نظریاتی سیاست ہمارے ملک میں ناپید ہوچکی ہے، کسی زمانے میں جب کسی سیاسی جماعت کے بارے میں بات کی جاتی تھی تو ساتھ ہی یہ بھی ذکر ہوجاتا تھا کہ فلاں جماعت دائیں بازو کی ہے اور فلاں جماعت بائیں بازو کی ہے(عام طور دائیں بازو سے مراد قدامت پرست اور بائیں بازو سے مراد ترقی پسند لیا جاتا ہے)، مثلاً جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان مسلم لیگ اور جمعیت علمائے اسلام دائیں بازو کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی بائیں بازو کی جماعتیں کہلاتی ہیں، ان جماعتوں کے کارکنوں یا اُن کے حامیوں کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ اُن کے خیالات یا اُن کی سوچ دائیں بازو یا بائیں بازوکی ہے (ان لوگوں کو رائٹسٹ اور لیفٹسٹ کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے)۔ سابق صدر غلام اسحاق خان کے دست راست روئیداد خان نے ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا تھا کہ غلام اسحاق خان محترمہ بینظیر بھٹو کو اس وجہ سے بھی نااہل قرار دلوانا چاہتے تھے کہ مرحومہ بائیں باز کی سیاست دان تھیں جبکہ غلام اسحاق خان دائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے، اس لیے وہ کسی مخالف نظریے والے کے ساتھ اشتراک عمل پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ درحقیقت قیام پاکستان سے اب تک اختیارات کا اصل منبع دایاں بازو ہی رہا ہے۔ نظریاتی سیاست کو سب سے زیادہ نقصان اس مفاد پرست سیاسی ٹولے نے پہنچایا ہے جو اپنے مفادات کے تحت وفاداریاں تبدیل کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
سابق صدر غلام اسحاق خان کے دست راست روئیداد خان نے ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا تھا کہ غلام اسحاق خان محترمہ بینظیر بھٹو کو اس وجہ سے بھی نااہل قرار دلوانا چاہتے تھے کہ مرحومہ بائیں باز کی سیاست دان تھیں جبکہ غلام اسحاق خان دائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے
مفاد پرستی تو پاکستان میں شروع سے ہی تھی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ نظریاتی سیاست دان اور جماعتیں بھی موجود تھیں۔ جنرل ضیا ءالحق کے زمانے سے نظریاتی سیاست کا خاتمہ شروع ہوا اور پھر لوٹا کریسی شروع ہوئی۔ ان کے زمانے میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے موقع پرست اور مفاد پرست سیاستدان سامنے لائے گئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کی مثال یوں لے لیں کہ منظووٹو جو کبھی مسلم لیگی تھےاور جناع مسلم لیگ بھی بناچکے ہیں آج کل پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر ہیں اور ماروی میمن جو پرویز مشرف کی بہت قریبی ساتھی تھیں وہ اب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہیں ۔ آغا شورش کاشمیری مرحوم نےمولانا کوثر نیازی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ شخص موقعہ پرست ہے جو پہلے جماعت اسلامی میں رہا اوربعد میں کنونشن لیگ میں اور اب پیپلز پارٹی میں وہ بھٹو سے کیا وفا کرے گااور ایسا ہی ہوا۔ جب ضیاءالحق نے مارشل لاءنافذ کیا تومولانا کوثر نیازی اور غلام مصطفی جتوئی نے لوٹا بن کرسب سے پہلےاُس کے دربار میں حاضری دی۔ ان سیاستدانوں نے فوراً اپنا الگ پارٹی دھڑا بنا لیا یعنی جب مصیبت کا وقت آیا تو اپنی پارٹی سے یوں منہ پھیر لیا، گویا کبھی اس کے ساتھ نہ تھے۔ ضیاءالحق کے بعد اس کے دربار کے لوٹے اپنے اپنے مفاد کی تلاش میں نکلے۔ نواز شریف جو جونیجو کو اپنا عظیم قائد اور خود کو ضیاء الحق کا بیٹا قرار دیتے تھے سب سے پہلے لوٹا بن کر غلام اسحق خان کے ساتھ مل گئے، جونیجو کا پتہ صاف کیا اور 1990ء میں ملک کے وزیر اعظم بنے
نواز شریف جو جونیجو کو اپنا عظیم قائد اور خود کو ضیاء الحق کا بیٹا قرار دیتے تھے سب سے پہلے لوٹا بن کر غلام اسحق خان کے ساتھ مل گئے، جونیجو کا پتہ صاف کیا اور 1990ء میں ملک کے وزیر اعظم بنے
جنرل مشرف کے دور میں تو لوٹوں کے کاروبارمیں ایسی ترقی ہوئی کہ اس وقت نہ صرف مفاد پرست سیاست دانوں بلکہ سیاسی جماعتوں تک نے لوٹوں کا کردار ادا کیا۔ نواز شریف نے جونیجو سے جو مسلم لیگ چھینی تھی مشرف کے آنے بعد اس میں سے مسلم لیگ ق نے جنم لیا اور ری پبلکن پارٹی کی یاد تازہ کر دی۔ یہی ق لیگ لوٹا بن کر مشرف کو اتنی مرتبہ وردی میں صدر بنانا چاہتی تھی جس کی خود مشرف کو بھی شاید تمنا نہ ہو۔ جولائی 2001ء میں پاکستان کی چھ مذہبی سیاسی جماعتوں نے ایک نئے اتحاد “متحدہ مجلس عمل” کا اعلان کیا اورپھر کچھ عرصے بعد متحدہ مجلس عمل نے بھرپور لوٹے کا کردار ادا کیا۔ 19دسمبر 2003ء کو حکومت سے “ایل ایف او” پر تمام معاملات طے کرکے سودے بازی کرلی۔ 28دسمبر 2003ءکوقاضی حسین احمد ، مولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا ، اس زمانے میں ایم ایم اے کی جگہ ملاملٹری اتحاد بہت مشہور ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی بھی مفاد پرست لوٹا ہیں، موصوف ضیاء الحق کی کابینہ میں تھے۔
سیاستدان قوم کی رہنمائی کے دعویدار ہوتے ہیں لہٰذا قومی سطح پر مہذب اور شائستہ رویوں اور ذمہ دارانہ طرز گفتگو کی ترویج کےلیے انہیں عوام کے سامنے مثال بننا چاہیئے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 122 لاہور کے ضمنی انتخاب کے بعد بھی تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کی مہم میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تندوتیز ہو رہی ہے۔ عمران خان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بدترین کرپشن اور اپنے تجارتی مفادات کےلیے پاکستان کو کمزور کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں تو تحریک انصاف کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کا لب و لہجہ بھی تلخ ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کچھ روز قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو چور، پاکستان کا دشمن اور غدار قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ تحریک انصاف نے منتخب جمہوری حکومت کے خاتمے کی سازش اور پارلیمنٹ پر حملے کےلیے یہودی اور ہندو لابی کے فنڈز استعمال کیے ہیں۔ بدنصیبی سے ہمارے ملک کی ہر سیاسی جماعت میں بدتہذیب رہنماوں کی کوئی کمی نہیں۔
مفاد پرستوں کےلیے ہم لوٹے کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، یہ ہی لوٹے اپنے مالکان جو ان کے سیاسی سربراہ بھی ہوتے ہیں کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنے کے لیے مخالف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنماوں پرمختلف الزام لگاتے ہیں
دوستو یہ ارض پاکستان ہے! انشا جی تو اس سوال کے جواب میں کہ”پاکستان کیوں بنایا تھا؟”لکھ گئےغلطی ہوگئی آئندہ نہیں بنائیں گے، لیکن اب کوئی دوسرا پاکستان بنے یا نہ بنے ہم تو اسی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ یہاں ہر روز شام کو ہمارا میڈیا، ٹاک شوز کے نام پرسیاسی دکانیں سجاتا ہے اور ان دکانوں پر آنے والے 95 فیصد افراد کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہوتا ہے۔ ان میں ہر قسم کے رہنما شامل ہوتے ہیں، یوں سمجھ لیں کہ آپ کو اس میں سنجیدہ، لوٹے اوربدتمیز ہر قسم کے سیاستدان ملیں گے۔ یہ ٹاک شوز عام طور پر پرائم ٹا ئم میں براہ راست نشر ہوتے ہیں۔ میڈیا کی زبان میں پرائم ٹا ئم وہ وقت ہوتا ہے جس میں زیادہ ناظرین ٹی وی چینل کے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ ان ٹاک شوز میں لوگوں کی پگڑی اچھالنا ایک عام بات ہے۔اس میدان کے لوگ بڑے بے رحم، بڑے بے لحاظ اور منہ پھٹ ہیں۔ ان ٹاک شوز میں ایسے ایسے اوچھے وار کیے جاتے ہیں، ایک دوسرے پر اس قسم کی کیچڑ اچھالی جاتی ہے اور وہ زبان استعمال کی جاتی ہےجس کا ایک دہائی قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، نہ عورت کا لحاظ ہے، نہ کسی کے مرتبے کا۔ یہاں جس کا جو دل چاہے وہ کہہ دیتا ہے۔
نجی ٹی وی چینل کے ایک ٹاک شوز میں تحریک انصاف کےرہنما شوکت یوسفزئی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز موجود تھے، شوکت یوسفزئی نے دانیال عزیز کے بارے میں کہا کہ” تم ایک سیاسی طوائف ہو،بھنگی تیرا خاندان ہی کیا ہے”۔ دونوں ہی پرانے لوٹے ہیں ، شوکت یوسفزئی ایک زمانے میں پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے صدر تھے۔ 1996 ء میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ یہ وہی شوکت یوسفزئی ہیں جنہوں نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراطلاعات ہوتے ہوئے صوبائی اسمبلی میں کہا تھا کہ دھماکے ہورہے ہیں تو کون سی قیامت آگئی؟ جبکہ دانیال عزیز سابق صدر پرویز مشرف کے تمام دور اقتدار میں اُن کے ساتھ تھے اور پرویز مشرف کے بڑے دبنگ ترجمان تھے، آج کل مسلم لیگ (ن) کے رہنما کہلاتے ہیں اور اکثر ٹاک شوز میں مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کی بھی بڑی دبنگ ترجمانی کرتے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ پکے مفاد پرست ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ‘سیاسی طوائف’ کا لفظ پہلی مرتبہ استعمال ہوا ہے، ہوسکتا ہے پہلے بھی ہوا ہو، سوشل میڈیا پر 24 اکتوبر 2014ء کو پی ٹی آئی کے ایک حامی نے اپنے ٹویٹ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو سیاسی طوائف لکھا تھا۔
مفاد پرست کب نہیں ہوتے اور کہاں نہیں ہوتے ہر وقت ہوتے ہیں اور ہرجگہ ہوتے ہیں ۔ ان ہی مفاد پرستوں کے لیے ہم لوٹے کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، یہ ہی لوٹے اپنے مالکان جو ان کے سیاسی سربراہ بھی ہوتے ہیں کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنے کےلیے مخالف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنماوں پرمختلف الزام لگاتے ہیں اور انہیں”سیاسی طوائف یا بھنگی” جیسے غیر مہذب القابات سے نوازتے ہیں۔ شوکت یوسفزئی کو عمران خان نے پاکستان آرمی کے بچوں کے چہلم کے موقعہ پراُس کے ایک بیان کے سبب محفل سے باہر نکال دیا تھا۔ ایک اور پروگرام میں جب پرانے کلپ چلائے گئےتو دانیال عزیز بوکھلاگئے کیونکہ یہ اُن کے مفاد کے خلاف تھا، انہوں نے بڑی سختی سے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے کبھی نواز شریف کےخلاف کچھ کہا ہے۔ پاکستان کی ہر اُس سیاسی جماعت میں جس کا ذرا بھی حکومت میں اور خاص کر مرکزی حکومت میں آنے کا امکان ہے اُس میں یہ مفاد پرست لازمی موجود ہیں۔ بہتر ہوگا کہ پارٹی سربراہان اپنے لوگوں کو تلقین کریں کہ وہ جب سیاست پر بات کررہے ہوں تو شرفا کی طرح بات کریں کیونکہ سیاست مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کے درمیان کی جاتی ہے اور ٹاک شوز عام طور پر گھروں میں دیکھے جاتے ہیں اور ان میںغیر شائستہ زبان کے استعمال کی گنجائش نہیں۔ مفاد پرست پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں لیکن پہلے والے مفاد پرست کم از کم اس قدر گری ہوئی زبان استعمال نہیں کرتے تھے، ہاں اپنا مفاد ضرور سامنے رکھتے تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت تھی، ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیراعظم تھے۔ مفاد پرست دھڑا دھڑ پیپلز پارٹی میں شامل ہورہے تھے، جو بھی شامل ہوتا وہ یہ اعلان ضرور کرتا کہ وہ اپنے سینکٹروں یا ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ پیپلز پارٹی میں شامل ہورہا ہے۔ ابھی ٹی وی ہر گھرمیں موجود نہیں تھا اس لیے ریڈیو کی افادیت باقی تھی۔ ریڈیو پاکستان سے روزانہ صبح کو ایک پروگرام “صبح نو” آیا کرتا تھا، اُس کا اناونسر پہلے کوئی واقعہ سناتا پھر کوئی گانا سنواتا۔ ایک دن اناونسر نےایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ” ایک اخبار کے دفتر میں ایک صاحب آئے اور اخبار کے ایڈیٹر کو ایک پرچہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ خبر چھپوانی ہے۔ پرچے میں لکھا ہوا تھا کہ ‘تابش دہلوی کو صدمہ، کل رات جناب تابش دہلوی کی خوشدامن صاحبہ کا انتقال ہوگیا’، ‘جناب تابش دہلوی جو ایک اچھے شاعر بھی ہیں اب تک اُن کی شاعری کے چار مجموعے شائع ہوچکے ہیں’، ‘جناب تابش دہلوی اپنے ہزار ساتھیوں کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگے ہیں’۔ اخبار کے ایڈیٹر نے کہا جناب اس میں تو تین خبریں ہیں آپ کون سی خبرشائع کروانا چاہتے ہیں؟ تابش دہلوی نے پوچھا فائدہ کس میں ہے؟ ایڈیٹر نے جواب دیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والی خبر میں، تابش دہلوی جھٹ سے بولے تو پھر وہ ہی چھاپ دیں “۔ اس کے ساتھ ہی اناونسر نے کہا کہ”ملکہ ترنم نوجہاں کی آواز میں ایک گانا سنیے”۔