کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس میں معیاری تعلیم وتحقیق کو فروغ نہ دیا جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹنے والوں نے کبھی اس بنیادی معاملے پر غورو فکر کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی انحطاط روز افزوں ہے مگر ہمارے پالیسی سازوں کی ترجیحات میں تعلیم کے فروغ نام کی کوئی ترجیح شامل نہیں۔ اس امر کا اندازہ تعلیمی بجٹ سے کیا جاسکتا ہے جو کل بجٹ کا 2 فیصد بنتا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل پچیس اے کے مطابق ہر شہری کو تعلیم کی سہولیات مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ کسی بھی حکومت نے اس آئینی ذمہ داری کو صحیح معنوں میں پورا نہیں کیا۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں تحقیق کا معیار عالمی سطع کے تحقیقی کام کے معیار سے بہت پست ہے جس کی وجہ مناسب سہولیات کا فقدان ہے۔ اسی وجہ سے ہماری کوئی بھی یونیورسٹی عالمی رینکینگ کی پہلی یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہے۔ اس میدان میں رہی سہی کسر پرائیویٹ یونیورسٹیز نے نکال دی جو طالب علموں سے لاکھوں روپے فیس وصول کرتی ہیں اور ڈگری اس کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں اور یونیورسٹیوں کے نگران اداروں میں کرپشن کے قصے اور جعلی ڈگریوں کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔
یہ غیر توثیق شدہ ادارے صف اول کے پاکستانی اخبارات میں آدھے آدھے صفحے پر محیط اشتہارات کے ذریعہ ہزاروں طلبہ کو داخلہ لینے کی ترغیب دیتے ہیں، طرح طرح کی سہولیات کا وعدہ کرتے ہیں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور حکومت پاکستان سے توثیق شدہ ہونے کے دعوے کرتے ہیں لیکن اس سارے عمل کے دوران حکومت یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن سمیت کوئی بھی ادارہ اعتراض نہیں کرتا
اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے حکومت نے بہت سی یونیورسٹیوں کو اپنے ذیلی کیمپس بنانے کی اجازت دی تھی تاکہ دوردراز علاقوں کے طالب علم بھی اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کر سکیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت مختلف سرکاری یونیورسٹیوں کے 17 کیمپس پبلک پرائیویٹ شراکت کے تحت چل رہے ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، سرگودھا یونیورسٹی اور گجرات یونیورسٹی کے مختلف شہروں میں کیمپسز قائم ہیں جن میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم ہیں جن سے لاکھوں روپے فیس کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ کیمپس گذشتہ کئی سالوں سے مختلف پروگرامز میں ایم فل، ماسٹرز اور بی ایس آنرز کروا رہے ہیں۔
ایک جانب اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں تو دوسری جانب جعلی اور غیر توثیق شدہ یونیورسٹیوں کی نشاندہی اور جوابدہی کا کوئی نظام فعال نہیں۔ یہ غیر توثیق شدہ ادارے صف اول کے پاکستانی اخبارات میں آدھے آدھے صفحے پر محیط اشتہارات کے ذریعہ ہزاروں طلبہ کو داخلہ لینے کی ترغیب دیتے ہیں، طرح طرح کی سہولیات کا وعدہ کرتے ہیں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور حکومت پاکستان سے توثیق شدہ ہونے کے دعوے کرتے ہیں لیکن اس سارے عمل کے دوران حکومت یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن سمیت کوئی بھی ادارہ اعتراض نہیں کرتا، ایف آئی اے سمیت کسی ادارے کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ جب طلبہ داخلہ لے لیتے ہیں، فیسیں جمع کرا دیتے ہیں تو پھر اچانک ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو خیال آتا ہے کہ وہ ان اداروں کی اسناد کی توثیق نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ ادارے ایچ ای سی سے منظور شدہ نہیں۔ یہ امر اس دوران یونیورسٹی انتظامیہ اور ایچ ای سی حکام ایک مرتبہ بھی عام کرنے کی زحمت نہیں کرتے لیکن جب طلبہ اپنا وقت اور سرمایہ صرف کر چکے ہوتے ہوں تب ایسے مسائل اچانک سر اٹھانے لگتے ہیں۔
ابھی لاہور کیمپس کے غیر قانونی ہونے کی اطلاعات گردش میں تھیں کہ نیب نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر خواجہ علقمہ کو گرفتار کرلیا۔
ایسا ہی معاملہ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی لاہور کے طلبہ کے ساتھ پیش آیا ہے۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے لاہور کیمپس میں چار ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ایم فل کی فی کس فیس تقریبا پونے تین لاکھ روپے وصول کی گئی ہے۔ داخلے کے وقت طلبہ کو انتظامیہ، پنجاب حکومت یا ایچ ای سی کی جانب سے قطعاً آگاہ نہیں کیاگیا کہ یہ ادارہ غیر توثیق شدہ ہے۔ طلبہ پر اچانک اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب انہیں اخبار کے ذریعے پتہ چلا کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی لاہور کیمپس کی ڈگری توثیق شدہ نہیں۔ لاہور کیمپس کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ نے اس کیمپس کی منظوری دی اور حکومت پنجاب کے اجازت نامے کے بعد کیمپس میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ سینڈیکیٹ کی منظوری کے بعد اس وقت کے وائس چانسلر خواجہ علقمہ نے کیمپس کھولنے کے اجازت نامے پر دستخط کیے تھے اور طلبہ کو یونیورسٹی کی طرف سے رجسٹریشن کا رڈ بھی مل رہے تھے۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور لاہور کیمپس انتظامیہ کی مشترکہ کمیٹی قائم تھی جو تعلیمی اور انتظامی امور سے متعلق اہم فیصلے کرنے کی مجاز تھی۔ ملتان کے مرکزی کیمپس کی ویب سائیٹ پر ذیلی کیمپسز میں آج بھی لاہور کیمپس کا نام موجودہے۔ مگر کچھ عرصے بعد یونیورسٹی کے یونیورسٹی کے اندرونی مسائل کی وجہ سے حقیقت کھلنے لگی اور بعض ذرائع ) جو مبینہ طور پر تعلیمی کاروبار سے وابستہ افراد کی ایماء پر( یہ خبریں دینے لگے کہ کیمپس غیر قانونی ہے، اس وقت تک طالب علموں کو یونیورسٹی انتظامیہ، حکومت اور ہائیر ایجوکیشن سمیت کسی بھی ادارے نے صحیح صورت حال سے آگاہ نہیں کیا۔ ابھی لاہور کیمپس کے غیر قانونی ہونے کی اطلاعات گردش میں تھیں کہ نیب نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر خواجہ علقمہ کو گرفتار کرلیا۔ قطع نظر اس کے کہ خواجہ علقمہ قصور وار تھے یا نہیں لیکن جس طرح ایک محقق اور ایک استاد کو گرفتار کیا گیا وہ بھی ہمارے معاشرے کے منہ پر نظام کا طمانچہ ہے۔ نیب اور پولیس والے انہیں مجرموں کی طرح گھسیٹ کر لے کے گئے جبکہ ان پر صرف یہ الزام ہے کہ انہوں نے لاہور میں بطور وائس چانسلر کیمپس کھولنے کی اجازت دی۔ یہ سراسر انتظامی معاملہ ہے اس میں کسی استاد کو جس کی ساری زندگی قوم کے نونہالان کی تعلیم وتربیت کرتے ہوئے گزری ہو اس طرح گصیٹ کر لے جانا بہت توہین آمیز ہے (واضع رہے جن پیسوں کی بات کی جارہی ہے وہ طلبہ کی فیسوں کے پیسے ہیں جو کیمپس انتطامیہ وصول کرتی رہی ہے وائس چانسلر کا ان پیسوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے)۔
تفصیلات کے مطابق لاہور کیمپس کی اجازت پنجاب حکومت نے ایک نجی کمپنی کو دی اس نے اس کیمپس کو اگلی پارٹی کو فروخت کردیا۔ اس کمپنی نے یہ کیمپس موجودہ چئیرمین لاہور کیمپس منیر بھٹی کو فروخت کردیا۔ منیر بھٹی اس کیمپس کو گذشتہ دو سالوں سے چلارہے تھے۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو بھاری رقم رشوت کی مد میں بھی ادا کی گئی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب بھی کروڑوں روپے رشوت مانگی گئی تھی جب رشوت کی رقم کیمپس انتظامیہ نے دینے سے انکار کیا تو یہ مسئلہ کھڑ اکردیا گیا۔ مگر ان تمام قانونی موشگافیوں میں ہزاروں طلبہ کا کیا قصور ہے جن کے مستقبل سے کھیلا جارہا ہے، جنہوں نے اپناقیمتی وقت ضائع کیا اور بھاری فیسیں بھی ادا کیں۔ اگر کوئی قانونی مسئلہ تھا تو حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اشتہار کے ذریعہ اس کا اعلان کیوں نہیں کیا۔ اگر میٹروبس، نندی پورپاور پراجیکٹ، قائداعظم سولر پراجیکٹ، اورنج ٹرین، موٹروے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی ذاتی تشہیر کے لیے اربوں کے اشتہار قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر چل سکتے ہیں تو اس اہم مسئلہ پر اشتہار کیوں نہیں دیا گیا۔ اس کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومتی اداروں اس وقت کہاں سوئے ہوئے تھے جب یہ سب کچھ ہورہا تھا؟ ہزاروں طلبہ کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ کیا ان طلبہ کو ان کی ڈگریاں ملیں گی؟
اس سے پہلے کہ ہزاروں طلبہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں، باقی یونیورسٹیوں میں کلاسز کا بائیکاٹ ہو، طلبہ وزیراعلی اور وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ کریں حکومت کو اس اہم مسئلہ کو فورا حل کرنا ہوگا۔
کیا حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر اس طرح کیمپس بند کیا گیا تو تنگ آمند بجنگ آمند کے مصداق ہزاروں طلبہ مجبوراً سڑکوں پر ہوں گے۔ اس سے پہلے کہ ہزاروں طلبہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں، باقی یونیورسٹیوں میں کلاسز کا بائیکاٹ ہو، طلبہ وزیراعلی اور وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ کریں حکومت کو اس اہم مسئلہ کو فورا حل کرنا ہوگا۔ قانونی مسائل جیسے بھی حل ہوں مگر طلبہ کو ان کی متعلقہ ڈگری بروقت ملنی چاہئیے ان کا تعلیمی سال اور پیسہ بالکل ضائع نہیں ہونا چاہئیے۔ وزیراعظم کے صرف اخباری بیان کے ذریعے نوٹس لینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا ذاتی دلچسپی بہت ضروری ہے۔ غریب طالب علموں کو اس بات کا ادراک ہے کہ وہ حمزہ شہباز ، مریم نواز، آصف زرداری، عمران خان، چوہدری نثار، اسحاق ڈار اور دیگر رہنماوں کے بچوں کی طرح بیرون ملک تعلیم حاصل نہیں کرسکتے مگر ان سے اس ملک میں ڈگریاں لینے کا حق تو نہ چھینا جائے۔ حکمرانوں اور دو فیصد اشرافیہ کی ترجیحات میں عوام کے بنیادی مسائل تعلیم ،صحت، روٹی،کپڑا، مکان اور روزگارشامل نہیں ہیں کیونکہ ان کے بچے تو یورپ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور انہیں ان مسائل سے فرق نہیں پڑتا۔ بجائے اس کہ انہیں تعلیم کی ایسی سہولیات دی جاتیں کہ وہ اپنا روزگار کماکر خود لیپ ٹاپ خریدنے کے قابل ہوجاتے حکمران اپنی ذاتی تشہیر کے لیے لیپ ٹاپ اور قرضے بانٹ کر نوجوانوں کی خودداری ختم کر رہے ہیں۔ سکولوں ،کالجوں کی کسمپرسی کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پنجاب کے دیہات میں ہزاروں سکول آج بھی ایسے ہیں جن میں چاردیواری، واش روم، پینے کا پانی، فرنیچر ، بجلی اور دیگر سہولیات نہیں ہیں۔ کالجوں اور سکولوں میں ہزاروں اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں۔ معیار تعلیم انتہائی ناقص ہے جبکہ دوسری طرف پرائیویٹ سکول ہزاروں روپے فیس کی مد میں وصول کرتے ہیں جو غریب اور متوسط طبقے کے لیے برداشت کرنا مشکل ہے۔ دوہرا نظام تعلیم ختم کرنے کے لیے کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں گیا۔ اکیڈمی مافیا بھی قبضہ مافیا، سیاسی اشرافیہ، بیوروکریسی مافیا اور کرپٹ مافیا کی طرح ایک بڑا مافیا بن چکا ہے مگر حکومت نے تعلیم عام کرنے اور معیار تعلیم بہتر بنانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کا قانون موجودہے مگر اس پر بھی عملدرآمد سیاسی مصلحتوں کی بنا پر نہیں ہوتا۔ حکمرانوں کو اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے تعلیمی نظام میں ہنگامی بنیادوں پر تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور تعلیم فروشوں کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی۔