Laaltain

ذمہ دار کون؟

25 دسمبر، 2015
youth-yellہمارا سماج کس قدر سطحی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے، کوئی سانحہ پیش آتا ہے یا پھر کوئی آفت ہم پر آن پڑتی ہے تو ہم بغیر مکمل معلومات کے، بغیر تحقیق کے اس کے متعلق کوئی نہ کوئی ذاتی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہماری رائے یا تو جذبات پر مبنی ہوتی ہے یا پھر اس بات پر کہ اس سے ہمارے ذاتی مفاداتات پر کیا مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

 

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سول ہسپتال کراچی کے باہر ایک 10 ماہ کی معصوم بچی بسمہ ترمزی نے اپنے والد کی بانہوں میں دم توڑ دیا۔ اس سانحے کے وقت پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو بھی سول ہسپتال کراچی میں شہید بینظیر بھٹو ٹرامہ سینٹر کی افتتاحی تقریب میں موجود تھے۔ اس واقعہ کے کچھ ہی دیر بعد الیکٹرانک میڈیا نے بلاول بھٹو کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور دلیل یہ دی کہ بلاول بھٹوکے وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی، ٹی وی چینلز کے مطابق بلاول کی سیکیورٹی کی وجہ سے ہسپتال کے شعبہ ہنگامی طبی امداد (ایمرجنسی) کے تمام دروازے بند کردیئے گئے تھے جس کے باعث بسمہ کے والد اسے بر وقت ہسپتال نہ پہنچا سکے۔

 

سول ہسپتال کے میڈیکل سپرٹینڈینٹ ڈاکٹر سعید احمد قریشی کے مطابق ہسپتال کے تمام دروازے کھلے ہوئے تھے اور جس دروازے سے فیصل ہسپتال کے اندر آنے کی کوشش کر رہے تھے وہ ٹرامہ سینٹر کا دروازہ تھا
واقعہ کے بعد بسمہ کے والد فیصل نے وہاں موجود میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ وہ کچھ دیر تک ایمرجینسی ڈپارٹمینٹ کے دروازے پر سیکیورٹی اہلکار سے بحث کرتے رہے لیکن انہیں اندر جانے نہ دیا گیا اور پھر وہ دوسرے دروازے سے ایمرجینسی ڈپارٹمینٹ میں پہنچے جہاں ڈاکٹرنے ان سے کہا کہ اگر وہ بسمہ کو 15 منٹ پہلے لاتے تو شاید ان کی بچی بچ سکتی تھی۔

 

اب اگر ہم اس واقعہ کی گہرائی تک جائیں توشاید ہمیں پتہ چل جائے گا کہ بسمہ کی موت کا ذمہ دار کون ہے!
ہسپتال کے ڈاکٹر نے میڈیا کو بتایا کہ بسمہ کو Measles تھی جسے خسرا یا ماتا بھی کہتے ہیں۔ ماتا ایک جان لیوا وائرل انفیکشن ہے جو بچوں میں بہت عام ہے۔ سال 2014 میں اس انفیکشن کی وجہ سے مرنے والے بچوں کی تعداد 114900 تھی۔ اس انفیکشن کا کوئی بھی علاج موجود نہیں اور مریض کو معاون علاج پر ہی رکھا جاتا ہے جیسے مکمل غذا، پانی اور وائٹامن ای۔ اس انفیکشن سے بچنے کے لیے مورس ہل نے ایک ٹیکہ تیار کیا تھا جو 1963 سے استعمال کیا جا رہا ہے جسے اب MMR کہا جاتا ہے۔ یہ ٹیکہ %93 تک موثر ہے۔ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بسمہ وہ بدنصیب تھی جسے MMR کا ٹیکہ نہیں لگوایا گیا تھا۔ اس لاپرواہی اور نااہلی کا ذمہ دار کون ہے؟ بسمہ کےوالدین؟ وزارت صحت؟ یا پھر کوئی اور؟

 

سول ہسپتال کے میڈیکل سپرٹینڈینٹ ڈاکٹر سعید احمد قریشی کے مطابق ہسپتال کے تمام دروازے کھلے ہوئے تھے اور جس دروازے سے فیصل ہسپتال کے اندر آنے کی کوشش کر رہے تھے وہ ٹرامہ سینٹر کا دروازہ تھا! اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس علاقے کی ٹریفک بلاول کے آنے کی وجہ سے جام نہیں تھی بلکہ وہاں عام دنوں میں بھی ایسے ہی جام رہتی ہے جس کا سبب انہوں نے وہاں پر کیے گئے غیرقانونی قبضوں کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کئی بار کراچی میونسپل کمیٹی کو ان تجاوزات کے متعلق شکایات درج کرا چکے ہیں لیکن ان کی طرف سے آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

 

ہمیں بھی شاید اب ایسے آئینے کی ضرورت ہے جو ہمیں دکھا سکے کہ بسمہ اور بسمہ جیسی کئی معصوم بچیوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے
یہ سن کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میونسپل کمیٹی بھی کہیں نہ کہیں بسمہ کی موت کی ذمہ دار ہے!
اب آتے ہیں بلاول بھٹو کے وی آئی پی پروٹوکول کی طرف۔ ایک طرف یوراگوئے کے صدر جوزے موجیکا تھے جو دنیا بھر میں اپنی سادگی اور انسان دوستی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں تو دوسری طرف ہمارے ملک کے زیادہ تر رہنما ہیں جو ملک کی دولت کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں اور قدیم ہندوستانی کے راجوں مہاراجوں کی طرح ٹھاٹھ سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایک طرف جوزے مجیکا تھے جو اپنی ماہانہ تنخواہ کا % 90 غریبوں کو خیرات کر دیتے تھے اور دوسری طرف ہمارے رہنما ہیں جو عوام کا حق بھی غصب کیے ہوئے ہیں۔

 

مجھے ایک کہانی یاد آ رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد ہمیں معلوم ہو جائے کہ ہماری اس تنزلی اور بدلحالی کا ذمہ دار کون ہے اور کون ہے جس کی وجہ سے ہر روز نجانے کتنی ہی بسمہ کبھی ہسپتال میں تو کبھی عدالت مین دم توڑ دیتی ہیں!

 

ایک اسٹیل کے کارخانے میں بہت سارے مزدور کام کرتے تھے۔ ایک دن کارخانے کے مالک نے اعلان کیا کہ اس شخص کی موت ہو گئی ہے جو مزدوروں کو کبھی آگے بڑھنے نہیں دیتا تھا اور اگر وہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ شخص کون تھا تو وہ سب میٹنگ ہال میں جمع ہو جائیں جہاں پر اس شخص کی لاش تابوت میں رکھی ہے۔ جہاں تابوت رکھا تھا اس کمرے کے دو دروازے تھے۔ ایک طرف آنے کا اور دوسری طرف جانے کا۔ مزدور ایک ایک کرکے آتے گئے اور تابوت کھول کر دیکھتے اور سہم جاتے۔ اس تابوت میں کسی شخص کی لاش نہیں تھی بلکہ ایک آئینہ تھا جس میں انہیں وہ شخص بالکل صاف نظر آیا جو ان کی خستگی کا ذمہ دار تھا۔

 

بات صرف بسمہ کی نہیں ہے بسمہ بچاری تو اس دن ہی مر گئی تھی جب اس کے والد نے اسے وقت پر ٹیکہ نہیں لگوایا تھا، بات اس عوام کی ہے جس کی ہر ایک سانس شکستہ ہے۔ ہمیں بھی شاید اب ایسے آئینے کی ضرورت ہے جو ہمیں دکھا سکے کہ بسمہ اور بسمہ جیسی کئی معصوم بچیوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *