[blockquote style=”3″]
تصنیف حیدر شاعر ہیں اور شاعر بھی وہ جو غزل میں تجربات اور جدت طرازی سے خوف زدہ نہیں۔ دوردرشن اور ریختہ سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل انٹرنیٹ پر اردو ادب کی سہل اور مفت دستیابی کے لیے ادبی دنیا کے نام سے اپنی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ ان کی آپ بیتی “دس برسوں کی دلی” ان کے دلی میں گزرے دس برس پر محیط ہے جس کی بعض اقساط ادبی دنیا پر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس آپ بیتی کو اب مکمل صورت میں لالٹین پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
دس برسوں کی دلی کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
قسط نمبر 6
سکول میں ہیڈ ماسٹر سے بات کرنی ہو یا پانی کے موٹر کے آنے والے بل کی زیادتی پر لڑنے والی عورت کا مقابلہ کرنا ہو،، مرد ان سب معاملوں میں ہمارے یہاں کمزور پرزہ ہوتا ہے۔وہ ان سب باتوں کو جھنجھٹ سمجھتا ہے جبکہ عورت اسے ذمہ داری کہتی ہے اور اس ذمہ داری کو دل و جان سے نبھاتی ہے۔
دہلی میں پہلی دفعہ مجھے ایک کلاس میں پڑھانے کا کام ملا۔دہلی میں ایسی بہت سی کلاسز ہیں، ممبئی میں بھی اس سے پہلے میں چاٹے کلاسز اور بہت سی دوسری پرائیوٹ ٹیوشنز کے بارے میں جانتا تھا، حالانکہ میں نے بھی دسویں جماعت میں ٹیوشن لی تھی اور چھ سات مہینے بعد اچھے نمبرات سے بورڈ کا امتحان بھی پاس کیا تھا، مگر اس آفت جاں اور حسن بے کراں ٹیوشن ٹیچر کا قصہ دہلی سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس لیے اسے وسئی یا ممبئی کی یادوں کو لکھتے وقت لکھوں گا۔تو میں ذکر کررہا تھا کلاسز کا۔میری خالہ جن کا نام سلمیٰ ہے، انہوں نے مجھے وہاں متعارف کروایا۔خالہ کی محبت اور خلوص میں کوئی شک نہیں لیکن جب وہ اپنی اچھی خاصی سماجی حیثیت ہونے کے باوجودعنقریب گڑگڑاتے ہوئے کسی شخص کو ہمارے حالات و واقعات کے بارے میں بتاتیں تو مجھے اچھا نہ لگتا۔ لیکن مجبور تھا سو چپ رہتا۔ ہماری خالہ کی شخصیت کچھ الگ سی ہے، وہ محبت کرنے والی ایک ایسی ہستی ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا بتاؤں۔جن دنوں میں نے انہیں دیکھا، وہ ایک عمامے نما برقعے میں بہت سی چھوٹی موٹی بیماریوں کے ساتھ ایک محنت کش خاتون کی صورت میں مجھے نظر آئیں۔ کوئی بات ہو، کوئی غم ہو یا کوئی پریشانی، وہ ہمیشہ ٹھڈی میں ہاتھ ڈال کر اپنی جانب توجہ دلواتیں اور کہتیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، فلاں حل موجود ہے، فلاں راستہ نکل سکتا ہے۔دھوپوں میں سائیکل رکشوں کی سواریاں کرتے ہوئے، محلے کے ایم ایل اے سے لڑ کر چونا گارے والوں تک میں سے بہت سوں سے ان کی واقفیت ہے۔ یہ واقفیت ہمارے سمٹے سمٹائے معاشروں میں عورتوں کا بہت بڑا ذریعہء زندگی ہے۔ وہ اسی طور مردوں سے زیادہ سماجی مسئلوں میں منہمک ہوتی ہیں، ایسی بہت سی خالائیں، پھوپھیاں، بیبیاں آپ کو ان محلوں میں نظر آئیں گی۔
میں اگر اپنی زندگی میں ایک دو لوگوں سے نہ ملتا، دہلی کی سڑکوں کی خاک نہ چھانتا، مختلف پروڈکشن ہاؤسز میں مختلف مذاہب اور خیالات کے حامل لوگوں کے ساتھ کام نہ کرتا تو میرے مزاج کی وہ کرختگی شاید آج بھی برقرار رہتی
برقعے پر میری خالہ ایک سکارف باندھتی تھیں ، بدن کا بھاری وزن ڈولتا ہوا، پیر سوجتے ہوئے اور آنکھیں ڈگڈگاتی ہوئی، سرخ و سفید چہر ہ اور چربی دار لوتھڑوں کی بخشی ہوئی فربہی ۔ان سب چیزوں کےساتھ ان میں اور بھی بہت سی خاصیتیں تھیں۔ سب ان کی عزت کرتے تھے، ان کا کہنا مانتے تھے، ان کے اثر و رسوخ اور بات کرنے کے انداز سے کئی دفعہ کام نکل جاتے تھے۔یہ سارے کام اصل میں ان عورتوں کو اول اول اپنی اولادوں کے سلسلے میں نکالنے پڑتے ہیں۔ میں نے خود اپنی والدہ کو دیکھا ہے، درزی، چپڑاسی، پانی والا، پلمبر، مالک مکان، دکانداران بہت سے لوگوں کا سامنا کرنا، انہیں ایک منجھے ہوئے مینیجر کی طرح ڈیل کرنا، یہ سب ہمارے یہاں عورتوں کی معاشرتی ذمہ داریاں بن گئی ہیں۔ سکول میں ہیڈ ماسٹر سے بات کرنی ہو یا پانی کے موٹر کے آنے والے بل کی زیادتی پر لڑنے والی عورت کا مقابلہ کرنا ہو،، مرد ان سب معاملوں میں ہمارے یہاں کمزور پرزہ ہوتا ہے۔ وہ ان سب باتوں کو جھنجھٹ سمجھتا ہے جبکہ عورت اسے ذمہ داری کہتی ہے اور اس ذمہ داری کو دل و جان سے نبھاتی ہے۔غور کیجیے تو زندگی کے شعبے میں یہ سب چیزیں اتنی مہین ہیں کہ ذرا سی اونچائی سے بھی نظر نہیں آتیں، مگر ان کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ اس گارے کی طرح ہوتی ہیں، جو انیٹ کے نیچے دب کر، پلستر کے نیچے چھپ کر عمارت کو بہت مضبوطی عطا کرتا ہے، اسے تھامے رکھتا ہے مگر دکھائی کہیں سے نہیں دیتا، اور اگر کبھی نظر بھی آجائے تو لوگ اس کو فوراً چھپانے کی تدبیروں میں لگ جاتے ہیں۔
الغرض میری خالہ نے مجھے جس کلاسز میں پڑھانے کے لیے مصطفیٰ نامی صاحب سے بات کی،اس کا نام دہلی ایجوکیشن پوائنٹ تھا۔یہاں انگلش سپیکنگ، بی ٹیک، ایم ٹیک، ایم اے، بی اے کے علاوہ کامرس ، بینکنگ اور سائنس کی تعلیمات دی جاتی تھیں۔اس وقت یہ سینٹر جوگا بائی نامی اس محلے میں قائم تھا، جو ذاکر نگر سے بہت نزدیک ہے، جہاں اب بھی میں رہا کرتا ہوں۔خالہ کی محبتوں کا میری زندگی پر ایک الگ اثر بھی ہے، یہ وہ تاثر ہے جو میری زندگی کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ ان کے گورے چٹے، گلابی چہرے پر ایک مسکراہٹ میں نے ہمیشہ دیکھی ہے، جب وہ ہنستی ہیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے دانت عنابی مسوڑوں کے ساتھ نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ مسکراہٹ دراصل اس شفق زدہ شام کی مانند ہے، جو انسان کے غم بھلا دیتی ہے، اسے جینا سکھاتی ہے، مشکل سے مشکل حالات کا سامنا کرنا اور ڈٹ کر کھڑے رہنا۔
یہ شہر جو رونق آباد معلوم ہوتا تھا، ابھی میری نگاہوں کے سامنے کسی حجاب پوش خاتون کی طرح سمٹا سمٹایا بیٹھا تھا، لیکن یہ حجاب دھیرے دھیرے الٹنا تھا
ایک دفعہ کسی بات پر میری ان سے کچھ ان بن ہوگئی تھی، وہ دہلی کے بالکل شروعات کا واقعہ ہے، کسی بات پر وہ مجھ سے ناراض ہوئیں، لیکن بہت جلد من بھی گئیں، اپنے آپ ہی۔۔۔شاید اسے ہی ہماری مختصر زندگیوں میں بڑکپن کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔مجھے خود یاد ہے کہ ان دس سالوں میں میں نے اپنی شخصیت کو کتنا بدلتا ہوا محسوس کیا ہے، پہلے میرے اندر زبان، مذہب، سماج، اصول پسندی اور نہ جانے دنیا بھر کی کتنی عجیب و غریب باتیں بھری رہتی تھیں، ان باتو ں نے مجھے ایک اکڑوشخص بنادیا تھا، جو اپنی ہلکی پھلکی اردو پر اتراتا، سب کو نصیحتیں کرتا پھرتا تھا، برے اور خراب تلفظات پر لوگوں کو برسر محفل ٹوک کر اپنی علمی برتری کا ثبوت دیتا تھا۔ مجھے بچپن سے جو مذہبی تعلیم ورثے میں ملی تھی، اسے میں نے ایسے سنجو کر رکھا تھاجیسے پتہ نہیں یہ کتنی بڑی دولت ہو۔میں اگر اپنی زندگی میں ایک دو لوگوں سے نہ ملتا، دہلی کی سڑکوں کی خاک نہ چھانتا، مختلف پروڈکشن ہاؤسز میں مختلف مذاہب اور خیالات کے حامل لوگوں کے ساتھ کام نہ کرتا تو میرے مزاج کی وہ کرختگی شاید آج بھی برقرار رہتی، میں نے اپنے اصولوں کو جب توڑا تو مجھے واقعی معلوم ہوا کہ اصولوں کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی،زندگی اصولوں سے نہیں، تبدیلیوں سے عبارت ہے۔جتنا انسان بدلتا جائے گا، اتنا بنتا جائے گا۔اسے حالات کے حساب سے خود کو ڈھالنا آئے گا۔بے شک جو بات آپ کو پسند نہیں، اسے آپ چھوڑ دیجیے، ترک کردیجیے، کسی بھی خاص بات کا پریشر لینا یا اسے سر پر سوار کرلینا غلط ہے کیونکہ سب سے زیادہ ضروری بات ہے خوش رہنا۔یہ بات مجھے ان لوگوں نے سکھائی، جوشاید آج خود یہ بات بھول چکے ہیں،جو کبھی اسی تمہید کے ساتھ اپنی کتاب زندگی کا آغاز میرے ساتھ کر رہے تھے اور جن کا ذکر اسی کتاب کے اگلے ابواب میں آئے گا۔
خیر میں ذکر کررہا تھا کوچنگ کا، کوچنگ کے ذکر کو شروع کرنا ہے اور دھیان کچھ الگ شخصیات کی طرف جارہا ہے۔میں جن دنوں وہاں گیا، انہیں اردو پڑھانے کے لیے کسی شخص کی ضرورت تھی، یوں تو وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پرائمری سکول کے ٹیچر مصطفیٰ سر کی کوچنگ تھی ، لیکن اس کا سارا انتظام و انصرام ان کے چھوٹے بھائی نسیم سر کی ذمہ داری تھا۔نسیم ایک چھوٹے قد اور گٹھے ہوئے بدن کے آدمی تھے، خالص میرٹھیا لہجہ، لیکن یارباش آدمی تھے۔ فیشن بھی ان کا کچھ عجیب قسم کا تھا، بالکل سفید کلر کی قمیص اور سفید کلر کی ہی پینٹ پہنے، بالوں کو بیچ میں سے مانگ نکال کر ادھر ادھر پھیلا دیتے، آنکھیں چھوٹی چھوٹی، چہرے کا نقشہ گالوں کی دو چوڑی ہڈیوں کی وجہ سے کچھ پھیلا ہوا، ہونٹ پتلے، رنگ سانولا اور ساتھ ہی ساتھ چہرے پر بہت سے مہین مہین سوراخ صاف نمایا ں ہوتے تھے،وہ مجھ سے بہت سی باتیں کرتے تھے۔ ابتدائی دن تھے دہلی کے، مجھے بھی ان سے یہاں کے لوگوں اور باتوں کے بارے میں جاننے میں بڑی دلچسپی تھی، یہ شہر جو رونق آباد معلوم ہوتا تھا، ابھی میری نگاہوں کے سامنے کسی حجاب پوش خاتون کی طرح سمٹا سمٹایا بیٹھا تھا، لیکن یہ حجاب دھیرے دھیرے الٹنا تھا اور اس کی ابتدا نسیم سر کی باتوں سے ہوئی، کوچنگ دو حصوں میں قائم تھی، ایک تو جوگا بائی والے علاقے میں اور دوسرے بٹلا ہاوس میں۔ بٹلا ہاوس والی برانچ تھوڑی چھوٹی تھی اور وہاں دو تین ٹیچرز ہی شاید بڑی کلاسوں کو پڑھایا کرتے تھے۔
اصولوں کی اس منڈی میں جس بری طرح اس کی خواہش کو رگیدا اور بے عزت کیا گیا ہے، وہاں اگر اس نے چاند چھونے کا کوئی چور راستہ دریافت کربھی لیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔
کوچنگ کے اپنے ابتدائی زمانے میں مجھے دو شخصیات نے حیرت میں ڈالا، ایک سلمان نام کا ایک طالب علم تھا، جو کہ امیر ماں باپ کا شاید اکلوتا بیٹا تھا،بالکل موالیوں کی سی اس کی وضع قطع، بائک پر آیا جایا کرتا، ساتویں یا آٹھویں جماعت میں تھا، لیکن ایسا گلینڈا کہ سماعتوں کی کنپٹیوں پر پسینے کی بوندیں تیر جائیں۔ اکھڑ اور بے حد سخت مزاج کا لڑکا، جسے نسیم اور مصطفی صاحبان بڑے ہی مصنوعی قسم کے رعب سے ہینڈل کیا کرتے تھے، دوسری شخصیت زیبا نام کی ایک لڑکی کی تھی، اس لڑکی کا بھی اچھا خاصہ کھاتا پیتا گھرانہ تھا، اسی کے نام سے ایک گفٹ شاپ شاہین باغ نامی علاقے میں تھی۔وہ پتلی دبلی، سانولے رنگ کی ایک قبول صورت لڑکی تھی، لیکن اسے پڑھائی سے زیادہ لڑکوں کی طرف تانک جھانک میں بڑا مزہ آیا کرتا تھا،اسے نئے نئے تعلقات بنانے کا شوق تھا۔میں نے جب اسے پڑھانا شروع کیا تو اس نے مجھے اپنی زندگی کے تعلق سے بہت کچھ بتایا،وہ کسی لڑکے کو بہت پسند کرتی تھی، مگر خاندان والے کہیں اور شادی کے لیے بضد تھے، بالآخر اس نے خاندان والوں کی مرضی کے آگے سرجھکادیا تھا، کیونکہ ایک دو دفعہ اسے گھر میں بندی بنانے اور مارنے پیٹنے کی سزاؤں سے بھی گزرنا پڑا تھا، چنانچہ وہ کہا کرتی تھی، جب تک شادی نہیں ہوجائے گی، میں اس دوسرے لڑکے سے چھپ چھپ کر ملتی رہوں گی،اور شاید شادی کے بعد بھی ملوں۔اس وقت مجھے اس کی یہ بات بڑی ناپسند گزرتی تھی، میں اسے سمجھایا کرتا کہ یہ سب غلط ہے۔لیکن آج سوچتا ہوں کہ ایک دفعہ مجھے اس سے کہنا چاہیے تھا کہ وہ بالکل غلط نہیں، کیونکہ اصولوں کی اس منڈی میں جس بری طرح اس کی خواہش کو رگیدا اور بے عزت کیا گیا ہے، وہاں اگر اس نے چاند چھونے کا کوئی چور راستہ دریافت کربھی لیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ کم از کم میں تو اس کی زندگی کا وہ ایک شخص ہوسکتا تھا، جو اسے اپنی مرضی سے زندگی بتانے پر شرم نہ دلائے بلکہ حوصلہ دے۔