آج کپتان صاحب اپنے دفتر میں ہی رہے۔اُنہوں نے کوت والے کو باہر بھیج دیا۔میں بھی شام تک اُن کے ساتھ رہا۔لکھنے کاکافی سارا کام اُنہوں نے مُجھ سے کروایا۔ میرے کام سے بہت خوش ہوئے اور کہا کہ جنگ کے بعد وہ مُجھے لانگ کورس کے امتحان میں ضرور بٹھوائیں گے۔میں نے اُن کو بتایا کہ میں گھریلو حالات کی وجہ سے اگر ایف ۔اے کے دوران ہی فوج میں بھرتی نہ ہوتا تو بھائی اقبال مُجھے بھی پرائمری ماسٹر لگوانا چاہےتھے۔ کپتان صاحب اچھے موڈ میں تھے تو میں نے اُنہیں اپنی تازہ شاعری بھی سُنائی۔وہ کہتے تھے کہ میں عشقیہ شاعری کی بجائے نثر لکھا کروں، بہتر ہوگا ۔کیونکہ عشقیہ شاعری کا شوق سولجر کو بُزدل بنا دیتا ہے۔
میں نے اُن سے جنگ کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ ہر طرف سے بُری خبریں ہیں۔دُشمن کئی راستوں سے ڈھاکے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ہماری ائیرفورس ناکارہ ہوگئی ہے اور تیج گاوں کا ہوائی اڈہ تو دُشمن نے بالکل تباہ کردیا ہے اور ہماری نیوی کے دو جہاز بھی ڈبو دیئے گئے ہیں۔وہ اندرا گاندھی کو ننگی گالیاں دے رہے تھے۔ اُنہوں نے یحیی خاں اور ٹکِا خاں صاحب کو بھی گالیاں دیں لیکن بعد میں مُجھے کہا کہ کسی سے ان باتوں کا ذکر نہ کروں۔وہ کہہ رہے تھے کہ ان بنگالیوں کے ساتھ بہت ذیادتیاں ہوئی ہیں لیکن انہوں نے جس طرح دُشمن سے ساز باز کی ہے، ہم ان غداروں کو معاف نہیں کریں گے۔پھر وہ شیخ مُجیب کو بھی گالیاں دینے لگ گئے۔میں بہت پریشان سا ہوگیا کہ اگر جنگ لمبی ہو گئی تو نجانے کب دوبارہ گھروں کا دروازہ دیکھنا نصیب ہو گا۔
کھانے کے بعد کپتان صاحب تو کوئی انگریزی ناول پڑھنے لگ گئے اور میں نے جاکر وائرلیس آپریٹر کو کھانے کیلئے ریلیف دیا۔اسی دوران برگیڈ سے کپتان صاحب کیلئے وائرلیس آیا۔ اُنہوں نے بی ۔ایم سے انگریزی میں بات کی۔ میرا خیال ہے کہ 6 تاریخ والے حملے کے حوالے سے کوئی احکامات تھے۔
آج رات دیر تک جنگی جہازوں کی گرج اور دور سے”Ack-Ack” توپوں کی آوازیں آتی رہیں۔پٹرول پارٹی بتا رہی تھی کہ قریب کے کسی گاوں پر بھارتی مگ طیاروں نے بم گرائے ہیں اور کافی سارے دیہاتی مر گئے ہیں۔ پُنّوں آج میرے پاس آکر سویا۔مُجھے بڑے فخر سے بتا رہا تھا کہ آج اُس نے غسل خانے کے پاس ایک سانپ مارا ہے۔یہاں سانپ بہت ذیادہ ہیں۔ رات کو پُنوں کی ڈیوٹی بھی تھی۔
(لانگ کورس:افسر بننے کیلئے لازم تعلیمی قابلیت۔ریلیف:آرام،چھُٹی۔ Ack-Ack :طیارہ شکن)