Laaltain

صنعتِ “المشہور” کا یومِ پاکستان

23 مارچ، 2016
یُوں تو سیانے کہتے پائے گئے ہیں، “بُدھ اور کام سُدھ۔” لیکن آج یہ ہوائی کسی محض اور محض دشمن کی اُڑائی ہوئی ہی لگ رہی تھی۔ ان کا موبائل فون تو سگنلز کے علاقے میں بغیر کسی آپریشن کے بے سُدھ پڑا تھا۔
عاجز صاحب آج صبح کو نیند سے بیدار ہوئے تو فوراً اپنے جیون ساتھی، (یعنی موبائل فون) کو اٹھایا۔ اس کو آنکھیں مَلتے مَلتے دیکھا تو سِگنلز والی جگہ پر موبائل فون کا سیٹ “سَرچِنگ، سَرچِنگ” کی استمراری حرکت میں مصروف تھا۔ موبائل فون کی اسکرین پر عام طور موجود باقی نَگ سارے پُورے تھے۔ یہ باقی دنوں کی طرح تاریخ اور ہفتے کا دن آج بھی دکھا رہا تھا۔ جن کے مطابق آج ایک بار پھر 23 مارچ تھا اور بُدھ کا دن تھا۔ یُوں تو سیانے کہتے پائے گئے ہیں، “بُدھ اور کام سُدھ۔” لیکن آج یہ ہوائی کسی محض اور محض دشمن کی اُڑائی ہوئی ہی لگ رہی تھی۔ ان کا موبائل فون تو سگنلز کے علاقے میں بغیر کسی آپریشن کے بے سُدھ پڑا تھا۔ ویسے تو اُن کی عُمریا اب موبائل کمپنیوں کے گھنٹہ پیکیجوں کےچَھنکتے جُھنجھنوں کی موسیقیات کے دائرے سے پار ہو چکی تھی، پر آج اس وقت کہیں دوسرے شہر میں ضروری کال کرنا پڑ گئی تھی۔ کہنے کو تو ابھی صبح کے کوئی پانچ، ساڑھے پانچ کے آس پاس ہی کا وقت ہوا تھا لیکن عاجز صاحب کے چہرہ پر بہ آسانی بارہ بجنے کا گھنٹہ ٹن ٹن کرتے سُنا دیکھا جا سکتا تھا۔ کچھ بھلکڑ واقع ہوئے ہیں حالانکہ “وسیع تر ملکی مفاد” والے تو کچھ دن سے ڈھول پیٹ رہے تھے کہ پھر نا کہنا خبر نہ ہوئی کہ سگنلز اور سڑکیں نہیں ملیں گی۔

 

تو پھر کیا ہوا؟ ہونا کیا تھا اور وہ بھلے عام قسم کی خاک اور پانی سے بنے آدمی کر بھی کیا سکتے تھے۔ کچھ دیر دانتوں کو پِیسا، مُنھ میں ہلکی پُھلکی کسی نوزائیدہ صلوٰت کا ورد کیا۔ نہیں، نہیں اونچا نہیں بولے، بھئی دیواروں کے بھی تو کان ہوتے ہیں۔ بصورتِ دیگر سپریم کورٹ بھی بُلا بُلا تھک جائے گی، شاہراہِ دستور پر محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ اور کئی معدنیات سے لبالب علاقے کے غیب شُدگان کے وارثان و وابستگان جلتے بُنتے پھریں گے، لیکن غیب کے صیغہ میں پھنس جانے والے حاضر کے صیغہ میں نا آ پائیں گے۔ عاجز صاحب شریف قسم کے آدمی ہیں اور بھئی سچ ہی تو ہےکہ شریف آدمی بہت ساری گھریلو، گلی، پاس والی مسجد، ساتھ والے مدرسے اور ملکی و قومی ایجنسیوں کے سامنے چُپ ہی کر سکتا ہے۔ شریکِ حیات بچوں سمیت اسکولوں سے چھٹیوں کی وجہ سے اپنے میکے تشریف لے جا چکی تھیں، مطلب یہ کہ آج گھر سے ناشتہ ملنے کی کوئی آس نا تھی۔ تو پھر مجبوراً ہو لئے پاس والی مارکیٹ کی جانب کہ کچھ قل ھو اللہ کا ورد کرتی آنتوں کو تَر کر سکیں۔

 

غرض یہ کہ اسلام آباد کی مارگلہ ٹاؤن کا یہ شوارمے والا ثقافتی اور کاروباری طور پر پیوست روایتِ دیکھا دیکھی کے عین مطابق اور وہ بھی پلک جھپکنے میں اب اسی علاقے کا ایک نیا “المشہور” بن کر سامنے آ چکا تھا۔
مارکیٹ میں کافی دنوں بعد آج داخل ہو رہے تھے تو کچھ خاص چہل پہل نا تھی۔ زیادہ تر کھوکھے بند تھے۔ جونہی ایک بند کھوکھے پر نظر پڑی تو اوپر جَلی حروف میں لکھا تھا “مارگلہ ٹاؤن کا المشہور شوارما”۔ عاجز صاحب نے کہا یہ کون ہے اور یہ کب کا “المشہور” ہوگیا! لیکن سمجھدار اور گھومنے پھرنے والے انسان تھے جلد ہی یاد میں آ گیا کہ لاہور میں بھی تو ہر ہوٹل اور کھوکھا کوئی نا کوئی “المشہور” یا “واحد اصلی” ہی تو ہوتا ہے۔ عاجز صاحب کو اچھی طرح یاد آگیا کہ کیسے گرمیوں میں ایک بار جی ٹی روڈ پر سفر کے دوران ان کا گزر گوجرانوالہ سے پہلے راہوالی کے مقام پر ہوا۔ یہاں سڑک کے دونوں طرف کھڑے قلفیاں سجائے ریڑھیوں ٹھیلوں والے سارے کے سارے “المشہور” تھے اور سارے کے سارے بابے اللہ رَکّھے کے متعلقین تھے، اور مزے کی بات کہ ہر ایک نے اپنا اپنا بابا اللہ رکھا بٹھایا بھی ہوا تھا یا اس کی مولانا طاہر اشرفی کے حجم برابر تصویر ضرور لگائی تھی۔ یہی حال تھوڑا آگے جا کر حافظ آباد کے اصلی، خاندانی اور المشہور ٹوٹی ہڈیوں کو جوڑنے والے بابے تاجے کے وابستگان کی مختلف جگہوں پر موجود آوٹ لیٹس کا تھا۔ راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ کی بغل میں ماموں برگر نام کے اصلی اور المشہور برگر کے عین اسی علاقہ میں کئی دعوٰے دار بازار میں ارزاں نرخوں پر بھی جا بہ جا موجود تھے۔ کراچی میں بھی تو ایسے ہی ہوتا ہے، وہاں کون سا رینجرز والوں نے ان “المشہوروں” کو قابلِ نوّے دن کی گردن زدنی جانا! تو پھر کیوں وفاقی دارلخلافہ اسلام آباد اس چلنے والی اور بِکنے والی گردانِ بازاری سے باز رہ سکے۔ غرض یہ کہ اسلام آباد کی مارگلہ ٹاؤن کا یہ شوارمے والا ثقافتی اور کاروباری طور پر پیوست روایتِ دیکھا دیکھی کے عین مطابق اور وہ بھی پلک جھپکنے میں اب اسی علاقے کا ایک نیا “المشہور” بن کر سامنے آ چکا تھا۔

 

انہی سوچوں کے جھرمٹ میں عاجز صاحب تھوڑا سا آگے جا کر اسی مارکیٹ میں کھلے ایک چھوٹے سے ہوٹل پہنچ گئے۔ کچھ چائے بَن کا آرڈر ڈالا۔ ہوٹل میں ٹی وی پر براہِ راست چلنے والی تقریب میں بڑا ہیبت ناک اسلحہ اور پسِ منظر میں اس پر اتنا ہی لرزہ خیز تبصرہ رواں تھا۔ یومِ پاکستان، یومِ پاکستان، فوجی پریڈ، دشمن، میلی آنکھ اور اسلحہ کی نمائش وغیرہ کے لفظ گھن گرج کے ساتھ برس رہے تھے۔

 

عاجز صاحب نے سوچنا شروع کیا اور سوچتے ہی گئے کہ بھئی یہ یومِ پاکستان بھی تو “صنعتِ المشہوریات” ہی کی ایک قسم ہے۔ اصلًا تو یہ “یومِ جمہوریہ” تھا
عاجز صاحب نے سوچنا شروع کیا اور سوچتے ہی گئے کہ بھئی یہ یومِ پاکستان بھی تو “صنعتِ المشہوریات” ہی کی ایک مصنوع ہے۔ اصلًا تو یہ “یومِ جمہوریہ” تھا؛ وہ دن جب ملکِ من کے پہلے آئین جس کو 23 مارچ سنہ 1956 کو رُو بہ عمل لایا گیا، جس دن وطنِ عزیز کا تاجِ برطانیہ سے باقاعدہ الگ تھلگ تشخص بنا، یعنی “ڈومینین” کا درجہ ختم ہوا۔ سات وزرائے اعظم کی تبدیلی لیکن اسی عرصہ میں ایک ہی مستقل کمانڈر اِنچیف نے جونہی پہلی بار “عزیز ہم وطنو” کی تان چھیڑ ڈالی تو لفظِ “جمہوریہ” بدعت ٹھہرا۔ کسی دفتری بابو کے اندر کا تخلیقی فنکار و جادوگر جاگا۔ بیک جنبشِ قلم “جمہوریہ” کا شبد، لفظِ “پاکستان” کے نیچے لا کر دبا دیا گیا۔

 

اب بازار میں صرف یومِ پاکستان ہی “المشہور” ہے اور مسلسل ہی المشہور ہے، اور اچھا بِکتا بھی ہے۔ حالانکہ بیچ میں سلطانئِ جمہور کے “ثانیہ بھر زمانے” آتے رہے ہیں لیکن یہ نقشِ المشہور نا مٹ سکا۔اسی طرح کہتے ہیں کہ کئی اور بھی ملکی، قومی اور مِلّی سطح پر اسی نوع کی “المشہور” اختراعات ہوئیں۔ لیکن کچھ المشہوریات کی بابت پھر سہی!

 

اب عاجز صاحب کے ذہن میں کئی سوالوں کے نئے نقش ابھر رہے تھے کہ پاکستان میں ہر یومِ قومی پر اسلحے اور ٹینکوں ہی کی نمائش کیوں ہوتی ہے: بھلے وہ کوئی المشہور “یومِ دفاع” ہو یا کوئی المشہور “یومِ پاکستان”؟ پھر ان کے اندر سے ہی آواز آئی کہ مٹا دے ان نقشوں کو اگر کچھ مرتبہ چاہئے! عاجز صاحب نے چور آنکھوں سے اپنے آس پاس دیکھا، جلدی جلدی چائے کی سُرکیاں ختم شد کیں۔ سب سوالوں کے نقش، سڑکوں پر کسی کے تصرف کے نوحے اور موبائل سگنلز کے غم ذہن کی سلیٹ سے پونچھ کر جانبِ گھر کُوچ کر گئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *