آج صبح ٹی وی دیکھتے ہوئے اچانک میں چونک اٹھی، کیونکہ نیوز اینکر 16 دسمبر کو پیش آنے والے پشاور کے اسکول میں دہشت گردوں کے حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں کے حوالے سے بات کر رہی تھی۔ ارے! سولہ دسمبر کیوں؟ یہ تو 18 دسمبر تھا۔۔۔ مجھے تو یہی یاد ہے کہ یہ 18 دسمبر ہی تھا، کیا ہوگیا ہے ان نیوز والوں کو، مجھے تو بس غصہ ہی آگیا نا۔ کتنی بے حس ہے یہ نیوز ٹیم ، میرے اندر جوش کا ابال اُٹھا۔ ان کو تو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے یہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین حاشیہ، یہ حاشیہ جو شہیدوں کے خون سے سرخ ہوا اور پھر اب یہ سرخی سیاہی بن کر ہم سب کے دلوں پر اپنے ان مٹ نقوش چھوڑ گئی ہے۔ اففف! کیسے بھولا جا سکتا ہے، کیا ماؤں کا یہ نوحہ کوئی بھول سکتا ہے، میں غصے سے بڑبڑاتی اٹھی، ابھی گوگل کرتی ہوں درست تاریخ، میں کیسے اس دن کو بھول سکتی ہوں۔۔۔۔ آخر میں بھی تو ایک ‘ماں ’ ہوں۔
گوگل سرچ انجن پر سانحہ پشاور کے الفاظ لکھتے ہی کھلنے والی تمام ویب سائٹس پر سولہ دسمبر2014ء ہی لکھا تھا۔ میرا سارا غصے کا ابال نہ صرف جھاگ کی طرح بیٹھ گیا بلکہ میں شرمندگی سے نظر بھی نہ اٹھا پا رہی تھی۔ ایک تاسف کی لہر بےاختیار ہی دل سے اٹھی تھی۔ ” کیا یہ دن بھولنے کے لائق ہے؟” کیسے بھول گیا مجھے اتنا اہم دن۔ اب میں خود کو اس شرمندگی کے گرداب سے نکالنے کے لیے تاویلیں ڈھونڈنے لگی۔ سوشل میڈیا سے بھی تو اتنے روز سے دور ہوں، ہوسکتا ہے کسی نے اپنی پروفائل تصویر تبدیل کی ہو، کسی نے ان ماؤں کا نوحہ لکھا ہو، کسی نے حکومت سے ان ظالم سفاکوں کا وجود مٹانے کا مطالبہ کیا ہو، کسی نے دہشت گردوں ، را، داعش، کالعدم تنظیموں، طالبان کو بددعائیں ملامتیں ہی دی ہوں گی، کسی نے ان معصوم بے گناہوں کی “مغفرت” کی دعاہی مانگ لی ہوگی، ارے میں سوشل میڈیا پر ہوتی تو کم از کم باخبر ہی رہتی۔ لیکن، کیا ایسے دکھوں پر باخبر رہنا ہی کافی ہوتا ہے؟ یا یہ دکھ تو وجود میں گڑ کر ہر سانس کے ساتھ اپنی چبھن کا احساس دیتے ہیں۔ کیا مجھے اور ہم سب کو یہ غم بھولنا چاہیے تھا؟
اوہو! کتنا کم وقت رہ گیا ہے، آج ہی تو 16 دسمبر ہے، مجھے تو پشاور سانحے کے حوالے سے بلاگ بھی لکھنا تھا، پہلے سے یاد ہوتا تو تھوڑا زور دار، اور جذباتی سا بلاگ لکھتی، آخر کو ہمارے معصوم بچوں کو شہید کیا گیا، ان کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی، (اب میں اپنی لاپرواہی کی شرمندگی بھول چلی تھی)، ارکان حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لینا چاہیے تھا، بلاگ تو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ ارباب اختیار کے دل دہل جائیں (حالانکہ ان کے دل تو شاید اس سانحے پر بھی نہ دہلے تھے)۔ اب یہ گھڑی کے گھڑی لکھا بلاگ کیا اثر دکھائے گا۔ عجیب گومگو میں ہوں، اگلے سال لکھ دوں گی کچھ اچھا سا پہلے سے تیاری کر کے رکھوں گی، اگلے سال تک (میرے منہ میں خاک) کون سا حالات بدل جانے ہیں، کون سا دہشت گردی مٹ جانی ہے یا ایسے سانحات کی ڈور ہلانے والے مرکزی کرداروں کو سزا مل جانی ہے۔ رہ گیا قلم چمکانا، تو الحمداللہ اس کے لیے مواد کی کیا کمی، روزانہ کی بنیادوں پر تو سانحات ہوتے ہی رہتے ہیں آٹھ دس بندے مر جانا تو کوئی خبر ہی نہیں ہےجی۔
چلو کرتی ہوں کوشش، تسلسل ٹوٹنا نہیں چاہیے، گذشتہ دو سال سے اس سانحے کے حق میں اور مجرمان کے خلاف لکھ رہی ہوں اور آئندہ بھی لکھنا ہے تو ‘حق اور سچ’ کی آواز کو روکنا درست نہیں۔ اور ویسے بھی اس سال نہ لکھا تو یہی لگے گا کہ دسمبر میں شادیاں اور دیگر تقاریب کی مصروفیت میں گم رہی ہوں۔ حالانکہ میرے دل میں جو ان معصوموں کے لیے درد ہے وہ کیا اور کسی کے دل میں ہوگا، آخر کو میں اور پوری قوم ان خاندانوں کے دکھ میں ‘برابر کے شریک ’ ہیں نا!۔ اب پورا سال تو ہنگام دنیا، دارزی کار جہاں اور وسعت غم جہاں سب کچھ بھلائے دیتی ہے۔ دیکھو نابھلا ! مجھے بھی اس سانحے کی تاریخ تک بھلا دی(خود کو ایک اور تسلی جو شاید اب پوری قوم خود کو دے رہی ہے)۔ لیکن شہیدوں کا ‘قرض’ تو چکانا ہی ہے۔
بلاگ کے لیے مواد بھی تو چاہیے ہو گا، کیا کروں۔۔۔ کیا کروں!
چلو سوشل میڈیا دیکھتی ہوں ، پر یہاں تو #RIPJunaidJamshaid کا ہیش ٹیگ مقبول ہے۔ بے شک یہ بھی ایک بڑا سانحہ ہے، چلو غنیمت ہے کہ چند ایک لوگوں نے شہید پھولوں کی ایک آدھ مسکراتی تصویر بھی لگا دی ہے، اور زیادہ تر جنید بھائی کی تصاویر ہیں۔ پتا نہیں کب ہماری قوم کری ایٹو ہوگی، ارے بھائی کولاج بنا لیتے مختلف سانحات کاتو کیا چلا جاتا! اب کوئی ایک سانحہ تو ہے نہیں یہاں پر۔ خیر حیرت ضرور ہے کہ کوئی نئی، چونکاتی ہوئی لائن نہیں مل سکی، سب وہی پرانے گھسے پٹے مضامین، جذباتی بے معنی باتیں، چھوٹے جنازے بھاری جنازے (کیا واقعی ایسا ہی تھا؟) سیاہ تصاویر، معصوم پھولوں کی زندگی بھری چند تصاویر ، کہیں یاد میں شمعیں جل رہی ہیں تو کہیں تقاریب، کہیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے تو کہیں وزیر داخلہ دشمن کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے تصویر کھنچوا رہے ہیں (سانحہ کوئٹہ پر سپریم کورٹ انکوائری کمیشن کی رپورٹ)، کہیں دشمن کو للکار ہے کہ برا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے، دشمن ڈرتا ہی تو نہیں، ہمارے ایئرپورٹس، اسکولوں، پارکس، مساجد میں دندناتا گھسا چلا آتا ہے۔ وہ تو بس سنیماؤں سے نائٹ کلبوں سے ایوان اختیار کے شبستانوں سے ڈرتا ہے ، وہیں جانے سے اس کے پاؤں جلتے ہیں۔ دشمن کے لیے کافر صرف مساجد اور اسکولوں میں پلتے ہیں۔ ہاں وہ ان بچوں کے ایک ‘طاقت’ بن جانے سے ڈرتاہے۔ واقعی بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے۔
چلو سوشل میڈیا دیکھتی ہوں ، پر یہاں تو #RIPJunaidJamshaid کا ہیش ٹیگ مقبول ہے۔ بے شک یہ بھی ایک بڑا سانحہ ہے، چلو غنیمت ہے کہ چند ایک لوگوں نے شہید پھولوں کی ایک آدھ مسکراتی تصویر بھی لگا دی ہے، اور زیادہ تر جنید بھائی کی تصاویر ہیں۔ پتا نہیں کب ہماری قوم کری ایٹو ہوگی، ارے بھائی کولاج بنا لیتے مختلف سانحات کاتو کیا چلا جاتا! اب کوئی ایک سانحہ تو ہے نہیں یہاں پر۔ خیر حیرت ضرور ہے کہ کوئی نئی، چونکاتی ہوئی لائن نہیں مل سکی، سب وہی پرانے گھسے پٹے مضامین، جذباتی بے معنی باتیں، چھوٹے جنازے بھاری جنازے (کیا واقعی ایسا ہی تھا؟) سیاہ تصاویر، معصوم پھولوں کی زندگی بھری چند تصاویر ، کہیں یاد میں شمعیں جل رہی ہیں تو کہیں تقاریب، کہیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے تو کہیں وزیر داخلہ دشمن کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے تصویر کھنچوا رہے ہیں (سانحہ کوئٹہ پر سپریم کورٹ انکوائری کمیشن کی رپورٹ)، کہیں دشمن کو للکار ہے کہ برا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے، دشمن ڈرتا ہی تو نہیں، ہمارے ایئرپورٹس، اسکولوں، پارکس، مساجد میں دندناتا گھسا چلا آتا ہے۔ وہ تو بس سنیماؤں سے نائٹ کلبوں سے ایوان اختیار کے شبستانوں سے ڈرتا ہے ، وہیں جانے سے اس کے پاؤں جلتے ہیں۔ دشمن کے لیے کافر صرف مساجد اور اسکولوں میں پلتے ہیں۔ ہاں وہ ان بچوں کے ایک ‘طاقت’ بن جانے سے ڈرتاہے۔ واقعی بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے۔
Image: Osama Shahid