Laaltain

دکھ گوتم سے بڑا ہے

13 مئی، 2017
دکھ گوتم سے بڑا ہے
دکھ برگد سے گھنا ہے
دھیان کی اوجھل تا میں
گوتم کو عمر بھر پتا نہ چلا
کہ دکھ کا انکھوا عورت کی کوکھ سے پھوٹتا ہے
وہ عورت ہی تھی
جس نے اسے جنم دے کر موت کو گلے لگا لیا
اور وہ بھی
جسے وہ بستر میں سوتا چھوڑ آیا تھا
عورت تھی
اور حالتِ مرگ میں اسے
دودھ اور چاول کی بھینٹ دینے والی بھی ایک عورت تھی
وہ، کپل وستو کا شہزادہ
دو پہیوں پر چلتی بیل گاڑی
اور گاڑی وان کو دکھ سمجھتا رہا
اور بڑھاپے، بیماری اور موت پر
قابو پانے کی کوشش کرتا رہا
لیکن اتنا نہ جان سکا
کہ گیان دھیان انچاس دنوں کا نہیں
ساری عمر پر محیط ہوتا ہے
اور عرفان و آگہی کا دریا
حقیقی زندگی کے کناروں سے پھوٹتا ہے

گوتم نے غزہ نہیں دیکھا
وہ عراق، افغانستان اور شام نہیں گیا
اُس نے تو کراچی اور کوئٹہ بھی نہیں دیکھے
بوری بند لاشیں
اور خود کش دھماکوں میں اُڑتے ہوئے
انسانی اعضا نہیں دیکھے
بحرِ متوسط کے ساحل پر اوندھے پڑے ہوئے ایلان کردی
اور دریائے ناف کے کنارے
کیچڑ میں لت پت شو حیات کو نہیں دیکھا
افریقہ میں دودھ سے عاری ڈھلکی ہوئی سیاہ رنگ چھاتیاں
اور مرتے ہوئے آبنوسی ڈھانچے نہیں دیکھے
گوتم نے عظیم جنگیں
اور آبدوزوں میں مرنے والوں کی آبی قبریں نہیں دیکھیں

گوتم نے مارکسی ادب نہیں پڑھا
وہ پانچ اور سات ستارہ ہوٹلوں کا دربان بھی نہیں رہا
ورنہ نروان کے لیے کبھی فاقے نہ کرتا
آج گوتم اگر زندہ ہوتا
تو دکھ کا انتم سرا کھوجتے ہوئے
واڈکا پی کر
کسی غیر ملکی محبوبہ کے نیم برہنہ پہلو میں
شانتی کی نیند سو رہا ہوتا !!

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *