شہرام سرمدی اپنے مدعا کی تلاش میں سر گرداں ہیں۔
“شہرام سرمدی کی کئی نظمیں ایسی بھی ہیں جو ان کے مذہبی ،معاشرتی اور تمدنی وجدان سے پیدا ہوئی ہیں۔ لہذا ایسی نظموں میں ان کا ایک الگ کردار ہے۔ اس کے علاوہ ان کی پوری پوری نظمیں ایسی نہ بھی سہی تو بہت سی نظموں میں وہ اپنے معاشرتی، مذہبی اور تمدنی افکار سمیت بھکرے نظر آتے ہیں۔مثلا ًایک سے چار مصرعے اگر ان کی منشا کے عین مطابق ہیں۔ تو چار سے آٹھ یا پھر بارہ ،ان کے اس کردار ثلاثی سے مزین ہوتے ہیں ۔اس میں بھی کوئی ترتیب نہیں ہے ہو سکتا ہے یہ چار، آٹھ ،بارہ درمیان میں ہوں، شروع میں یاآخر میں۔ شہرام کی شاعری میں تخلیقیت کا عنصر اس بکھراو سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ وہ الفاظ کا محل استعمال تبدیل کرناجانتے ہیں۔وہ اپنی نظموں میں انHidden Points کو جو نظم کے آخر میں آنا چاہیئے بعض اوقات پہلے ہی بیان کر دیتے ہیں۔ ان کی نظم کی کہانی الٹتی پلٹتی رہتی ہے جس سے ان کی فنی صلاحیت کا ادراک ہوتا ہے۔ “
“شہرام سرمدی کی کئی نظمیں ایسی بھی ہیں جو ان کے مذہبی ،معاشرتی اور تمدنی وجدان سے پیدا ہوئی ہیں۔ لہذا ایسی نظموں میں ان کا ایک الگ کردار ہے۔ اس کے علاوہ ان کی پوری پوری نظمیں ایسی نہ بھی سہی تو بہت سی نظموں میں وہ اپنے معاشرتی، مذہبی اور تمدنی افکار سمیت بھکرے نظر آتے ہیں۔مثلا ًایک سے چار مصرعے اگر ان کی منشا کے عین مطابق ہیں۔ تو چار سے آٹھ یا پھر بارہ ،ان کے اس کردار ثلاثی سے مزین ہوتے ہیں ۔اس میں بھی کوئی ترتیب نہیں ہے ہو سکتا ہے یہ چار، آٹھ ،بارہ درمیان میں ہوں، شروع میں یاآخر میں۔ شہرام کی شاعری میں تخلیقیت کا عنصر اس بکھراو سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ وہ الفاظ کا محل استعمال تبدیل کرناجانتے ہیں۔وہ اپنی نظموں میں انHidden Points کو جو نظم کے آخر میں آنا چاہیئے بعض اوقات پہلے ہی بیان کر دیتے ہیں۔ ان کی نظم کی کہانی الٹتی پلٹتی رہتی ہے جس سے ان کی فنی صلاحیت کا ادراک ہوتا ہے۔ “
“ناموعود کی تمام تر شاعری کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنا مناسب ہو گا۔ ان کے احساس اور وجدان نے اپنا پیمانہ خود تلاش کر لیا ہے۔ خواہ نظم ہو یا غزل تجربے اور شعور کی کار فرمائی ہر جگہ موجود ہے۔ اس شاعری میں ملال اور محزونی کا عرصہ پھیلتے پھیلتے اچانک بلند آہنگی سے وصل کرتا ہے۔ غزلوں میں بھی ان کے یہاں فکری کشمکش کی تیز کاٹ موجود ہے۔ وہ اپنی روح پر لفظوں کو صیقل کر تے ہیں اور اپنے خلا کو پر کرتے ہیں۔ یہ خلا مادی وجود سے لے کر ان کی مابعد الطبیعات تک پھیلا ہوا ہے۔ “(خاک پریشاں/سالم
سلیم)
شہرام کے یہاں ایک قسم کا الجھاو ہے، یہ ان کی طبیعت میں موجود ہے، وہ پیچیدہ مسائل کو سلجھانے میں کوشاں رہتے ہیں، ایک دو بار سلجھا بھی لیتے ہیں پر ان کے مسائل اپنی اصل میں کبھی نہیں سلجھتے۔ وہ ایک طرح کےتضاد کا شکار ہیں۔ فکری تضاد۔ان کو کائنات کے دو طرفہ رویوں نے اپنی مختلف المزاجی سے الجھا رکھا ہے، وہ غور کرتے ہیں اور اس کے حاصل کے طور پر ایک نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ پر اس نتیجے کو بہت دیر تک نتیجہ تصور نہیں کر پاتے۔ یہ ان کی نہیں، بلکہ کائنات کی متلون مزاجی کا ثبوت ہے۔جو انہیں کہیں ٹھہرنے نہیں دیتا۔ بعض اوقات وہ نتائج کےاستخراج سے جلد بازی میں کوئی فیصلہ بھی کر جاتے ہیں، پر اگلے ہی لمحے اس سے انحراف بھی کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت غیر شعوری طور پر ہوتا ہے، لہذا عین ممکن ہے کہ وہ اس سے خود واقف نہ ہوں، کیوں کہ شہرام کی ذات کسی چیز کی تلاش و جستجو میں محو ہےاور وہ اس شئے کا پرتو جہاں دیکھتے ہیں،اس پرتو سے انہیں یہ گمان گذرنے لگتا ہے کہ ان کا مدعا انہیں نصیب ہوگیا۔ ایسا ہو بھی جاتا اگر ان کا مدعا کوئی ایسی شئے ہوتی جس کا حصول انہیں مطمئن کر پاتا، چونکہ ان کا مدعا کوئی ٹھوس شئے نہیں، بلکہ ایک فکری ترنگ ہے اس لیے وہ سورج کی ایک کرن دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ روشنی کا چھور ان کی گرفت میں آ گیا ہے، لہذا مجنونانہ رقص کرتے ہوئے کیف آور نشے میں خود کلامیہ انداز میں چیخ پڑتے ہیں کہ انہیں حقیقت کا ادراک ہو گیا۔ اگر کہانی یہیں ختم ہو جاتی تو شہرام کی فکر میں سطحیت کے عناصر شامل ہو جاتے۔ ان کی داستان فکر کا اصل باب اس اعلان سے آگے بڑھ کر اس حیرانی سے شروع ہوتا ہے جہاں انہیں کچھ حاصل نہ ہونے کا اضطراب اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ پھر وہ مایوس ہو جاتے ہیں۔شکوہ کرتے ہیں، روتے ہیں، بلبلاتے ہیں، چیختے ہیں، چلاتے ہیں اور تھک ہار کر بوجھل سانسوں کے تلے ساکت و جامد ہو کر خلا میں گھورنے لگتے ہیں۔بالکل خالی الذہن، نہ کسی چیز کی جستجو نہ کسی شئے کی تلاش۔
شہرام کے یہاں ایک قسم کا الجھاو ہے، یہ ان کی طبیعت میں موجود ہے، وہ پیچیدہ مسائل کو سلجھانے میں کوشاں رہتے ہیں، ایک دو بار سلجھا بھی لیتے ہیں پر ان کے مسائل اپنی اصل میں کبھی نہیں سلجھتے۔ وہ ایک طرح کےتضاد کا شکار ہیں۔ فکری تضاد۔ان کو کائنات کے دو طرفہ رویوں نے اپنی مختلف المزاجی سے الجھا رکھا ہے، وہ غور کرتے ہیں اور اس کے حاصل کے طور پر ایک نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ پر اس نتیجے کو بہت دیر تک نتیجہ تصور نہیں کر پاتے۔ یہ ان کی نہیں، بلکہ کائنات کی متلون مزاجی کا ثبوت ہے۔جو انہیں کہیں ٹھہرنے نہیں دیتا۔ بعض اوقات وہ نتائج کےاستخراج سے جلد بازی میں کوئی فیصلہ بھی کر جاتے ہیں، پر اگلے ہی لمحے اس سے انحراف بھی کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت غیر شعوری طور پر ہوتا ہے، لہذا عین ممکن ہے کہ وہ اس سے خود واقف نہ ہوں، کیوں کہ شہرام کی ذات کسی چیز کی تلاش و جستجو میں محو ہےاور وہ اس شئے کا پرتو جہاں دیکھتے ہیں،اس پرتو سے انہیں یہ گمان گذرنے لگتا ہے کہ ان کا مدعا انہیں نصیب ہوگیا۔ ایسا ہو بھی جاتا اگر ان کا مدعا کوئی ایسی شئے ہوتی جس کا حصول انہیں مطمئن کر پاتا، چونکہ ان کا مدعا کوئی ٹھوس شئے نہیں، بلکہ ایک فکری ترنگ ہے اس لیے وہ سورج کی ایک کرن دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ روشنی کا چھور ان کی گرفت میں آ گیا ہے، لہذا مجنونانہ رقص کرتے ہوئے کیف آور نشے میں خود کلامیہ انداز میں چیخ پڑتے ہیں کہ انہیں حقیقت کا ادراک ہو گیا۔ اگر کہانی یہیں ختم ہو جاتی تو شہرام کی فکر میں سطحیت کے عناصر شامل ہو جاتے۔ ان کی داستان فکر کا اصل باب اس اعلان سے آگے بڑھ کر اس حیرانی سے شروع ہوتا ہے جہاں انہیں کچھ حاصل نہ ہونے کا اضطراب اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ پھر وہ مایوس ہو جاتے ہیں۔شکوہ کرتے ہیں، روتے ہیں، بلبلاتے ہیں، چیختے ہیں، چلاتے ہیں اور تھک ہار کر بوجھل سانسوں کے تلے ساکت و جامد ہو کر خلا میں گھورنے لگتے ہیں۔بالکل خالی الذہن، نہ کسی چیز کی جستجو نہ کسی شئے کی تلاش۔
اس کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، وہ دوبارہ لڑکھڑا کر اٹھتے ہیں۔اب کی مرتبہ وہ غیب سے کسی نوع کی مدد کے خواستگار دکھائی دیتے ہیں۔ ایک نور کی آمد کی امید کے ساتھ، دوبارہ اپنے زخمی احساسات کے ساتھ، پھر کوشاں ہو جاتے ہیں۔اس بار وہ اپنے آس پاس کی زندگی میں اس شئے کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں دیدہ حیراں عطا کر دے۔ شہرام کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ہر شئے کو اپنے نقطہ ارتکازسے ممیز کرتے ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ وہ اس امتیاز کے دوران کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یہاں ان کا مقصود صرف تجزیہ ہوتا ہے اوریہ تجزیاتی سفر ان کی عام زندگی کے ایسے حالات و واقعات کی داستان بیان کرتا ہے ،جس سے ان کی پریشاں خاطری کا علم ہوتا ہے۔ مجھے ان کی شاعری میں “پتنگ کے اڑنے سے پہلے” نے حیران کیا۔ یہ نظم ثابت کرتی ہے کہ شہرام اپنے مدعا کو آسمانی صحیفوں یاپراچین کھتاوں میں تلاش کرنے کے قائل نہیں۔ وہ زمین پر رہتے ہیں ،اپنے آس پاس کی زندگی جیتے ہیں اور اپنے مدعا کو انہیں اشیامیں تلاش کرتے ہیں، لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کو اسی زمین کے پیٹ سے اگنے والی کئی داستانوں نے اپنے طلسمی جال میں قید کر رکھا ہے۔ شہرام کی تلاش اس لیے بھی اور پیچیدہ ہو گئی ہے، کیوں کہ ان کے یہاں کہانیوں کا وفور ہے۔وہ اپنے اطراف سے بہت زیادہ واقف ہیں، لہذا وہ اپنے اندرون سے کسی اور کے اندرون میں داخل ہو تے رہتے ہیں۔ اس عمل میں وہ بعض اوقات اپنے مدعا سے دور بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ فکر کی رنگین وادیوں میں گھومنے لگتے ہیں اور اپنے غم سے الگ کسی اور کے غم میں شریک ہو جاتے ہیں۔ یہ شہرام کے افکار کا تنوع ہے جو انہیں ایک مدعاسے دیگر مدعات تک لے جاتا ہے اور یہ ہی ان کا انتشار بھی ہے۔ ان کی شاعری سے ان کے جس نوع کے اضطراب کا علم ہوتا ہے، اسی سے ان کی زخم خوردہ مسرت بھی مترشح ہوتی نظر آتی ہے۔ شہرام اپنی تلاش سے اکتاتے بھی ہیں،اس سے صرف نظر بھی کرتے ہیں اوربعض اوقات اس شوریدہ سری سے تنگ آ کر زندگی سے فرار کا راستہ بھی تلاش کرتے ہیں۔ وہ سفر کو عین منزل قرار دیتے ہیں۔ اپنے مبالغے کو چھپاتے ہیں۔ اپنی حقیقت کو ڈھانپ دیتے ہیں، حالاں کہ شاعری میں ان کے یہاں جس خلا کا تصور کام کررہا ہے، وہ منزل کا نکتہ اسی سرے سےظاہر کر دیتے ہیں۔ شہرام کو ظاہری نظام سے چڑ ہے اس لیے وہ اپنے تضاد کے ذریعے اپنا ایک مختلف نظام وضع کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ جس سے ان کی رسائی ان کے مدعا تک ہو جائے۔یہ ایک طرح کا چھلاوا ہے، اسی لیے وہ ابھی کہیں ہوتے ہیں اور ابھی کہیں۔ در اصل یہ لفظوں کا مکر ہے۔ جو شہرام کی فکر تک پہنچنے میں مانع ہوتا ہے۔ان کے اکثر اشعار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کہنا کچھ اور چاہتے تھے پر آخر تک آتے آتے وہ اپنی کہانی کو ایک مختلف رنگ عطا کر دتے ہیں۔ شہرام کی فکر کا سکہ الٹتا رہتا ہے۔ لہذااسی سے ان کی شاعری میں معنوی تنوع پیدا ہوتا ہے۔
ان کی نظم “خلا سا کہیں ہے”سے ان کے فکری خلفشار کا ادراک ہوتا ہے۔وہ زندگی سے شکایت کو ممنوع قرار دیتے ہوئے،زندگی سے شکایت کر جاتے ہیں۔فنکار سے ہجر کا غم ان کے اندوہ کو ظاہر کرتا ہے اور اس کو بھی کے وہ لوٹ گھوم کر اپنے صنف خانہ مدعا کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح “بخت برگشتہ” میں بھی انہیں اس الجھاوں کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شہرام کو نعمتوں کا احساس ہے ،لیکن ان کے نزدیک عین نعمت کچھ اور ہے جس کے عدم حصول کی بنیاد پر وہ خود کو کوستے ہیں۔ ان کی مایوسی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی بخت برگشتگی، طالع بیداری میں اسی وقت تبدیل ہو سکتی ہے جب ا نہیں اپنا مدعا نصیب ہو جائے۔حالاں کہ وہ اس امر سے واقف ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوگااوریہ ہی وجہ ہے کہ ان کے قالب میں شاعری نے اپنی جڑوں کوپھیلانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔