رفاقت حیات کے ناول ‘میر واہ کی راتیں’ کی دیگر اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
نذیر کی زندگی میں شمیم پہلی عورت تھی جس نے اس سے ملنے کے لیے اسے پیغام بھیجا تھا، ورنہ اس سے پہلے بھی وہ بے شمار لڑکیوں اور عورتوں کا تعاقب کر چکا تھا مگر ان میں سے کسی کی جانب سے پیغام آنا تو درکنار، اسے ان کو دیکھنے کا دوسرا موقع تک میسر نہیں آ سکا تھا۔ وہ سب کی سب اپنے گھروں میں جانے کے بعد اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھول گئی تھیں۔ پکوڑافروش کے ذریعے موصول ہونے والے پیغام کی اس کے لیے بہت خاص اہمیت تھی۔ اسی لیے اس کا اپنا بے کار وجود بھی اب اس کی اپنی نظروں میں یکایک کچھ اہم ہو گیا تھا۔ باربار کسی سبب کے بغیر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی تھی۔ آج اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ انسانوں سے بھری ہوئی اس دنیا میں ایک عورت ایسی بھی ہے جو اس کے بارے میں سوچتی ہے۔ اس کے لیے یہ خیال بہت مسحورکن تھا۔ مگر اس سے بھی زیادہ مسحورکن خیال آج کی شب پیش آنے والے وصل کی لذت کا خیال تھا، جس کا ہلکا سا احساس ہی اس کے بدن پر سرشاری طاری کر رہا تھا۔
آج اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ انسانوں سے بھری ہوئی اس دنیا میں ایک عورت ایسی بھی ہے جو اس کے بارے میں سوچتی ہے۔
اسی خیال کے زیرِاثر وہ بہت دیر تک متواتر سلائی مشین چلاتا رہا۔ اسے وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا۔ بہت دیر کے بعد اس نے اپنا ہاتھ روکا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ اس کی نظر یعقوب کاریگر کے چہرے پر جا کر ٹھہر گئی جو ایک ریشمی لباس کی سلائی میں مصروف تھا۔ اس کی آنکھیں سلائی مشین کی ٹانکے لگاتی باریک سوئی کو شوق بھری نظر سے دیکھ رہی تھیں۔ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں ریشمی کپڑے کو کچھ اس طرح جھجکتے ہوئے چھو رہی تھیں جیسے وہ کسی عورت کے جسم کو اس کی اجازت کے بغیر اور اس سے چھپ کر چھو رہی ہوں۔
نذیر نے حیرت سے سوچا کہ نسوانی کپڑوں کی سلائی کے دوران یعقوب کاریگر اپنے گردوپیش سے اتنا لاتعلق ہو جاتا تھا کہ اسے بیڑی پینے کا ہوش بھی نہیں رہتا تھا۔ عجیب لذت سے تمتماتا ہوا اس کا چہرہ دیکھ کر نذیر کو اس کے ہاتھوں کے ہنر کی مقبولیت کا راز معلوم ہو گیا۔
ابھی شام ڈھلنے میں خاصا وقت تھا اور آدھی رات ہونے میں تو اس سے بھی زیادہ وقت باقی تھا۔ یکایک وہ محسوس کرنے لگا کہ ہیجان خیز محسوسات و خیالات کی یورش کی وجہ سے دھیرے دھیرے اس کے جذبات کند ہونے لگے تھے، اور وہ اپنے آپ کو فاترالعقل سمجھنے لگا تھا۔ اپنا ذہن بٹانے کا سوچ کر اس نے دیوار پر چسپاں تصویروں پر ایک نگاہ ڈالی۔ فلمی اداکاراؤں کے میک اپ سے بھرے چہرے اس کی نگاہوں سے خودبخود اوجھل ہو گئے۔ اسے صرف کسے کسائے ملبوسات میں پھنسے ہوئے بدن دکھائی دیے۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ دکان کی چھت سے فرش تک صرف نسوانی اعضا کی تصویریں لگی ہوئی ہیں اور ہر نسوانی عضو ہر قسم کی نزاکت اور حسن سے یکسر عاری ہے اور اس میں سے صرف شہوانیت کا اظہار ہو رہا ہے۔ وہ کچھ دیر تک بھرے بھرے جسموں کی گداز چھاتیوں اور ابھرے ہوئے پیٹ کی ناف کو دیکھتا رہا۔ اس عمل سے اچانک اس کا خون گرم ہو گیا اور ناک کے نتھنوں سے گرم گرم سانسیں نکلنے لگیں۔
نذیر نے حیرت سے سوچا کہ نسوانی کپڑوں کی سلائی کے دوران یعقوب کاریگر اپنے گردوپیش سے اتنا لاتعلق ہو جاتا تھا کہ اسے بیڑی پینے کا ہوش بھی نہیں رہتا تھا۔
یعقوب کاریگر اسے محویت سے تصویروں کو تاکتے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اسے مسکراتا دیکھ کر نذیر کھسیانا ہو کر اٹھا اور دکان سے باہر چلا گیا۔ گلی سے نکل کر وہ سڑک پر آیا اور یہاں کی کھلی فضا میں لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے اپنی طبیعت بحال کرنے لگا۔
سڑک کے پرلی طرف کپڑے کی ایک دکان پر لٹکی ہوئی پھول دار چادریں اور دوپٹے ہوا کے جھونکوں سے ہل رہے تھے۔ ایک دکانداراپنی پردہ نشین گاہک کے سامنے ریشمی کپڑے کا تھان کھول رہا تھا۔ نذیر اس برقع پوش عورت کی طرف دیکھنے لگا۔ دکان پر پڑتی سورج کی تیز روشنی کے سبب اس کے برقعے میں عجیب سی چمک پیدا ہو گئی تھی۔ اسے لگا کہ وہ یہاں کھڑا ہو کر زیادہ دیر تک اس برقعے کی چمک کو اپنی آنکھوں میں جذب نہیں کر سکتا۔
تھوڑی دیر بعد وہ دکان پر لوٹ آیا۔ یعقوب کاریگر اسے دیکھتے ہی بولا، “آج میں دکان پر بہت اکیلائی محسوس کر رہا ہوں۔ آج میرے یار کی طبیعت خراب ہے، اس لیے وہ نہیں آیا۔ اور تم ہو کہ مجھ بوڑھے سے کوئی بات ہی نہیں کرتے۔” وہ ایک بیڑی سلگا کر کش لینے لگا۔
نذیر اس کے قریب رکھے ہوئے اسٹول پر جا کر بیٹھ گیا اور وہ دونوں چاچے غفور کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ زیادہ تر باتیں پرانی تھیں جو وہ پہلے بھی کئی بار دوہرا چکے تھے۔ نذیر کو کوئی نئی بات نہیں سوجھ رہی تھی اس لیے وہ خاموش ہو گیا، کیونکہ کاریگر باتیں کرنے کی موج میں آیا ہوا تھا۔ نذیر کو اچانک چاچی خیرالنسا یاد آئی۔ آج چاچا بھی گھر پر موجود تھا۔ اس نے اپنی چشمِ تصور میں انہیں اپنے کمرے میں ایک دوسرے کے ساتھ پیوست مسلسل حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔
اسے محسوس ہونے لگا کہ دکان کی چھت سے فرش تک صرف نسوانی اعضا کی تصویریں لگی ہوئی ہیں اور ہر نسوانی عضو ہر قسم کی نزاکت اور حسن سے یکسر عاری ہے اور اس میں سے صرف شہوانیت کا اظہار ہو رہا ہے۔
یعقوب کاریگر کی باتیں سنتے ہوئے اسے لگا کہ چاچے غفور سے اس کی دوستی کی ضرور کوئی خاص وجہ رہی ہو گی، جس کے بارے میں کاریگر نے بھول کر بھی باتوں میں کوئی اشارہ نہیں کیا تھا۔ نذیر نے سوچا کہ اگر کسی دن وہ کاریگر کو اعتماد میں لے کر اس سے پوچھ گچھ کرے تو شاید اسے کچھ گڑے مْردوں کا پتا چل جائے۔
دکان کے باہر ایک سائیکل کو رکتا دیکھ کر وہ دونوں چپ ہو گئے۔
ماسٹر طفیل اپنی دھوتی سنبھالتا ہوا سائیکل سے اتر کر دکان میں داخل ہوا۔
“میں تمہارا ہی کام کر رہا تھا ماسٹر۔ صرف قمیص کے بٹن لگانے رہ گئے ہیں،” یعقوب نے خوش مزاجی سے اسے اس کے کپڑوں کے بارے میں بتایا۔ ماسٹر طفیل کچھ دیر بعد آنے کا کہہ کر چلا گیا۔
گلی میں دکانوں کے شٹر بند ہونے کی کھڑاک پڑاک شروع ہو گئی۔ تمام درزی ہنستے، شور مچاتے ہوئے اپنی اپنی دکانوں سے نکلے۔ تھوڑی دیر بعد مغرب کی اذان بھی سنائی دینے لگی۔
ماسٹر طفیل کو اس کے کپڑے دینے کے بعد انھوں نے بھی دکان بند کر دی اور یعقوب کاریگر چاچے غفور کی عیادت کرنے کے لیے اس کے ساتھ چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن میں پھیلتی تاریکی کو دیکھ کر اس نے بلب روشن کرنے کی خاطر دیوار پر نصب کالا بٹن دبایا تو برآمدے میں روشنی پھیل گئی۔
ملگجی شام میں چاچی خیرالنسا کشادہ صحن میں جانماز پر سمٹی ہوئی بیٹھی نماز پڑھ رہی تھی۔ اس کے ہونٹ دعا مانگتے ہوئے لرز رہے تھے۔ نذیر کے قدموں کی چاپ سن کر اس نے مڑ کر دیکھا اور اس کے ہونٹ تیزی سے دعا ختم کرنے لیے ہلنے لگے۔
نذیر دو محرابوں کے درمیان کھڑا عبادت ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ صحن میں پھیلتی تاریکی کو دیکھ کر اس نے بلب روشن کرنے کی خاطر دیوار پر نصب کالا بٹن دبایا تو برآمدے میں روشنی پھیل گئی۔ اس نے تاریک کمرے پر نظر دوڑائی۔ غفور چاچا وہاں رضائی اوڑھ کر لیٹا ہوا تھا۔ اس کے خراٹوں کی خرخراہٹ سن کر وہ مسکرایا۔
چاچی کو جانماز سے اٹھتا دیکھ کر اس نے اس کے پاس جا کر یعقوب کاریگر کی آمد کے بارے میں بتایا۔ وہ فوراً اپنے شوہر کو جگانے کے لیے کمرے میں چلی گئی۔ چاچا غفور اپنے یار کا نام سن کر فوراً اْٹھ بیٹھا۔
چاچی خیرالنسا پردے کی خاطر باورچی خانے والی کوٹھڑی میں چلی گئی۔
یعقوب کاریگر کو دیکھ کر بوڑھا مریض خوشی سے کھل اْٹھا۔
نذیر اپنی گھڑی پر وقت دیکھ رہا تھا، کیونکہ پہلوان کے چائے خانے پر نورل جوگی اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اسی بے چینی میں وہ باورچی خانے میں چاچی کے سامنے چوکی پر جا بیٹھا۔ چاچی خیرالنسا نے اپنے شوہر اور کاریگر کی پرانی دوستی کا ذکر چھیڑ دیا۔
باتوں کے دوران نذیر کو پہلے اس کے ہاتھ کا لمس یاد آیا اور پھر غسل خانے میں لٹکا ہوا اس کا بلاؤز۔ بیٹھے بیٹھے وہ چاچی کے سرخ و سفید ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے سوچا کہ ان ہاتھوں میں پوشیدہ حدت کتنی نرم و ملائم ہو گی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ اسی وقت انہیں چھو کر محسوس کرے اور ان کی ہتھیلیوں پر ایک بوسہ ثبت کردے۔ اس نے خود کو گستاخی پر آمادہ محسوس کیا۔ وہ اس کے کشادہ سینے کے زیروبم کو دیر تک محویت سے دیکھتا رہا۔
وہ حیران تھا کہ اس کی باتوں میں عدم دلچسپی کے باوجود وہ بے خبری کے عالم میں دیر تک باتیں کرتی رہی۔ جب وہ چولہے میں پھونک مارنے کے لیے جھکی تو نذیر نے چپ چاپ اس کے سینے کے ابھار کو دیکھا، مگر اگلے لمحے چاچی خیرالنسا اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے شک بھری نظروں سے گھورنے لگی۔ اس کے گھورنے پر وہ جھینپ سا گیا۔ اسے الجھن ہونے لگی۔ وہ باتونی نہیں تھا مگر چاہتا تھا کہ پرْکشش جسم والی اس حسین عورت سے دیر تک لچھے دار باتیں کر کے اس کا دل بہلائے۔
ان کی باتیں سنتے ہوئے اس نے سوچا کہ غفور چاچا دلچسپ گفتگو کرنے کا ماہر تھا، اسی لیے اس نے ابھی تک چاچی کو اپنے قابو میں رکھا ہوا تھا۔
چاچی نے پتیلی اٹھا کر چینک میں چائے انڈیلی۔ وہ ٹرے میں رکھی چینک اور پیالیاں اٹھائے ہوئے باورچی خانے سے باہر چلا گیا۔
کمرے میں ان کے سامنے چائے رکھنے کے بعد وہ آدھے گھنٹے تک ان دو بوڑھے آدمیوں کے ساتھ بیٹھا رہا۔ ان کی باتیں سنتے ہوئے اس نے سوچا کہ غفور چاچا دلچسپ گفتگو کرنے کا ماہر تھا، اسی لیے اس نے ابھی تک چاچی کو اپنے قابو میں رکھا ہوا تھا۔
کچھ دیر بعد یعقوب کاریگر نے چاچے سے جانے کی اجازت مانگی اور جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
وہ اسے رخصت کرنے گلی کے آخر تک چلا گیا۔ الوداعی مصافحے کے بعد وہ کچھ وقت وہیں کھڑا اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اس کے بعد وہ پہلوان کے چائے خانے کی طرف چل پڑا۔
چائے خانے میں نوجوان لڑکے ڈبّو کھیلتے ہوئے شور مچا رہے تھے۔ وہاں ٹیپ ریکارڈر پر جلال چانڈیو کا گانا بج رہا تھا۔ ایک طرف پڑے ہوئے موڑھوں پر دو چار آدمی بیٹھے دھیمے لہجوں میں گفتگو کر رہے تھے، جبکہ نورل منھ بسورتا ہوا اکیلا بیٹھا تھا۔
نذیر پکوڑافروش کے پاس گیا تو وہ اسے دیکھ کر مسکرایا۔ انہوں نے موڑھے اٹھا کر ایک کونے میں کھسکا لیے اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔
پکوڑافرو ش نے رازداری سے اسے بتایا کہ آج رات ایک بجے وہ اپنے گھر کے پچھلے دروازے سے نکل کر پانی کے نالے کے پاس اس کا انتظار کرے گا۔ اس پر لازم تھا کہ وہ ایک بجے سے پہلے وہاں پہنچ جائے۔ اس نے اسے مزید یقین دلایا کہ ملاقات کے دوران وہ دونوں عاشقوں کے آس پاس کسی فرشتے کی طرح منڈلا تا رہے گا۔
نذیر نے اس کی ہر بات غور سے سنی۔ اس نے اپنے ذہن میں پہلی ملاقات کا جو تصور باندھا تھا، اس پر خوف کی پرچھائیں لہرانے لگی۔ اس کے باوجود چائے خانے سے اٹھ کر جاتے ہوئے نذیر نے وعدہ کیا کہ وہ ساڑھے بارہ بجے تک نہر سے اْترنے والی سڑک پر پہنچ جائے گا۔
نورل نے بھی سنجیدگی سے اپنا وعدہ دْہرایا اور وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل وہ اپنے بستر پر جس شب کے انتظار میں لیٹا ہوا کروٹیں لے رہا تھا، وہ شب آخر کار آ پہنچی تھی اور اپنے بازو پھیلا کر اسے دعوتِ نشاط دے رہی تھی۔ مگر یہ کیا؟ گزرتے ہوئے لمحوں کے ساتھ نہر پار جانے کے خیال سے اس کے دل میں دہشت بڑھنے لگی تھی۔ وہ خود کو کسی طور پر ڈرپوک یا بُزدل ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس نے بزدلی کو واہمہ قرار دے دیا اور اس خیال کو جھٹکنے کے لیے وہ چاچے غفور کے ساتھ اس وقت کمرے میں بند چاچی خیرالنسا کے بارے میں سوچنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر اس کا ذہن اس پل چاچی کے متعلق کچھ بھی سوچنے کے لیے آمادہ نہیں ہوسکا۔ اسے کوئی بات نہیں سوجھی، اس کے دل میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوا، حتیٰ کہ چاچی کے گداز سینے کا خیال بھی اس کے ذہن کو اپنی طرف مائل نہ کر سکا۔ اور دوسری طرف کسی کوشش کے بغیر اس کا ذہن باربار خودبخود شمیم کے بارے میں سوچنے لگتا تھا۔ اگرچہ اس نے اب تک اس برقع پوش شمیم کی آواز نہیں سنی تھی،وہ اس کے ہونٹوں اور اس کے سینے کا شاہد نہیں ہوا تھا، اس کے باوجود فوراً اس کے ذہن میں درازقد اور بھرپور جسم کی ایک شاندار عورت در آئی تھی۔ وہ اس کے سحرانگیز حْسن کی باریکیوں میں اْلجھ گیا۔
اس نے اپنی چشمِ تخیل میں کتھئی لباس میں ملبوس ایک جوان عورت کو دیکھا جس کے جسم سے چنبیلی کی خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ اس کے سر سے چادر ڈھلکی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کے بالوں کی مانگ نظر آ رہی تھی۔ وہ کہیں کسی گھنے پیڑ کے نیچے کھڑی ہوئی شدت سے اس کی منتظر تھی۔
اس نے اپنی چشمِ تخیل میں کتھئی لباس میں ملبوس ایک جوان عورت کو دیکھا جس کے جسم سے چنبیلی کی خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔
چند لمحوں کے بعد وہ ٹھنڈی آہیں بھرتا ہوا اپنے تخیل کے اڑن کھٹولے سے نیچے اترا اور چھت کی کڑیوں کی طرف دیکھتے ہوئے بلاسبب مسکرانے لگا۔ کچھ دیر قبل اس کے لیے شعوری طور پر جس چیز کے لیے سوچنا محال ہو رہا تھا، اب اس کا ذہن اس کے بارے میں خودبخود سبک روی سے سوچنے لگا۔ شمیم کے تصور کے بعد اب وہ چاچی کا تصور باندھنے لگا۔ سوچتے سوچتے اس نے لحاف اتارا، چارپائی سے اتر کر کمرے کے دروازے کے پاس گیا اور اس سے کان لگا کر کچھ دیر تک ان کی آپس کی باتیں سننے کی کوشش کرتا رہا۔ اس کے جی میں آیا کہ وہ دروازے کو دھکا دے کر اسی لمحے کھول دے اور اپنی آنکھوں سے انہیں قابلِ اعتراض حالت میں دیکھے۔ مگر اگلے ہی ثانیے وہ دروازے سے ہٹ گیا اور ٹہلتا ہوا برآمدے سے صحن میں آ گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ پہلی ملاقات پر اسے کیا باتیں کرنی چاہییں اور کس انداز سے کرنی چاہییں؟ کس طرح چکنی چپڑی اور دل لبھانے والی باتوں کے ذریعے شمیم کو شیشے میں اْتارنا چاہیے؟ اس حوالے سے اسے خود پر اعتماد نہیں ہو رہا تھا کیونکہ ماضی میں دو مرتبہ پہلے بھی وہ ایسے معاملات میں ناکامی کی اذیت برداشت کر چکا تھا۔
بہت پہلے کی بات تھی ۔نذیر نے اپنی بہن کی سہیلی سے پہلی بار ملتے ہی اس سے محبت کا اظہار کر دیا تھا۔ اس کے بے سلیقہ اظہار کا برا مان کر وہ لڑکی اس سے بدک گئی تھی اور اس نے اس کی بہن سے بھی ہمیشہ کے لیے ملنا ترک کر دیا تھا۔ دوسرا واقعہ اسی قصبے میں پیش آ چکا تھا۔ ایک دن وہ پرائمری اسکول کی عمارت کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اس نے ایک لڑکی کو اپنے گھر کے دروازے سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا۔ وہ اسے پہلی نظر میں ہی بھا گئی۔ اس کے بعد وہ کئی روز تک اس کے گھر کے باہر چکر لگاتا رہا۔ کبھی کبھار وہ دکھائی دے جاتی لیکن ہر بار اسے دیکھتے ہی پردہ گرا کر اندر بھاگ جاتی۔ ایک شام وہ اسے ایک سنسان گلی میں دکھائی دے گئی۔ اس نے فوراً اپنا دل کھول کر اس کے سامنے پیش کر دیا۔ لڑکی نے اس کا دل اپنے پیروں تلے روند ڈالا اوراسے برابھلا کہتی ہوئی چلی گئی۔
اسے خدشہ تھا کہ شمیم بھی کہیں اس کی بے ربط اور اکھڑی باتیں سن کر اس سے اکتا نہ جائے۔ پچھلے کچھ برسوں سے وہ شادی شدہ عورتوں سے تعلقات قائم کرنے کے خواب دیکھتا رہا تھا۔ اب اس نے لڑکیوں کو اپنی محبت کے لائق سمجھنا چھوڑ دیا تھا۔ ان کے نخروں کو برداشت کرنا اس جیسے کم ہمت کے بس کی بات نہیں تھی۔ جوانی کے حُسن اور فطری کشش کے باوجود اب قصبے کی لڑکیاں اسے بالکل اچھی نہیں لگتی تھیں۔
وہ اپنے خیالوں میں گم، صحن کے ٹھنڈی اینٹوں والے فرش پر چہل قدمی کرتا رہا۔ اچانک اسے محسوس ہوانے لگاکہ صحن کے چاروں کونوں سے بچھو اور سانپ اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس احساس سے خوفزدہ ہو کر وہ فوراً بھاگ کر برآمدے میں پڑی ہوئی چارپائی پر چڑھ گیا اور رضائی اپنے جسم پر اوڑھ کر بیٹھ گیا۔
بستر یخ بستہ ہو رہا تھا۔ اپنی رضائی پاؤں پر اچھی طرح اوڑھنے کے باوجود بہت دیر تک اس کے پیر گرم نہیں ہو سکے۔ تنگ آ کر وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے مَلنے لگا۔
پکوڑافرو ش نے رازداری سے اسے بتایا کہ آج رات ایک بجے وہ اپنے گھر کے پچھلے دروازے سے نکل کر پانی کے نالے کے پاس اس کا انتظار کرے گا۔
اسے اپنی حماقت کا احساس بہت تاخیر سے ہوا۔ اوس سے بھیگتی ہوئی رات میں صرف شلوار قمیض پہنے ہوئے گھر سے نکلنا بہت دشوار تھا۔ کمرے میں رکھے ہوئے اپنے صندوق سے چادر، مفلر اور جرابیں نکالنا اسے یاد نہیں رہا تھا۔ اس کے پاس صرف بغیر آستینوں والا سویٹر تھا۔ اس سویٹر کی مدد سے سردیوں کی رات کی ٹھنڈ اور پالے کا رْکنا محال تھا۔
اسے محسوس ہونے لگا کہ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی ہے۔ گھڑی پر وقت دیکھنے کے لیے برآمدے کا بلب جلانا ممکن نہیں تھا۔ اس کے پاس کوئی ماچس بھی نہیں تھی۔ وہ چارپائی سے اْتر کے دبے پاؤں باورچی خانے کی کوٹھڑی تک گیا۔ اس کے ٹھنڈے ہاتھ چولھے کی راکھ اور اس کے گردوپیش کی زمین ٹٹولتے رہے لیکن اسے وہاں ماچس نہیں ملی۔ اندازے سے اس نے خانوں والی الماری کھول کر اس میں ہاتھ مارا تو وہاں اسے ماچس مل گئی۔ دیاسلائی جلا کر اس کے شعلے کی روشنی میں اس نے گھڑی پر وقت دیکھ ہی لیا۔ بارہ بج کر دس منٹ ہو رہے تھے۔ وہ دیواریں ٹٹولتا باورچی خانے سے باہر نکلا اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا برآمدے میں اپنی چارپائی تک پہنچا۔ اس نے رات کے پالے سے بچنے کے لیے بستر سے چادر اتار کر اپنے گلے میں ڈال لی۔ پھر تکیے کو بستر کے درمیان رکھ کر اسے رضائی میں چھپا دیا تاکہ اگر کمرے سے کوئی باہر نکلے تو ابھری ہوئی رضائی دیکھ کر یہ سمجھے کہ وہ یہاں سو رہا ہے۔ رضائی کا اونچا ابھار بنا کر وہ خاصا مطمئن ہو گیا۔ اس کے بعد وہ دبے پاؤں چلتا ہوا گھر سے باہر نکلنے والے دروازے تک گیا۔ دروازے سے نکلنے کے بعد اس نے کنڈی چڑھا دی اور احتیاط سے چلتا گلی میں نکل گیا۔
اسے محسوس ہونے لگا کہ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی ہے۔ گھڑی پر وقت دیکھنے کے لیے برآمدے کا بلب جلانا ممکن نہیں تھا۔ اس کے پاس کوئی ماچس بھی نہیں تھی۔ وہ چارپائی سے اْتر کے دبے پاؤں باورچی خانے کی کوٹھڑی تک گیا۔ اس کے ٹھنڈے ہاتھ چولھے کی راکھ اور اس کے گردوپیش کی زمین ٹٹولتے رہے لیکن اسے وہاں ماچس نہیں ملی۔ اندازے سے اس نے خانوں والی الماری کھول کر اس میں ہاتھ مارا تو وہاں اسے ماچس مل گئی۔ دیاسلائی جلا کر اس کے شعلے کی روشنی میں اس نے گھڑی پر وقت دیکھ ہی لیا۔ بارہ بج کر دس منٹ ہو رہے تھے۔ وہ دیواریں ٹٹولتا باورچی خانے سے باہر نکلا اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا برآمدے میں اپنی چارپائی تک پہنچا۔ اس نے رات کے پالے سے بچنے کے لیے بستر سے چادر اتار کر اپنے گلے میں ڈال لی۔ پھر تکیے کو بستر کے درمیان رکھ کر اسے رضائی میں چھپا دیا تاکہ اگر کمرے سے کوئی باہر نکلے تو ابھری ہوئی رضائی دیکھ کر یہ سمجھے کہ وہ یہاں سو رہا ہے۔ رضائی کا اونچا ابھار بنا کر وہ خاصا مطمئن ہو گیا۔ اس کے بعد وہ دبے پاؤں چلتا ہوا گھر سے باہر نکلنے والے دروازے تک گیا۔ دروازے سے نکلنے کے بعد اس نے کنڈی چڑھا دی اور احتیاط سے چلتا گلی میں نکل گیا۔
گلی میں گہرا سناٹا تھا۔ موسمِ زمستاں کی یہ شب کہرآلود تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آسمان سے یخ بستہ بوندیں برس رہی ہوں۔ ابھی نہر کے پْل تک اسے بہت سی گلیوں سے گزرنا تھا۔ وہ اپنے بے اعتماد قدموں اور بے ترتیب سانسوں کی آوازیں سنتا نپے تلے قدموں سے چلتا رہا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ بہت مرتبہ کی دیکھی بھالی اور دن کے وقت مہربانی سے پیش آنے والی گلیاں آدھی رات کو جانی دشمن کی طرح نظر آ رہی تھیں۔
چوکیدار کی سیٹی سن کر وہ ہر بارچونک جاتا تھا۔ اسے محسوس ہوتا کہ وہ برابر والی گلی سے گزر رہا ہے۔ وہ اس کے قدموں کی آہٹ سننے کی کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ ہر گلی کے دونوں طرف دیواروں کا طویل سلسلہ تھا۔ ہر موڑ کے بعد نئی دیواریں آ جاتیں اور وہ ان کے بیچ سہما ہوا اور خوف سے لرزتا ہوا قدم بڑھاتا رہا۔
ایک ڈھلان کی چڑھائی چڑھنے کے بعد وہ نہر کے کنارے پر پہنچ گیا۔ تیز چلنے کی وجہ سے اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ قصبے کی آبادی سے نکل کر کھلی فضا میں آتے ہی اسے سردی زیادہ محسوس ہونے لگی۔ وہ درختوں کی قطار کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس کی نظریں پْل پر جمی ہوئی تھیں جو دور سے دھند اور کہرے میں لپٹا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے نہر کے پانی کی سطح پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے پانی میں موتی جگمگا رہے ہوں۔ رات کے اس پہر پْل ویران لگ رہا تھا۔ اس نے ٹھٹھرتے ہوئے تیزرفتاری سے چل کر پل عبور کیا۔ پل سے نیچے اتر کر اسے تھوڑی دور چلنے کے بعد دائیں جانب کی جھاڑیوں سے گاڑھا دھواں اْٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ دھواں دیکھتے ہی وہ ٹھٹک کر رک گیا۔ اس نے چرس کی مخصوص خوشبو کو پہچان لیا تھا۔ وہیں کھڑے کھڑے وہ دھیرے سے کھنکارا تو اسے جھاڑیوں میں سے کسی کے کھانسنے کی آواز سنائی دی۔ کھانسی کی آواز پہچانتے ہوئے وہ جھاڑیوں کی طرف چلا گیا۔ وہاں نورل جوگی اس کا انتظار کرتے ہوئے چرس کی سلفی پینے میں مگن تھا۔
اس کے جی میں آیا کہ وہ دروازے کو دھکا دے کر اسی لمحے کھول دے اور اپنی آنکھوں سے انہیں قابلِ اعتراض حالت میں دیکھے۔ مگر اگلے ہی ثانیے وہ دروازے سے ہٹ گیا اور ٹہلتا ہوا برآمدے سے صحن میں آ گیا۔
رات کے اس پہر ہوا مکمل طور پر بند تھی۔ تمام چیزوں پر سکوت طاری تھا۔ آسمان کی چاروں انتہاؤں سے یخ بستگی زمین پر ٹپک رہی تھی اور دھیرے دھیرے ساری فضا میں پھیل رہی تھی۔ نذیر محسوس کر رہا تھا کہ اس کے کپڑے بھی آسمان سے گرتی اوس سے بھیگنے لگے تھے اور اس کی ناک کے نتھنوں میں سانسیں جم رہی تھیں۔ اس کے باوجود پکوڑافروش کی فراخدلانہ پیشکش ٹھکراتے ہوئے اس نے سلفی پینے سے انکار کر دیا۔ اس کے انکار کے بعد نورل جوگی نے بھی اصرار نہیں کیا۔ وہ نشے کی کثرت کے باوجود بچے رہ جانے والے اپنے ہوش وحواس کو بروے کار لاتے ہوئے نذیر کو گوٹھ میں واقع شمیم کے مکان کا حدوداربعہ سمجھانے لگا۔
“وہ دیکھو۔۔۔ اْس طرف! ہاں، وہ جو سیمنٹ سے بنی ہوئی صاف ستھری عمارت ہے نا، وہ ہمارے گوٹھ کی یونین کونسل ہے۔ کبھی بھول کر بھی اس کے قریب سے مت گزرنا۔ یونین کونسل کا چوکیدار شام ڈھلتے ہی اس کے باہر کتے چھوڑ دیتا ہے۔ بڑے مادرچود کتے ہیں وہ۔ ایک بار انھوں نے میری پنڈلی بھی نوچ کھائی۔ میں پورے چار مہینے چارپائی پر لیٹا رہا تھا۔ اچھا؟ ہاں، اس یونین کونسل سے کچھ آگے ہاریوں کی جھونپڑیاں ہیں۔ یہ سب کے سب ہاری گل پانگ قبیلے سے ہیں۔ گل پانگ پورے خیرپور میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی عورتیں ضلع بھر میں مشہور ہیں۔ ہر سال ہمارے جوگیوں کا بھی بہت سا روپیہ ان پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اگر تمھاری ٹھرک بڑھ جائے تو بتانا۔” بات کرتے کرتے وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔
نذیر دیکھ رہا تھا کہ پکوڑافروش دن بھر قصبے میں جوتیا ں چٹخانے کے بعد اس وقت تھکن سے چور تھا اور نشے کی زیادتی کی وجہ سے اس کے اعصاب مضمحل لگ رہے تھے۔
اس نے مسکراتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ “یہ گل پانگ ہم جوگیوں کی عزت پر داغ ہیں۔ مگر ہم کیا کر سکتے ہیں؟ کچھ بھی نہیں کر سکتے! ان بھڑووں کو اپنے گوٹھ سے نہیں نکال سکتے کیونکہ ہمارے وڈیرے ایک نمبر کے رنڈی باز ہیں۔”
اس کی بے تکی باتیں سن کر نذیراونگھنے لگا تھا۔ اس نے ماچس کی تیلی جلا کر گھڑی پر وقت دیکھا۔ نورل سے چرس کا سگریٹ بنانے کی درخواست کرتے ہوئے اس کے دانت کٹکٹانے لگے تھے۔ اس کی آنکھیں شدید تکان کے سبب بند ہو رہی تھیں۔
اس کی بے تکی باتیں سن کر نذیراونگھنے لگا تھا۔ اس نے ماچس کی تیلی جلا کر گھڑی پر وقت دیکھا۔ نورل سے چرس کا سگریٹ بنانے کی درخواست کرتے ہوئے اس کے دانت کٹکٹانے لگے تھے۔ اس کی آنکھیں شدید تکان کے سبب بند ہو رہی تھیں۔
اسے محسوس ہو رہا تھا کہ بہت مرتبہ کی دیکھی بھالی اور دن کے وقت مہربانی سے پیش آنے والی گلیاں آدھی رات کو جانی دشمن کی طرح نظر آ رہی تھیں۔
نورل جوگی کے ہاتھوں نے چابک دستی سے سگریٹ بنا کر اس کی طرف بڑھایا۔ نذیر نے اسے دیاسلائی سے سلگاتے ہوئے ایک زوردار کش لگایا۔ سگریٹ پینے کے بعد وہ خود کو بہتر محسوس کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے پوری طرح اپنے ہاتھ پھیلا کر انگڑائی لی اور اس کے بعد ڈنڈ نکالنے لگا۔
وہ رات کے اس پہر ویران سڑک پر چلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ جھاڑیوں کے ساتھ ہی گنے کے کھیت واقع تھے۔ وہ جھاڑیوں کے بیچ چلتے چلتے گنے کے کھیتوں میں داخل ہو گئے۔ گنے کے قدآور پودے ان کے جسموں سے ٹکرا ٹکرا کر دھیما سا شور مچانے لگے۔ نورل نے اس کے پاس آ کر سرگوشی میں کہا، “تمام گوٹھوں کے عاشقوں کے لیے کماد کی فصل خدا کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے۔”
یہ بات سن کر نذیر خود کو ہنسنے سے نہ روک سکا۔
گنے کی فصل میں کچھ دور تک چلنے کے بعد وہ رک گئے۔ انھوں نے فصل سے باہر سر نکال کر اِدھراْدھر دیکھا، پھر احتیاط سے دبے پاؤں چلتے ہوئے گاؤں کی طرف جانے والا راستہ پار کیا اور تیزی سے پرلی طرف کے کھیت میں گھس گئے۔ چلتے چلتے نذیر کی چپلیں گیلی مٹی لگنے کی وجہ سے بھاری ہو گئی تھیں۔ مزید آگے جا کر پانی بہنے کی سرسراہٹ سنائی دی۔ یہ آواز پانی کے نالے سے آ رہی تھی۔ کچھ دور جانے کے بعد انہیں وہ نالہ دکھائی دینے لگا۔ سیمنٹ سے بنے ہوئے اس نالے کے پاس جا کر فصل ختم ہو جاتی تھی۔
نورل نذیر کو نالے کے پاس، شیشم کے ایک درخت کی اوٹ میں کھڑا ہونے کا مشورہ دے کر غائب ہو گیا۔ نذیر پگڈنڈی پر تیزی سے چلتے اس کے پیروں کی دھپ دھپ سنتا رہا۔ اس کے بعد وہ گردوپیش نگاہ ڈال کر آہستہ آہستہ چلتا شیشم کے پیڑ کی اوٹ میں جا کھڑا ہوا۔ کچھ دیر بعد وہ کھڑا رہ رہ کر تھک گیا تو نالے پر جا کر بیٹھ گیا۔ نالے کا سیمنٹ اس وقت یخ ہو رہا تھا۔
گل پانگ پورے خیرپور میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی عورتیں ضلع بھر میں مشہور ہیں۔ ہر سال ہمارے جوگیوں کا بھی بہت سا روپیہ ان پر خرچ ہو جاتا ہے۔
گوٹھ کے مکانوں کا پچھلا حصہ اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ وہ ان مکانوں میں شمیم کا مکان تلاش کرنے لگا۔ اسے یقین تھا کہ بائیں طرف بنے ہوئے تین پختہ مکانوں میں سے ایک میں شمیم رہتی تھی۔ کپاس کی لکڑیوں اور شرینہہ کے پیڑوں کے سایوں کی وجہ سے وہ ان مکانوں کے دروازے نہیں دیکھ سکا۔
وہ شیشم کے جس طویل قامت پیڑ کے نیچے کھڑا تھا اس نے جب اس کے موٹے سے تنے کو دیکھا تو اس کے رگ و پے میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ بچپن میں سنے ہوئے بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے اسے یاد آنے لگے۔ وہ زمین پر پھیلے ہوئے اس درخت کے سائے کو دیکھتا رہا۔
نجانے کیوں باربار اس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ اس سے ملنے یہاں نہیں آئے گی، مگر اس کے باوجود وہ دیر تک وہاں سر جھکائے بیٹھا رہا۔ اس نے گھڑی پر وقت بھی نہیں دیکھا۔ اسے اندازہ تھا کہ اب شاید رات کے دو بجنے والے ہوں گے۔ وہ اپنے تخیل کی مدد سے سوچنے لگا۔ “شاید وہ اپنے کمرے سے باہر آ گئی ہو مگر اپنے شوہر کو دھوکا نہ دینا چاہتی ہو اور برآمدے میں ٹہلتی ہوئی کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش میں ہو۔”
اچانک ایک لرزا دینے والے خیال نے اس کے خوف میں اضافہ کر دیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں پکوڑافروش نے اسے کوئی فریب نہ دیا ہو؛ کہیں اس کی سنائی ہوئی ساری باتیں جھوٹی نہ ہوں اور کہیں اس نے اس کے خلاف کوئی سازش تیار نہ کر رکھی ہو۔ اس کا ذہن مختلف وسوسوں اور اندیشوں سے بھر گیا۔ اسی کیفیت کے زیرِاثر وہ سیمنٹ کے نالے سے اْٹھ کر چلتا ہوا کماد کے کھیت میں جا کر چھپ گیا۔ بہت دیر تک وہ وہاں چھپا سامنے کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کی نگاہ شرینہہ کے دیوقامت پیڑوں کے سایوں پر جمی تھیں۔
اچانک اسے کسی کے قدموں کے نیچے کپاس کی سوکھی لکڑیوں کے کچلنے کی دھیمی دھیمی سی چرمراہٹ سنائی دی۔ اس کے بعد اس نے چاندنی میں وہاں ایک سائے کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ اطمینان کا سانس لیتے ہوئے گنے کی فصل سے باہر نکلا اور شیشم کے درخت کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اب وہ واضح طور پر دیکھ رہا تھا کہ شمیم ہولے ہولے قدم اٹھاتی اس کی طرف بڑھتی آ رہی تھی، مگر چلتے چلتے وہ اچانک کھڑی ہو گئی۔ چادر میں لپٹی ہوئی شمیم نے اسے اشارہ کرتے ہوئے اپنی طرف بلایا۔ اس کے اشارے پر وہ حواس باختگی سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا تیزی سے اس کے قریب پہنچا۔
شمیم لجاتے اور کسمساتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی۔ “نزدیک ہی ایک محفوظ جگہ ہے۔ آؤ چل کر وہاں بیٹھتے ہیں۔”
سردیوں کی رات کے گہرے سکوت میں اس کی آواز نذیر کو کسی شیریں نغمے جیسی محسوس ہوئی۔ وہ اس کی آواز کی تعریف کرنا چاہتا تھا مگر سر جھکائے چپ چاپ اس کے پیچھے چلنے لگا۔ سردی کے سبب اس کا جسم کپکپا رہا تھا۔ اس کے بند ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ آگے چلتی، کپڑوں میں سمٹی ہوئی عورت کو دیکھ رہا تھا جو بے آواز قدم اٹھاتی چل رہی تھی۔
کچھ دور جا کر وہ ٹھہر گئی۔ اسے دیکھ کر نذیر بھی رک گیا۔ نذیر نے جگہ کے انتخاب کی بہت تعریف کی۔ شمیم اسے بتانے لگی کہ اسے اس علاقے کے چپے چپے کی خبر تھی۔
کچھ دور جا کر وہ ٹھہر گئی۔ اسے دیکھ کر نذیر بھی رک گیا۔ نذیر نے جگہ کے انتخاب کی بہت تعریف کی۔ شمیم اسے بتانے لگی کہ اسے اس علاقے کے چپے چپے کی خبر تھی۔
نورل نے اس کے پاس آ کر سرگوشی میں کہا، “تمام گوٹھوں کے عاشقوں کے لیے کماد کی فصل خدا کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے۔”
آج بھی اس نے اپنا چہرہ نقاب میں چھپایا ہوا تھا۔ اندھیرے کے سبب وہ اس کی تاب ناک آنکھوں کو نہیں دیکھ سکا۔ اس کے جسم کا کوئی حصہ بھی چادر سے باہر نہیں تھا۔
کچھ دیر بعد اس نے دو قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے اپنے چہرے سے نقاب اْتار دیا۔
نذیر بہت غور سے اسے دیکھنے لگا۔ وہ زیادہ خوبصورت نہیں تھی مگر اس وقت اسے بیحد پر کشش محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سندھی گانوں کی مدد سے اس کی تعریف کرنے لگا۔ اس کے چہرے کو چاند اور آنکھوں کو ستاروں سے تشبیہ دینے لگا۔ ایک نوجوان لڑکے سے اپنی تعریفیں سن کر شمیم مسکرانے لگی۔ وہ کئی برسوں کے بعد کسی کے ہونٹوں سے اپنی اتنی تعریف سن رہی تھی۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ اسے اپنی معمولی زندگی کی معمولی سی باتیں مزے لے لے کر سنانے لگی۔
نذیر کو حیرت ہو رہی تھی کہ اب تک اس نے اپنے شوہر کے خلاف کوئی جملہ نہیں کہا تھا، جبکہ پکوڑافروش نے اسے بتایا تھا کہ ان دونوں کے تعلقات ٹھیک نہیں چل رہے۔
نذیر کو حیرت ہو رہی تھی کہ اب تک اس نے اپنے شوہر کے خلاف کوئی جملہ نہیں کہا تھا، جبکہ پکوڑافروش نے اسے بتایا تھا کہ ان دونوں کے تعلقات ٹھیک نہیں چل رہے۔
شمیم کو نذیر سے ملاقات کے لیے جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ ان کا بیان مبالغہ آرائی سے کرتی رہی۔ اس کی گنگناتی آواز سنتے ہوئے وہ اپنی تمام اذیت بھول گیا۔ وہ صرف اس کی صورت دیکھتا اور اس کی باتیں سنتا رہا۔ اس نے اس کے نزدیک کھڑے ہو کر اس کے بالوں کی مانگ کو دیکھا، پھر اس کی پیشانی اور اس کی آنکھوں کو، اس کے بعد اس کے ہونٹوں اور گالوں کو۔ اس نے اس کی جلد کی سفید رنگت کو دیکھا۔ اس کی کلائی کی چوڑیوں کو دیکھا جو باربار خودبخود کھنک پڑتی تھیں۔ اس کا مترنم اور دھیما لہجہ اس پر فسوں طاری کر رہا تھا۔ اوڑھی ہوئی چادر کے باوجود اس کے سینے کا ابھار صاف دکھائی دے رہا تھا۔
شمیم بھی اس کی نظروں سے غافل نہیں تھی۔ وہ اس کی نگاہوں کی خاموش تعریف سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچانک کسی احساس کے زیرِاثر اس کے لہجے کی بے ساختگی ختم ہو گئی اور وہ اٹک اٹک کر باتیں کرنے لگی۔
نذیر کے لیے یہ لمحات اس کی زندگی کے سب سے زیادہ مسرور لمحات تھے۔ ایک شادی شدہ جوان خاتون اس کے پہلو میں تھی اور اس کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگا کراس سے ملنے آئی تھی۔ وہ دونوں آنے والے دنوں میں اپنی ملاقاتوں کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔
شمیم کو نذیر سے ملاقات کے لیے جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ ان کا بیان مبالغہ آرائی سے کرتی رہی۔ اس کی گنگناتی آواز سنتے ہوئے وہ اپنی تمام اذیت بھول گیا۔
شمیم نے اسے بتایا کہ آئندہ اس کے لیے رات کے وقت کھیتوں میں آنا ممکن نہیں ہو گا۔ وہ خوفزدہ تھی۔ اس نے کہا کہ وہ اس سے ملنے کے لیے کوئی اور بندوبست کرے گی۔ اس نے اپنے دل میں امڈتی ہوئی محبت کا اظہار کیا اور نذیر کی تعریفیں کرنے لگی۔ وہ مسکرایا اور اس نے موج میں آ کر، آگے بڑھ کر شمیم کو اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ اس نے پہلی بار نسوانی جسم کے اضطراب اور اس کی نرمی کو اپنے بازوؤں میں مچلتے محسوس کیا۔ اسے لگا کہ وہ ریشم کے نرم و ملائم تھان سے لپٹ گیا ہے۔ وہ اس کے بازوؤں میں کسمسانے لگی۔ اس کے بدن سے اٹھتی کسی عطر اور پاؤڈر کی خوشبو اسے بے حد مسحورکن محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے پہلابوسہ اس کے داہنے ہاتھ پر دیا، وہ جس کی مدد سے اپنا چہرہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ نذیر نے اپنے ہاتھوں سے اس کے دونوں ہاتھ ہٹا کر اس کے نرم ہونٹوں کو چومنے لگا۔ وہ ان لمحوں کے ذریعے اپنی زندگی بھر کی محرومی کو سیراب کرنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے نجانے کیا ہوا کہ وہ اس کی چادر کو چومتے چومتے اس کے سینے سے نیچے آیا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔
شمیم گڑبڑا گئی۔ اس نے اس کے بوسوں کے خلاف برائے نام مزاحمت کی۔ اس نے اپنے نوآموز عاشق کے وحشی پن کا برْا نہیں مانا اگرچہ اس کے تیزوتند بوسوں نے اس کے انگ انگ میں ہیجان برپا کر دیا تھا۔ نذیر بھی اپنے آپ میں نہیں تھا۔ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر اس کی ٹانگوں کو بھینچتا رہا۔ اس صورتِ حال میں شمیم کو خود کو سنبھالنے کا موقع مل گیا۔
کچھ دیر بعد وہ زمین سے اٹھا اور اس نے دوبارہ اس کی کمر کے گرد بازو ڈالنے کی کوشش کی مگر اس مرتبہ وہ پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے دھیمے لہجے میں اسے سرزنش کی۔
عورت کے جسم سے پہلی ہم آغوشی نے نذیر کو نشے سے چْور کر دیا تھا۔ وہ اس کے ہم راہ زمین پر اگی ہوئی گھاس پر، گنے کے کھیتوں میں، شیشم کے پیڑ کے نیچے، غرض ہر جگہ بوس و کنار کرنا چاہتا تھا، اس کے جسم کو آغوش میں لے کر رقص کرنا چاہتا تھا، مگر شمیم نے اگلے ہی ثانیے اسے دھکا دے کر سب کچھ ختم کر دیا۔ وہ نذیر پر طاری ہونے والی پیار کی وحشت سے خوفزدہ ہو گئی تھی۔ اس سے الگ ہوتے ہی وہ اپنی بپھری ہوئی سانسوں کو سنبھالنے لگی۔ نذیر نے اس کے قریب آ کر اس سے اپنے رویے پر معذرت کی تو وہ مسکرانے لگی۔
اگلے ہی لمحے اس نے اپنارخِ روشن نقاب میں چھپا لیا۔ نذیر سے مخاطب ہو کر اس نے اسے”اللہ وائی” کہا اور اس کے بعد پلٹ کر سبک خرامی سے چلتی ہوئی، دیوقامت شرینہہ کے درختوں کے سائے میں غائب ہو گئی۔
عورت کے جسم سے پہلی ہم آغوشی نے نذیر کو نشے سے چْور کر دیا تھا۔ وہ اس کے ہم راہ زمین پر اگی ہوئی گھاس پر، گنے کے کھیتوں میں، شیشم کے پیڑ کے نیچے، غرض ہر جگہ بوس و کنار کرنا چاہتا تھا
اس کے جانے کے فوراً بعد نذیر کو احساس ہوا کہ شاید اس نے اپنے رویے سے اسے سہما دیا۔ اپنے احمقانہ رویے کی تلافی کی خاطر اس نے اسے آواز دی مگر اس کی آواز گوٹھ کے مکانوں کے درودیوار سے ٹکرا کر واپس آ گئی۔ وہ دیر تک وہیں پر مبہوت کھڑا اسی سمت دیکھتا رہا، کچھ دیر پہلے وہ جس طرف گئی تھی۔
گھر سے گوٹھ ہاشم جوگی کی جانب آتے ہوئے خوف کے سبب نذیر کے رگ و ریشے میں جو کپکپی طاری تھی، واپس جاتے ہوئے اس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ آتے ہوئے اسے جو راستہ طویل اور لامتناہی محسوس ہو رہا تھا، واپسی پر اسے پتا ہی نہیں چلا اور وہ سبک روی سے چلتا ہوا گھر تک پہنچ گیا۔
(جاری ہے)