Laaltain

بھائی، سب اونگھ رہا ہے

12 مئی، 2015
کائنات میں شام ہو گئی ہے
سب چیزیں
ٹہل رہی ہیں
فرشتے گھر چلے گئے ہیں
خدا اونگھ رہا ہے
ملکی وے
کل کی بچی ہے
وقت بہت چھوٹی چیز ہے

 

یہ آسمان نہیں ہے
یہ آنکھیں ہیں
یہ مجھے اور تمھیں دیکھ رہی ہیں
ہمیں دیکھ رہی ہیں
ہم کون ہیں؟
ہم گھبراہٹ ہیں

 

ہم شام کی اداسی سے
پانی میں سے گھبرا کر اٹھے ہیں
ہم اپنے ننگے سورج کے نیچے
اس تھوڑی سے روشنی میں
سر چھپا کر بیٹھے ہیں
ہم کبھی خود کو دیکھتے ہیں
کبھی باہر جھانکتے ہیں

 

یہ سیارے کی سواری
کب تک چلے گی؟
کیا ہماری نسلوں کی نسلیں
ہمیشہ اس شام کی آنکھوں میں
ڈوبتی رہیں گی؟
اتنا ہونے کے خیال سے ہی
انسان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے
خدا کا شکر ہے ہمیں
قسط وار شائع ہونے کی
اجازت ہے
اگر ہم ایک ہی ساتھ ہوتے
اور بس ہوتے ہی رہتے
تو کاش یہ سوچ کر ہی ہمیں
موت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے
موت بہت اچھی عورت ہے
یہ کچھ بھی ہو جائے
آپ کا بھلا ہی کرنے آتی ہے

 

میں سمجھتا ہوں ہر صاحبِ عقل کو
آخرت پر یقین رکھنا چاہیے
ہم انسانوں کو
گم ہو جانا زیب ہی نہیں دیتا ہے
ہر ایک انسان
ایک کائنات ہوتا ہے
وہ خدا خدا ہوتے ہو جاتا ہے
مرنے سے مر نہیں سکتا
یہ ہمارا غرور ہے

 

مگر کیسا غرور ہے؟
شام کی گھڑی سینہِ ہستی سے
چپک کر بیٹھی ہے
اور شرارت سے ہمیں
غرور کرتا دیکھ رہی ہے

 

ہم انسان اپنے ننگے سورج کے نیچے
ہمیں دھوپ کے پیچھے
اندھیرا نہیں نظر آتا
دھوپ خودکشی کرنے سے روکنے میں
مدد کرتی ہے

 

وقت ایک نوحہ گر ہے
یہ الو کا پٹھا ہمیشہ
روتا رہے گا
اس ماحول میں یہ مان بھی لینے سے
بہت فرق پڑتا ہے
کہ آوازیں کائنات کے باہر سے اندر
اور اندر سے باہر جاتی رہتی ہیں
تم کبھی اکیلے بیٹھ کر
بول کر دیکھو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *