Laaltain

بین المذاہب پیغامِ امن

13 جولائی، 2012

<

div style=”font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: 18px; direction: rtl; line-height: 30px;”>IYAلاہور کی مختلف مذہبی عبادگاہوں کے ایک روزہ دورے کی رودادپاکستان میں انتہا پسندی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔حیران کن بات ہے کہ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور باقی مذاہب کے لوگ بہت کم تعداد میں ہیں اس کے باوجود آئے روز مذہبی تضادات کی بنیاد پر خون خرابہ ہوتا رہتا ہے ۔صرف ایک صدی پہلے تک اسی سرزمین پر ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی، پارسی اور دیگر کئی مذاہب کے لوگ امن وامان سے رہ رہے تھے۔ان کے درمیان شاذونادر ہی مذہبی معاملات پر لڑائی جھگڑے ہوتے تھے اور اس بھائی چارے کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔پھر اب اچانک کیا ہو گیا کہ ہم ایک دوسرے کا وجود برداشت نہیں کر سکتے۔آج ہمارے درمیان فاصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ہمیں اپنے مذہب یا مسلک کی تعلیمات کے سوا سب فتنہ لگتا ہے۔شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس وقت ہمیں دوسرے عقائد کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع میسر تھالہذاہم ایک دوسرے کے عقائد کی عزت کرتے تھے۔آج ہمیں دوسرے مذاہب کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے عقائد، تعلیمات اور شعائر کیا ہیں؟ اسی لئے ہم ایک دوسرے سے خوفزدہ ہو کر دفاعی رویہ اپنا لیتے ہیں جو سردمہری اور پھر دشمنی کی حدوں تک پہنچ جاتا ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب تشدد اور نفرت کا سبق نہیں دیتا،لیکن یہ بات جاننے کے لئے ہمیں ایک دوسرے سے میل جول اور باہمی ہم آہنگی کو بڑھانا ہو گا ۔

26مئی کومفاہمت پیدا کرنے کی ایک ایسی ہی کوشش انٹر فیتھیوتھ ان ایکشن (IYA) کے زیر اہتمام کی گئی۔IYA مذہبی رواداری کے لئے کام کرنے والے نوجوانوں کی ایک تنظیم ہے۔انہوں نے چھ مختلف مذاہب کے مقدس مقامات کا دورہ کرنے کے لئے ایک بس ٹور کا انتظام کیا۔ اس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے تقریباََ50لوگوں نے شرکت کی۔ان میں مسلمان، ہندو، عیسائی اور سکھ شامل تھے۔ان لوگوں کو پروٹسٹنٹ چرچ، بہائی کمیونٹی سینٹر، کیتھولک چرچ،ہندو مندر، گردوارہ اور مسجد وزیر خان کا دورہ کروایا گیا۔

شرکاء کو سب سے پہلے پروٹسٹنٹ چرچ وارث روڈ لے جایا گیا جو کہ چرچ آف پاکستان بھی کہلاتا ہے۔پاکستان میں بڑی تعداد میں عیسائی آباد ہیں لیکن بہت کم لوگ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک عیسائیوں کا فرق جانتے ہیں۔فادر جون نے چرچ کی تاریخ اور پروٹسٹنٹ مسلک کے عقائد پر روشنی ڈالی۔انہوں نے عیسائیت میں انسان دوستی کے فلسفے پر بھی بات کی اور آخر میں لوگوں کے سوالوں کے جواب دیے۔انہوں نے چرچ کی نئی بلڈنگ، چرچ کے ارکان کا تعارف اور مذہبی رسومات کے بارے میں بھی لوگوں کو آگاہ کیا۔

اس کے بعد قریب ہی واقع بہائی کمیونٹی سینٹر کا دورہ کروایا گیا جہاں نوجوان بہائیوں نے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور بہائی مذہب کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پچاس لوگوں میں سے صرف دو یا تین لوگوں کو بہائی مذہب سے واقفیت تھی مگر وہ بھی صرف نام کی حد تک۔بہائی مذہب کے بانی حضرت بہآ اُللہ تھے جنہوں نے 1844میں ایران میں اس مذہب کی بنیاد رکھی۔ان کی تعلیمات کا اصول انسان کی روحانی شخصیت کو اس کی دنیاوی شخصیت سے قریب ترین کرنا ہے تاکہ انسان جدید دنیا کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے خالق کائنات سے بھی جُڑا رہے۔ اس مذہب کی روشن خیالی اور جدیدیت کا ثبوت یہ تھا کہ وہاں لوگوں کو بہائیت سے متعارف کروانے کے لئے کوئی عمر رسیدہ روحانی شخصیت نہیں تھی بلکہ تعلیم یافتہ ماڈرن نوجوان تھے جو اس کمیونٹی سینٹر میں سکول بھی چلا رہے ہیں کیونکہ بہائیت میں تعلیم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

بہائی سینٹر کے بعد انار کلی میں واقع ’مریم بے داغ کیتھولک چرچ‘ کا دورہ کیا گیاجو کہ پاکستان کاسب سے پرانا چرچ ہے۔ چرچ سے ملحق ایک سینٹ فرانسس ہائی سکول بھی ہے جہاں سے پاکستان اور متحدہ ہندوستان کی کئی عظیم شخصیات تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔مگراب یہ سکول کھنڈر بن چکا ہے ۔کیتھولک چرچ میں سری لنکا سے آئے ہوئے فادر ماریا نے حاضرین کو کیتھولک مسلک کے بارے میں بتایا اور لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ عیسائیت میں بت پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مریم مقدس اور یسوع مسیح کے بت علامتی طور پر بنائے جاتے ہیں اور ان کا مقصد ان بتوں کی پوجا کرنا نہیں ہوتا۔

’مریم بے داغ کیتھولک چرچ‘ کے بعدشرکاء کو نیلا گنبد انار کلی میں واقع بھگوان بالمیک کے مندر لے جایا گیا۔یہ مندر بہت خستہ حالت میں تھا، ایسا لگتا تھا کہ حکومت کی طرف سے مندر کے لئے کسی قسم کے فنڈز نہیں دئیے جاتے۔وہاں کوئی مذہبی شخصیت بھی لوگوں کی رہنمائی کے لئے موجود نہیں تھی اس لئے اندرون سندھ سے لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہوئے ایک ہندو طالبعلم تنیش کمارنے بھگوان بالمیک کا تاریخی پس منظر بیان کیا۔انہوں نے وضاحت کی کہ ہندومت میں بھی ایک خدا کو ہی مانا جاتا ہے ، سارے بھگوان اسی ایک خدا کے ہی اوتار ہوتے ہیں۔تنیش کمار اور ان کے ساتھی مندر کی حالت دیکھ کر بہت مایوس نظر آئے۔

دوپہر کے کھانے کے بعد گردوارہ ڈیرہ صاحب کا دورہ کیا گیا۔یہ گردوارہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دور حکومت میں بنوایا تھا اور اس کی سمادھی (مقبرہ) بھی یہیں واقع ہے۔یہ گردوارہ سکھوں کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ان کے پانچویں گرو’ ارجن دیو جی‘ کی سمادھی بھی یہیں ہے ۔یہاں شرکاء نے رنجیت سنگھ اور اس کے دو بیٹوں شیر سنگھ اور کھڑک سنگھ کی سمادھی کا دورہ کیا اور اس کے خوبصورت طرز تعمیر کو سراہا۔اس کے بعد گردوارے کے دوسرے حصے میں واقع گرو ارجن دیو جی کی سمادھی دکھائی جنہیں بادشاہ جہانگیر نے اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا اور وہ اسی مقام پر دریائے راوی میں اتر گئے تھے ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ نے راوی کو یہاں سے ۳ کلو میٹر دور تک پاٹ دیا اور یہاں ان کی سمادھی بنائی۔اس کے بعد لوگوں کو سکھوں کی عبادت گاہ دکھائی گئی جہاں ان کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب رکھی جاتی ہے۔اس موقع پر وہاں کے گرنتھی نے لوگوں کو سکھوں کی مذہبی رسومات کے بارے میں بتایا۔

آخر میں دلی دروازے کے اندر واقع مسجد وزیر خان لے جایا گیا۔ یہ مسجد 1634میں شیخ عماد الدین انصاری نے شاہجہاں کے دور حکومت میں بنوائی تھی۔یہ مغلیہ طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔اس کا ڈیزائن بادشاہی مسجد لاہور سے اخذ کیا گیا ہے۔مسجد کے صحن میں ایک درویش سید محمد اسحاق کا مقبرہ بھی ہے جو تیرھویں صدی میں ایران سے تشریف لائے تھے۔تاریخی اہمیت کی حامل یہ مسجد انتظامیہ کی غفلت کا شکار نظر آئی۔ در و دیوار پر جالے لگے ہوئے تھے اور دیواریں جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئیں تھیں۔یہاں غیر مسلم دوستوں کو اسلام کے بارے میں بتایا گیااور مسجد کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔

ٹور کے اختتام پر شرکاء سے تاثرات لینے پر اندازہ ہوا کہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک منفرد روحانی تجربہ تھا۔اس بات پر سب نے اتفاق کیا کہ اس دورے کے بعد نہ صرف دوسرے مذاہب کے بارے میں ان کی معلومات اور فہم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے بلکہ ان مذاہب کے لیے ان کے دل میں عقیدت و احترام بھی بڑھا ہے۔ اس خواہش کابھی اظہار کیا گیا کہ اس طرح کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *