Laaltain

عالم تمام حلقۂ دام ِ خیال ہے

20 جولائی، 2016

[block­quote style=“3”]

Vir­tu­al Tex­tu­al Prac­ti­cal Crit­i­cism “قاری اساس تنقید” کی مجموعی تھیوری کے تحت وہ طریقِ کار ہے، جس میں طلبہ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کسی نظم یا نظمیہ فارمیٹ کے متن پر عملی تنقید کیسے لکھی جائے۔ اس کے لیے شاعر کے نام کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (اگر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے نجی حالات، سیاسی یا مذہبی خیالات، ہم عصر شاعری کی نہج یا ہم عصر شعرا کا تتبع یا مخالفت وغیرہم کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جانا ضروری ہے، گویا کہ آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ یہ نظم کس شاعر کی ہے)۔صرف سامنے رکھے ہوئے متن پر ہی انحصار کرنے کے لیے یہ طریق ِ کار اختیار کیا جائے۔ متن میں مشمولہ تمام Prop­er and Com­mon Nouns اسماء کے ہم معنی الفاظ، یعنی homonyms یا ان کے متبادل الفاظ کی فہرست تیار کر لی جائے۔ اب ہر اس اسم (اسم، اسم ِ ضمیر، اسم معرفہ، نکرہ، آلہ، تصغیر، تکبیر، وغیرہ) کے سامنے بنائی گئی فہرست کے ہر ایک لفظ کو استعمال کیے گئے لفظ کی جگہ پر رکھ کر دیکھا جائے کہ کون سا لفظ شاعر کی منشا یا مطلب کو براہ راست یا استعارہ یا علامت کے طور پر زیادہ واضح طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اب تنقید لکھتے ہوئے ان الفاظ کو زیر ِ بحث لایا جائے اور آخری پیرا گراف میں اپنی find­ings تفصیل سے لکھی جائیں۔ اس طریق کار کے تحت تنقید کا مضمون یورپ اور امریکہ میں پڑھایا جا رہا۔ یہ منظوم سلسلہ “خامہ بدست غالب” غالب کے کلام کو Vir­tu­al Tex­tu­al Prac­ti­cal Crit­i­cism کے تحت سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ ستیہ پال آنند

[/blockquote]

غالب کے اشعار پر ستیہ پال آنند کی نظموں پر مشتمل سلسلے ‘خامہ بدست غالب’ میں شامل مزید نظمیں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

مصرع

 

عالم تمام حلقہ ٔ دام ِ خیال ہے

 

(اس نظم میں دو بحور کا امتزاج روا رکھا گیا)

 

الفاظ کی فہرست

 

عالم تمام: مافیہا، آفاق، کائنات؟
عالم تمام: تارکا منڈل، نظام ِ شمس؟
عالم تمام: روئے زمیں، زیرِ زمیں، سمک
عالم تمام: فوٹو اسفیّر (Pho­to sphere ) کرومو زون (chro­mo zone)
دامِ خیال : کشف و گماں کا فن و فریب
دامِ خیال: خود سے پخت و پزکا چھل کپٹ
دامِ خیال : فکر ِفی نفسہ کا زاد بوم
دامِ خیال : فہم کا اک خوابِ تہی مغز

 

نظم

 

اس گنجلک دماغ میں غالب میاں کہو
کیسا یہ انصرام ہے، کیسا یہ انضباط
کیسی ہے با قرینہ، مرتب یہ تبعیت؟

 

مانا کہ ذہن غیر معروضی ہے اک مقام
مانا کہ اس کی عیینت ہے عالم مثال
مانا کہ ایسٹَرل (East­erl) ہے وہ ایتھرک (Etheric)نظام
جس میں جہان اکبر و اصغر بھی ہیں مقیم
لیکن میاں ، یہ فلکِ اثیر ایٹموں کی اصل
اور آدمی کا ذہن فقط اثریت کا دام
شعری غلو سے بڑھ کے نہیں ہے یہ انضمام !

One Response

  1. قاری اساس تنقید اردو ادب میں بہت اچھے لغات اور تھیسارس تو تیار کر سکتی ہے لیکن کسی ادب پارے کی تفہیم یا اس کی تنقید مہیا کرنے سے بوجوہ قاصر ہے۔اس تنقید کی مدد سے آپ کسی فن پارے سے کچھ برآمد نہیں کر سکتے۔۔۔یہ محض الفاظ کی کسرت ہے ۔۔۔۔ممکن ہے اس سے صحت الفاظ پر کچھ اچھا اثر پڑے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. قاری اساس تنقید اردو ادب میں بہت اچھے لغات اور تھیسارس تو تیار کر سکتی ہے لیکن کسی ادب پارے کی تفہیم یا اس کی تنقید مہیا کرنے سے بوجوہ قاصر ہے۔اس تنقید کی مدد سے آپ کسی فن پارے سے کچھ برآمد نہیں کر سکتے۔۔۔یہ محض الفاظ کی کسرت ہے ۔۔۔۔ممکن ہے اس سے صحت الفاظ پر کچھ اچھا اثر پڑے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *