Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

لنگڑی زندگی

test-ghori

test-ghori

16 مئی, 2015

youth-yell-featured

اُس نے کھانا کھایا اور تھکاوٹ کی وجہ سے چارپائی پر دراز ہوگئی۔ گھر میں زندگی خاموش تھی کیونکہ گھر والے حسب معمول اُس کے کمرے میں جمع تھے، پورے گھر میں یہ واحد کمرہ تھا جس میں روشنی کا انتظام تھااورسارے گھر والے کھانا کھانے اور مطالعہ کرنے کے لیے اِس کمرے میں اکٹھے ہوتے تھے۔ باقی سارا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ بوسیدہ دیواروں سے تحفظ کی اُمید تو نہ تھی مگر کم از کم یہ کسی کو اندر جھانکنے سے روکے ہوئے تھیں۔ اس کا باپ بستر مرگ پر لیٹا صرف دوائیوں کے سہارے جی رہا تھا جبکہ ماں ،سردی کی وجہ سے کھانسی، نزلے اورزکام کا شکار تھی۔ اُس نے اپنے والدین کی طرف دیکھا اور سرد آہ بھری کہ زندگی کے مسائل کا کوئی حل نظر نہ آتا تھا۔ وہ آنے والے دن کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اُن کے حالات کب بدلیں گے اور کب وہ بھی آرام اور سکون کی زندگی گزارسکیں گے۔ اُس نے سوچا تھا کہ اِس دفعہ وہ کچھ رقم بچائے گی تا کہ گھر کی مرمت کرائی جا سکے۔ اپنے حال اورمستقبل کے بارے میں سوچتے سوچتے اسے نیند آگئی۔
اس کے استاد نے اسے ایک دفعہ بتایا تھا قطرے پلانے کی مہم اس لیے شروع کی گئی ہے کہ مستقبل میں یہ بچے والدین بننے کے قابل نہ رہیں اور یہ ایک ایسی قوم کے خاتمے کا زہرآلودہ منصوبہ تھا جو جنت کی حکمرانی کے خواب دیکھتی تھی
وہ قریبی گاؤں کے پرائمری سکول میں اُستانی تھی۔ اُس کی تنخواہ اتنی ہی تھی کہ جس سے بمشکل اس کے گھر والوں کی دال روٹی چل رہی تھی، والد کی دوائی بھی کسی بوجھ سے کم نہ تھی۔ آدھی سے زیادہ تنخواہ ان کی دوائیوں پراٹھ جاتی اور باقی آدھی پیٹ کا دوزخ بھرنے پر۔ ایک اسٹاف ممبر کے مشورے سے اُس نے بھی محکمہ صحت کی مہم میں حصہ لیا تا کہ کچھ مزیدرقم کما سکے۔ اُسے بتایا گیا تھا کہ اس کام کے اسے روزانہ ڈھائی سو روپے ملیں گے۔ وہ خوش تھی کہ اس خالص اور نیک کام سے کچھ پیسے مل جائیں گے جن سے وہ بہن بھائیوں کے لئے کچھ نہ کچھ خرید سکے گی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ بھائی کے لئے گرم جرسی اور بہن کے لئے نئے جوتے خریدے گی کیونکہ سردیاں آنے والی تھیں۔ گذشتہ سال جب اُسے الیکشن ڈیوٹی کے پیسے ملے تھے تو اس نے ماں کے لیے گرم چادر اور باپ کے لئے نئے کپڑے خریدے تھے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اضافی پیسے ملنے سے پہلے ہی اُن کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ اُسے سڑک بہت چمکتی دمکتی محسوس ہوئی، ایک تو تیز دھوپ اوراس پر قیمتی گاڑیوں کی لش پش ، اُس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ وہ اپنے ارد گرد روشنی میں نہائی زندگی دیکھ کر حیران رہ گئی جبکہ اُس کی زندگی تو ایک اندھیرے گھر میں قید تھی جس کی چھتیں برسات میں ٹپکتی تھیں اور دیواریں بھی اس قدرخستہ گویا اب گریں کہ اب گریں ۔ شام تک ڈیوٹی کرنے کے بعدوہ تھکی ماندی گھر واپس لوٹی، ایک خستہ اوربوسیدہ گھر اپنے شکستہ دل مکینوں کے ساتھ اس کا منتظر تھا کہ وہی تو ان سب کی امیدوں کا مرکز تھی۔
ملاحضرت ایک مقامی مسجد کا مولوی تھا۔ اُس نے اپنے گاؤں میں کبھی صحت کی سہولیات کو پسند نہ کیا تھا اور دوسروں کی سُکھی زندگی اُس کے لئے کبھی آسودگی کا باعث نہ تھی۔ محکمہ صحت پر اُسے کئی اعتراضات تھے کیونکہ اُس کی نظرمیں اس کے کئی منصوبے کسی گناہ سے کم نہ تھے۔ اس کے استاد نے اسے ایک دفعہ بتایا تھا قطرے پلانے کی مہم اس لیے شروع کی گئی ہے کہ مستقبل میں یہ بچے والدین بننے کے قابل نہ رہیں اور یہ ایک ایسی قوم کے خاتمے کا زہرآلودہ منصوبہ تھا جو جنت کی حکمرانی کے خواب دیکھتی تھی۔ استاد کی بات ا س کے ایمان حصہ بن گئی اور اسے اِن لوگوں سے نفرت پر آمادہ کر دیا تھا جو معاشرے میں لوگوں کی اچھی صحت کے لئے کوشاں تھے۔اس نے باقاعدگی سے اپنی تبلیغ اور خطبات میں اس مہم کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا تھا۔ کچھ دنوں میں اُس نے ایسے لوگوں کا ایک گروہ بنا لیا تھا جو اِس مہم کے خلاف اُس کے حامی تھے اور وہ بھی اِس کو غیر ضروری سمجھنے لگے تھے۔اب گلی محلوں میں راہ چلتے لوگ ایک دوسرے کا احوال پوچھنے کے بجائے اس مہم کے حوالے سے زیادہ باتیں کرنے لگے تھے۔ ہر شخص اپنے بچوں کو اس خطرناک مہم سے بچانا چاہتا تھا۔ لوگوں نے آہستہ آہستہ اِس مہم کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا شروع کر دی ۔ لوگوں کے ذہن اِس تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے جیسے جنگل میں لگی آگ۔ لوگوں کے دلوں میں اِس مہم کے خلاف شدید نفرت پید ا ہو گئی اور اُن لوگوں کے خلاف بھی جو رضا کارانہ طور پر کام کر رہے تھے۔ جہالت کا دور لوٹ آیا تھا اور پولیو زدہ سوچ کے حامل ظالم اور جاہل افراد دوسروں کی زندگی اور قسمت کا فیصلہ کرنے لگے تھے۔ حقیقت سے ناآشنا لوگ فتویٰ دینے لگے تھے اور پڑھے لکھے جاہلوں کی ایک بڑی تعداد اُن فتووں پر عمل درآمد پر تیار ہوگئی تھی۔ ان حالات میں زندگی ایک کونے میں کھڑی مسکرا رہی تھی کہ جہاں جاہل فیصلہ کرنے والے تھے،جہاں مجرم کو تھانوں میں کرسیاں پیش کی جاتی اور شرفاء کو بلاوجہ قیدو بند کی صعبوتیں جھیلنا پڑتیں۔
دوسرے دن وہ صبح سویرے بیدار ہو گئی اور چائے کی پیالی پینے کے بعد اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی۔ مرکز صحت سے ویکسین حاصل کرنے کے بعد وہ مرکزی شاہراہ پہنچ گئی۔وہ ایک ایسے پس مانندہ علاقے سے تعلق رکھتی تھی جہاں عورت کا گھر سے باہر کام کرنا کسی گناہ سے کم نہ تھا۔ وہ ہرگزرنے والی گاڑی میں ننھے منے بچوں کی تلاش میں تاک جھانک کر رہی تھی۔ وہ کبھی بھی اِس نوکری کے لیے باہر نہ نکلتی اگر اس کا کوئی بھائی ہوتا اور باپ بیمار نہ ہوتا۔ وہ گھر میں سب سے بڑی تھی، اس لیے گھر کا خرچ چلانا اس کی ذمہ داری تھی اوراس کی غیر تعلیم یافتہ ماں اسکا ہاتھ بٹانے سے قاصر تھی۔ وہ ویکسین بکس اُٹھائے،بچوں کو قطرے پلارہی تھی۔یہ دو قطرے اُن بچوں کی زندگی کے ضامن تھے اور اُنہیں بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا سبب بھی۔گاڑیاں سڑک پر دوڑ رہیں تھیں اور وہ ننھے منے بچوں کا مستقبل بچانے کے لیے کوشاں تھی۔ وہ کسی مالی کی طرح اِن پھولوں کی زندگی محفوظ بنانے پربہت خوش تھی۔ صبح سے اب تک کافی وقت گزرنے کے باوجود اُس کا چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نہیں تھے۔ننھے منے بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پی کر اپنی چمکی دمکتی گاڑیوں میں موجود کھلونوں کے ساتھ کھیلنے میں مگن ہو جاتے جبکہ اُن کے والدین اُس کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور آگے بڑھ جاتے، لوگوں کے چہروں پر سجی مسکراہٹ اس کو حوصلہ دیتی اور اس کی تھکاوٹ دور ہو جاتی۔ سارا دن اس کو شکریے کے چند الفاظ اور بچوں کی مسکراہٹ کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ وہ کام میں مگن سوچتی رہی کہ آنے والے مہینے کی تنخواہ سے وہ اپنے بھائی کے لئے ایک خوبصورت ٹیڈی بیئر خریدے گی۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ اس کے بہن بھائی بھی ایسے ہی خوبصورت کھلونوں سے کھیلیں۔ سارادن وہ پو لیو سے بچاؤ کے قطرے بچوں کو پلاتی اور اردگرد کی زندگی کا موازنہ اندھیری کوٹھڑی کی زندگی سے کر تی رہی۔
جاڑے کی سست رو سہ پہربھی برق رفتاری سے گزر گئی اوراب دن شام کی جانب گامزن تھا۔ اُس کی ڈیوٹی کا تیسرا دن تھا اور ابھی مزیددو دن باقی تھے،اس نے اپنی تنخواہ کا حساب کیا جو کہ1250 روپے بنتی تھی اور اُن ضروریات کو یاد کیا جو اُس نے ابھی پوری کرنا تھیں۔ فہرست بہت لمبی تھی لیکن رقم بہت کم۔ گہری ہوتی سوچوں نے اسے اپنے حصار سے نکلنے نہ دیا ۔ وہ ہر آنے والی گاڑی کے لیے اٹھ کر کھڑی ہوتی تاکہ اگر اُس گاڑی میں کوئی بچہ ہے تو وہ اس کو قطرے پلائے۔ اس اثنا ء میں ایک گاڑی کو آتے دیکھ کر وہ معمول کے مطابق اٹھ کھڑی ہوئی مگراِس گاڑی میں بچے نہیں تین اوباش مرد سوارتھے۔ وہ گاڑی میں کسی بچے کو نہ پا کر پیچھے ہٹی لیکن گاڑی پھر بھی رُک گئی تھی۔ وہ ابھی دیکھ ہی رہی تھی کہ اُس میں سے ایک شخص باہر نکلا ، اس کا جسم اسلحے سے سجا تھا اور اُ س کی بندوق کا نشانہ وہ تھی،گولی چلتے ہی وہ زخمی ہو کر زمیں پر گر گئی۔خواہشوں اور سپنوں کا سلسلہ اس کے بے سدھ ہو جانے کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔ وہ ہسپتال پہنچا دی گئی مگرزیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے علاج سے پہلے ہی اُس نے دم توڑ دیا۔ اسٹریچر اُس کے خون سے رنگین تھا اور اس کا خون بہہ رہا تھا۔ اُس کی میت کو سرد خانے منتقل کر دیا گیا جبکہ اسٹریچر کو ایک طرف کر دیا گیا۔ہسپتال کی آوارہ اور بھوکی بلیوں نے اس کے خون سے سجے اسٹریچر کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ بلیا ں اسٹریچر پر بیٹھیں اُس کا خون چاٹ رہی تھیں جبکہ ایک لنگڑی بلی اسٹریچر کے پائیوں میں کھڑی ہو کر اسٹریچر سے رسنے والے خون کو پینے میں مصروف تھی۔ وہ اوپر سے گرنے والے قطرے کے لیے یوں منہ کھولتی جیسے خون کے یہ قطرے اُس کی لنگڑی زندگی کے لئے پولیو کے قطرے ہوں۔