Laaltain

رات کے یتیم بچے

23 دسمبر، 2014
گھڑی کی ہچکیوں میں
ایک انتھک گھنٹہ
ایڑھیاں رگڑھتا
اپنے تعاقب میں
مگن
 
میں ایسے ہی پی گیا
رات کا آخری پہر
سڑک کنارے بھتّنی خاموشی کا رقص
اشارہ توڑ کر نکلتی گاڑی کی بےحسی
اور شہری درختوں کی بوڑھی تنہائی کا آسیب
رات کا آخری پہر
میں ایسے ہی پی گیا
جیسے کوئی اکیلا بیٹھا خدا کو دیکھے
 
پیدائش چیختی رہ گئی
پھول کی پتی میں چمن بچھڑ گیا
سانسیں اپنے وعدوں سے مکریں
دل روہانسا یوں بھاگا
جیسے کوئی دل ٹوٹا بچہ
جیسے کسی معذور پرندے کے پروں سے
روتی دھوتی امیدیں
 
ہم زندہ ہیں
یہ بات بھلانی پڑے گی
رات بہت لمبی ہے
دنوں کے سینوں پر محیط
جیسے دماغ پر سوار پاگل پن
یہ رات مٹانی پڑے گی
 
ٹھنڈے گھروں میں
ہوا روک دی جاتی ہے
خیال کے آنگن میں اگتا
ایک سمندری گہرائی کا مفروضہ
چپ چاپ بیٹھا ہے
کاہل دھوپ میں جیسے
پتھر پڑے رہتے ہیں
 
میرا بدن خواب کا ہے
میری آنکھوں پر جن کا سایہ ہے
اور یہ دل کا پرزہ
کب سے اٹک اٹک کر چل رہا ہے
کوئی نہیں جانتا کے ہم
کس تخلیق شدہ بے خیالی میں
جی رہے ہیں
سب کچھ بھولنا پڑے گا
خود کو مٹانے کے بعد
 
تب ہی اس کاغذی دیوانے میں
بوسیدہ پاگل پن کی سفیدی کا الہڑ بادل
دل کھول کر برسے گا
جیسے بارش کی بغاوت
جیسے رات کی سردی میں
چھوٹ جاۓ سوچ کی تاریں
جیسے کوئی ریشمی کپڑا
گر جاۓ الگنی سے

One Response

  1. ہم زندہ ہیں
    یہ بات بھلانی پڑے گی
    رات بہت لمبی ہے
    دنوں کے سینوں پر محیط
    جیسے دماغ پر سوار پاگل پن
    یہ رات مٹانی پڑے گی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. ہم زندہ ہیں
    یہ بات بھلانی پڑے گی
    رات بہت لمبی ہے
    دنوں کے سینوں پر محیط
    جیسے دماغ پر سوار پاگل پن
    یہ رات مٹانی پڑے گی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *