میں اعتراف کرنا چاہوں گی کہ امریکی صدارتی دوڑ میں میری دلچسپی تب تک نہیں تھی جب تک ڈونلڈ ٹرمپ کی آڈیو ریکارڈنگز سامنے نہیں آئی تھیں۔ ان ریکارڈنگز کے سامنے آنے کے بعد کئی خواتین نے ڈونلڈ ٹرمپ پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ان خواتین میں مقابلہ حسن میں شریک لڑکیوں سے لے کر ٹرمپ کے مختلف اداروں میں ملازمت کرنے والی اور انٹرویو دینے کے لیے جانے والی خواتین بھی شامل ہیں۔ ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے وہی کیا گیا جو دنیا کا ہر مرد ایسے الزامات کے سامنے آنے پر کرتا ہے۔
ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ان خواتین کے الزامات کو بغیر کسی تصدیق، بغیر کسی جانچ اور بغیر کسی توقف کے رد کرتے ہوئے ان خواتین کو جھوٹا قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ایک ہیش ٹیگ #NextFakeTrumpVictim بھی شروع کیا گیا ہے جس کا مقصد ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ان کی اہمیت کم کرنا ہے۔
ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ان خواتین کے الزامات کو بغیر کسی تصدیق، بغیر کسی جانچ اور بغیر کسی توقف کے رد کرتے ہوئے ان خواتین کو جھوٹا قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ایک ہیش ٹیگ #NextFakeTrumpVictim بھی شروع کیا گیا ہے جس کا مقصد ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ان کی اہمیت کم کرنا ہے۔
میں اس بات کو سمجھتی ہوں محض الزام کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید نہیں کی جا سکتی یا بغیر جانچ کے ان الزامات کو تسلیم بھی نہیں کیا جا سکتا اور میرے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ پر لگائے گئے الزامات کی بناء پر اسے مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ایک اور بات بھی کہی جا رہی ہے کہ یہ خواتین اب کیوں یہ الزامات لگا رہی ہیں پہلے کیوں نہیں لگائے گئے جب یہ واقعات ہوئے۔ ٹرمپ کے حامیوں کا ماننا ہے کہ یہ الزامات ٹرمپ کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے لگائے گئے ہیں۔ اس قسم کے تبصروں کے بعد ایک اور ہیش ٹیگ بھی ٹویٹر پر ٹرینڈ کرتا رہا ہے #WhyWomenDontReport۔
امریکی صدارتی دوڑ اور ڈونلڈ ٹرمپ پر الزامات کے صحیح یا غلط ہونے کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ سوچنا ضروری ہے کہ آخر کیوں جنسی جرائم رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ میں خود اور میرے جاننے والی تمام عورتوں کو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی قسم کی جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ لیکن ہم میں سے کبھی بھی کسی نے بھی ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں کیا۔ کیوں؟ اس کیوں کے بہت سے جواب ہیں جو بے حد تکلیف دہ ہیں لیکن ان کی نشاندہی کرنا بہت ضروری ہے۔
1۔ کوئی آپ کی بات کا یقین نہیں کرے گا
جب بھی آپ اس قسم کے الزامات کسی مرد پر لگائیں گی کہ اس نے آپ کو جنسی طور پر ہراساں کیا ہے یا ریپ کیا ہے عموماً لوگ اس بات کا یقین نہیں کرتے۔ خاص کر اگر وہ مرد نیک نام ہو۔ کوئی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہو گا کہ ‘فلاں صاحب، فلاں افسر، فلاں ٹیچر یا فلاں بزرگ’ ایسا کر بھی سکتے ہیں۔ لوگ ان صاحب کی نیک نامی کی قسمیں کھائیں گے اور آپ کو جھوٹا قرار دیں گے۔ خصوصاً اگر آپ کم عمر ہوں، کسی اقلیتی گروہ سے ہوں، کم تر معاشی اور سماجی حیثیت کے مالک ہوں یا محض عورت ہوں۔ ایک مرد کے مقابلے میں لوگ عورت سے ہمدردی زیادہ کرتے ہیں مگر اس کی بات کا یقین کم ہی کرتے ہیں۔ اگر پرویز مشرف ریپ کا شکار ہونے والی عورتوں کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ریپ کے واقعات ‘روپیہ کمانے اور باہر کا ویزہ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے’ تو سوچیے کہ ہمارے ہاں ریپ سے متعلق تردید کا رویہ کس قدر عام ہے۔
2۔ بدنامی کا خوف
جیسے ہی آپ اس قسم کا الزام عائد کریں لوگ آپ کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ سلوک کو بہت جلد ایک لذیذ قصے یا لطیفے کی شکل میں دوستوں کو سنانا شروع کر دیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ پر جنسی حملہ کرنے والا ہی آپ کی تصویریں یا ویڈیوز یا اپنے جرم کی تفصیلات عام کرنا شروع کر دے۔ ایک عورت پر جنسی حملے کی خبر تمام عمر اس عورت کی پہچان بن کر اس کے لیے جینا حرام کرنے کے لیے کافی ہے۔ جس انداز میں ریپ یا جنسی ہراسانی کے واقعات رپورٹ کیے جائیں گے، جو زبان استعمال کی جائے گی اور جو تبصرے کیے جائیں گے وہ متاثرہ فرد کے لیے مزید ذہنی اذیت کا باعث بنیں گے۔ اس بدنامی کا خوف ذرائع ابلاغ کی منفی رپورٹنگ کی وجہ سے بڑھا ہے۔ جس انداز میں جنسی جرائم کی رپورٹنگ کی جاتی ہے اس کے بعد مزید افراد کے لیے سامنے انا ممکن نہیں رہتا۔
3۔ الزام ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہے
جنسی جرائم کے الزامات ثابت کرن تقریباً ناممکن ہے۔ جنسی جرائم کے خلاف قوانین میں درج طریقہ کار ایسا ہوتا ہے کہ عورت کے لیے اپنے الزامات ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے بھی بعض عورتیں قانون کا در کھٹکھٹانے سے کتراتی ہیں۔ جنسی جرائم کا ارتکاب کیا ہی تب جاتا ہے جب کوئی آس پاس نہ ہو، کوئی دیکھ نہ رہا ہو اور پکڑے جانے کا اندیشہ نہ ہو ایسے میں ایک عورت کے لیے اپنے اوپر ہونے والے جنسی حملے کو ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ پاکستان میں اب آ کر ڈی این اے کو لازمی شہادت کے طور پر قبول کیا گیا ہے اس سے قبل تو وہ بیچاری مذہبی قوانین کے مطابق چار گواہ تلاش کرتی کرتی خود جیل میں پہنچ جاتی تھی۔ ہمارا نظام انصاف اس قدر فرسودہ اور سست رفتار ہے کہ کوئی بھی متاثرہ عورت اس پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہو سکتی۔ ریپ کے واقعات میں سزا کا تناسب بے حد کم ہے، 2014 میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران ریپ کے کسی ایک مقدمے میں بھی سزا نہیں سنائی جا سکی۔
4۔ جنسی جرائم کو معمولی جرم سمجھا جاتا ہے
قانون نافذ کرنے والے ادارے اور معاشرہ اور ریپ کے سوا (بلکہ بعض صورتوں میں ریپ کو بھی) دیگر جنسی جرائم کو معمولی جرم سمجھتے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں کبھی بھی عورت کو محفوظ بنانا اہم نہیں ہوتا۔ بعض اصحاب تو ایسے واقعات کو معمول کا واقعہ یا مردوں کی فطرت کا لازمی نتیجہ قرار دے کر ہی ان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگ یہ یاد نہیں رکھتے کہ جنسی جرائم کا شکار ہونے والوں کے لیے یہ جرائم کتنے ہولناک اور شدید اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔
5۔ جنسی جرائم رپورٹ کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے
منور حسن صاحب ایک انٹرویو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر عورت کے پاس چار گواہ نہیں تو اسے ریپ پر خاموش رہنا چاہیئے۔ یہی نہیں خاندان، قریبی عزیز اور حتیٰ کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ریپ اور جنسی جرائم رپورٹ کرنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اسے دبانے اور معاملہ ‘آپس میں طے کرنے’ پر زور دیتے ہیں۔
6۔ جنسی جرائم کی ذمہ داری عورت پر ڈالنا
بدقسمتی سے جنسی جرائم کے نتیجے میں بہت سے لوگ (حتیٰ کہ عورتیں بھی) اس جرم کی ذمہ داری عورت پر ڈالتے ہیں۔ لوگو جنسی جرائم کے بعد مجرم کی تلاش اور واقعے کی تفتیش سے زیادہ اس معاملے کو ابھارتے ہیں کہ متاثرہ عورت نے پہنا کیا تھا، وہ اکیلی تھی، مجرم کے پاس کیا کر رہی تھی۔ لوگوں کے نزدیک جنسی جرائم کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ متاثرہ عورت کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا۔ کچھ تو وجہ ہو گی جو عورت نے مرد کو اس جرم پر ‘مائل کیا یا گناہ کی دعوت دی’۔
7۔ مزید پابندیاں عائد ہونا
اگر آپ جنسی جرم رپورٹ کریں گی تو آپ کی تعلیم، ملازمت، آناجانا حتیٰ کہ کسی سے بھی بات چیت کرنا بند ہو سکتا ہے۔ بہت سی خواتین راستے میں، بازار میں، دفتر میں، کالج اور یونیورسٹی میں ہونے والی جنسی ہراسانی کو اس لیے بھی برداشت کرنے پر مجبور ہیں کہ اگر وہ ایسے واقعات رپورٹ کریں گی تو انہیں پہلے سے بھی زیادہ شدید نگرانی اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
8۔ خود کو کمزور اور اکیلا سمجھنا
بہت سی خواتین خود کو ایسے واقعات کے بعد بے حد کمزور اور اکیلا سمجھتی ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ وہ کبھی بھی مجرم کو سزا نہیں دلا پائیں گی۔ یہ احساس اس لیے بھی بڑھ جاتا ہے کیوں کہ انہیں اکثر و بیشتر خاندان کی جانب سے ہمدردانہ رویے کی توقع نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی عادی جنسی مجرم کے بارے میں ایک شکایت سامنے اتی ہے تو تب ہی دیگر خواتین کو سامنے انے اور مزید واقعات رپورٹ کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔ خصوصاً کم سن متاشرین اپنے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم بتانے کی ہمت خود میں پیدا نہیں کر پاتے۔
9۔ معلومات کا نہ ہونا
جنسی جرائم کیا ہیں، ان کے خلاف کون سے قوانین موجود ہیں اور ان قوانین سے استفادے کا طریقہ کیا ہے اس حوالے سے معلومات عام نہ ہونے کے باعث بہت سی خواتین ایسے واقعات رپورٹ کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔