تماشا
بھاری بستے میں دن کی کسیلی تھکن اونگھتی ہے
سفر، ایستادہ چٹانوں کے باطن سے پھوٹے تو
چنگاریوں کا تغافل ہرا ہو
ہمیں لجلجاتے چناروں سے آگے تساہل بھری کھیتیوں سے گزر کر
فصیلوں کی فصلوں میں چھپنے سے پہلے
دھوئیں کی لچکدار دیوار کو چاٹنا ہے
فنا استعارہ ہے تشکیلِ نو کا
ابھی چند لمحے توازن کی تکڑی میں تلنے لگے ہیں
زرا جم کے بیٹھو
کہ خاکستری خواب کھلنے لگے ہیں
سفر، ایستادہ چٹانوں کے باطن سے پھوٹے تو
چنگاریوں کا تغافل ہرا ہو
ہمیں لجلجاتے چناروں سے آگے تساہل بھری کھیتیوں سے گزر کر
فصیلوں کی فصلوں میں چھپنے سے پہلے
دھوئیں کی لچکدار دیوار کو چاٹنا ہے
فنا استعارہ ہے تشکیلِ نو کا
ابھی چند لمحے توازن کی تکڑی میں تلنے لگے ہیں
زرا جم کے بیٹھو
کہ خاکستری خواب کھلنے لگے ہیں