Laaltain

غرّہءِ اوجِ بنائے عالمِ امکاں نہ پوچھ

2 اگست، 2016

[blockquote style=”3″]

Virtual Textual Practical Criticism “قاری اساس تنقید” کی مجموعی تھیوری کے تحت وہ طریقِ کار ہے، جس میں طلبہ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کسی نظم یا نظمیہ فارمیٹ کے متن پر عملی تنقید کیسے لکھی جائے۔ اس کے لیے شاعر کے نام کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (اگر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے نجی حالات، سیاسی یا مذہبی خیالات، ہم عصر شاعری کی نہج یا ہم عصر شعرا کا تتبع یا مخالفت وغیرہم کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جانا ضروری ہے، گویا کہ آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ یہ نظم کس شاعر کی ہے)۔صرف سامنے رکھے ہوئے متن پر ہی انحصار کرنے کے لیے یہ طریق ِ کار اختیار کیا جائے۔ متن میں مشمولہ تمام Proper and Common Nouns اسماء کے ہم معنی الفاظ، یعنی homonyms یا ان کے متبادل الفاظ کی فہرست تیار کر لی جائے۔ اب ہر اس اسم (اسم، اسم ِ ضمیر، اسم معرفہ، نکرہ، آلہ، تصغیر، تکبیر، وغیرہ) کے سامنے بنائی گئی فہرست کے ہر ایک لفظ کو استعمال کیے گئے لفظ کی جگہ پر رکھ کر دیکھا جائے کہ کون سا لفظ شاعر کی منشا یا مطلب کو براہ راست یا استعارہ یا علامت کے طور پر زیادہ واضح طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اب تنقید لکھتے ہوئے ان الفاظ کو زیر ِ بحث لایا جائے اور آخری پیرا گراف میں اپنی findings تفصیل سے لکھی جائیں۔ اس طریق کار کے تحت تنقید کا مضمون یورپ اور امریکہ میں پڑھایا جا رہا۔ یہ منظوم سلسلہ “خامہ بدست غالب” غالب کے کلام کو Virtual Textual Practical Criticism کے تحت سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ ستیہ پال آنند

[/blockquote]

غالب کے اشعار پر ستیہ پال آنند کی نظموں پر مشتل سلسلے ‘خامہ بدست غالب‘ میں شامل مزید نظمیں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

شعر

 

غرّہءِ اوجِ بنائے عالمِ امکاں نہ پوچھ
اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن

 

نظم

 

غرّہ کیا ہے؟
خود پسندی؟
اینڈنا؟ کج خلق ہونا؟ ادّعا، “میَں پن”
دکھاوا؟
زائد از امکاں بلندی، خود پسندی
اور اس پندار کی تشہیر ۔ “پھُوں پھاں”
طنطنہ، شیخی، دکھاوا
شہروں شہروں، ملکوں ملکوں
اپنی خلعت، کلغی، وردی کی نمائش
بانس کی ٹانگوں پہ چلتا ایک سرکس کا کھلاڑی
لاف زن، مغرور، متکبر، مدّمغ!

 

‘عالمِ امکاں‘ کی گربنیاد یہ ہو
اس بلندی کا اگر میزاب یہ ہو
دیکھئے پھر اس بلندی کا نتیجہ
صرف گرنا اوندھے منہ یا سر کے بل
یا چار زانو منحصر اس بات پر ہے
یہ تنزل، خفّت و ذلت ہے یا پھر
کورنش ہے خود سے اک بالا نشیں کی !!
جو بھی کچھ ہے
خاکساری، سجدہ ریزی، چاپلوسی، چاکری ہے!
ایسے خود بیں کے لیے موزوں ہے غالب کا یہ کہنا
“اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن!”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *