Laaltain

محرم بنا رہے ہیں، زوجہ بنا کے وہ

25 مارچ، 2016

[blockquote style=”3″]

ادارتی نوٹ: عرفان شہزاد کا تحریری سلسلہ ‘مفتی نامہ’ ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں مذہبی طبقات اور عام عوام کے مذہب سے متعلق معاشرتی رویوں پر ایک تنقید ہے۔ اس تنقید کا مقصد ایسے شگفتہ پیرائے میں آئینہ دکھانا ہے جو ناگوار بھی نہ گزرے اور سوچنے پر مجبور بھی کرے۔

[/blockquote]

مفتی نامہ کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

مفتی نامہ- قسط نمبر 5
دوستو، مدارس میں مذہبی تعلیم پر مردانہ تسلط خود مذہب اور معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ ایک طرف پردے اور محرم کا دقیانوسی تصور عورت کو مذہبی معاملات سے دور رکھتا ہے اور دوسری جانب مردانہ اجارہ داری کے باعث عورت مذہبی معاملات میں اس جائز مقام سے بھی محروم ہے جو بطور ایک مساوی انسان اور مخلوق خدا کے اس کا حق ہے۔ مذہبی مبلغین اور علماء کے ہاں پردے اور محرم کے تصورات سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں وہ بعض اوقات نا صرف مضحکہ خیز بلکہ افسوس ناک صورت اختیار کر لیتی ہیں۔

 

مذہبی مبلغین اور علماء کے ہاں پردے اور محرم کے تصورات سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں وہ بعض اوقات نا صرف مضحکہ خیز بلکہ افسوس ناک صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
صاحبو، شاید ہمارا مذہبی ذہن درس و تدریس جیسے مقدس سلسلے کو بھی مرد و زن کی جنسیاتی کشش کی کشمکش کے علاوہ کچھ اور تصور کرنے کو تیار نہیں۔ مرد اور عورت کے مابین جنسی تفاعل کے سوا کسی انسانی رشتے میں متصور کرنا کچھ بہت مشکل نہیں اور ناممکن بھی نہیں مگر کیا کیا جائے جہاں عورت سے متعلق گفتگو حیض سے شروع ہو کر زچگی پر ختم ہو، جہاں علمی مباحث ٹیڑھی پسلی کے بیان سے شروع ہو کر ناقص العقل ہونے کے فیصلے پر منتج ہوں، اور جہاں تحقیق کم سنی کی شادی سے لونڈی کی حلت و حرمت کے جواز کی تلاش تک محدود ہو وہاں عورت کے ساتھ ایک صحت مند، مگر غیر جنسی بنیادوں پر استوار انسانی تعلق کی توقع محال ہے۔

 

ایک دفعہ ہمارے مفتی صاحب نے مدرسۃ البنات کے قیام اعلان فرما دیا۔ لوگ شوق اور عقیدت میں اپنی بچیوں کو مفتی صاحب کی خدمت میں علمِ دین حاصل کرنے کے لیے بھیجنے لگے۔ کچھ دن بعد مفتی صاحب پر ‘تقوی’ نے غلبہ پا لیا۔ ان میں ایک نو بالغ بچی منتخب کر کے اس سے فرمایا کہ مرد کا عورت کو پردے میں بھی پڑھانا مناسب نہیں۔ شیطان کے پاس ہزاروں ہتھکنڈے ہیں گمراہ کرنے کے۔ اسے بھی انہوں نے وہی کہانی سنائی کو وہ ہم سے بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص نے اپنی بہن کو ایک عالم اور ولی کے پاس چھوڑا اور خود اللہ کے دین کی خدمت میں کہیں چلا گیا۔ شیطان نے اس عالم، صوفی کو اس طرح بہکایا کہ لڑکی کو دین کا علم ہی پڑھا دو۔ اس نے پردے میں پڑھانا شروع کیا اور دھیرے دھیرے بات یہاں تک پہنچی کہ دونوں میں ناجائز تعلق قائم ہوگیا۔ تعلق کے افشاء کے ڈر سے عالم صاحب نے لڑکی کو قتل کر دیا۔ لیکن پکڑا گیا۔ سزائے موت کا اعلان ہو گیا۔ شیطان نے اس سے کہا کہ اگر بچنا ہے تو مجھے خدا مان لو۔ اس نے مان لیا۔ اِدھر اس نے مانا ادھر اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ اور وہ بے ایمان دنیا سے رخصت ہوا۔

 

انہوں نے ایمان بچانے کے لیے یہ حل نکالا کہ نوبالغ کم سن بچی کو اپنے ساتھ غیر علانیہ نکاح کرنے پر آمادہ کر لیا کہ اس طرح پردے کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور علم دین کی تعلیم بھی بلا حرج اور بلا حجاب جاری رہے گی
مفتی صاحب نہیں چاہتے تھے کہ دنیا سے بے ایمان ہو کر جائیں۔ انہوں نے اپنا ایمان بچانے کے لیے یہ حل نکالا کہ نوبالغ کم سن بچی کو اپنے ساتھ غیر علانیہ نکاح کرنے پر آمادہ کر لیا کہ اس طرح پردے کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور علم دین کی تعلیم بھی بلا حرج اور بلا حجاب جاری رہے گی۔ مزید احتیاط کے لیے لڑکی کے کم عمر بھائی، جو کہ ان کا شاگرد تھا، کو شرعی مسائل اور تقوی کی مجبوری سنا کر اس نکاح پر آمادہ کر لیا۔

 

تحصیلِ علم میں اب کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ نجانے علم و عمل کے ساتھ معرفت کی کتنی منازل طے ہوئیں، خدا ہی جانتا ہے، معاملہ کچھ عرصہ یوں ہی چلتا رہا کہ پھر نجانے کیسے لڑکی کے گھر والوں کو پتا چل گیا۔ لڑکی کا باپ مفتی صاحب کے پاس آیا اور بڑا جھگڑا کیا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہ سب مجھے اپنا دامنِ تقوی بچانے کے لیے کرنا پڑا اور لڑکی کو بھی گناہ سے بچا لیا اور اس کے ساتھ دین کا علم بھی لڑکی کو دیا۔اب بجائے ممنون ہونے کے تم الٹا مجھ پر چڑھائی کر رہے ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو لے جاؤ اپنی بیٹی کو، میں تمہاری بیٹی کو طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں!

 

مدرسۃ البنات کا فیض اب بھی جاری ہے۔

Art Work: Asad Fatemi

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *