Laaltain

بلیک ہول میں گرتا شخص

4 مئی، 2017

[blockquote style=”3″]

امانڈا جیفٹر کا یہ مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

[/blockquote]

تحریر: امانڈا جیفٹر
ترجمہ: فصی ملکspace:

 

یہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ہو سکتا ہے آپ خلا میں نسلِ انسانی کے لیے کوئی نیا قابلِ رہائش سیارہ ڈھونڈ رہے ہوں یا پھر ہو سکتا ہے آپ سیر کو نکلیں اور آپ کا پاؤں پھسل جائے۔جو بھی حالات ہوں، کہیں نہ کہیں ہم سب کو صدیوں پرانے اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ” کیا ہو اگر آپ ثقب اسود(Black hole) میں گِر جائیں؟”۔

 

ہو سکتا ہے آپ کچلے جانے یا ٹکروں میں تقسیم ہو جانے کی امید رکھیں ۔ لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔

 

جس لمحے آپ ثقب اسود میں داخل ہوتے ہیں ،حقیقت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ایک میں آپ فوراً ہی جل کر خاک ہو جائیں گے جب کہ دوسرے میں آپ صحیح سالم ثقب اسود میں داخل ہو جائیں گے۔

 

ثقب اسود ایک ایسی جگہ ہے جہاں طبیعیات کے قوانین، جیسا کہ ہمیں معلوم ہیں، ناکارہ ہو جاتے ہیں۔آئن سٹائن نے ہمیں بتایا ہے کہ انجذاب(gravity) سپیس کو موڑ کر منحنی کر دیتی ہے۔لہذٰا کسی کثیف جسم کی موجودگی میں زمان و مکان اتنے مڑ جاتے ہیں کہ یہ اپنے ہی اوپر حقیقت کی جالی (fabric of reality) میں ایک سوراخ بنا دیاتا ہے۔

 

ایک وزنی ستارہ ،جس کا ایندھن ختم ہو گیا ہو، اس طرح کی انتہائی کثافت پیدا کر سکتا ہے جو اس طرح کی منحنی جگہ پیدا کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔جب یہ اپنے ہی وزن کی تحت خود تصادم کا شکار ہوتا ہے تو زمان و مکان اس کے ساتھ منحنی ہو جاتا ہے۔ تجاذبی میدان اتنا قوّی ہو جاتا ہے کہ روشنی بھی باہر نہیں نکل پاتی۔ جس کی وجہ وہ جگہ جہاں کبھی ستارہ ہوا کرتا تھا مکمل تاریک ہو جاتی ہے، جسے ہم ثقب اسود کا نام دیتے یں۔

 

ثقب اسود کی بیرونی حد اس کا افق وقیعہ(event horizon) کہلاتی ہے۔یہ وہ نقطہ ہے جہاں پر کششِ ثقل روشنی کے فرار کی کوششوں کو صحیح طور پر منسوخ کر دیتی ہے۔اس سے تھوڑا آگے جانے پر واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔

 

افق وقیعہ توانائی سے فروزاں ہے۔اس کے کناروں پر دمکتے ذرات کی کرنیں پیدا ہوتی ہیں اور واپس کائنات میں خارج ہو جاتی ہیں۔ یہ ہاکنگ شعاعیں(Hawking radiations) کہلاتی ہیں ۔ یہ نام ان کو ماہر طبیعیات سٹیفن ہاکنگ کی وجہ سے دیا گیا ہے کیوں کہ اس نے ان کی پیشین گوئی کی تھی۔کسی بھی معقول وقت میں ثقب اسود اپنی کمیت کو خارج (radiate)کر کے فنا ہو جائے گا۔

 

جب آپ ثقب اسود کے اندر گہرائی میں جاتے ہیں تو سپیس اور منحنی ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ مرکز پر جا کر یہ لامتناہی منحنی ہو جاتی ہے۔ یہ واحدانیت(singularity) ہے۔یہاں پر زمان ومکان بے معنی تصورات بن جاتے ہیں اور قوانینِ طبیعیات کو جس شکل میں ہم دیکھتے ہے اور جن کے لیے زمان و مکان کی ضرورت ہوتی ہے لاگو نہیں ہوتے۔

 

کوئی نہیں جانتا کہ یہاں پر کیا ہوتا ہے۔ ایک اور کائنات؟ گم نامی؟ کتابوں کی الماری کی پشت1؟ یہ ایک پہیلی ہے۔

 

1

لہذٰا کیا ہو اگر آپ حادثاتی طور پر ان کونی کج رویوں(cosmic aberrations) میں سے کسی میں گر جائیں ۔آیئے اس کا آغاز آپ کے مکانی ساتھی سے پوچھ کر کرتے ہیں۔ہم اسے عینی کہہ کر پکاریں گے اور وہ دہشت سے آپ کا ثقب اسود میں گرنے کا منظر دیکھ رہی ہے۔جب کہ وہ خود باہر بحفاظت موجود ہے۔اس جگہ کے تناظر سے جہاں پر وہ معلق ہے، چیزیں بہت پراسرار(weird) ہونے والی ہیں۔

 

جیسے ہی آپ افق وقیعہ کی جانب اسراع پذیر ہوتے ہیں عینی دیکھتی ہے کہ آپ کھینچتے اور مروڑ کھاتے ہیں، بالکل ایسے جیسے وہ آپ کو کسی بہت بڑے تکبیری شیشے سے دیکھ رہی ہو۔مزید یہ کہ جیسے جیسے آپ افق کے قریب ہوتے جاتے ہیں ایسا دکھتا ہے جیسے آ پ کی رفتار آہستہ ہوتی جاتی ہے۔ چونکہ خلا میں ہوا موجود نہیں ہے اس لیے آپ اس کو پکار نہیں سکتے۔لیکن آپ اپنے آئی فون(iphone) کی ٹارچ سے اس کی طرف پیغام بھیج سکتے ہیں۔تاہم آپ کے الفاظ اس کی طرف بہت آہستگی سے پہنچنے لگتے ہیں۔ضیائی موجیں(light waves) کم سے کم سرخ تعدد کی طرف کھنچنے لگتی ہیں۔ سب ٹھیک ہے، سب۔۔ٹھیک۔۔ہے۔۔۔۔۔۔۔سب۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔space:

 

جب آپ افق پر پہنچتے ہیں تو عینی دیکھتی ہے کہ آپ جامد ہو گئے ہیں، جیسے کسی نے جامدی کھٹکے(pause button) کو دبا دیا ہو۔آپ وہاں افق کی سطح پر بے حس و حرکت پھیلے رہتے ہیں جب بڑھتی ہوئی تپش آپ کو اپنی لپیٹ میں آ لیتی ہے۔

 

عینی کے مطابق آپ سپیس کے پھیلاؤ، وقت کے ٹھہراؤ اور ہاکنگ شعاعوں کی وجہ سے مٹ جاتے ہیں۔ثقب اسود کی تاریکی میں داخل ہونے سے پہلے آپ راکھ میں بدل جاتے ہیں۔لیکن آپ کے جنازے کی ترکیب کرنے سے پہلے آیئے ہم عینی کو بھول کر اس حالت کو آپ کے نقطہِ نظر سے دیکھیں۔اب پہلے سے بھی زیادہ عجیب چیز واقع ہوتی ہے۔ آپ کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔

 

آپ بنا کسی جھٹکے یا دھکے کیے قدرت کے سب سے مشکل منزل کی جانب چل پڑتے ہیں۔اور یقیناً اس میں نہ آپ کا بدن کھینچتا ہے، نہ آپ کی رفتار کم ہوتی ہے اور نہ ہی شعاعیں آپ کو جلا کر خاک کرتی ہیں۔ایسا اس لیے ہے کیوں کہ آپ آزادانہ گر رہے ہیں اور آپ کوئی تجاذب محسوس نہیں کرتے۔تجاذب وہ شئے ہے جسے آئن سٹائن نے اپنےمسرت ترین خیال کا نام دیا تھا۔

 

جو بھی ہو افق وقیعہ خلا میں تیرتی اینٹوں سے بنی دیوار کے جیسا تو ہے نہیں ۔یہ اپنے اپنے پس منظر کی بات ہے۔ایک مشاہد جو ثقب اسود کے باہر رہتا ہے اس کے اند نہیں دیکھ سکتا۔ مگر یہ آپ کا مسلہ نہیں ہے، جہاں تک آپ کا تعلق ہے تو وہاں کوئی افق (وقیعہ) نہیں ہے۔

 

یقیناً اگر ثقب اسود چھوٹے ہوتے تو آپ کے لیے مسلہ ہوتا۔کششِ ثقل آپ کے سر کی نسبت آپ کے پاؤں پر بہت زیادہ ہوتی اور یہ آپ کو سپاگٹی(spaghetti) کے ٹکرے کی طرح کھینچ کر سیدھا کر دیتی۔لیکن خوش قسمتی سے یہ ایک بڑا ثقب اسود ہے، سورج سے بھی لاکھوں گنا وزنی۔اور اس لیے آپ کو کھینچنے والی قوتیں اتنی نحیف ہیں کہ نظر انداز کی جا سکتی ہیں۔ درحقیقت ایک بڑے ثقب اسود میں آپ واحدانیت پر مرنے سے پہلے اپنی زندگی معمول کے مطابق گزار سکتے ہیں۔

 

یہ جان لینے کے بعد کہ آپ ایک شق ہوئے زمان و مکان کے متسلسلہ میں، جس میں آپ اپنی مرضی کے خلاف کھینچے چلے جا رہے ہیں اور واپس بھی نہیں مڑ سکتے، آپ یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ یہ زندگی کتنی معمول کے مطابق ہو گی۔

 

لیکن جب ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں زمان نا کہ مکان کے تجربے سے اس کا جواب معلوم ہے۔وقت ہمیشہ آگے کی جانب بڑھتا ہے نا کہ پیچھے کی طرف اور یہ ہمیں ہماری مرضی کے خلاف اپنے ساتھ کھینچ لے جاتا ہے۔او ہمیں واپس مڑنے سے باز رکھتا ہے۔یہ صرف ایک تمثیل(analogy) نہیں ہے بلکہ ثقب اسود زمان و مکان کو اس نہج تک خمیدہ کر دیتے ہیں کہ اس کے اندر زمان و مکان اپنا کردار بدل لیتے ہیں۔ایک طرح سے یہ زمان(وقت) ہی ہے جو آپ کو واحدانیت کی جانب کھینچتا ہے۔آپ واپس مڑ کر ثقب اسود سے نکل نہیں سکتے بالکل ایسے ہی جیسے آپ واپس مڑ کر ماضی میں سفر نہیں کر سکتے۔

 

آپ یہاں پر خود سے ایک سوال کرنا چاہیں گے کہ آخر عینی کئ ساتھ کیا مسلہ ہے۔ اگر آپ ثقب اسود کے اندر لطف انداز ہو رہے ہیں اور آُ کے اردگرد خالی فضا کے علاوہ کچھ بھی عجیب نہیں ہے تو وہ کیوں اس بات پر بضد ہے کہ آپ افقِ وقیعہ کے باہر شعاعوں کی وجہ سے جل کر بھسم ہو چکے ہیں۔کیا وہ فریبِ نظر میں ہے؟space:

 

فی الواقع عینی بالکل معقول بات کر رہی ہے۔ اس کے نقطہِ نظر سے آ پ واقعی افق وقیعہ پر جل کر خاک ہو چکے ہیں۔یہ کوئی فریبِ نظر نہیں ہے۔ حتٰی کہ وہ آپ کی راکھ اٹھا کر واپس آپ کے پیاروں کو بھی بھیج سکتی ہے۔

 

درحقیقت قوانینِ قدرت یہ تقاضا کرتے ہیں کہ عینی کے پس منظر سے آ پ ثقب اسود کے باہر ہی رہیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کیوں کہ کوانٹم میکانیات یہ تقاضا کرتی ہے کہ معلومات(information) کھو یا گم نہیں ہو سکتی۔معلومات کا ہر وہ ذرہ جو آپ کے وجود کا اظہار کرتا ہے اس کو افق وقیعہ کے باہر رہنا ہو گا۔سوائے اس کے کہ عینی کے قوانینِ طبیعیات ٹوٹ جائیں اور لاگو نہ ہوں۔

 

دوسری جانب قوانیںِ طبیعیات اس بات کے بھی متقاضی ہیں کہ آپ گرم ذرات یا کسی بھی خلافِ معمول شئے کا سامنا کیے بنا افق وقیعہ سے گزر جائیں۔نہیں تو آپ آئن سٹائن کے مسرت آمیز خیال اور اس کے عمومی نظریہ اضافیت کی خلاف ورزی کر دیں گے۔لہٰذا طبیعیات کے قوانین اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ آپ دونوں جگہوں یعنی ثقب اسود کے باہر راکھ کے ڈھیر میں اور اس کے اند زندہ سلامت موجود ہوں۔

 

فزکس کا ایک تیسرا قانون بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ معلومات کو نقل نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کو دونوں جگہوں پر موجود ہونا ہو گا۔ لیکن آپ کی صرف ایک کاپی(copy) موجود ہے۔

 

ہو نہو طبیعیات کے قوانین ایک ایسے نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو بے معنی ہے۔سائنس دان اس اشتعال آمیز معمہ کو ثقب اسود معلوماتی تناقضہ(black hole information paradox) کا نام دیتے ہیں۔

 

لیونارڈ سسکنڈ(Loenard Susskind) نے محسوس کیا کہ یہاں کوئی تناقضہ نہیں ہے۔ کیوں کہ کوئی ایک آدمی بھی آپ کی نقل(clone) نہیں دیکھ سکتا۔عینی آپ کی صرف ایک کاپی دیکھتی ہے۔آپ بھی اپنی ایک ہی کاپی دیکھتے ہیں۔ عینی اور آپ کبھی اپنے نوٹس (notes) نہیں بانٹتے اور یہاں کوئی تیسرہ مشاہد بھی نہیں ہے جو بیک وقت ثقب اسود کے اندر اور باہر دیکھ سکے۔لہٰذا طبیعیات کا کوئی قانون نہیں ٹوٹتا۔

 

جب تک آپ اس بات کی خواہش نہ کریں کہ کون سی کہانی سچی ہے، کیا آپ حقیقت میں مر گئے ہیں یا پھر زندہ ہیں؟ ایک اہم راز جو ثقب اسود نے ہم پر آشکا رکیا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت اس پر منحصر ہے کہ آپ کس سے پوچھتے ہیں۔یہاں ایک عینی کی حقیقت ہے اور یہاں ایک آپ کی حقیقت ہے۔ اختتامِ کہانی۔

 

خیر، 2012 کی گرمیوں میں طبیعیات دانوں احمد المحیری، ڈونلڈ مارولف، جو پولچنسکی،اور جیمز سُلی ، جو کہ AMPS کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے ایک تخیلاتی تجربہ پیش کیا جو ثقب اسودوں کے بارے میں ہر اس چیز کے اختتام کا پیش خیمہ تھا جو ہم سمجھتے تھے کہ ہم جانتے ہیں۔

 

انہوں نے محسوس کیا کہ سسکنڈ کا حل اس صورت میں امر پر مبنی تھا کہ عینی اور آپ کے درمیان عدم اتفاق افق وقیعہ کے سبب ہے۔اس سے کوئی مسلہ اس لیے پیدا نہیں ہوا کیوں کہ عینی نے صرف ہاکنگ شعاعوں کے درمیان بکھرا ہو بدقسمت ورژن(version) دیکھا کیوں کہ افق وقیعہ نے اس کو آپ کا دوسرا وورژن، جو ثقب اسود کے اندر تیر رہا تھا، دیکھنے سے باز رکھا۔ لیکن کیا ہو اگر عینی کے پاس افق وقیعہ کو پار کیے بنا اس کے اندر جھانکنے کا کوئی ذریعہ موجود ہو؟

 

عام طور پر اضافیت اس کا جواب ‘نہیں’ میں دے گی۔لیکن کوانٹم میکانیات اصولوں کو تھوڑا مبہم بنا دیتی ہے۔یہ ممکن ہے کہ عینی ایک چال، جس کو آئن سٹائن نے” جادوئی فوری اثر(ghostly action at a distance)” کا نام دیا،کا استعمال کرتے ہوئے افق وقیعہ کے پار کی ایک جھلک دیکھ سکے؟
ایسا اس وقت ہوتا ہے جب دو ذرات مکان(space) میں ایک دوسرے سے دور مگر الجھاؤ(entanglement) کی حالت میں ہوتے ہیں۔وہ ایک ناقابلِ تقسیم کُل کا حصہ ہوتے ہیں، لہٰذا وہ معلومات جس کی ان کے اظہار کے لیے ضرورت ہوتی ہے دونوں کے مابین جادوئی تعلق میں پائی جاتی ہے نا کہ کسی ایک میں۔
AMPS تصور کچھ اس طرح سے ہے۔ فرض کریں کہ افق وقیعہ کے پاس عینی معلومات کا کچھ حصہ حاصل کر لیتی ہے، ہم اس کو A کا نام دیتے ہیں۔اگر اس کی بات صحیح ہے اور آپ مر کر ہاکنگ شعاعوں میں بکھر چکے ہیں تو A معلومات کے کچھ اور حصے ‘B’ کے ساتھ الجھا ہو گا جو خود بھی شعاعوں کی گرم کرنوں کا حصہ ہے۔

 

اس کے برعکس اگر آپ کی بات صحیح ہے جس میں آپ افق وقیعہ کے پار صحیح سلامت موجود ہیں تو پھر A لازمی طور پر معلومات کے ایک اور حصے C کے ساتھ الجھا ہو گا جو ثقب اسود کے اندر کہیں موجود ہے۔

 

یہ رہا سب سے اہم نقطہ: معلومات کا ہر حصہ صرف ایک(ایک وقت میں) بار الجھ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ A صرف B کے ساتھ الجھ سکتا ہے یا پھر C کے ساتھ، نا کہ دونوں کے ساتھ۔

 

لہٰذا عینی حصہ A ؒیتی ہے اور اپنی گھماؤ ڈیکوڈنگ مشین(entanglement decoding machine) میں ڈال دیتی ہے، جو اس کا جواب فراہم کرتی ہے۔جو یا تو B ہو سکتا ہے یا پھر C۔اگر جواب C آتا ہے تو آپ کی کہانی جیت جاتی ہے مگر قوانینِ طبیعیات ہار جاتے ہیں۔اگر A ،C کے ساتھ الجھا ہوا ہے جو کہ ثقب اسود کے اندر کہیں موجود ہےتو معلومات کا کچھ حصہ عینی سے ہمیشہ کے لیے کھو جاتا ہے اور یہ کوانٹم کے قانون کو توڑ دیتا ہے کہ معلومات کھو نہیں سکتی۔
باقی B بچتا ہے۔ اگر عینی کی ڈیکوڈنگ مشین یہ بتاتی ہے کہ A ،B کے ساتھ الجھا ہوا ہے تو وہ جیت جاتی ہے اور عمومی اضافیت ہار جاتی ہے۔اگر A ، B کے ساتھ الجھا ہوا ہے تو عینی کی داستان صحیح ہےجس کا مطلب یہ ہوا کہآپ حقیقت میں جل کر راکھ ہو گئے ہیں۔ افق وقیعہ سے صحیح سلامت گزر جانے کی بجائے، جیسا کہ اضافیت کہتی ہے،آپ ایک بھڑکتی آتشیں دیوار سے ٹکرا جاتے ہیں۔

 

تو اب ہم پھر وہیں پہنچ گئے ہیں جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا۔ کہ کیا ہوتا ہے جب آپ ثقب اسود میں گرتے ہیں؟ کیا آپ اس سے صحیح سلامت گزر کر معمول کی زندگی گزارتے ہیں؟(حقیقت کا شکریہ جو حیران کن حد تک مشاہد پر منحصر ہے) یا پھر آپ ثقب اسود کے افق وقیعہ تک ایک آتشیں دیوار سے ٹکرانے جاتے ہیں؟
کوئی اس کا جواب نہیں جانتا اور یہ بنیادی طبیعیات کے متنازع سوالوں میں سے ایک بن گیا ہے۔

 

طبیعیات دانوں نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ عمومی اضافیت اور کوانٹم میکانیات کو باہم ہم آہنگ کرنے پر صرف کیا ہے، یہ مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ بالآخر کسی ایک کو ہار ماننا ہو گی اور آتشیں تناقضے کا حل ہمیں بتائے گا کہ کس کو۔اور کائنات کے ایک مزید دقیق نظریے کی طرف ہمیں راستہ دکھائے گا۔

 

ایک سراغ ہمیں عینی کی ڈیکوڈنگ مشین سے مل سکتا ہے۔ یہ پتا لگانا کہ معلومات A کا دوسرا حصہ کس کے ساتھ الجھا ہے ایک غیر معمولی پیچیدہ مشکلہ ہے۔پرنسٹن یونیورسٹی کے ڈینیل ہارلو اور سٹانفرڈ یونیورسٹی کے پیٹرک ہیڈن نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ یہ کتنا عرصہ لے گا۔

 

2013 میں انہوں نے اس کا حساب اس بنیاد پر لگایا کہ فرض کریں ہمارے پاس وہ تیز ترین کمپیوٹر موجود ہے جس کی اجازت طبیعیات کے قوانین دیتے ہیں۔عینی کو گھماؤ کو ڈیکوڈ (decode) کرنے کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔جب اس کے پاس اس کا جواب آئے گا تب تک آتشیں دیوار کو اپنے ساتھ لیے ثقب اسود بخارات بن کر کائنات سے غائب ہو چکا ہو گا1۔

 

اگر یہ بات ہے تو مشکلے کی پیچیدگی عینی کو یہ پتا لگانے سے کہ کون سی داستان صحیح ہے، ہمیشہ باز رکھے گی۔اس سے دونوں کہانیاں بیک وقت سچ ہو جاتی ہیں۔حقیقت حدِ تجسس تک مشاہد پر منحصر ہے۔ قوانینِ طبیعیات بالکل صحیح ہیں اور کس کو بھی ناقابلِ وضاحت آتشیں دیوار کےسامنے کا خطرہ نہیں ہے۔
یہ سوچنے کے لیے طبیعیات دانوں کو ایک نیا نقطہ بھی دیتا ہے۔ ” گنجلک حسابات اور زمان و مکان کے درمیان حیران کن تعلقات”، جیا کہ وہ حساب جوعینی نہیں کر سکتی۔ یہ کسی دقیق راز کی جانب راستہ بھی کھول سکتا ہے۔

 

ثقب اسودوں کی یہ بات تو ہے۔ وہ خلانوردوں کے لیے پریشان کن رکاوٹیں ہی نہیں بلکہ نظری تجربہ گاہیں بھی ہیں۔جو قوانینِ طبیعیات میں ہلکے بگاڑ کو لیتی ہیں اور پھر انہیں اس تناسب سے افزوں(amplify) کرتی ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

 

اگر حقیقت کی ماہیت کہیں پوشیدہ ہے تو ڈھونڈنے کے لیے بہترین جگہ ثقب اسود ہیں۔ بہتر یہی ہو گا کہ باہر سے ہی دیکھیں۔ کم از کم اس وقت تک جب تک وہ یہ پتا نہ لگا لیں کہ یہ آتشیں دیوار کیا چیز ہے۔یا پھر اب عینی کو اندر بھیجیں، ویسے بھی اب اس کی باری ہے!!!

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

1۔ یہاں پر کتابوں کی الماری کا حوالا انگریزی فلم بین النجوم(Interstellar) سے منسوب ہے۔ جہاں پر ہیرو ثقب اسود میں گرنے کے بعد پانچ جہتی سپیس میں پہنچ جاتا ہے اور وہاں پر کتابوں کی الماریوں کی پشت سے وہ اپنے گھرکا منظر دیکھتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *