Laaltain

دس برسوں کی دلی ۔ قسط نمبر 11

24 اکتوبر، 2016

[blockquote style=”3″]

تصنیف حیدر شاعر ہیں اور شاعر بھی وہ جو غزل میں تجربات اور جدت طرازی سے خوف زدہ نہیں۔ دوردرشن اور ریختہ سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل انٹرنیٹ پر اردو ادب کی سہل اور مفت دستیابی کے لیے ادبی دنیا کے نام سے اپنی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ ان کی آپ بیتی “دس برسوں کی دلی” ان کے دلی میں گزرے دس برس پر محیط ہے جس کی بعض اقساط ادبی دنیا پر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس آپ بیتی کو اب مکمل صورت میں لالٹین پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

[/blockquote]

دس برسوں کی دلی کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

دلی ایک شہرہے، اس ٹھکے ہوئے تصور سے بالکل جدا، جس نے اسے آج بھی بہت سے لوگوں کی نظر میں شاہجہاں آباد بنا رکھا ہے۔کہتے ہیں کہ ایک انگریز نے جن کا نام ڈیوک کناٹ تھا، پرانے شہر کی تزئین کچھ اس طرح کی کہ وہ مغل حکمرانوں کے فصیل دہلی میں بھی ممکن نہ تھی، جو کہ مغلوں کے عہد میں نیا شہر کہلاتا تھا۔پرانی دلی اور نئی دلی کے درمیان قدیم و جدید کی ایک بالکل الگ دیوار کھڑی ہوئی ہے۔پرانی دلی آج بھی اپنے طرز، بود و باش، رہن سہن اور اطوار و رویے میں بالکل اتنی ہی شاہانہ، اکھڑ اور لاابالی ہے، جتنی کہ اقتدار کے دور میں رہی ہوگی۔ایک قدامت کی لہر اس شہر پر اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ گولچہ سینما اور اردو بازار سب کچھ مغل عہد کی ہی یادگار معلوم ہوتے ہیں۔غالب نے اپنے خطوط میں لکھا تھا کہ دلی والے اجڑ گئے، اب جو آکر بسے ہیں، وہ دلی کے نہیں ہیں، کوئی کہیں سے آیا، کوئی کہیں سے۔کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑالے کر غدر کے بعد بسائی گئی دہلی میں میرا جانا کم ہوا ہے۔وہاں کے لوگوں میں مہمان نوازی بلا کی ہے، گاہکوں کے تعلق سے یہاں کے دکانداروں کا رویہ نئی دہلی کے لوگوں میں غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔جن چچا کبابی کی داستان آپ اشرف صبوحی کی کتاب’دلی کی چند عجیب ہستیاں’ میں پڑھ چکے ہوں گے، اصولوں کی ایسی ہی بے تکی دکانداریاں آپ کو اس شہر میں دیکھنے کے لیے مل جائیں گی۔نئے زمانے کے اعتبار سے یہاں کسٹمر کیئر کا رجحان نہیں ہے اور اہم اور غیر اہم سبھی قسم کے گاہک ایک ہی طریقے سے ڈیل کیے جاتے ہیں۔

 

پرانی دلی ایک بہت بڑا برگد ہے، جس کے نیچے وقت کا قصہ گو بیٹھا پرانے وقتوں کی داستان سناتا جارہا ہے، مگر وقت تیزی سے بدل رہا ہے
اب میٹرو زمین کا سینہ پھاڑتے ہوئے ان گلیوں تک جاپہنچی ہے، یہاں پرانی طرز کی عمارتوں کے گراؤنڈ فلور زمینوں کی بھرائی کی وجہ سے تہہ خانوں میں تبدیل ہوچلے ہیں، کئی جھر جھر کرتی ہوئی پرانی حویلیاں ہیں، بہت سی توڑ کر نئی طرز کی بلڈنگیں بنائی گئی ہیں، بازو سے بازو چپکائے، رانوں سے رانیں، عمارتوں کی اوبڑ کھابڑ صفیں پرانی دلی کی نئی تہذیب کا اعلامیہ بن گئی ہیں مگر ان میں رہنے والے آج بھی دلی چھ کی پر رونق شاموں کے گواہ ہیں، فیس بک اور ٹوئٹر کے عہد میں فرصت کم ہوگئی ہے، سماجی تعلقات میسنجر اور واٹس ایپ تک چلے آئے ہیں، اس کے باوجود شام کو کسی پنکھا جھلاتے ہوئے سیخ کباب والے کی دوکان پر پڑی چھوٹی سی بینچ، ابھی بھی نوجوانوں کے ٹھلوں، ٹھٹھولیوں اور حقے بازی کا دور گرم رکھتی ہے۔

 

پرانی دلی ایک بہت بڑا برگد ہے، جس کے نیچے وقت کا قصہ گو بیٹھا پرانے وقتوں کی داستان سناتا جارہا ہے، مگر وقت تیزی سے بدل رہا ہے، اس کے چلم نے دھوئیں اور راکھ میں ڈھلتے ڈھلتے، خود کو سارا خرچ کردیا ہے، آنکھیں لال ہیں اور پلکیں بوجھل۔ صبح بھی بہت دور نہیں، مگر خمار تو فی الحال باقی ہی ہے۔میں اس پورے عرصے میں لال قلعہ شاید دو تین بار ہی گیا ہوں۔مجھے لال قلعے سے وحشت ہوتی ہے، وہاں سفید رنگ کی خوبصورت عمارتیں، بیواؤں کا سا لباس پہنے، قدموں سے گھانس کی زنجیر باندھے، کسی قیدی کی طرح سر جھکائے کھڑی رہتی ہیں۔ لمبی لال فصیل تاریخ کی قبر پر بیٹھے ہوئے مجاور کی طرح خلا میں گھورتی رہتی ہے۔وہ حوض، جن میں کبھی دودھ اور شفاف پانی کی لہریں تیرتی ہونگی، اپنے بطن میں جھاڑ جھنکاڑ لیے اداسیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں، وہ بازار جن میں دن کو مرد اور رات کو عورتیں، خواجہ سرا، کنیزیں اور باہر سے آئے تاجر سامان زندگی کو الٹ پلٹ کردیکھتے ہونگے، خور ونوش کے اسباب فراہم کرنے والے، ساز و سنگیت کی دوکانیں لگانے والے، سجاوٹ و بناوٹ کے آلات بیچنے والے، یہ سب میرے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں، مگراب وہاں دو وردی والے سپاہی، ہاتھوں میں بندوق تھامے، کیپ لگائے، سر سے پیر تک ایک گھنے سبز لباس میں گشت لگاتے ہیں۔ان کے قدموں کی ٹاپیں، بھاری بوٹوں کے نیچے کچلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔اس خاموش اور چیختے ہوئے منظر میں بس ایک خلا ہے، اور اس خلا میں وہ سارا شور، سارا تکبر، سارے نعرے لاشوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں، جن میں اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کی دھن، دولت کو ذخیرہ کرنے کی لالچ، مذہب کو برتری دلانے کا احساس، وطن کو فخر سے پکارنے کی کوشش اور لوگوں کی آہ و پکار، چیخیں، جنگیں، یلغاریں، دھما چوکڑیاں، جشن، ہنگامے، عورتوں کے قیمتی لباس، جگمگاتے ہوئے فانوس اورحکم کا اشارہ پانے والے غلام سب ایک کے اوپر ایک وحشت سے آنکھیں پھیلائے، ہاتھوں کو متضاد سمتوں میں بکھرائے ہوئے، زبان باہر نکالے بس خاموش لیٹے ہیں، کبھی نہ اٹھنے کے لیے۔

 

سلاطین ہوں یا مغل، اپنے ساتھ کتابیں لے کر ہندوستان میں داخل نہیں ہوئے تھے اور حکومتوں کو وسعت دینے کے لیے کتابوں کی نہیں تیروں، تلواروں کی ضرورت ہی ہوا کرتی تھی، چنانچہ انہوں نے وہی کیا، جو کہ جنگجو قومیں کیا کرتی ہیں۔
مجھے دلی کی جامع مسجد دیکھ کر بھی یہی احساس ہوتا ہے، سب سے پہلے میں اس سے سٹے ہوئے اردو بازار کا ذکر کرنا چاہوں گا، یہاں سے گزرنے والی مین سڑک، عام شہروں کی گلیوں جتنی پتلی ہے۔اس پر سائیکل رکشے، برقعہ پوش عورتیں، روتے بلکتے بچے، آٹو رکشے، کاریں، موٹر سائیکلز، سائیکل اور اسکوٹر، پیدل سوار سبھی گزرتے رہتے ہیں، راتوں کو بھی اس گھٹتی ہوئی نعش زدہ سڑک کو شایدہی سکون ملتا ہو۔ مختلف جگہوں پر کرنسی چینجر، مسافر خانے، چھوٹے موٹے ہوٹل، کتابوں کی کچھ دکانیں۔اردو بازار تو غالب کے عہد میں ہی ختم ہوچکا تھا۔یہ کچھ اور ہے اور اس کچھ اور میں، ایک نقالی موجود ہے، جس کو دیکھنے اور محسوس کرنے کے لیے بس ایک ایسی آنکھ چاہیے، جو روز کے ان ہنگاموں میں مل کر یہیں کا ایک منظر بن کر نہ رہ جائے۔ان کتابوں کی دکانوں میں بیٹھے ہوئے بوڑھے، بالوں میں مہندی لگائے،ہاتھوں میں کتاب یا اخبار تھامے خاموش رہتے ہیں، گاہک آتے ہیں، اپنی پسند کی کتابیں چھانٹتے ہیں اور لے جاتے ہیں، کئی مسافر کتابوں کے پیکٹ شام تک کے لیے یہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ہرحال میں یہ لوگ جو ان دوکانوں پر بیٹھے ہیں، ان گاہکوں کی آؤ بھگت کرنے سے زیادہ اپنے دوستوں کے ساتھ گپیں ہانکنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ رعایت تقریباً سبھی دوکانوں پر دس فیصد سے زیادہ نہیں دی جاتی ہے۔لیکن ایک دکان بڑی دلچسپ ہے، جہاں جاکر آپ صرف کتابیں ہی نہیں خریدتے، دوکاندار کی گفتگو کا لطف بھی لیتے ہیں، یہ صاحب کتب خانہ انجمن کے ایک کتاب فروش ہیں، قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ تمام اوپری اور ذیلی تصوف کے سلسلوں کو ایسے بیان کرتے ہیں، جیسے ایلیڈ کی نظم سنارہے ہوں، ادبی لطیفوں، قصوں اور واقعات کی ایک لمبی گٹھری ان کے پاس موجود ہے، جو کھلتی ہے تو ایسا مزہ دیتی ہے کہ آدمی بس سنتا چلا جائے،یہاں ہر قسم کے گاہک آتے ہیں۔نو سیکھیے بھی، مدرسہ والے بھی، ادب کے طالب علم بھی۔غیر ملکی سٹوڈنٹس جو اردو سیکھ رہے ہوتے ہیں، سب سے زیادہ انہی کی دکان پر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ بڑے میاں بھینگے ہیں، مگر نظر بالکل ٹھیک ہے۔پیسہ گننے، چھٹہ دینے کی ایسی مشق ہے کہ ہاتھ بڑی پھرتی سے چلنے کے باوجود ممکن نہیں کہ رتی برابر چوک جائے۔ میرے سامنے کئی گاہک ایسے آئے، جنہیں کتابوں کے نام معلوم نہ تھے، ادھر انہوں نے شاعر کا نام لیا اور ادھر وہ مجموعے گنوانے لگے۔سب لوگ ہنسی اور حیرت کے ملے جلے ماحول میں انہیں دیکھتے ہیں۔کرتاپاجامہ پہنے، لمبی ٹوپی لگائے، ہنستے بولتے سارے کام نمٹاتے رہتے ہیں۔کئی ایک کو ڈانٹتے بھی ہیں کہ یہ کتاب کیوں خریدنا چاہتے ہو، اس سے بہکنے کا اندیشہ ہے، کتاب ہی پڑھنی ہے تو فلاں فلاں پڑھو۔واقعی اب ایسے لوگ ندارد ہوتے جارہے ہیں، یہ بھی پرانے وقتوں کی آخری نشانی کی طرح یہاں بیٹھے ہیں اور ان کی اگلی نسل پرانی دلی میں موجود اس کتاب کو ایک قیمتی پراپرٹی کی نظر سے دیکھ کر بھاؤ لگانے کے لیے تیار ہورہی ہے۔ان موٹے سودوں میں علم کا سودا ماند پڑتا جارہا ہے، نزدیک ہی چمکتا دمکتا کناٹ پلیس ہے، اونچی زرق برق عمارتیں، چکنی سیمنٹی رنگ کی سڑکیں، مہنگی گاڑیاں، نرم لہجے اور تیکھی نظریں۔ایک بادل ہے جو دھیرے دھیرے اس خاکی اور پیلے رنگ کے ملے جلے منظر پر حاوی ہونے کے لیے بلی کے قدموں کی طرح آہستگی سے اس طرف بڑھ رہا ہے، بڑے میاں، ایک دن اچانک گرد بن جائیں گے، دوکانیں، کیفوں میں بدل جائیں گی، سڑک چوڑی ہوگی، موٹے موٹے شکم والے مکانات، پتلی پتلی لمبی عمارتوں کا روپ دھار لیں گے۔تیل کی دھار لٹانے والے باورچی، سفولا کی مہک میں ڈوبتے چلے جائیں گے، ہارٹ اٹیک والوں کی تعداد پھر بھی بڑھ جائے گی اور دل والے یکدم نگاہوں سے غائب ہوجائیں گے۔

 

دلی کی عمارتوں میں مجھے سب سے زیادہ ہمایوں کا مقبرہ پسند ہے۔پرانا قلعہ میں خود صرف ایک ہی بار گیا ہوں اور وہ بھی تب جب ہمارے دوست علی اکبر ناطق یہاں آئے ہوئے تھے۔مجھے یہ قلعہ بہت زیادہ پسند نہیں ہے، کہیں سے کوئی دیوار اپنے آپ اگ آتی ہے، کہیں اوبڑ کھابڑ بڑے بڑے پتھروں پر مشتمل دیوار کا لوہا، دھوپ کو اپنی پیٹھ پر اٹھائے چھاؤں اگلتا رہتا ہے۔ایک طویل و عریض مسجد ہے، جس میں چھت والا حصہ بہت کم ہے۔بہرحال پرانے قلعے سے زیادہ عجیب و غریب مجھے قطب مینار معلوم ہوتا ہے، وہاں بھی میرا زیادہ جانا نہیں ہوا، بس دو یا تین بار گیا ہوں،ایک بہت بڑا مینار، قرآنی آیات کا لباس پہنے ہوئے کھڑا ہے، لال رنگ کے پتھروں سے تعمیر کیا گیا یہ مینار سلاطین کے عہد کی یادگار ہے۔قطب الدین ایبک سنا ہے کوئی مسجد قوت الاسلام بنانا چاہتے تھے، یہ وہ ارادہ تھا جسے خود خدا نے ہی شاید مسترد کردیا اور شمس الدین التمش کی محنتوں کے باوجود بھی صرف ایک ہی مینار وجود میں آسکا۔قطب مینار مجھے ذاتی طور پر اس لیے پسند نہیں ہے کیونکہ یہاں بہت سے بت آج بھی پتھروں کی سلوں پر سجے ہوئے، پیچھے کی جانب رکھے ہیں، میری ہمدردی ان تمام پتھروں سے زیادہ ہے، کیونکہ یہ میری روح کا حصہ ہیں، اسی مٹی سے اگنے والے دیوتا۔مجھے ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلمان بادشاہوں کی یہ حرکت بہت عجیب معلوم ہوتی ہے کہ مسجد بنانی ہو تو وہ مندروں کو مسمار کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔قطب مینار، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی شناخت اپنے تعمیری شکوہ سے پوری دنیا میں کرانے کے لیے مشہور ہے، لیکن تاریخ پر اسے میں ایک لمبے، گہرے زخم سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔اس رویے پر مغل دور کے اواخر اور شان اودھ کے طلوع ہوتے ادوار میں بڑی سخت تنقیدکی گئی ہے، جو کہ اس دور کے آرٹ بالخصوص شعر و شاعری میں صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ہندوستان پر چڑھائی کرنے والے زیادہ تر بادشاہ ظالم، جنگجو، فتنہ پرور اور نہایت سنگ دل قسم کے لوگ تھے، جن کا مقصد یہاں کی دولت لوٹنا اور اسے ہتھیانا تھا۔وہ مذہب کی تبلیغ کے لیے یہاں بالکل نہ آئے تھے۔ان کو ہرحال میں یہاں اپنے تسلط کو بربریت اور تلوار کے زور پر قائم رکھنا تھا، جو کہ انہوں نے کیا۔اکبر اس پورے عہد میں وہ پہلا بادشاہ تھا، جس نے ہندوستان کو اپنا گھر سمجھا اور اسے لوٹنے کے بجائے، اس میں سکون سے رہنے کو ترجیح دی۔

 

اردو بازار تو غالب کے عہد میں ہی ختم ہوچکا تھا۔یہ کچھ اور ہے اور اس کچھ اور میں، ایک نقالی موجود ہے، جس کو دیکھنے اور محسوس کرنے کے لیے بس ایک ایسی آنکھ چاہیے، جو روز کے ان ہنگاموں میں مل کر یہیں کا ایک منظر بن کر نہ رہ جائے۔ا
سلاطین ہوں یا مغل، اپنے ساتھ کتابیں لے کر ہندوستان میں داخل نہیں ہوئے تھے اور حکومتوں کو وسعت دینے کے لیے کتابوں کی نہیں تیروں، تلواروں کی ضرورت ہی ہوا کرتی تھی، چنانچہ انہوں نے وہی کیا، جو کہ جنگجو قومیں کیا کرتی ہیں۔وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے،ہندوستان میں داخل ہوکر یہاں کی مقدس عمارتوں کو گرا کر وہاں اپنے دیوتاؤں کو سجادیتے، جیسا کہ انہوں نے مسجدوں کو تعمیر کرکے اس کا ثبوت دیا۔خون کی نہریں بہہ جائیں، لوگ جل جائیں، کٹ جائیں، مرجائیں لیکن اپنے پاؤں جہاں تک ہوسکیں پھیلا لیے جائیں۔یقینی طور پر پرانے زمانے میں لوگ اسی طرح حکومت کرتے تھے۔مسلمانوں، عیسائیوں ان دونوں قوموں نے یہی طریقہ کار اپنایا اور مذہب کو اپنی توسیع پسندی کا جواز ٹھہرایا، جس کی وجہ سے یہ قاتل اور لٹیرے، اگلی نسلوں کے ہیرو بنتے گئے۔ان تمام معاملات کا تعلق مذہب کی ان متضاد تعلیمات سے بھی ہے، جن میں ایک طرف زمین پر فساد پھیلائے جانے سے روکا جاتا ہے تو دوسری جانب خدا کے دین کو عام کرنے کی تلقین کی جاتی ہے، اس کی راہ میں لڑنے مرنے کو مستحسن سمجھا جاتا ہے۔یہی وہ ڈھال ہے، جس کا سہارا پہلے جاہل جنگجو قومیں لیا کرتی تھیں، اب دہشت گرد، مولوی ملا اور نام نہاد غازی و شہید لیا کرتے ہیں۔یہ سارے سوال قطب مینار سے گزرتے، وہاں کی زمین پر پھرتے ہوئے ذہن کی سطح پر کیچوے کی طرح رینگنے لگتے ہیں، اس کے برعکس ہمایوں کا مقبرہ مجھے اس لیے پسند ہے، کیونکہ وہ ان کی ایرانی بیگم نے بنوایا تھا۔مغل دور حکومت میں محبت کی یہ عظیم نشانی تاج محل سےپہلے ایک عورت کی جانب سے اپنے شوہر کو دیا جانے والا ایسا تحفہ تھا، جس میں چودہ سال بعد اس کی ہڈیاں نکال کر کہیں اور دفن کرنے کی تدبیر بھی نہیں کی گئی اور ایسی عالیشان عمارت قائم کی گئی، جس نے مغل آرکی ٹیکچر کو ایک نئی سمت اور نئی جہت عطا کی۔تاریخ کے دامن پر ایرانی بیگم کا یہ شاندار بوسہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگیا ہے۔ہمایوں کا مقبرہ اسی لیے اب ایک مقبرے سے زیادہ عشاق کی ملاقاتوں اور سرگوشیوں سے گونجتا رہتا ہے۔یہاں قبروں کے نزدیک الجھتی ہوئی گرم سانسیں، دنیا کے اس شور و ہنگامے سے بہت دور، بدن کی دھوپ میں سائیں سائیں کرتی ہیں، جس نے عشق کے لیے دنیاداری، نفرت اور بھاگ دوڑ کے چکر میں خود کو بھی فراموش کررکھا ہے۔کہتے ہیں اسی طرز پر بعد میں اکبر کے نورتنوں میں سے ایک عبدالرحیم خان خاناں کا مقبرہ بھی تعمیر کیا گیا۔یہ مقبرہ بھوگل سے ذرا آگے اور حضرت نظام الدین سے کچھ پہلے آج بھی سڑک کنارے موجود ہے۔برابر میں میلی کچیلی جمنا بہہ رہی ہے، جو شاید ان دنوں آئینے کی طرح چمکتی ہوگی۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رحیم خان خاناں اچانک دوہے سناتے سناتے یہاں سے دور نکل گئے ہیں، کیا کیجیے ٹریفک دلی میں بہت بڑھ گیا ہے اور ہارن کی چیں چاں، پیں پاں میں فضاؤں کو اتنی مہلت کہاں کہ لفظ کے رقص پر تھاپ دے سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *