لاہور میں ضمنی انتخابات کا جو تنیجہ آیا اس پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں کوئی کہتا ہے پی ٹی آئی اخلاقی طور پر جیت گئی، کوئی کہتا ہے نواز لیگ نے میدان مار لیا اور اب پی ٹی آئی کو سکون آئے گا، دھرنے کی غلط سیاست سے کچھ عرصہ جان چھوٹے گی، کچھ لوگ کہتے ہیں دونوں صوبائی نشستیں پی ٹی آئی کے پاس ہیں اور قومی نشست ن لیگ کے پاس ہے یہ بھی ن لیگ کی بے عزتی ہے، کلثوم نواز کا حقیقی بھانجا پی ٹی آئی سے صوبائی اسمبلی کی نشست ہار گیا یہ بہت بڑا اپ سیٹ ہے، کوئی کہہ رہا ہے ن لیگ کی تاریخی فتح ہوئی اور عمران خان کی سیاست کو تباہ کر دیا، کوئی کہتا ہے علیم خان پراپرٹی مافیا ہے۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جو سوچا جا رہا ہے، کہا جا رہا ہے، لکھا جا رہا ہے، پڑھا جا رہا ہے، تجزیہ کیا جا رہا ہے، نعرے لگائے جا رہے ہیں ۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا لیکن جو ہوا ہے وہ بہت ہی خطرناک ہوا ہے، اتنا خطرناک کہ سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔
پی ٹی آئی کی شکست ہر اس حلقے کی شکست ہے جو ن لیگ کے غلط کاموں کے خلاف آواز اٹھاتا تھا، اب حکومت اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ وہ اپنے سرمایہ دارانہ ایجنڈے کو کھل کے پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔
میں بنیادی طور پر پی ٹی آئی کا حمایتی نہیں ہوں، بنیادی طور پر میں مسلم لیگ نواز کے عوام کش طرز حکومت کا مخالف ہوں۔ لاہور میں این اے 122میں ضمنی انتخاب ملک کے سیاسی مستقبل کا انتخاب تھا۔ 2013 میں دھاندلی ہوئی، بد انتظامی ہوئی یا جو بھی ہوا نواز شریف نے حکومت قائم کر لی اور وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ اس کے بعد ان کا طرز حکمرانی کیسا رہا کیسے، دو اڑھائی سالہ حکومت کو کس نظر سے دیکھا جائے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس دوران حزب اختلاف کا کہیں نام و نشان دکھائی نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی کی جانب سےمزاحمت اور مخالفت کا رویہ ترک کیے جانے کے بعد نواز شریف کو روکنے والا، پوچھنے والا کوئی نہیں ۔صرف ایک پی ٹی آئی ہی ایسی جماعت تھی جو اگر اس ملک کی بہتری کے لیے نہیں تو اپنے مفاد کی خاطر ہی سہی، یا عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لیے ہی سہی، یا دس فیصد عوام کی بہتری کے لیے ہی سہی نواز شریف حکومت کے خلاف بھرپور حزب اختلاف کا کردار ادا کر سکتی تھی۔ دھرنوں کی سیاست اور احتجاج کے طریق کار سے اختلاف کےباوجود کوئی سیاستدان تو ایسا تھا، کوئی سیاسی جماعت تو ایسی تھی جو حکومت کو اپنے لیے خطرہ محسوس ہوتی تھی، جس کے الزامات کے جواب فوری طور پر پریس کانفرنسوں میں دیئے جاتے تھے، جس کےجلسوں اوراحتجاج پر کارروائی کی گئی، کمیشن بنائے گئے، جو بھی تھا کم از کم کسی سطح پر حکومت کو کچھ غلط کرنے سے پہلے سوچنا تو پڑتا تھا۔ دھرنا دینے والوں کی جمہوریت کش سیاست سے قطع نظر احتجاج کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ احتجاج سے حکومتیں گرائی نہیں جاتیں لیکن احتجاج سے حکومتوں کو غلط فیصلوں سے روکا جا سکتا ہے۔
اس ایک شکست سے حکومت گرنی نہیں تھی، صرف اور صرف حکومت کو روکنے والا، پوچھنے والا، احتساب کرنے والا، جمہوری انتقام والا ایک راستہ کھلا رہتا
حزب اختلاف کا کردار ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کرنا اور عوام کے حقوق کے لیے لڑنا ہے لیکن اس وقت کوئی بھی حکومت کے سامنے کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔ حالات یہ ہیں کہ نواز شریف جیت کے بعد غرور، تکبر، خود غرضی اور فرعونیت کے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ خود کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھ رہے، ان کے دل و دماغ میں کسی چیز کا کوئی خوف، ڈر جھجھک اور رکاوٹ نہیں ہے سوائے وردی والوں کے۔ پیپلزپارٹی کے لیے اپنی کرپشن سے جان چھڑانی مشکل ہو رہی ہے اور تحریک انصاف کو حکومت گرانے اور حکومت حاصل کرنے کے علاوہ کوئی کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حکومت کو کرپشن سے کون روکے گا۔ اس حکومت کو اب ‘من پسند’ ترقیاتی کاموں سے کون روکے گا؟ پی ٹی آئی کی شکست ہر اس حلقے کی شکست ہے جو ن لیگ کے غلط کاموں کے خلاف آواز اٹھاتا تھا، اب حکومت اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ وہ اپنے سرمایہ دارانہ ایجنڈے کو کھل کے پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ پی ٹی آئی کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ عدالتوں اور کمیشنوں کے بعد عوام نے بھی ن لیگ کا ساتھ دیا ہے اب سب کچھ ن لیگ ہے سب کچھ نواز شریف ہے، اب میٹرو بسیں میٹرو ٹرینیں، نندی پور اور سولر پلانٹ چلیں گے، شریف برادران کے کارخانے دوسرے ملکوں میں لگیں گے، فیکٹریاں کھلیں گی، کرپشن کے نئے طریقے ایجاد ہوں گے، کوئی روکنےوالا نہیں کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ اب پی۔آئی۔اے کی نجکاری کون روکے گا؟ اب سٹیل مل کی فروخت میں کون رکاوٹ بنے گا؟ اب ملکی اثاثے کون محفوظ بنائے گا، اب وزیر خزانہ کی عوام دشمن پالیسیوں کے سامنے کوئی دیوار نہیں ہو گی۔ منی لانڈرنگ کے ملزم ہمارے وزیر خزانہ ہیں، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے خلاف مقدمات نیب میں پڑے ہیں نہ نیب کھولتا ہے نہ عدالت کھولنے دیتی ہے۔ صرف ایک امید تھی، صرف ایک راستہ تھا، صرف ایک ڈھال تھی، صرف ایک طریقہ تھا کہ شاید پی ٹی آئی لاہور کا ضمنی الیکشن جیت جائے اور نواز شریف کو کچھ روکاوٹ ڈال دی جائے۔ ایک ہی تسلی تھی کہ شاید تحریک انصاف کی این اے 122 میں کامیابی کے بعد یہ لوگ عوام کے انتقام سے تھوڑا ڈر جائیں، کچھ ان کو خیال آ جائے کہ وہ غلط ہیں۔ تحریک انصاف اگر عام آدمی کی سیاست کرتی تو ہوسکتا ہے کہ یہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے، جھجھکیں گے، لڑکھڑائیں گے لیکن تحریک انصاف کی غلطیوں سے یہ امکان بھی جاتا رہا۔ اس ایک شکست سے حکومت گرنی نہیں تھی، صرف اور صرف حکومت کو روکنے والا، پوچھنے والا، احتساب کرنے والا، جمہوری انتقام والا ایک راستہ کھلا رہتا لیکن لاہور حلقہ این اے ایک سو بائیس نے ملک کے سیاسی و معاشی مستقبل پر کافی سوالیہ نشانات چھوڑ دیئے ہیں