جو امریکہ نہیں کر سکا، روس کر سکے گا؟ BBC کے سفارتی و دفاعی امور کے مدیر مارک اربن(Mark Urban) نے یہ سوال ایک تحریر میں اُٹھایا ہے۔ اور اس سوال کے پیچھے چھپے خدشات ان کی تحریر سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ اربن اپنی تحریر میں، جو 29اکتوبر کو شائع ہوئی ایک جگہ یہ مانتے بھی ہیں کہ روس کی کارrوائیاں امریکی کاروائیوں سے کئی گنا بہتر اثر انداز ہو رہی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ان کارروائیوں سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ اس تحریر میں عجلت اور غیر ذمہ دارانہ پن دیکھا جا سکتا ہے۔ تحریر کا مقصد روس کی مخالفت کرنا تو ہے ہی لیکن ایک طرح سے یہ روس کی کارروائیوں سے شدت پسندوں کو پہنچنے والے نقصانات کا اثر کم کر کے پیش کرنے کی کوشش بھی ہے۔
افغان مجاہدین کی حمایت، عراق اور افغانستان میں مدخلت سمیت ہر موقع پر امریکی خارجہ حکمت عملی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلاء کو دہشت گرد تنظیموں نے پُر کیا ہے، شام میں امریکی یا روسی مداخلت مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مسئلے کو مزید پیچیدہ بنانے کی وجہ ہے۔
شام حقیقی معنوں میں اس وقت عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس میں فائدہ امریکہ کا ہو گا یا روس کا لیکن اس بات میں ہرگز دو رائے نہیں کہ نقصان صرف اور صرف شام کا ہو رہا ہے۔ 14اکتوبر کو نیویارک ٹائمز کی ویب سائٹ پرایک نسبتاً غیر جانبدار رپورٹ شائع ہوئی، جو اگلے روز اخبار میں بھی شائع ہوئی۔ یہ رپورٹ سٹیو ن لی میئرز(Steven Lee Myers) اور ایرک شمٹ(Eric Schmidt) نے لکھی۔ اس رپورٹ میں ایک طرف یہ تاثر دیا گیا ہے کہ شام میں روس اپنے جمع کیے گیے اسلحے کو تجربانی بنیادوں پر استعمال کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کا اقرار بھی کیا گیا ہے کہ روس شدت پسند عناصر کے خلاف جتنے حملے ایک دن میں کر رہا ہے اتنے امریکہ اور اس کے اتحادی ایک مہینے میں بھی نہیں کر پا رہے۔ اس کی وجوہ بھی واضح ہیں۔ امریکہ اور اتحادی بیشتر حملے خلیجی ممالک کے
تعاون سے کر رہے ہیں۔ جہاں سے پرواز کر کے لڑاکا جہاز زیادہ سے زیادہ دن میں دو سے تین حملے ہی کر سکتے ہیں ۔ جب کہ روس نے اپنی کارروائیوں کا مرکزشام میں ہی شمال مغرب کی طرف لتاکیا(Latakia) کے ہوائی اڈے کو بنایا ہوا ہے۔ لتاکیا شام کا ایک اہم ساحلی شہر اور پانچواں بڑا شہر بھی ہے۔ اس کے علاوہ روس کی جانب سے کارروائیاں اس لیے بھی موثر ثابت ہو رہی ہیں کیوں کہ زمینی افواج کی مدد بھی انہیں حاصل رہتی ہے۔ یہ زمینی افواج شام کی سرکاری افواج ہیں جنہیں بشار الاسد کی حامی افواج سمجھا جاتا ہے۔ 35 سے زائد روسی جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر، اور دیگر اسلحے کے علاوہ روس کی تیاریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس آپریشن میں روس کی طرف سے فوجیوں کے لیے ہنگامی طور پر فوری تیار ہونے والے گھر بھی شامل ہیں جو کم و بیش 2000 فوجیوں کی ضروریات کے لیے کافی ہیں۔ یہ تمام جنگی سازوسامان 1970 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے جب سوویت یونین نے مصر میں بھیجا تھا۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں اس حقیقت کو مانا گیا ہے کہ امریکی اتحادیوں کے مقابلے میں روس 30 ستمبر کے بعد سے ایک دن میں 90 حملے تک کر چکا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں شام کو روس کے لیے ایک تجربہ گاہ تو قرار دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی روسی کارروائیوں کی افادیت بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں تسلیم کی گئی ہے جسے روس کی کامیابی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اسی کامیابی کا اثر ہے کہ اب امریکہ نے بھی زمینی کارروائی کا عندیہ دے دیا ہے۔
اس لڑائی میں روس کے زیادہ مفادات اس لیے وابستہ ہیں کہ دہشت پسند عناصر براہ راست روس پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں جب کہ امریکی سرزمین تک ان کا پہنچنا نہایت مشکل ہے اس لیے روس نہ صرف شام بلکہ اپنی سر زمین کا تحفظ بھی کر رہا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی ایک شامی مصنفہ مارام سسلی(Maram Susli)نے ایک آرٹیکل لکھا جو 20 اکتوبر کوNew Eastern Outlook نامی آن لائن میگزین پر شائع ہوا۔ یاد رہے کہ مارام شام میں غیر ملکی جارحیت کے خلاف لکھنے کی وجہ سے Syrian Girl کے نام سے مشہور ہے۔ مصنفہ نے لکھا کہ شام میں امریکی کارروائیاں دہشت پسند عناصر کا قلع قمع کرنے کے بجائے صرف چہرے تبدیل کرنے کے لیے ہیں۔ امریکی کارروائیوں کا مقصد شدت پسندوں کے خاتمے کی بجائے بشار الاسد کو ہٹانا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی کارروائیوں کا اہم مقصد اس خطے میں روسی اثر و رسوخ کم کرنا ہے۔ اسی لیے روس کی کارروائیوں پہ امریکہ سیخ پا ہے کیوں کہ اس خطے میں روس کے بڑھتے ہوئے اثر سے امریکی و اسرئیلی مفادات پہ کاری ضرب لگنے کا خدشہ ہے۔ امریکہ یہاں اسی انداز میں روس کا عمل دخل کم کرنا چاہتا ہے جیسے سربیا اور کوسووو میں کر چکا ہے۔ مارام کی رپورٹ میں DIA کے سابق چیف Micheal Flynn کے بیان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ امریکہ نے جان بوجھ کر داعش کو شام میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا تاکہ اسے شامی حکومت کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ امریکی واویلا اس لیے بھی اہم ہے کہ روسی کارروائیوں کا نشانہ کم و بیش وہ 10000 باغی بھی بن رہے ہیں جو امریکی تربیت یافتہ بھی ہیں جن کا حوالہ اس رپورٹ میں موجود ہے۔ مزید لکھتی ہیں کہ اس لڑائی میں روس کے زیادہ مفادات اس لیے وابستہ ہیں کہ دہشت پسند عناصر براہ راست روس پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں جب کہ امریکی سرزمین تک ان کا پہنچنا نہایت مشکل ہے اس لیے روس نہ صرف شام بلکہ اپنی سر زمین کا تحفظ بھی کر رہا ہے۔ ماضی میں جس (گمراہ کن) منطق کے تحت امریکہ افغانستان اور عراق پر اپنے ‘تحفظ’ کے لیے حملہ کر چکا ہے، اسی کے تحت روسی کرتا دھرتا بھی شام کا ساتھ دے رہے ہیں۔ امریکہ کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ شدت پسندوں کو شام و عراق تک محدود رکھا جائے تا کہ وہ امریکی سر زمین کا سوچ ہی نہ سکیں۔ لیکن روس اس لیے ان کامکمل قلع قمع کرنے میں ہی دلچسپی رکھتا ہے کیوں کہ وہ براہ راست اس کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ روس اپنی تمام کارروائیوں کی منظر کشی Russia Today نامی فورم پر کر رہا ہے جسے ٹیکنالوجی کی دنیا میںRT کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب کہ امریکی کارروائیوں کے بارے میں شاذ و نادر ہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ امریکہ کی جانبداری پہ اس لیے بھی سوال اٹھ رہا ہے کیوں کہ امریکہ صرف بشار الاسد کو ہٹانے کے لیے ایسے عناصر کی بھی مدد کر رہا ہے جو شدت پسندی پھیلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ Aleppo میں موجود ایرانی فوجی بھی نیٹو اتحادیوں کے لیے اور امریکہ کے لیے بھی درد سر بنے ہوئے ہیں۔
بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے بہت سے بہتر طریقے ہو سکتے ہیں۔ اگربشارالاسد کے طرز حکمرانی سے شامی عوام کی اکثریت تنگ ہے اور تبدیلی چاہتی ہے یا بشارالاسد کی حکومت کسی طرح عالمی امن کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے تو عالمی برادری کو شامی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ اقتدار سے پر امن طریقے سے علیحدہ ہو جائے، حکومت کی تبدیلی کا حق شامی عوام کو دیا جانا چاہیئے۔ اس عمل کی نگرانی اقوام متحدہ کے ذریعے کی جانی چاہیئے۔ اس تنازعے کا خاتمہ پوری عالمی برادری کی زیر نگرانی منصفانہ انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔ جن میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بشار الاسد کسی بھی طرح سے اثر انداز نہ ہو سکے اور لوگوں کو فیصلہ کرنے کی آزادی ہو۔ شدت پسند عناصر یا باغیوں کو مسلح کرنا کسی بھی طرح اس مسئلے کا حل نہیں۔ افغان مجاہدین کی حمایت، عراق اور افغانستان میں مدخلت سمیت ہر موقع پر امریکی خارجہ حکمت عملی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلاء کو دہشت گرد تنظیموں نے پُر کیا ہے، شام میں امریکی یا روسی مداخلت مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مسئلے کو مزید پیچیدہ بنانے کی وجہ ہے۔