رفاقت حیات کے ناول ‘میر واہ کی راتیں‘ کی دیگر اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
بلی کے پنجوں کی رگڑ، اس کے جسم کے وزن اور اس کی لجلجاہٹ نے اسے لذت بھرے طلسمی دریا سے نکال کر باہر اچھال دیا۔ وہ چند لمحے نسوانی جسم پر بے سُدھ لیٹا رہا۔ اس بدن کے بوجھ سے شمیم کی سانسیں گھٹنے لگیں۔ وہ ا س کے نیچے تڑپ رہی تھی اور آہیں بھر رہی تھی۔ دفعتاً نذیر نے اپنا سر اٹھایا اور صحن سے ملحقہ برآمدے کی طرف دیکھا اور گھر کی دیگر اشیا پر بھی نگاہ ڈالی۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ نیند اور سکوت میں ڈوبا ہوا گھر اور اس کی تمام چیزیں یک بہ یک بیدار ہو گئی ہیں اور اس بلی کی طرح غراتی ہوئی اس کی جانب لپک رہی ہیں۔ خوف اور دہشت کے سبب اس کے جسم کے ایک ایک عضو میں تشنج کی لہر سی دوڑ گئی۔
شمیم کا ہاتھ اٹھا اور اس کے سر کے بالوں سے اٹکھیلیاں کرنے لگا۔ وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دھیرے سے گویا ہوئی، “کیا ہوا؟ تم ایک بلی سے ڈرگئے؟”
شمیم کا ہاتھ اٹھا اور اس کے سر کے بالوں سے اٹکھیلیاں کرنے لگا۔ وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دھیرے سے گویا ہوئی، “کیا ہوا؟ تم ایک بلی سے ڈرگئے؟”
نذیر نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا۔ “اس نے تو میری جان ہی نکال دی،” اس نے تیز اور طویل سانس کھینچتے ہوئے کہا۔ “مجھے لگا کہ وہ کوئی بلی نہیں، بلکہ کوئی غیر مخلوق ہے۔” اس کی یہ بات سن کر شمیم افسوس سے سر ہلانے لگی۔
اسے سر ہلاتے دیکھ کر نذیر کو اپنی شکست کا احساس ہونے لگا۔ وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے اس پر دوبارہ دراز ہو گیا اور اس کے کانوں کی لووں کے آس پاس کے نرم و گداز علاقے پر اپنے بوسوں کی بارش کرنے لگا۔ مگر اس مرتبہ اس کے بوسوں میں نہ پہلے والی حدت رہی تھی اور نہ ہی وہ شدت۔ پہلے بوسوں کے دوران اس کے انگ انگ پر عجیب سی مستی چھا گئی تھی۔ وہ ایک طائرِ آزاد کے مانند فضاے جسم کے تمام گوشے دریافت کرتا رہا تھا اور نت نئی دریافتوں کے لیے کوشاں تھا، لیکن اب اس کے ہر بوسے سے بیزاری کا احساس نمایاں ہو رہا تھا۔ اس کے لیے وہ کارِ لذت سے زیادہ عذابِ جاں بن کر رہ گیا تھا۔ وہ اس کی گردن کی مہین و نازک جلد کو اپنے لبوں سے چومتا اور نوکِ زبان سے چاٹتا رہا مگر اس کے اندر کی تحریک مردہ ہو چکی تھی اور اس کے لہو میں سنسناتے، کلبلاتے، تڑپتے، تلملاتے سارے جذبے سرد پڑ چکے تھے۔ اچانک وہ شمیم کے اوپر سے ہٹا اور اس کے برابر میں لیٹ گیا۔
شمیم کروٹ لیتی ہوئی اٹھی اور کھاٹ سے اتر کر جلدی جلدی کپڑے پہننے لگی۔ نذیر نے کھاٹ پر لیٹے لیٹے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا، مگر اس نے ایک ہی جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ اس کی گرفت مضبوط نہیں تھی۔ اس نے دھیمے لہجے میں آواز دے کر اسے بلانا چاہا، مگر وہ اس کے قریب نہیں آئی۔ وہ ذرا پرے ہو کر آہیں بھرتی اپنے لباس کی شکنیں درست کرتی رہی۔ پھر وہ آنگن میں رکھی گھڑونچی کی طرف گئی، اس نے مٹکے کو لٹا کر کٹورے میں پانی انڈیلا اور اس کے بعد زمین پر بیٹھ کر گھونٹ گھونٹ پانی پینے لگی۔
نذیر شدید اذیت میں تھا۔ وہ کچھ دیر تک بے تکے انداز میں چارپائی پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا رہا، پھر نیچے اتر کر کپڑے اٹھائے کونے میں چلا گیا۔ شمیم پیتل کے کٹورے میں اس کے لیے پانی لے آئی۔ وہ اس کے ہاتھ سے پانی کا کٹورا لے کر کئی دنوں کے پیاسے شخص کی طرح یک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی گیا۔
“میری ساس تھوڑی دیر میں اٹھنے والی ہے، اگراس نے دیکھ لیا تو یہ ہم دونوں کے لیے اچھا نہیں ہو گا،” وہ دھیمے لہجے میں بولی اور اس کے ہاتھ سے کٹورا لے کر دور ہٹ کر کھڑی ہو گئی۔
وہ اس سے کچھ دیر باتیں کرنا چاہتا تھا، اسے اپنی حالتِ زار کے بارے میں بتانا چاہتا تھا، لیکن اس کی بات سننے کے بعد اس میں کچھ بھی کہنے کا حوصلہ نہ رہا۔ وہ ہونق نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ اسے احساس ہو چکا تھا کہ اب اس کی تمام گرم جوشی پر اوس پڑ چکی ہے۔ نذیر اٹھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور دھیرے دھیرے صحن کی طرف بڑھنے لگا۔
صحن سے برآمدے میں آتے ہوئے وہ ایک ستون سے ٹکرایا۔ وہ خود کو سنبھالنا چاہتا تھا مگر اس کے اعصاب پر ایک حواس باختگی طاری ہو چکی تھی۔ کھیتوں کی طرف کھلنے والے دروازے سے نکلتے ہوئے اس کا پیر چوکھٹ سے بھی ٹکرا یا۔ اس مرتبہ وہ لڑکھڑایا اور باہر کی طرف منھ کے بل گرتے گرتے بچا۔ وہ سنبھل تو گیا مگر اس کے پاؤں کی ڈگمگاہٹ ختم نہیں ہو سکی۔ وہ گھر سے باہر نکلا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔ اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، نہ راستہ، نہ مکان، نہ کھیت۔ وہ ڈگمگاتا اور لڑکھڑاتا ناہموار زمین پر چلتا رہا۔ وہ پلٹ کر دیکھنا چاہتا تھا مگر دیکھ نہیں سکا۔ وہ جانتا تھا کہ پیچھے دو آنکھیں اسے رخصت کرنے کے لیے موجود ہیں۔ اپنی ندامت اور خفت کے سبب اس کے لیے ان آنکھوں کی طرف دیکھنا ممکن نہ تھا۔ وہ جلدازجلد یہاں سے دور جانا چاہتا تھا تاکہ ان آنکھوں کی پہنچ سے نکل جائے۔
شمیم گھر کے دروازے سے لگ کر نڈھال کھڑی آہیں بھرتی رہی اور اسے جاتے ہوئے تکتی رہی۔ کچھ دیر بعد اس نے دروازہ بند کر دیا اور کنڈی چڑھا دی۔
نذیر کا وجود درد کا گولہ بنا ہوا تھا۔ اس کی ٹانگیں دکھ رہی تھیں۔ بازوؤں میں اتنا شدید درد تھا کہ اسے لگتا تھا کہ وہ کٹ کر اس کے کاندھے سے جھول رہے ہیں۔ زمستاں کی رات میں گرتے کہرے اور پالے میں اسے اپنا خون اور اپنی سانسیں منجمد ہوتی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ اوبڑکھابڑ زمین پر دقت کے ساتھ قدم رکھتا رہا۔
وہ شرینہہ کے دیوقد پیڑ کے پاس پانی کے نالے پر بیٹھ گیا۔ آنے کے بعد وہ اسی جگہ بیٹھ کر شمیم کا انتظار کرتا رہا تھا۔ نالے کی سیمنٹ کی سطح اسے پہلے سے بہت زیادہ یخ محسوس ہو رہی تھی۔ وہ بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو مسلنے لگا تاکہ وہ گرم ہو سکیں، مگر بہت دیر تک ہاتھ مسلتے رہنے کے باوجود ان میں حرارت پیدا نہ ہو سکی۔ اس کی ٹانگیں بھی وقفے وقفے سے کانپ رہی تھیں۔
وہ شرینہہ کے دیوقد پیڑ کے پاس پانی کے نالے پر بیٹھ گیا۔ آنے کے بعد وہ اسی جگہ بیٹھ کر شمیم کا انتظار کرتا رہا تھا۔ نالے کی سیمنٹ کی سطح اسے پہلے سے بہت زیادہ یخ محسوس ہو رہی تھی۔ وہ بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو مسلنے لگا تاکہ وہ گرم ہو سکیں، مگر بہت دیر تک ہاتھ مسلتے رہنے کے باوجود ان میں حرارت پیدا نہ ہو سکی۔ اس کی ٹانگیں بھی وقفے وقفے سے کانپ رہی تھیں۔
وہ اچانک اْٹھا اور ایک پگڈنڈی پر دوڑ کر رگوں میں جامد خون کو گرم کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دور جا کر رات کے پالے سے بھیگی ہوئی پگڈنڈی پر اس کا پاؤں پھسلا اور وہ کماد کی فصل میں جا گرا۔ اس کے کپڑے اور پاؤں گیلی مٹی میں آلودہ ہو گئے۔ گرنے سے اس کا بدن اور زیادہ دکھنے لگا۔ کماد کے کھیت میں دشواری سے چلتے ہوئے وہ دھیرے دھیرے گوٹھ ہاشم جوگی سے دور ہوتا چلا گیا۔
بہت آگے جا کر وہ جھاڑیوں سے باہر نکلا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا نہر کے پْل پر پہنچ گیا اور اندھیرے کے سبب سیاہ نظر آتے پانی کو دیکھنے لگا۔ نہر کا پانی اپنے کناروں سے نیچے نیچے بہہ رہا تھا۔ اس کی سطح پر ٹمٹماتے ستاروں کا عکس جھلملا رہا تھا۔
ہولے ہولے اس کا خوف زائل ہو رہا تھا۔اسے درختوں کا عکس پانی میں دھندلے دھبوں کی طرح نظر آ رہا تھا۔
اس نے قصبے کے مکانوں کی جانب نگاہ کی تو وہ سب اسے ایک ڈھیر کی صورت ایک دوسرے کے اوپر تلے پڑے ہوئے دکھائی دیے۔ وہ مکانات کے اس ڈھیر میں چھپی ہوئی گلیوں سے اس طرف آیا تھا۔ پل پر کھڑے کھڑے اس نے اپنی چشمِ تصور سے شمیم کو بستر پر درازدیکھا اور اس کی تلخ آہوں کو سنا۔ اس نے بے بسی اور لاچاری سے دانت کچکچائے۔ اپنی دونوں مٹھیاں بھینچ لیں۔ اس کے وجود میں ایک ساتھ اذیت کی کئی لہروں نے سر اٹھایا۔ اس کے دل نے چاہا کہ وہ اونچی آواز میں چیخے چلائے اور سینہ کوبی کرتے ہوئے اپنی چھاتی کو زخمی کر ڈالے۔ اسے اپنے وجود کے وہ سب حصے جن سے اس نے شمیم کو چھوا تھا، قابلِ نفریں محسوس ہونے لگے۔ اس نے اپنی انگلیوں کی طرف دیکھا اور اپنے ہاتھ سے اپنے ہونٹوں کو ٹٹولنے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہاں سے خون رسنے لگے۔ اس نے نہر کنارے کسی درخت پر رسی باندھ کر خودکشی کے بارے میں سوچا۔
وہ بڑبڑایا: “آج کے دن کی شروعات منحوس طریقے سے ہوئی تھی۔”
اس کے بدن میں اب بھی درد تھا اور اس کے اعضا کی دکھن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ وہ پل سے اتر کر نہر کے کنارے پیڑوں کی قطار کے نیچے چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر وہ ایک ایسی جگہ پر کنارے سے نیچے اترنے لگا جہاں پر نہر کا پانی اسے زیادہ گہرا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ بے سوچے سمجھے نہر کنارے کی ٹھنڈی ٹھنڈی گھاس پربیٹھ گیا۔ کچھ آگے کھسک کر اس نے اپنی چپلوں سمیت اپنے پاؤں نہر میں ڈال دیے۔ نہر کا پانی اسے بہت ٹھنڈا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی یخ لہریں اس کے ٹخنوں اور پنڈلیوں میں گھسنے لگیں۔ مگر نذیر کے سر میں عجیب سودا سمایا ہوا تھا۔
اس کے بدن میں اب بھی درد تھا اور اس کے اعضا کی دکھن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ وہ پل سے اتر کر نہر کے کنارے پیڑوں کی قطار کے نیچے چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر وہ ایک ایسی جگہ پر کنارے سے نیچے اترنے لگا جہاں پر نہر کا پانی اسے زیادہ گہرا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ بے سوچے سمجھے نہر کنارے کی ٹھنڈی ٹھنڈی گھاس پربیٹھ گیا۔ کچھ آگے کھسک کر اس نے اپنی چپلوں سمیت اپنے پاؤں نہر میں ڈال دیے۔ نہر کا پانی اسے بہت ٹھنڈا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی یخ لہریں اس کے ٹخنوں اور پنڈلیوں میں گھسنے لگیں۔ مگر نذیر کے سر میں عجیب سودا سمایا ہوا تھا۔
وہ نہر کے پانی میں لرزتا ہوا اپنا دھندلا دھندلا عکس دیکھتا رہا۔ وہ اپنی رگوں میں اپنے جامد خون کو گرمانا چاہتا تھا۔ شمیم سے ملاقات کے دوران اسے جس ہزیمت اور اذیت کا بوجھ اٹھانا پڑا تھا، وہ اس کا کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا۔
اپنے عضوِلذیذ کو بہت دیر تک رگڑنے اور مسلنے کے بعد اس کے جسم میں حرارت پیدا ہونے لگی۔ اسے اور زیادہ حرارت کی ضرورت تھی۔ اس کے ہاتھوں کی حرکت دھیرے دھیرے مجنونانہ اور وحشیانہ انداز اختیار کرتی چلی گئی۔ اگر اس وقت اسے کوئی شخص اس حال میں دیکھ لیتا تو یقیناً فاترالعقل یا سودائی خیال کرتا۔
اس کے رگ و ریشے میں یکلخت کئی الاؤ جلنے لگے۔ اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمایاں ہونے لگیں۔ اس کی سانسیں کسی دھونکنی کی طرح چلنے لگیں۔ وہ اپنے ہاتھوں کی حرکت میں مزید تیزی پیدا کرتا گھاس پر لیٹ گیا اور سیاہ آسمان کو تکنے لگا۔
ایک شدید ہیجان خیز لمحے میں وہ سرعت سے اٹھ کھڑا ہوا اور نہر کے پانی میں انزال کی بوندیں گرانے لگا۔ اگلے ہی وہ گھاس پر نڈھال ہوکر گر پڑا اور زور زور سے سسکیاں لینے لگا۔ اس کو معلوم نہیں تھا کہ صبحِ صادق اب صرف چند لمحوں کی منتظر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح دیر سے جاگنے کے باوجود نذیر کے جسم میں کل شب کی ہزیمت اور اذیت کے آثار باقی تھے۔ اس نے کمرے میں جا کر صندوق سے استری شدہ لباس نکالا۔ وہ جلدازجلد غسل کرنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ چاچی اس کے کپڑوں پر مٹی اور گھاس کے نشان دیکھ لے اور کسی شک میں مبتلا ہو جائے، مگر وہ جیسے ہی برآمدے میں آیا، چاچی خیرالنسا اسے برآمدے میں ٹہلتی دکھائی دی۔ وہ اسے دیکھ کر تولیے سے اپنے بال سکھانے لگی۔
چاچی اس کے پاس آ گئی اور اسے ٹوہ لینے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔
اس نے سنجیدگی سے کہا، “تیرا چاچا آج سویرے سویرے ہی دکان پر چلا گیا۔ “
نذیر نے اسے دیکھا مگر کوشش کے باوجود اس سے آنکھیں نہیں ملا سکا۔ وہ کتھئی رنگ کے ریشمی لباس میں تھی جو اِس کی سفید رنگت سے مل کر پرکشش تاثر پیدا کر رہا تھا۔ اس کی گردن اور کلائی کا رنگ نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔ اس کے سر سے ڈوپٹہ اْترا تو اس کی خوبصورتی دوچند ہو گئی۔
“آج تو دیر تک گہری نیند سوتا رہا۔ دکان جانے سے پہلے تیرے چاچے نے تجھے ایک دو بار جگانے کی کوشش کی، مگر تو ہلاجلا ہی نہیں، “اس نے بے تکلفی سے کہا۔
وہ اس کے ہونٹوں پرپہلی بار لگی ہوئی لپ اسٹک کی تہہ دیکھ کر بولا، “رات جب تو کمرے میں چلی گئی تو اس کے بعد میں سو نہیں سکا۔ “ پہلی بار اسے چاچی کے بھرپور خدوخال روکھے پھیکے سے محسوس ہو رہے تھے۔
“مجھے بھی نیند مشکل سے آئی۔” وہ چاہتی تھی، نذیر آج بھی اس کی تعریفیں کرے اور اس سے اپنی چاہت کا اظہار کرے۔ مگر وہ اس سے کھنچا کھنچا سا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پژمردگی تھی اور لہجے میں گرم جوشی کے بجائے سوگواری تھی۔ وہ اسے نظرانداز کرتا، نیلے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں پرندے اْڑتے پھر رہے تھے۔ “تیرے لیے ناشتہ تیارکردیا ہے،” وہ ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے بولی۔
“غسل کر کے کھا لوں گا،” یہ کہتے ہوئے وہ کپڑے اٹھائے غسل خانے کی طرف چل دیا۔
“غسل کر کے کھا لوں گا،” یہ کہتے ہوئے وہ کپڑے اٹھائے غسل خانے کی طرف چل دیا۔
ناشتے کے بعد اس نے ایک اور چائے پینے کی فرمائش کر دی۔ وہ باورچی خانے جا کر اس کے لیے ایک اور چائے کی پیالی لے آئی۔ وہ اس سے گریزاں سا تھا۔ اس کا جسم اور چہرہ دیکھ کر اسے تکلیف ہو رہی تھی۔ اسے بالکل یاد نہیں تھا کہ اس نے کل رات اس سے کیا کیا باتیں کی تھیں۔ اس کے اعصاب اور حواس پر شمیم سے ملنے کے دوران ہونے والی شکست سوار تھی۔ وہ اپنی ناکامی کے عذاب میں مبتلا تھا۔
“آج تو نے پیٹ بھر کے ناشتہ نہیں کیا۔”
“آج تو نے پیٹ بھر کے ناشتہ نہیں کیا۔”
“بھوک ہی کم تھی۔”
وہ سوچ رہی تھی کہ آج اچانک اسے کیا ہو گیا۔ وہ پہلے تو اکیلا ہی چار پانچ روٹیاں کھا جاتا تھا۔ “آج تجھے دکان پر جانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے تیری طبیعت خراب لگ رہی ہے۔ تو آرام کر لے،” اس نے اپنائیت سے کہا۔
“دکان پر تو نہیں مگر ذرا دیر کو باہرگھومنے جاؤں گا۔”
اس کی بات سن کر وہ افسردہ ہو گئی۔
نذیر نے اچانک اس کے بارے میں سوچا کہ کیا وہ اس عورت سے وصل کر کے اپنی جذباتی شکست کا مداوا کر سکتا تھا۔ اسے اچانک باورچی خانے میں پیش آنے والے واقعے کی جزئیات یاد آئیں تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے کس طرح اسے چومتے ہوئے اپنے بازوؤں میں بھر لیا تھا؟
ان خیالات کا سلسلہ بھی اس کے مزاج کی سردمہری کو ختم نہیں کر سکا۔ وہ پیالی سے چائے کی آخری چسکی لے کر باہر جانے کے لیے اْٹھ کھڑا ہوا۔
ان خیالات کا سلسلہ بھی اس کے مزاج کی سردمہری کو ختم نہیں کر سکا۔ وہ پیالی سے چائے کی آخری چسکی لے کر باہر جانے کے لیے اْٹھ کھڑا ہوا۔
“سن! تیرا چاچا ہاروالی بات بھول گیا ہے۔”
وہ روکھی مسکراہٹ سے بولا، “اچھا؟”اس کے بعد ٹھنڈا سانس لیتے ہوئے وہ دروازے کی طرف چل پڑا۔
گلی سے گزرتے ہوئے تنہائی میں وہ سوچتا رہا کہ کل رات کے تیسرے پہر جو کچھ پیش آیا وہ محض ایک اتفاق تھا۔ اگر بلی چھپر کی چھت سے اس کی پیٹھ پر چھلانگ نہ لگاتی تو اس کا شادکام ہونا یقینی تھا۔ وہ اپنے آپ کو تسلی دینے لگا کہ اسے احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ بالکل ٹھیک تھا۔ اس کی مردانگی پوری طرح بحال تھی اور نہر کنارے بیٹھ کر وہ اپنے انزال کے آب دار موتی بھی نہر کے پانی میں گرا چکا تھا۔ یہ سب باتیں سوچنے کے باوجود وہ خود پر اپنے یقین اور اعتماد کو بحال نہیں کر سکا۔
اس نے پان کی مانڈلی سے کچھ سگریٹ خریدے اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا کھیتوں کی طرف چل دیا۔ وہ سگریٹ سلگا کر اس کے لمبے کش لیتا آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔
مکمل تنہائی میں مکمل خودسپردگی کے لیے آمادہ عورت سے مباشرت میں ناکامی غیرمعمولی اور شرم ناک بات تھی۔ شمیم خود کو ملامت کرتی رہی ہو گی اور اسے ایک نامرد تصور کر کے دل ہی دل میں وہ اس کا مضحکہ اڑاتی رہی ہو گی۔ نذیر نے فیصلہ کیا کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے اس سے قطع تعلق کر لے گا اور آئندہ کبھی نورل کی شکل بھی نہیں دیکھے گا۔ اپنے آپ سے یہ عہد کرتے ہوئے وہ جانتا تھا کہ اس کی خاطر اس کا دل بری طرح مچلے گا اور کیا پتا وہ نیند میں اْٹھ کر نہر کی طرف دوڑتا چلا جائے۔
وہ قصبے کی مشرقی سمت میں واقع آخری مکانوں تک پہنچا اور انہیں عبور کرتا ہوا کھیتوں میں داخل ہو گیا۔ تاحدِنظر زمین پر سبزیوں اور گندم کے پودے لہلہا رہے تھے۔ سورج آسمان کے وسط میں چمک رہا تھا اور سارے میں پیلی سی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ گردوپیش اچٹتی سی نگاہ ڈال کر وہ سر جھکائے ایک پگڈنڈی پر چلنے لگا۔
وہ اپنے آپ کو باربار سمجھاتا رہا کہ اس کے ساتھ جو واقعہ پیش آ چکا تھا وہ اس کے اناڑی پن کی وجہ سے پیش آیا تھا۔ اس نے پہلی اور بنیادی غلطی پکوڑافروش کے ہمراہ مے خانے جا کر کی تھی۔ وہاں اس نے چرس اور بھنگ کا بے محابا استعمال کیا تھا، جس کی وجہ سے اس کے حواسِ خمسہ کند پڑ گئے تھے۔ پھر شدید سردی کے موسم میں آدھی رات کو چوری چھپے گھر سے نکلنا، ویران اور تاریک گلیوں میں خوفزدہ چلنا، آہٹوں پر چونکنا اور کھیتوں کے پاس کانپتے ہوئے اس کاانتظار کرنا یہ تمام چیزیں بھی تو اس افسو س ناک عمل کی رونمائی میں شامل تھیں۔
سوچتے سوچتے اس کا دماغ شل ہو گیا اوروہ تھک کر ایک بلندقامت شیشم کے پیڑ کے نیچے پگڈنڈی پر ہی بیٹھ گیا۔
چاچی خیرالنسا کے بارے میں سوچتے ہوئے اس نے عجیب شرمندگی محسوس کی لیکن اسے معلوم تھا کہ یہی وہ عورت ہے جو اس کے اعتماد کو بحال کر سکتی ہے۔
وہ بیٹھے بیٹھے تین سگریٹ پھونکنے کے بعد اپنی الجھنوں کو سلجھائے بغیر اْٹھا اور قصبے کی طرف واپس چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن وہ سویرے اٹھا اور چابیاں لے کر دکان چلا گیا۔
جانے سے پہلے باورچی خانے میں ناشتہ کرتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ چاچی اسے ملامت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی نگاہوں کی تاب نہ لا کراس کے ہاتھ سے چائے سے بھرا پیالہ نیچے گر گیا اور گرم چائے نے اس کے اپنے پاؤں کو جلا دیا۔ اپنی تکلیف کو چھپاتے ہوئے وہ اس سے آنکھیں ملائے بغیر اٹھا اور باورچی خانے کی کوٹھڑی سے باہر نکل گیا۔
دکان پر پہنچ کر اس نے اپنی جیب سے چابیاں نکالیں اور شٹر پر لگے ہوئے تالے کھولے۔ شٹر اٹھا کر دکان کھول کر وہ صفائی کرنے کے بجائے دیواروں پر چسپاں فلمی اداکاراؤں کی تصویروں کو غور سے دیکھنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ کچھ نئی تصویروں کا اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ تصویروں کے نزدیک ہو کر انہیں اپنی نظروں سے ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک بھاری سی مردانہ آوازنے اسے چونکا دیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو یعقوب کاریگر اس کے قریب ہی کھڑا مسکرا رہا تھا۔ وہ نذیر کو ڈرانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔
“دیوار پر لگے نئے نئے فوٹو کیسے ہیں؟ میرے ایک دوست نے مجھے باہرکے ملک کا ایک رنگین رسالہ تحفے میں دیا تھا۔ میں نے اس میں سے بہترین تصویریں نکال کر یہاں لگا دیں۔ ذرا دیکھو! اس فوٹو کا تو جواب نہیں۔”
“ویسے تمھاری پسند کا بھی کوئی جواب نہیں۔”
کاریگر اپنی تعریف سن کر اس تصویر کی خصوصیات پر روشنی ڈالنے لگا۔ “اسے غور سے دیکھو! اس کے بالوں کا رنگ بالکل سونے جیسا ہے۔ اس کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ دیکھ کر ہم جیسا خوامخواہ خوش ہونے لگتا ہے۔ ذرا اس کی چمڑی کو دیدے پھاڑ کر دیکھو، کتنی چمکیلی اور نرم ہے۔ اور اس کے وہ تو۔۔” وہ بے قابو ہو رہا تھا۔
وہ آگے بڑھ کر چمکیلے رنگین کاغذ کی سطح پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ پھر تصویر کو چومتے ہوئے کہنے لگا، “پتا نہیں کہاں اور کون سے دیس میں رہتی ہیں یہ پریاں۔ ہماری قسمت میں تو باگڑی اور بھیل بھکارنیں لکھی ہیں۔” وہ افسردگی سے سر ہلاتابیڑی سلگا تے ہوئے اپنی سلائی مشین کے پاس لگی نشست پر بیٹھ گیا۔
وہ آگے بڑھ کر چمکیلے رنگین کاغذ کی سطح پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ پھر تصویر کو چومتے ہوئے کہنے لگا، “پتا نہیں کہاں اور کون سے دیس میں رہتی ہیں یہ پریاں۔ ہماری قسمت میں تو باگڑی اور بھیل بھکارنیں لکھی ہیں۔” وہ افسردگی سے سر ہلاتابیڑی سلگا تے ہوئے اپنی سلائی مشین کے پاس لگی نشست پر بیٹھ گیا۔
نذیر نے اسے چھیڑا۔ “تمہارے پاس کپڑے سلوانے خوبصورت عورتیں بھی آتی ہیں۔ پھر ان سے دوستی کیوں نہیں کرتے؟”
“وہ بہت چالاک اور ہوشیار ہوتی ہیں۔ آسانی سے ہاتھ بھی نہیں آتیں۔ پھر انہیں قابو کرنے کے لیے پیسوں کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ میں ٹھہرا ایک غریب درزی۔ تمھارے چاچے کی قسمت بہت اچھی ہے کہ اسے زندگی بھر کے لیے ایک حسین اور جوان عورت مل گئی۔”
نذیر نے اس سے یونہی ایک بات پوچھی۔ “اب اس کی پریشانی کا کیا حال ہے؟”
یعقوب کاریگر یہ سننے کے بعد اپنی آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ اپنی بیڑی کی راکھ جھٹکتے ہوئے اْٹھا اور گلی میں جھانکنے کے بعد نذیر کے پاس آ بیٹھا۔ وہ رازداری سے کہنے لگا، “میں جانتا ہوں تم شریف آدمی ہو، اسی لیے میں تمہیں پسند کرتا ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ تمہاری وجہ سے پریشان ہے۔ اس نے کل یہ بات مجھ سے رازداری رکھنے کی قسم لینے کے بعد بتائی۔”
“میری وجہ سے؟”
“اسے شک ہے کہ تم اس کی بیوی کے ساتھ خراب ہو۔” اس نے بیڑی کو فرش پر پھینکا اوراسے پاؤں کے نیچے مسلتے ہوئے کہنے لگا، “وہ تھوڑی دیر میں آنے والا ہو گا۔ دکان بند ہونے کے بعد تم مجھ سے جوگی کے چائے خانے پر ملو۔”
واقعی تھوڑی دیر بعد چاچا غفور دکان پہنچ گیا۔ یعقوب کاریگر سلائی میں مصروف تھا جبکہ نذیر قمیص کے بٹن لگاتا رہا۔ اس دوران غفور نے ایک بار بھی نذیر سے کوئی بات تک نہ کی۔ وہ آتے ہی سر جھکائے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
(جاری ہے)