[blockquote style=”3″]
تصنیف حیدر
[/blockquote]
میں ایک ننگی پتنگ ہوں
جس کے بدن کا کاغذ
بہت پہلے سے پھٹ چکا ہے
کسی زمانے میں
گلیوں اور گنبدوں کا طواف کرتی تھی
ہوا کا سفینہ تھا میرا
ہر گھر محروم تھا میرا
میں ایک ننگی، بے ڈھنگی، پتنگ ہوں
لیکن یاد کی ڈوری ابھی بھی لمبی
چلتی پھرتی ہنستی گاتی
رنگین پنوں کے رخسار
اور کچلے ہوئے کانچ کی کٹار
منہ میں بھر بھر کر
آسمانوں پر نظم لکھ کر
ناسور کا سر قلم کرتی تھی
لیکن میرے ٹوٹے ہوئے آئینے
تمہیں راس نہیں آئے
ان کے بے خوف عکس میں
تمہارا ہی تشدد چھلکتا رہا
میں ایک ننگی، بے رنگ پتنگ ہوں
جو ہر روز پھول کی طرح
گگن پہ کھلتی تھی
چھوٹی سی اڑان تھی میری
لیکن ووہ بھی نامنظور تھی تم کو
کبھی بجلی کے تاروں پہ کاٹا
کبھی کھینچ کے بازاروں میں پیٹا
کبھی مذہب کی سولی پر چڑھایا
اب میرا ڈھانچا ابن مریم نما
تمہارے گھر کے کسی بے نور کونے میں
ایک مجسم خاموشی
ایک گونگا سوال بن گیا ہے
میرے گر کے مرنے کے بعد کیا ہوا
کتنوں نے اڑنے کی تمنا ڈبو دی
تمہیں اس کی کیا پروا
سب کے خوابوں پر نقاب ڈال کے
تم اپنے مطلب کے گھوڑے دوڑاتے ہو
اور جس دھرتی پر کھڑے ہو
اسی زمین کو کاٹتے جاتے ہو
تم نے پلٹ کر فلک پر نظر
کبھی نہیں ڈالی
جو تمہارے سر پہ پڑنے والا ہے
٭٭٭
نیم نیند کے خواب
کمخواب جیسے ملائم ہوتے ہیں
کسی بھی وقت
بھٹکے ہوئے پرندوں کی طرح
پلکوں کی شاخوں پر آکے لپٹ جاتے ہیں
غور سے دیکھیے
تو ان کے پروں کے ریشے
پرانے سپنوں کی روئی سے بنے ہوئے ہیں
ان میں ایک کچی عمر کی لڑکی
امرود کے درخت پر چڑھ کر
بچپنے کا پھل کھاتی ہے
نیم نیند کے خواب
ایک بوڑھی نانی کے ددوپٹے میں
کونے کی گانٹھ بن کے سمٹے رہتے ہیں
ان کا خزانہ بھی
میری نانی کی کہاوت ہے
مٹھی بند تو لاکھ کی
کھل گئی تو خاک کی
اپنے نیم نیند کے خوابوں کو
کھری دھوپ میں نہیں چھوڑو
ہو سکے تو اپنی بند مٹھی کی سیاہی سے
انہی چند ورقوں کی سفید چادر پر
ایک نئی دولہن کے خون کی طرح
یادگار بنا کے چھوڑ جانا
٭٭٭
اس کی آنکھوں میں دیکھا میں نے
محبت کا پراسرار عکس
بہت سارے سوال اٹھ گئے دل میں
جو میرے لبوں سے نکل نہ سکے
عمر بیت گئی لیکن
اب بھی کسی آئینے سے گزرتے وقت
ٹھنڈے کانچ میں اپنا چہرہ دیکھ کر، یاد آتا ہے
ہر نظم کی تکمیل ممکن نہیں
٭٭٭
(قندیل بلوچ کے نام)
پتلے ننگے تار سے لٹکی
جلتی، بجھتی، بٹتی
وہ لڑکی
جو تمہاری دھمکی سے نہیں ڈرتی
وہ لڑکی
جس کی مانگ ٹیڑھی ہے
اندھی تنقید کی کنگھی
سے نہیں سلجھتی
وہ لڑکی
جس کی ہر لٹ میں
موتیوں کے تبسم کے علاوہ
کھرج بھی ہے
گرج بھی ہے
ایک رات میں اکیلی پھرتی ہوئی
پہیلی بھی ہے
اس الہڑ کی لٹ کو نہیں باندھ سکتے ہو تم
کہ اس نے دانت
کانٹوں پہ کاٹے ہیں
لڑکی ہے تو لڑکے رہے گی
اب تم سے نہ ڈرکے رہے گی
ایک کو مات کیا تو دوسری
اسی کے کندھوں پر
بڑھ چڑھ کے رہے گی
لڑکی ہے تو لڑ کے رہے گی
اب تم سے نہ ڈر کے رہے گی
٭٭٭
کبھی بھی، کسی وقت
چلتے پھرتے کھاتے پیتے
نیند کی ململ آنکھوں میں لپیٹے
کسی محبوب کے بدن کو
اپنی انگلیوں کی لرزش سے سلگاتے
ننگے پائوں
رنگے پائوں
دوست یار بے کار
دفتر سے فرار
اناڑی بھکاری سواری
بھرے بازار میں ٹھیلے والوں کی گاڑی
ایک بوڑھی عورت
مصیبتوں سے تھکی ہاری
ایک چھوٹی بچی
اپنے بابا کی راج دلاری
کبھی بھی کسی وقت آسکتی ہے باری
سن لو سن لو
کل کی خبر، آج کی زبانی
کھوٹے سکے کے سوداگر نے
میری اور تمہاری ساری
زندگی کو ایک پرانی
رسید کی طرح پھاڑا
ردی کی ٹوکری میں ڈالا
اور اگلے گھر
کی ناپ تول کو نکلا
٭٭٭
Image: Rangoli Garg