Laaltain

بھارت شدت پسندی کی راہ پر

18 نومبر، 2015
ایک ارب تیس کروڑ انسانوں کی بستی یعنی بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کہا جاتا ہے۔ 1947ء میں برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد اس وقت کی کانگریسی قیادت نے زمانے کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ چونکہ بھارت ایک کثیر النسلی اور کثیر القومی آبادی پر مشتمل ایک وسیع وعریض خطہ ہے لہٰذا ملک کے سارے شہریوں کو یکساں حقوق دینے اور نسلی،لسانی اورمذہبی تعصبات سے بالاتر ہوکر سب کو مساوی شہری کا درجہ دینے کے لیے لازم ہے کہ ملک کا سیاسی نظام وفاقی طرز پر اور آئین سیکولر بنیادوں پر استوار کیا جائے (ایسانظامِ حکومت جس میں ریاستی معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہ ہو قانون کے مطابق سب شہریوں کو بلاتفریق مذہب، رنگ اور نسل برابر کے حقوق حاصل ہو سیکولر سیاسی نظام کہلاتا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے اپنا آئین سیکولر بنیادوں پر استوار کیا اور اپنے طرز حکمرانی کو سیکولر رکھنے کی کوشش کی۔ بھارتی قیادت کا یہ فیصلہ جرات مندانہ تھا کیوں کہ کثیر قومی ممالک کے لیے اس سے بہتر انتخاب موجود نہیں۔ ہندوستان کی معمار جماعت کانگریس ہندوستان میں ایک طاقتور سیاسی قوت کے طورپر موجود رہی ہے۔

 

بھارت کی 68سالہ تاریخ میں کانگریس کو حکمرانی کا موقع دیگر تمام جماعتوں کی نسبت زیادہ ملا ہے۔ کانگریس اپنے اعتدال پسند سیاسی نظریات کی بناء پر بھارت میں ایک سیکولر سیاسی قوت کے طورپر پہچانی جاتی ہے۔ لیکن حالیہ چند برسوں میں کانگریس کی خراب معاشی کارکردگی کی وجہ سے اس کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخاب میں انہیں بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اس کی جگہ سخت گیر بنیاد پرست اور رجعت پسند مذہبی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو ترقی اور خوشحالی کے نام پر زبردست کامیابی ملی۔ بی جے پی کے ساتھ آر ایس ایس اور ہندوتوا کی حامی دوسری سخت گیر سیاسی جماعتیں بھی کامیاب ہو کر ایوان اقتدار تک پہنچیں۔

 

بھارت اور پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات میں ترقی کے نام پر دائیں بازو کی رجعت پسند سیاسی جماعتیں حکومت میں آئی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کسی حد تک اپنے ماضی سے چھٹکارا پانے کے لیے کوشاں ہے اور سخت گیریت کی بجائے اعتدال پسندی کی جانب مائل دکھائی دیتی ہے۔
بھارت میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی:
بھارت اور پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات میں ترقی کے نام پر دائیں بازو کی رجعت پسند سیاسی جماعتیں حکومت میں آئی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کسی حد تک اپنے ماضی سے چھٹکارا پانے کے لیے کوشاں ہے اور سخت گیریت کی بجائے اعتدال پسندی کی جانب مائل دکھائی دیتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فیصلہ سازی میں کلیدی کردار اداکرنے والی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا مذہبی بنیاد پرستی سے ہٹ کر معتدل نظریات اپنانا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف نے اپنے حالیہ بیانات میں پاکستان کی ایک معتدل تصویر پیش کرنا شروع کر دی ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں نریندر مودی اور ان کے اتحادی سیکولر اور تکثیریت پر مبنی معاشرے کو بتدریج ایک ہندوبرہمنی معاشرے میں تبدیل کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھارتی حکومت اور اداروں کی جانب سے شخصی آزادیوں پر قدغن لگانے اور نصابی کتب میں حقائق مسخ کر کے پیش کرنے کی خبریں دے رہے ہیں۔

 

گھر واپسی کی تحریک:
ہندو برہمنی نظریات کے دوبارہ احیاء اور بھارتی معاشرے کو ہندومت میں تبدیل کرنے کی عرض سے مذہبی سیاسی جماعتوں نے”گھر واپسی”کے نام سے تحریک شروع کررکھی ہے۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد دوسرے خطوں سے آنے والے مذاہب مثلاً اسلام اور عیسائیت وغیرہ قبول کرنے والے افراد کو ہندوستان سے ابھرنے والے مذہب یعنی ہندو مت میں واپس داخل کرنا ہے۔ مذہبی احیاء کی یہ تحریکیں ہندوستانی ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ مذہبی تحریکوں کے سیاسی اثر میں اضافہ بھارتی جمہوریت کے لیے خطرناک ہے جو بھارت جیسے کثیر النسلی معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

 

تاریخ کا قتلِ عام:
بھارت میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تاریخ اور نصابی کتابوں کو ہندوتوا کے نظریات کے مطابق مرتب کیا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بی جے پی کی حکومت بھارت کی نصابی کتابوں میں تبدیلی لا کر ہندوانہ نظریات کو نصاب میں شامل کرنے اور سخت گیریت کو فروغ دینے کے حوالے سے کام کررہی ہے۔ حقائق کو مسخ کر کے سخت گیرہندو بنیاد پرست نظریات کو فروغ دینے کے لیے نصاب ازسرنو تشکیل دیا جا رہا ہے۔ تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں برہمنی نظریات کے فروغ کے لیے سخت گیر نظریاتی ہندووں کو اہم عہدے دیئے جا رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتحادی اور سخت گیر مذہبی جماعت آرایس ایس کے اعلیٰ عہدے داروں کے مطابق گزشتہ70سالوں کے دوران کانگریس نے ہندومذہب کو معاشرے سے باہر رکھا اب وقت آگیا ہے کہ ہندومت کوفروغ دیاجائے۔ یہی نہیں بھارت کے مذہبی طبقات نے سائنسی نظریات کو مذہبی بنیاد پرستی کے سانچوں میں ڈھال کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی قسم کے خیالات پاکستان کے مذہبی طبقات بھی پیش کرتے آئے ہیں جو آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت سے لےکر ایمبریالوجی اور جدید طب تک سبھی علوم قرآن کریم سے ماخوذ قرار دیتے ہیں۔ نامور ترقی پسند ادیب، دانشور اور مصنف جناب سبطِ حسن اپنی تصنیف”نویدِ فکر”میں اس مریضانہ ذہنیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،”مغرب(یورپ وامریکہ) کی طرف دوسرا رویہ فاخرانہ اور سرپرستانہ تھا جو ان دنوں ہمارے ملک میں بہت عام ہے یعنی اس بات پر بغلیں بجانا کہ ہزار برس پہلے مغرب کو تہذیب وتمدن کا درس ہم نے دیاتھا اور یہ دعویٰ کرنا کہ نظامِ شمسی ہویانظریہ ارتقاء، برقی قوت ہویا ایٹم بم، خلا میں پرواز ہو یا چاند کاسفر تمام سائنسی ایجادوں اور دریافتوں کا ذکر ہماری مقدس کتابوں اور علماء وحکماء کی تصنیفات میں پہلے سے موجود ہے۔ لہٰذا ہم کو مغرب(یورپ وامریکہ)سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں۔مہاسبھائی ہندوبھی وید اور پُران کے حوالے سے اسی قسم کے بے بنیاد دعوے کرتے تھے”۔(نویدِ فکر صفحہ104)۔

 

بھارت کے مذہبی طبقات نے سائنسی نظریات کو مذہبی بنیاد پرستی کے سانچوں میں ڈھال کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی قسم کے خیالات پاکستان کے مذہبی طبقات بھی پیش کرتے آئے ہیں جو آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت سے لےکر ایمبریالوجی اور جدید طب تک سبھی علوم قرآن کریم سے ماخوذ قرار دیتے ہیں۔
مذہبی اقلیتوں کے خلاف پرتشدد واقعات:
موجودہ بی جے پی سرکار کے آتے ہی مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ریاستی اداروں میں تعصب برتنے کے واقعات بڑھے ہیں۔ مشتعل بلوائیوں کی کارروائیوں میں شدت آئی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتارہاہے کہ قوموں کی زندگی میں حکمرانوں کے ایک غلط فیصلے کا خمیازہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ میں ضیاالحق کا ”تاریک دورِ حکومت” نہ آتا تو شاید ایک لاکھ کے قریب پاکستانی ناکردہ گناہوں کے جرم میں موت کی آغوش میں نہ چلے جاتے اور نہ ہی افغانستان کی سرزمین چالیس برس کے لیے آگ وخون کی دلدل میں دھنس جاتی۔ ضیاالحق نے اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لیے مذہب کا استعمال کیا، نصابی کتابوں اور تعلیمی اداروں میں مذہبی سخت گیریت، بنیاد پرستی اور رجعت پسندی کو فروع دیا جبکہ مذہبی اصلاحات کے نام پر اقلیتوں اور اعتدال پسند مسلمانوں کو دیوار سے لگا کر معاشرے میں موجود ترقی پسند افکار اور مذہبی رواداری کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ آج بھارت کی منتخب جمہوری حکومت پاکستانی آمر ضیاالحق کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہی غلطیاں دہرا رہی ہے جو پاکستان نے کی تھیں۔

 

چند ہفتے قبل جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے وادی میں گائے کی ذبیحہ کو ممنوع قرار دیا جس کے خلاف ورزی کی صورت میں ریاست کو سخت اقدامات اٹھانے کا حکم دیاگیا اس متنازعہ فیصلے بلکہ شخصی آزادیوں پر بدترین حملے کے بعد وادی کشمیر کے مسلمان اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھر پور احتجاج کیا اور جگہ جگہ کھلے عام گاؤکشی کرکے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ماننے سے انکارکیا۔ بحیثیت مجموعی وادئ کشمیر میں عدلیہ کے اس فیصلے کے بعد فضا انتہائی خراب ہے۔ اس کے چند ہی روز بعد عید الضحٰی کے موقع پر ریاست اترپردیش کے ایک گاؤں میں ہندوجنونیوں نے ایک مسلمان محمد اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے اور گھر پرجمع کرنے کے الزام میں گھر پر حملہ کر کے قتل کر دیا جبکہ ان کے بیٹے کو شدید زخمی کردیا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق “اترپردیش کے ایک گاؤں کے باسی محمد اخلاق کو گائے کاگوشت کھانے اور گھر میں ذخیرہ کرنے کے الزام میں قتل کردیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابقل گھر کے قریب واقع مندر کے لاؤڈاسپیکر پر اعلان ہوا کہ اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت ذخیرہ کرکے کھایاجارہاہے۔ اس اعلان کے بعد لوگوں کے ہجوم نے اخلاق کے گھر پر دھاوا بول دیا جس کی وجہ سے محمد اخلاق موقع پر ہی دم توڑ گیا جبکہ اس کے بیٹے کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیاگیا ہے”۔ لاؤڈ اسپیکر جیسے منحوس صوتی آلے کی تباہ کاریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہمارے ملک میں بھی اسی آلے کی مدد سے ہندووں، عیسائیوں اور اہلِ تشیع کے خلاف زہر اگل کر بستیوں کی بستیوں جلا کر خاکستر کی جاتی رہی ہیں۔ لاہور میں جوزف کالونی کوجلانے، کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کی بستی پر بموں کے حملوں، کورٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے جیسے کئی واقعات مذہبی جنونیوں کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ ہیں۔ قادیانی برادری کے خلاف مسلسل حملوں میں بھی لاؤڈ اسپیکر کی شیطانی آواز کا عمل دخل تھا البتہ آپریشن ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے طفیل رفتہ رفتہ اس منحوس آلے کے ذریعے تباہ کاریوں میں کمی آئی ہے۔ جونہی ہم (پاکستانی) اپنے ماضی کے تاریک دور سے چھٹکارا پا کر بہتری کی جانب گامزن ہوئے ہیں ٹھیک اسی وقت ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے آزاد خیالی اور سیکولر ازم کو خیر باد کہہ کر قدامت پسندی اور رجعت پرستی کی جانب سفر شروع کر دیا ہے۔ بھارتی سیاسی نظام میں یہ تبدیلی سارے معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے البتہ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کیابھارت تکثیریت اور سیکولرازم کی راہ پر واپس آئے گا یا پھر شدت پسندوں کے زیراثر اپنے لیے موت کا سامان پیدا کرے گا۔

 

حوصلہ افزا اقدام:
ایک طرف بھارت کی حکمران جماعت اور دائیں بازو کے انتہا پسند عدم برداشت کے فروغ میں ملوث ہیں تو دوسری جانب بھارت کی سول سوسائٹی بھارتی حکومت کی رجعت پسندی کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق بی جے پی حکومت کی سخت گیریت کے خلاف بھارت کے 200 سے زائد سرکردہ فلم ساز، قلم کار، ادیب، سائنسدان، مورخین اور فلم ساز اپنے ایوارڈز حکومت کو واپس کر کے حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جبکہ بی جے پی حکومت کے وزراء سول سوسائٹی کے ان اقدامات پر شدید اعتراضات کر رہے ہیں۔ لیکن بھارتی دانشوروں کے عدم برداشت کے خلاف احتجاج کو دیکھ کر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ شاید بھارتی معاشرہ شدت پسندی کی گرفت میں اس قدر آسانی سے نہیں آ سکے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *