Laaltain

جنازے کا کرب

10 فروری، 2016

[blockquote style=”3″]

انگریزی شاعر، ڈرامہ نویس، نقاد اور اوپیرا نگار ڈبلیو ایچ آڈن (1907-1973) نے بیسویں صدی کی انگریزی شاعری پر ایک بڑا گہرا اثر چھوڑا ہے۔ برمنگھم، انگلستان میں پلے بڑھے آڈن اپنی غیر معمولی ذہانت اور حاضر دماغی کے باعث مشہور تھے۔ پہلی کتاب “پوئیمز” سنہ 1930 میں ٹی ایس ایلیٹ کی رفاقت میں شائع ہوئی۔ 1928 میں پولٹزر پرائز سے بھی نوازا گیا۔ ان کی بیشتر شاعری اخلاقی مسائل پہ کلام کرتی ہے اور یہ اپنے عہد کے ایک توانا سیاسی، سماجی اور نفسیاتی حوالے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ گوکہ ان کی اوّلین شاعری مارکس اور فرائیڈ کے خیالات سے لدی پڑی ہے لیکن بعد ازاں ان افکار کی جگہ مذہبی اور روحانی اثرات براجمان ہو گئے۔ بعض نقاد انہیں ردِ رومان پرور بھی کہتے ہیں، یعنی ایک ایسا شاعر جو ستھرا نتھرا تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہونے کے ناتے ایک نظم و نظام اور انسانی وجود پر ایک ہمہ دم قابلِ عمل کُلیے کی دریافت میں سرگرداں رہا۔ ان کی شاعری اپنے ہی انداز کی حامل ہے جس میں جدت طرازی کا عمل کارِ فرما رہتا ہے: اگر کہیں اشعار چھوٹی چھوٹی ضرب المثلی کیفیت میں ہیں تو کہیں کتاب بھر کی طوالت کی نظمیں ہیں۔ البتہ ان سب میں ایک گہرے اور وسیع تر سائنسی علم و شعور کی رنگا رنگیاں جا بہ جا موجود ہیں۔

[/blockquote]

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

جنازے کا کرب

[/vc_column_text][vc_column_text]

شاعر: ڈبلیو ایچ آڈن
ترجمہ: یاسر چٹھہ

 

روک دو سب گھڑیال، کاٹ دو ان ٹیلیفونوں کو
چُپ کرا دو سب کتوں کو منہ میں ڈالے تر نوالوں کو
گُھونٹ ڈالو گلے سب پیانوؤں کے، اور گُھٹے گُھٹے سے ڈھول کی تھاپوں میں
لے آؤ باہر میت کو، اور آنے دو گِریہ داروں کو

 

چکرانے دو بَر سَر بِلکتے جہازوں کو
دو لکھنے کھرچ کھرچ انہیں سنیہا یہ
کہ “وہ جان کی بازی ہار گیا”
ہار کر دو سفید کریپ سے آزاد کبوتروں کی گردنوں کو
دو پہننے ٹریفک پولیس اہلکاروں کو سیاہ رنگ دستانے

 

وہ تھا میرا شمال، میرا جنوب، میرے سب شرق و غرب
میرے کام کاج کے دن، اور میرا آرام دن اتوار کا
میرا نصف دن، میری آدھی شب، میری گفتگو، میرا نغمہ
مجھے یقیں تھا کہ محبت کو ہے دائمی قرار
لیکن یہ میری فاش غلطی تھی۔

 

ستاروں کی اب کسے ہے چاہ، انہیں گُل کر دو
چاند کو سمیٹ لو، سورج کو پھوڑ ڈالو
بھر کے پھینک دو دور سمندر کو، لپیٹ ڈالو سب درختوں کو
کچھ بھی اب کسی کام کا نہیں۔

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *