈبو کھیلنے والے لڑکے شور مچا رہے تھے۔ پہلوان دستی اپنے دکھل کے پاس اونگھ رہا تھا۔ رات کے دس بجنے والے تھے۔ قصبے سے باہر جانے والی گاڑیاں شام سے پہلے ہی بند ہو جاتی تھیں۔

 

وہ چائے خانے سے اٹھا اور جھجکتے ہوئے قدموں سے اس مکان کی طرف چل دیا جو اب اس کا گھر نہیں رہا تھا۔ گلی میں پہنچ کر وہ کچھ دیر کے لیے ٹھیر گیا۔ سارے مکان تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ایک خیال کی دہشت سے جھرجھری لیتے ہوئے اس نے پاؤں آگے بڑھایا۔

 

دروازے کی کنڈی کھول کر وہ اندر آیا تو اس نے باورچی خانے والی کوٹھڑی کو بند پایا۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا برآمدے میں بچھی اپنی چارپائی تک پہنچا اور بیٹھ گیا۔ اسے بھوک نہیں تھی۔ وہ اپنا سر ہاتھوں میں لیے بیٹھا رہا۔

 

کچھ دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز سن کر وہ چونکا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو چاچی خیرالنسا دروازے سے باہر نکلتی دکھائی دی۔ وہ اسے دیکھ کر عجیب انداز میں مسکرائی۔ اس نے فوراً آگے بڑھ کر برآمدے کی بتّی جلا دی۔

 

نذیر پریشانی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ “چاچا جاگ جائے گا۔”

 

“آج وہ صبح سے پہلے نہیں جاگے گا۔” وہ ایک بار پھر مسکرائی۔
“کیوں ؟” نذیرنے حیرت سے پوچھا۔

 

“نیند کی ایک گولی اس نے خود کھائی اور دو میں نے دودھ میں گھول کر اسے پلا دیں۔”

 

“آخر ایسا کیوں کیا؟”

 

چاچی خیرالنسا نے لجاتے ہوئے کہا، “تم سے ملنے کے لیے۔”

 

نذیر نے خود کو اس عورت کے زیرِاثر محسوس کیا۔ وہ دونوں باورچی خانے کی کوٹھڑی میں جا بیٹھے۔

 

“میرے لیے کھانا مت گرم کرنا۔ میں نے باہر کھا لیا ہے۔”

 

وہ چولھے کے پاس بیٹھی تھی جبکہ نذیر اس کے قریب پیڑھی پر بیٹھا تھا۔ اس نے لمبا سانس لیتے ہوئے خود کو پْراعتماد پایا۔ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرایا۔

 

“مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں،” وہ بولا۔

 

“کہو۔”

 

“توْ میرے چاچے کی بیوی ہے مگر میں تجھ سے محبت کرتا ہوں،” اس نے بے جھجک اپنے دل میں سمائی بات کہہ دی۔

 

“میں جانتی ہوں یہ گناہ اور بے حیائی ہے، مگر تو بھی جان لے کہ تو مجھے اچھا لگتا ہے۔ اسی لیے آج رات میں نے بڈھے کو نیند کی گولیاں کھلا دیں۔ میں جانتی ہوں تو اس کا احترام کرتا ہے۔” وہ بہت آہستہ بول رہی تھی۔ “میں بھی تیری طرح ڈرتی ہوں اس سے۔ لیکن توخود سوچ! اس کے اور میرے درمیان کتنا فرق ہے۔”

 

اسے اداس دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا۔ “آدھی عمر کا فرق ہے! اور میں جب سے یہاں آیا ہوں، یہی سوچ رہا ہوں۔ تو اس سے بہت چھوٹی ہے اور خوبصورت بھی بہت ہے۔” وہ مسکرانے لگا۔ “پرسوں رات میرے اور تیرے بیچ جو کچھ ہوا میں اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ میں سمجھا کہ تو مجھ سے بہت ناراض ہو گی اور مجھے تجھ کو منانا پڑے گا۔”

 

یہ سن کر چاچی خیرالنسا اپنی مسکراہٹ کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتی رہی مگر مسکراہٹ خودبخود اس کے ہونٹوں پر نمایاں ہو گئی تھی۔

 

نذیر نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ یعقوب کاریگر سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں اسے کچھ نہیں بتائے گا۔ اس نے تشویش سے اس سے ایک سوال پوچھا، “صبح چاچے کو گولیوں کے بارے میں پتا نہیں چل جائے گا؟”

 

“نہیں چلے گا۔ وہ یہی سمجھتا رہے گا کہ جو گولی اس نے کھائی یہ اسی کا نشہ ہے۔” وہ پھر مسکرانے لگی۔

 

“میں پہلے تیرے بارے میں جب بھی سوچتا تھا تو خود کو بڑا گناہ گار سمجھتا تھا،” اس نے سنجیدگی سے کہا۔

 

“اور اب؟” چاچی نے شرارت سے پوچھا۔

 

“اب تیری محبت کو میں اپنا حق سمجھتا ہوں۔”

 

“میں تو اندر سے کانپ رہی ہوں۔ وہ گہری نیند کر رہا ہے، میں پھر بھی یہاں سہمی ہوئی ہوں، اور یہ گناہ ہے، بڑا گناہ!” اس نے جھرجھری لی اور آنکھیں میچ لیں۔

 

“یہ گناہ نہیں ہے، محبت کبھی گناہ نہیں ہوتی،” وہ بلند لہجے میں بولا۔

 

“آخر تم رشتے میں میرے بھتیجے لگتے ہو۔”

 

“تْو اپنی مرضی سے میری چاچی نہیں بنی اور میں۔۔۔” وہ جذبے کی شدت سے خاموش ہو گیا۔

 

“کچھ بھی ہو، میں اس بوجھ سے نہیں بچ سکتی۔۔۔ مگر خود کو روکنا بھی مشکل ہے،” وہ آہ بھر کر بولی۔

 

نذیر اس کے سوگوار چہرے کو دیکھتا رہا۔ وہ حیران تھا کہ اسے کیا ہو گیا۔ وہ اسے خوش دیکھنا چاہتا تھا مگر اس کے پاس تمام الفاظ ختم ہو گئے تھے۔ اسے خوشی سے ہمکنار کرنے کے لیے اور اپنی باقی ماندہ زندگی کے لیے ایک خوشگوار یاد کو اپنے سینے میں محفوظ رکھنے کے لیے وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے اس کے بدن کا لمس کشید کرنے لگا۔ وہ ایک نئی لذت سے آشنا ہوتا جا رہا تھا۔

 

انھوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا اور ہنسنے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ برآمدے میں بچھی ہوئی چارپائی پر جا کر ایک دوسرے کے پہلو میں لیٹ گئے اور ان کے ترسے ہوئے جسم نہ جانے کب تک ایک دوسرے میں مدغم ہانپتے کانپتے رہے۔

 

بہت دیر کے بعد چاچی خیرالنسا اپنے کپڑے اٹھا کر غسل خانے کی طرف چلی گئی مگر وہ وہیں چارپائی پر لیٹا رہا۔

 

غسل خانے سے باہر نکل کر چاچی نے نذیر کے ہونٹوں پر آخری بوسہ دیا اور اسے نگاہ بھر دیکھنے کے بعد کمرے میں اپنے سوئے ہوئے شوہر کے پاس چلی گئی۔

 

اس کے جانے کے بعد نذیر آہ بھرتے ہوئے مسکرایا۔ اس نے چاچی خیرالنسا کو پا کر کھو دیا تھا، ہمیشہ کے لیے۔ مگر اپنے لیے ایک یاد کو محفوظ کر لیا تھا۔

 

وہ بہت دیر تک جاگتا رہا۔ پھر اس نے دیکھا کہ صبح کی روشنی پھیلنے والی ہے۔ اس نے اٹھ کر کپڑے پہنے۔ غسل خانے میں گیا لیکن غسل نہیں کیا۔ ہینڈپمپ چلا کر وہ اپنے ہاتھ اور منھ دھو کر باہر نکل آیا۔ وہ صحن میں چند لمحے ٹہل کر کچھ اور وقت گزرنے کا انتظار کرتا رہا۔ اس نے کمرے کے دروازے سے کان لگا کر ان دونوں کی سانسوں کی آو از سنی اور دھیرے دھیرے چلتا باہر کی طرف چل پڑا۔

 

وہ جانتا تھا کہ اس وقت قصبے سے باہر جانے کے لیے سواری نہیں ملے گی۔ اس نے چلتے ہوئے گلی عبور کی، سڑک پر پہنچا۔ پہلوان دستی کے چائے خانے کے قریب سے گزرااور ٹھنڈے سانس بھرتا ہواآہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا وہ قصبے کی حدود سے باہر نکل گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *