[blockquote style=”3″]
Virtual Textual Practical Criticism “قاری اساس تنقید” کی مجموعی تھیوری کے تحت وہ طریقِ کار ہے، جس میں طلبہ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کسی نظم یا نظمیہ فارمیٹ کے متن پر عملی تنقید کیسے لکھی جائے۔ اس کے لیے شاعر کے نام کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (اگر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے نجی حالات، سیاسی یا مذہبی خیالات، ہم عصر شاعری کی نہج یا ہم عصر شعرا کا تتبع یا مخالفت وغیرہم کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جانا ضروری ہے، گویا کہ آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ یہ نظم کس شاعر کی ہے)۔صرف سامنے رکھے ہوئے متن پر ہی انحصار کرنے کے لیے یہ طریق ِ کار اختیار کیا جائے۔ متن میں مشمولہ تمام Proper and Common Nouns اسماء کے ہم معنی الفاظ، یعنی homonyms یا ان کے متبادل الفاظ کی فہرست تیار کر لی جائے۔ اب ہر اس اسم (اسم، اسم ِ ضمیر، اسم معرفہ، نکرہ، آلہ، تصغیر، تکبیر، وغیرہ) کے سامنے بنائی گئی فہرست کے ہر ایک لفظ کو استعمال کیے گئے لفظ کی جگہ پر رکھ کر دیکھا جائے کہ کون سا لفظ شاعر کی منشا یا مطلب کو براہ راست یا استعارہ یا علامت کے طور پر زیادہ واضح طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اب تنقید لکھتے ہوئے ان الفاظ کو زیر ِ بحث لایا جائے اور آخری پیرا گراف میں اپنی findings تفصیل سے لکھی جائیں۔ اس طریق کار کے تحت تنقید کا مضمون یورپ اور امریکہ میں پڑھایا جا رہا۔ یہ منظوم سلسلہ “خامہ بدست غالب” غالب کے کلام کو Virtual Textual Practical Criticism کے تحت سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ ستیہ پال آنند
[/blockquote]
غالب کے اشعار پر ستیہ پال آنند کی نظموں پر مشتل سلسلے ‘خامہ بدست غالب‘ میں شامل مزید نظمیں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
شعر
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
(اس نظم میں دو بحور کا اشتمال روا رکھا گیا)
نظم
موسیقیت ‘صدا’ بھی ہے اور راگ رنگ بھی
یہ ‘کُن’ کی صوت بھی ہے اور سکراتِ مرگ بھی
یہ ‘کُن’ کی صوت بھی ہے اور سکراتِ مرگ بھی
یہ “وہ صدا” ہے جس کی سماعت ہے جاں فزا
لے، تال ، سُرکی نغمگی، لفظوں کا ہیر پھیر
‘کن رس’ ہے، روح و جوع کا شیریں ملاپ ہے
ہو مرثیہ کہ حمدکہ سوز و سلام و نعت
اس کی اساس ‘گت’ ہو کہ ‘استھائی’ ہو کہ ‘کھرج’
ہو ‘لے’ میں یا ‘ولمپت’ و ‘مَدھ’، میں کہ ‘تال’ میں
اصناف میں ہو ‘دادرا’، ‘ٹھُمری’، کہ اک ‘خیال’
سب “ایک” ہیں کہ ان کی صدا “صرف” ایک ہے!
لے، تال ، سُرکی نغمگی، لفظوں کا ہیر پھیر
‘کن رس’ ہے، روح و جوع کا شیریں ملاپ ہے
ہو مرثیہ کہ حمدکہ سوز و سلام و نعت
اس کی اساس ‘گت’ ہو کہ ‘استھائی’ ہو کہ ‘کھرج’
ہو ‘لے’ میں یا ‘ولمپت’ و ‘مَدھ’، میں کہ ‘تال’ میں
اصناف میں ہو ‘دادرا’، ‘ٹھُمری’، کہ اک ‘خیال’
سب “ایک” ہیں کہ ان کی صدا “صرف” ایک ہے!
جو بھی ہو، یہ ’صدا‘ تو ہے لفظوں کا شعشعہ
کانوں میں رس کو گھولتی، “رس کھان”۔۔۔۔ سحر کار
ایسی صدا تو جان کے ابقا کی ہے دلیل
پھر کیوں نکلنے لگتی ہے آناً دمِ سماع
یہ جان مرے تن کے وجودی حصار سے؟
کانوں میں رس کو گھولتی، “رس کھان”۔۔۔۔ سحر کار
ایسی صدا تو جان کے ابقا کی ہے دلیل
پھر کیوں نکلنے لگتی ہے آناً دمِ سماع
یہ جان مرے تن کے وجودی حصار سے؟
شاعر کا یہ سوال تو سیدھا ہے، صاف ہے
اس کا جواب بھی کوئی ٹیڑھا نہیں، جناب
غالب “خوشی میں مرنے (1) کا مضمون باندھ کر
شاید یہ کہہ رہا ہے کہ کچھ فرق ہی نہیں
شعر و سخن کے ۔۔۔۔ اور موسیقی کے درمیاں!
اس کا جواب بھی کوئی ٹیڑھا نہیں، جناب
غالب “خوشی میں مرنے (1) کا مضمون باندھ کر
شاید یہ کہہ رہا ہے کہ کچھ فرق ہی نہیں
شعر و سخن کے ۔۔۔۔ اور موسیقی کے درمیاں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا