Laaltain

تمثیل

18 جولائی، 2016

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

تمثیل

[/vc_column_text][vc_column_text]

نیل گوں آگ پہ شیشے کی صراحی رکھ کر
دستِ پژ مُردہ پہ پھیلا دی ہے بُھوبل اُس نے!
آہنی تار کو شہ رگ میں پرو کر آخر
شعبدہ باز نے زنبیل سے ساغر مانگا
جیبِ زنبیل سے اک کانچ کا ساغر لپکا
جس کے ہر سَمت منقّش تھی شباہت دل کی
خُوں چکاں زخم کے اُمڈے ہوئے فوّاروں سے
اُس نے جی کھول کے خُوناب کے ساغر کھینچے

 

دستِ پژ مُردہ میں جینے کی تمنّا جاگی
نیل گوں آگ پہ شیشے کی صراحی ٹُوٹی
جیبِ زنبیل سے پھر کانچ کا ساغر لپکا
جس کے ہر سمت منقّش تھی شباہت دل کی

 

شعبدہ باز کے اِس کھیل تماشے سے الگ
ہم بھی انگشت بَہ دنداں ہیں کہ اب کیا ہو گا؟
معرکہ ہوگا کوئی شہر کے بازاروں میں
یا در و بام پہ آسیب کا پہرہ ہو گا؟
جبر کا ہاتھ دبوچے گا ہر اک گردن کو
یا کہ اس جنگ میں جمہُور کا غلبہ ہو گا؟

 

سُرمئی شام کے بڑھتے ہوئے سنّاٹوں میں
دف کی آواز پہ اک شور بپا ہوتا ہے
پھیلتا جاتا ہے آسیب گُذرگاہوں پر
آگ کا شعلہ سرِ شام رہا ہوتا ہے
مشعلیں لے کے نکل آئے ہیں بستی والے
دیکھیے رات کی آغوش میں کیا ہوتا ہے؟

 

دوسری سمت فلک بُوس محلاّت کے بیچ
مسندِ زر پہ فرَو کش ہے وہ فرمان روا
جس کے برُوے خمیدہ کی ذرا سی جنبش
کج کلاہوں کو بھی لب بستہ و لرزاں کر دے
جس کے اطوار میں شامل ہے وہ نخوت کہ اُسے
قیصر و کَے کے مقابل بھی نمایاں کر دے
جس کے بس ایک اِشارے پہ کمر بستہ ہیں
خُود پہ اِتراتے جوانوں کے توانا لشکر
جس کی سطوت سے سراسَیمہ غلاموں کی قطار
سارے دربار کے اطراف میں استادہ ہے
تخت سے چند قدم دُور ذرا نیچے کئی حلقہ بَہ گوش
منتظر ہیں کہ اُنیں اِذنِ تکلُّم تو مِلے
پاس ہی اطلس و کمخاب کی چِلمن کے اُدھر
دائرہ باندھ کے بیٹھی ہیں کنیزیں ساری
جانے کس اینٹھتے لمحے کی طلب گیر صدا
جسم کی خواہشِ بے تاب کی سرکش ساعت
حُجلہء شب میں سُلگتے ہوئے چندن کا فسوں
خُود کو زربفت کے بستر پہ ہوَیدا کر دے
وصل کی رات کی لذّات کی سرگوشی ہی
ایک باندی کو شہَنشاہ کی ملکہ کر دے!

 

دوڑتے بھاگتے ہرکاروں کی سُرعت کے سبب
شاہی فرمان کی ترسیل میں تیزی آئے
اپنے ہی لوگوں سے لڑتے ہوئے لشکر کا قدم
پَے بَہ پَے یورش و یلغار سے اُکھڑا جائے
دف کی آواز پہ بڑھتا ہوا بے خوف ہجوم
اب کسی طور ‘ کسی پَل بھی نہ روکا جائے
شورشِ شہر کا انداز بدلتا جائے۔

 

دف کی آواز ہو’ نقّارہ ہو یا چیخ کوئی
جوق دَر جوق نکل آتے ہیں بستی والے
درد کے رشتوں نے یوں باندھ دیا ہے سب کو
ایک آواز پہ کُھلتے ہیں دریچے سارے
ظُلم جب حد سے گُزر جائے تو اک پارہء خَس
جبر کی چشمِ بَلا خیز سے لڑ جاتا ہے
قافلہ محملِ جاناں کا اشارہ پا کر
بے خطَر آگ کے دریا میں اُتر جاتا ہے
زخم گو سینے کی پاتال سے بھی گہرا ہو
چَین آجائے تو اک رات میں بھر جاتا ہے
بوڑھے سالار نے ہارے ہوئے لشکر سے کہا
لوگ یوں بِپھریں تو سُلطان کا سر جاتا ہے

 

آخری منظر

 

شہرِ دربند میں انفاس کی بُو پھیلی ہے
حجلہء ناز کے رخشندہ کلَس ٹُوٹے ہیں
راکھ کا ڈھیر ہوئے جاتے ہیں سب رنگ محَل
دف کی آواز پہ اُمڈا ہوا بے خوف ہجوم
ساحرِ وقت کے ایوان پہ آ پہنچا ہے
دستِ پژ مُردہ بھی جینے کی تمنّا لے کر
قیصر و کَے کے گریبان پہ آ پہنچا ہے

Image: M. F. Hussain
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *