Laaltain

دس برسوں کی دلی ۔ قسط نمبر 12

2 جنوری، 2017

[blockquote style=”3″]

تصنیف حیدر شاعر ہیں اور شاعر بھی وہ جو غزل میں تجربات اور جدت طرازی سے خوف زدہ نہیں۔ دوردرشن اور ریختہ سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل انٹرنیٹ پر اردو ادب کی سہل اور مفت دستیابی کے لیے ادبی دنیا کے نام سے اپنی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ ان کی آپ بیتی “دس برسوں کی دلی” ان کے دلی میں گزرے دس برس پر محیط ہے جس کی بعض اقساط ادبی دنیا پر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس آپ بیتی کو اب مکمل صورت میں لالٹین پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

[/blockquote]

دس برسوں کی دلی کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

جب کبھی سردیوں کی اس تنگ و تاریک دنیا کو دیکھتا ہوں، جو شام ہوتے ہی معدے میں بچی کھرچن بھی صاف کرکے ایسی بھوک جگاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کسی ننھے پیروں والے جانور نے اپنی زبان سے سارا پیندا چاٹ ڈالا ہے تو مجھے آج سے قریب نو سال پہلے کی ایک شام یاد آتی ہے۔ میں ان دنوں ماتھر سٹوڈیو جایا کرتا تھا۔ دوردرشن کا کام زوروں پر تھا اور ایک کشمیری پروڈیوسر نے جس کا نام عرفان تھا۔ مجھے پھانس لیا تھا۔ پھانس لینے کا محاورہ میں نے دونوں معنی میں استعمال کیا ہے، یعنی کہ اس نے جتنا کام کرایا اس کی آدھی اجرت بھی نہ دی، جبکہ اس کے قریب چھ سات پروگراموں کے دو سو ڈھائی سو ایپی سوڈ میں نے لکھے تھے۔ دوردرشن اردو کا ایک بڑا عہدے دار کشمیری تھا اور عرفان اور اس کے بھائی کے اس سے مراسم تھے، یہیں دلی کے گریٹر کیلاش میں وہ رہا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اپنے گھر بھی لے گیا تھا۔اس نے ماتھر سٹوڈیو کو ان دنوں اپنا اڈا بنا رکھا تھا، آئی آئی ٹی روڈ پر واقع یہ سٹوڈیو بہت سے پروڈیو سر کرایے پر لیا کرتے تھے۔اسے میرا پتا ایک اینکر نے دیا تھا، جس کا نام حنا موج تھا اور اس کے ساتھ میں پہلے بھی ایک پروجیکٹ میں کام کرچکا تھا۔بہرحال عرفان اور اس کے بھائی میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔دونوں چار چھ پائی کا بھی برابر حساب رکھتے تھے، رقم یہاں سے وہاں ہوئی، چھوٹے اور معمولی کریو کے کسی ممبر نے کہیں کچھ زیادہ خرچ کیا تو وہ گریبان پر ہاتھ ڈالنے میں دیر نہ کرتے تھے۔میرے ساتھ حالانکہ اس کا رویہ نہایت شریفانہ رہا، مگر میں اس کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر بہت اوبا کرتا تھا۔ اس کی گالیاں دلچسپ اس لحاظ سے تھیں کہ وہ ماں بہن کی گالیاں نہ دیتا تھا، بلکہ کسی شخص کو برسر شوٹنگ اگر کچھ کہنا ہو، اچانک بگڑ پڑنا ہو تو اس کے کیسے میں کچھ جانوروں کے نام ہوا کرتے تھے۔وہ ایسے خراب لہجے میں یہ نام لیا کرتا کہ سننے والوں کو وہ خطابات کریہہ ترین گالیوں سے بھی زیادہ برے معلوم ہوا کرتے۔اپنی بڑی سی کالی گاڑی میں بیٹھ کر اکثر وہ مجھے کبھی کسی، کبھی کسی سرکاری دفتر لے جایا کرتا، گاڑی میں اکثر کشمیر کے موضوع پر باتیں کیا کرتا تھا۔حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ خود کو دل سے ہندوستانی تسلیم نہیں کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ ہم تو اس ملک میں بس کمانے آیا کرتے ہیں۔مجھے انہی دنوں یہ معلوم ہوا کہ کشمیریوں کو بہت الگ قسم کی مراعات دی جاتی ہیں۔سرکاری رعایتیں الگ، وہ رشوت خوری، کنجوسی اور دوسرے کئی رویوں کے ساتھ سرکاری دفاتر سے رقم اینٹھا کرتے ہیں۔لیکن عجیب بات تھی کہ اس کھلم کھلا اعلان کے باوجود ماتھر سٹوڈیو کا مالک ان دونوں بھائیوں کا بہت اچھا دوست تھا۔ایک دفعہ جب اس نے مجھ سے کسی کشمیری مسئلے پر بات کی، تو میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور واقعی اس وقت تک مجھے کشمیر کے معاملے میں نہ کوئی دلچسپی تھی اور نہ میں اس کی دوغلی باتیں سننا چاہتا تھا۔اس سے مخالفت کا نتیجہ میں جانتا تھا کہ کام سے ہاتھ الگ دھونا پڑے گا اور ہوسکتا ہے کہ کچھ بدتمیزی بھی کرے۔بہرحال، میں نے اس سے دبے لہجے میں سوال کیا کہ جو حکومت آپ کو اس قدر روزگار دے رہی ہے، اس کے خلاف ایسی باتیں آپ کو زیب نہیں دیتیں۔میں نے کہا کہ شاید جتنی آسانی سے آپ نے یہ پروگرام حاصل کیے ہیں، ہر کسی کو نہیں ہواکرتے۔اس کے علاوہ ایک الگ سرکاری چینل جو کہ ڈی ڈی کاشمیر کے نام سے تھا، خود اس کے ذریعے میں دیکھتا تھا کہ بہت سے کشمیری پروڈیوسر، اداکار اور نہ جانے کتنے لوگ پیسہ کمارہے تھے۔اس نے میری بات کا جواب تو نہ دیا مگر اس کے منہ سے جتنی اول فول باتیں میں نے سنیں، اتنی تو گلمرگ نامی سیریل کی شوٹنگ کے دوران ‘جموں ‘ میں بھی نہ سنائی پڑیں۔لیکن اس کا قصہ اتنا اہم نہیں تھا، وہ جلد ہی منظر نامے سے غائب ہو گیا کیونکہ دوردرشن اردو کا کام ہی دھیرے دھیرے ٹھپ پڑتا گیا۔
میں ماتھر سٹوڈیو کا ذکر ایک خاص مقصد سے کر رہا تھا۔ وہاں کوئی ٹیکنیشین تھا، شاید کیمرہ مین یا کوئی اور، اب مجھے یاد نہیں۔ مگر کالا بھجنگ چہرہ، گھنی مونچھیں اور سیاہی مائل لال بھبھوکا آنکھیں۔وہ ہمیشہ غصے میں رہا کرتا تھا یا پتہ نہیں اس کا چہرہ ہی کچھ اس نوعیت کا ہوگیا تھا۔وہ عرفان اور اس کے بھائی سے بہت ناراض رہا کرتا تھا اور اس کی چپقلش خاصی مذہبی و قومی قسم کی تھی۔وہ شاید عرفان کی باتوں سے آشنا تھا، اس کے خیالات سے بھی، مجھے بھی شاید اس نے انہی خیالات کا شخص سمجھ رکھا تھا یا خدا جانے کیا بات تھی کہ سیدھے منہ بات ہی نہ کرتا۔ایک دفعہ شوٹنگ ختم ہوتے ہوتے دو یا ڈھائی بج گئے، اور مجھے ایک دوسرے کام کے سلسلے میں اسی وقت لکشمی نگر جانا تھا، ماتھر سٹوڈیو سے لکشمی نگر کا فاصلہ قریب پندرہ کلو میٹر ہے۔ رات سرد تھی، دسمبر کا زمانہ، سب نکل چکے تھے، عرفان اس دن پہلے ہی کسی کام سے جاچکا تھا،و رنہ وہ اتنا بااخلاق تو تھا ہی کہ مجھے کسی آٹو سٹینڈ تک اپنی گاڑی میں چھوڑ دیتا۔میرے لیے دلی شہراس وقت، بہت حد تک اجنبی تھا، چنانچہ میں نے صرف آٹو سٹینڈ کے بارے میں اس شخص سے پوچھنا چاہا تو وہ مجھے گھورتا ہوا نکل گیا۔بہت دیر تک میں گومگو کے عالم میں گیٹ پر کھڑا رہا اور پھر اندھیری گلیوں میں یہ سوچتے ہوئے اتر گیا کہ مین سڑک بہت دور نہیں ہے، اگر کوئی مسئلہ ہوا تو پلٹ آؤں گا۔ یہ الگ بات کہ فراٹے بھرتی ہوئی ہوا نے میری کانوں میں ابلتے ہوئے سیسے کی مانند شور مچایا اورہاتھوں، پیروں کی انگلیوں کے پورے کپو گئے، مگر میں ایک ڈیڑھ گھنٹے میں دوسرے دفتر تک پہنچ گیا۔اس کے دو تین روز کے بعد کا واقعہ ہے، سٹوڈیو میں وہی شخص مجھے شام کو اچانک گھورے چلا جارہا تھا، میں نے اس سے پہلے کبھی اس کو اپنی طرف اتنا متوجہ نہیں دیکھا تھا، پتہ نہیں کیا بات تھی کہ آج وہ مجھ پر سے نظر نہ ہٹاتا تھا، اس کی آنکھوں میں عجیب سی حقارت نظر آتی تھی، ایک سخت گیر قسم کی نفرت اور کراہت۔میں سمجھ ہی نہ پارہا تھا کہ آخر بات کیا ہے۔چائے بسکٹ لے کر جب ایک لڑکا میرے پاس آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ ان صاحب کو کوئی دماغی پروبلم ہے کیا؟ مگر لڑکے نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔مجھے محسوس ہوا کہ شاید میری کوئی ایسی بات اس شخص نے سن لی ہے، جو اسے نہایت ناگوار گزری ہو، کوئی ایسا جملہ، کوئی ایسا لفظ، جو اس کی سماعت پر اس قدرگراں گزرا ہو کہ مجھے کوئی کمینہ فطرت شخص سمجھ رہا ہو۔ بہرحال میں نے اس کی طرف سے دھیان ہٹا کر پھر کام میں لگالیا، کچھ وقت بعد، جب دفتر میں تھوڑا سناٹا چھایا تو وہ میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔اس نے مجھ سے کہا

 

‘تصنیف صاحب! کیسے ہیں؟’ میں نے علیک سلیک کرکے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی، مگر اس نے جھٹ سے کہا۔

 

‘بے نجیرکو ماردیا ایک ٹریرسٹ نے۔’ میں نے تب تک پاکستانی سیاستدانوں میں سب سے زیادہ نام بے نظیر بھٹو کا ہی سنا تھا پھر بھی اس خبر کا میرے دل پر کوئی صدماتی اثر نہیں ہوا تھا۔میں نے کنفرم کرنے کے لیے اس سے پوچھا۔

 

‘بے نظیر بھٹو؟’

 

اس نے کہا ‘ہاں، انہی کو۔کتنی نیک عورت تھیں۔’

 

اس کی باتوں سے احساس ہوتا تھا کہ اسے اس واقعے کا سخت افسوس تھا، وہ بے نظیر بھٹو کی اس اچانک موت اور بھیڑ میں ان پر ایک انجان سمت سے آنے والی گولی کو سخت برا محسوس کررہا تھا۔اس روز اس نے کھل کر باتیں کیں۔’اس نے کہا کہ بھائی! یہ مسلمان اپنے اچھے لوگوں کو ہی کیوں ماررہے ہیں۔’اب جب اس نے مجھ سے بات کی تو مجھے احساس ہوا کہ اس کا لہجہ اس کی شکل سے بالکل مطابقت نہ رکھتا تھا۔بس وہ ایک کم گو شخص تھا، جس سے میں بلا سبب خوف کھاتا آرہا تھا۔میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس میں اسلام وغیرہ کا کوئی دخل نہیں، یہ تو سیاست کی لڑائی ہے۔اور سیاست کی لڑائی تو دنیا بھر میں جاری ہے۔مگر مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ اسے بے نظیر سے اس قدر ہمدردی کیوں تھی، بے نظیر نہ اس کی ہم مذہب تھی، نہ ہم رشتہ، نہ ہم زبان تھی نہ ہم قوم۔ مگر وہ ناراض تھا، اسے ایسے ڈرپوک، بزدلانہ قسم کے حملے پر غصہ تو آیا ہی تھا، ساتھ ہی ساتھ اس نے اس غم کی نکاسی کے لیے ایک مسلمان لڑکے سے گفتگو کرنے کو کیوں ترجیح دی تھی۔شاید وہ سمجھتا تھا کہ وہ مجھے انسانیت کے بارے میں درس دے کر مسلمانوں کو اس قتل و غارت گری کے گورکھ دھندے سے بچا لے جائے گا۔دلی اور اتر پردیش دو ایسی ریاستیں ہیں، جہاں لوگ غم و خوشی دونوں قسم کے ماحول میں اپنے مذہب کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔یہاں تک کہ کسی ایسے حادثے پر بات کرتے وقت بھی مذہب ان کے پیش نظر ہوتا ہے، جن میں اس کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔اس کا ایسا سوچنا شاید غلط نہ تھا کیونکہ نائن الیون کے حادثے کو زیادہ برس نہیں بیتے تھے اور پوری دنیا میں تشدد اور فساد کے تعلق سے مسلمانوں کی بدنامی دن بہ دن بے قابو سیاہی کی طرح پھیلتی جارہی تھی۔میں اس موقع پر نہ اس سے ہمدردی کرپایا نہ اس معاملے پر کوئی خاص روشنی ڈال سکا۔ مگر پھر بھی اس کا افسوس میرے لیے باعث حیرت تھا۔دنیا ادھر کی ادھر ہوگئی، تقسیم نے لوگوں کو بانٹ دیا، دھرم، مذہب کی لکیروں نے نہ جانے کتنا خون بہایا، کتنے لوگوں کو بے قصور پھانسیاں ہوئیں، کتنے ادیب، کتنے شاعر، کتنے فلسفی، کتنے سماجی خدمتگار اس صبح کا انتظار کرتے کرتے مٹی میں جاملے، جس میں لہو کی سرخی نہ ہو، تلوار کی تیزی نہ ہو، چیخ کی کڑواہٹ نہ ہو، درد کی آہٹ نہ ہو۔ بس ایک سکون ہو، جس میں لوگوں کو ناپنے یا تولنے کا عمل ان کے مذاہب و مسالک کی بنیاد پر ختم ہوجائے، مگر ایسا کچھ نہ ہوا، ستر سال کا عرصہ گزر گیا اور نفرت میں سر مو فرق نہ آیا۔ کتنے استقلال اور کتنی شدت سے ہم نے یہ رشتے نبھائے اور ہر تعمیر کے خواب کو تخریب کی دھار میں بہادیا۔پھر بھی کہیں کوئی دل، بے نام و بے ہنگام، ایک دوسرے بند ہوتے ہوئے دل کے لیے روتا ہے، یہ دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا تھا۔آج بھی اس شخص کو یاد کرکے مجھے خوشی ہوتی ہے۔بعد میں نہ میں کبھی اس سے ملا، نہ ملنے کی ضرورت محسوس کی، ہوسکتا ہے وہ آج بھی ماتھر سٹوڈیو میں ہی ہو یا کہیں اور کھو گیاہو، دس سال سو انقلابوں کے لیے کافی ہوتے ہیں اور کبھی کبھی سو سال ایک تبدیلی بھی پیدا نہیں کرپاتے۔پتہ نہیں کیوں، مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ جیسے میں بے نظیر کا قاتل ہوں اور وہ شخص مجھے سمجھا رہا ہے۔یہ اتنی سچی، ایسی دیانتدارانہ نفسیات ہے کہ اسے چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں۔مجھے لگا کہ میرے ہاتھ اس زنگ آلود طمنچے کو تھامے، بھیڑمیں اس مسکراتے ہوئے چہرے کو داغنے کے لیے تیار ہورہے ہوں، جو نعروں کو تتر بتر کردیں گے، لوگوں کو ادھر ادھر کردیں گے۔بس اس کے بعد ایک خاموشی، ایک نیا صدر اور ایک نیا سیاست داں۔میں اسے سمجھانا چاہتا تھا کہ میرا اس ملک کی تقدیر سے کوئی واسطہ نہیں، جس نے خود کو علیحدگی کی منزل پر سات دہائیوں قبل چیختے بلکتے چھوڑ دیا تھا۔مگر آج جب میں دیکھتا ہوں کہ کوئی مسلمان، کوئی سیکولر اپنی سوچ کو نمایاں کرتے ہوئے، اس ملک میں پاکستان جانے کے ایک ان دیکھے مشورے یا دھمکی کو موصول کرتا ہے تو مجھے یکبارگی بے نظیر کے لہو میں ڈوبے ہوئے وہ انجان ہاتھ یاد آجاتے ہیں۔سچ ہے کہ شناخت کے نام کی رکھوالی کرنے والی آوازوں کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔

 

غالب جب دہلی سے کلکتہ گئے اور وہاں کے باشندوں سے دل برداشتہ ہوئے تو اپنی شناخت کو یاد کر کے یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ

 

برگ دنیا نہ ساز دینش بود
ننگ دہلی و سرزمینش بود

 

میں سوچنے لگا کہ دہلی سے اکھڑنے والے پائوں، پاکستان کے مختلف شہروں پر جم گئے ہوں گے تو آخر انہوں نے کیا سوچا ہوگا اور ان روحوں کا ملال کیسا ہوگا، جو واقعی بے نظیر کو اپنا ہیرو مانتی رہی ہونگی اور جنہوں نے اس کی سیاسی زندگی میں بہت سے اتار چڑھائو کے بعد ایک سڈن موت کو بھیڑ کی پالکی پر رقص کرتے دیکھا ہوگا۔ماتھر سٹوڈیو کی بتیاں اس وقت بجھ گئی ہوں گی، میں بھی قلم تھامتا ہوں اور آپ کو دہلی کے دوسرے دروازوں کی طرف لیے چلتا ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *