Laaltain

غلبہ دین کا تصور

9 اگست، 2016
غلبہ دین کا عمومی تصور یہ ہے کہ اللہ نے اسلام کو دیگر تمام ادیان پر سیاسی، معاشی، عسکری اور تہذیبی غلبے کے لیے نازل فرمایا ہے اور ایک عام مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے عسکری و غیر عسکری سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرے۔
غلبہ دین کا تصور عموماً عسکری کارروائیوں کے ذریعے عالمگیر اسلامی خلافت کے قیام کے لیے ایک شرعی جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ غلبہ دین کے اس تصور کو لے کر ہی داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں مسلمانوں کو مسلم اور غیر مسلم ممالک میں عسکری کارروائیوں کی دعوت دیتی ہیں۔ غلبہ دین کا عمومی تصور یہ ہے کہ اللہ نے اسلام کو دیگر تمام ادیان پر سیاسی، معاشی، عسکری اور تہذیبی غلبے کے لیے نازل فرمایا ہے اور ایک عام مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے عسکری و غیر عسکری سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرے۔ غلبہ دین کے اس تصور کی بنیاد سورہ توبہ کی آیت 33 کو بنایا جاتا ہے۔

 

سورہ توبہ آیت 33 میں اللہ نے فرمایا:

 

“وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔”

 

یہ آیت انہی الفاظ میں سورہ صف میں اور معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ سورہ فتح میں بھی آئی ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایسی آیت صحابہ کے بارے میں بھی نازل نہیں ہوئی کجا دیگر مسلمانوں کے لیے نازل ہوتی کہ مسلمانوں کو برپا کرنے کا مقصد یہ بتایا جاتا کہ وہ دین کو غالب کریں۔ اس آیت کا مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور اس غلبے کا ظہور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہو چکا ہے۔ اس بنیاد پر دیگر ادیان کے پیروکاروں کو بزور طاقت مغلوب کرنے کی کوشش منشائے الٰہی سے روگردانی ہو گی۔

 

رسول اللہ کے سوا ہر شخص کے اجتہاد، دینی فہم اور عمل سے علمی اور عملی اختلاف ممکن ہے، اس لیے کوئی یہ دعوی بھی نہیں کر سکتا کہ اس نے دین کو غالب کر دیا ہے یا کر سکتا ہے یا ایسا کرنا عین دین ہے۔
میرے ناقص فہم کے مطابق ایسا اس لیے ہے کہ دین کا غلبہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں ہی ممکن تھا، وہ اس لیے کہ دینی معاملات میں وہ اللہ کی طرف سے براہ راست ہدایت یافتہ تھے۔ دینی معاملات میں آپ کا ہر فعل اور ہر فہم عین دین تھا۔ لیکن آپ کے بعد کوئی اور یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس کا ہر فعل اور فہم عین دین ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عمر اگر اپنے دور کے طویل قحط کے دوران چوری کی سزا معطل نہ کرتے اور چوروں کے ہاتھ بدستور کاٹے جا رہے ہوتے تو بظاہر یہ شرعی حکم پر عمل کم فہم لوگوں کو عین دین نظر آتا لیکن مقاصد شریعت سے عدم مطابقت کی بنا پر درحقیقت یہ دین کا مطالبہ نہیں تھا اور یوں دین پر عمل ہوتے ہوئے بھی یہ دین پر عمل نہ ہوتا۔ یعنی دین کے شرعی احکامات کے نفاذ اور اطلاق کا معاملہ بھی اجتہادی معاملہ ہے۔ اور اجتہادی معاملہ ہونے کی وجہ سے اس میں اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے۔ حضرت عمر نے اپنے عہد حکومت میں جو کچھ کیا وہ آپ کا فہم دین تھا جس سے اختلاف کرنے والوں نے اختلاف بھی کیا، بلکہ خود حضرت عمر نے اپنے بعض اجتہاد سے اختلاف کیا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی دینی فعل سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ منصب رسول اللہ کے بعد کسی کے لیے نہیں ہے کہ اس کے ہر دینی عمل کو عین دین سمجھا جائے۔ غرض یہ ہے کہ نبی کے بعد قطعیت سے کسی کے کسی بھی دینی عمل کو عین دین قرار دینا حتمی نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ کے سوا ہر شخص کے اجتہاد، دینی فہم اور عمل سے علمی اور عملی اختلاف ممکن ہے، اس لیے کوئی یہ دعوی بھی نہیں کر سکتا کہ اس نے دین کو غالب کر دیا ہے یا کر سکتا ہے یا ایسا کرنا عین دین ہے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد والوں کا جو بھی غلبہ ہوا یا ہوگا تو وہ مسلمانوں کا غلبہ ہوا تھا یا ہو گا۔ اسے دین کا غلبہ نہیں کہا جا سکتا۔ پھر یہ مسلم خلفاء اور حکمران جتنا اچھی یا بری طرح دین پر عمل پیرا ہوئے یا ہوں گے اتنا اچھا یا برا دین پر عمل سامنے آیا تھا یا آئے گا۔ صحابہ کے دور کا غلبہ البتہ اس معاملے میں ممکنہ حد تک بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔

 

شاید اسی لیے مسلمانوں کو دین کو غالب کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا کیونکہ یہ ان کی استطاعت ہی نہیں ہے۔ انہیں تو بس اچھا انسان اور اچھا مسلمان بننے کے احکامات اور ہدایات دیئے گیے ہیں، تاکہ وہ جس حالت میں بھی ہوں دین کے تقاضے اچھے سے اچھے طریقے سے ادا کریں، چاہے وہ حاکم ہوں یا محکوم۔ ان کو اگر کوئی ذمہ داری دی گئی ہے تو خود دین پر عمل کرتے ہوئے دوسروں تک دین کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ہے۔ اس میں اگر انہیں حکومت ملنے کے امکانات بھی پیدا ہو جاتے ہیں تو انہیں اسے خدا کی امانت سمجھ کر قبول کرتے ہوئے حتی الا مکان اپنے علم و فہم کے مطابق دین پر عمل کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ اپنے غلبے کو دین کا غلبہ قرار نہیں دے سکتے۔

 

مذکورہ آیت میں غلبہ دین کا کوئی حکم بیان نہیں ہوا بلکہ اللہ کی سنت کا بیان ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو غالب کر کے ہی رہتا ہے۔
مذکورہ آیت میں غلبہ دین کا کوئی حکم بیان نہیں ہوا بلکہ اللہ کی سنت کا بیان ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو غالب کر کے ہی رہتا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے غلبے کے عمومی حکم کا کوئی حکم مستنبط نہیں ہوتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو غالب کبھی آنا ہی نہیں آنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے غلبہ دین کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا کیونکہ ایسا کرنا ان کے لیے ممکن ہی نہیں۔

 

اس آیت کا مصداق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے دور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پورا ہو گیا تھا۔ اس آیت کے آخری الفاظ، “خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔”سے آیت میں بیان ہونے والے غلبے کی تحدید مشرکین عرب کے لیے ہو جاتی ہے،جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتمام حجت فرما یا تھا۔ اس کے بعد ان کا مغلوب ہو جانا اللہ کے اس قانو ن کے مطابق یقینی تھا، جس کے تحت اللہ اپنے رسولوں کو غالب اور ان کے مخالفین کو مغلوب کر دیتا ہے۔

 

“اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے فی الواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے۔” (سورہ مجادلہ 21)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *