Laaltain

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

8 جولائی، 2016

[block­quote style=“3”]

Vir­tu­al Tex­tu­al Prac­ti­cal Crit­i­cism “قاری اساس تنقید” کی مجموعی تھیوری کے تحت وہ طریقِ کار ہے، جس میں طلبہ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کسی نظم یا نظمیہ فارمیٹ کے متن پر عملی تنقید کیسے لکھی جائے۔ اس کے لیے شاعر کے نام کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (اگر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے نجی حالات، سیاسی یا مذہبی خیالات، ہم عصر شاعری کی نہج یا ہم عصر شعرا کا تتبع یا مخالفت وغیرہم کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جانا ضروری ہے، گویا کہ آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ یہ نظم کس شاعر کی ہے)۔صرف سامنے رکھے ہوئے متن پر ہی انحصار کرنے کے لیے یہ طریق ِ کار اختیار کیا جائے۔ متن میں مشمولہ تمام Prop­er and Com­mon Nouns اسماء کے ہم معنی الفاظ، یعنی homonyms یا ان کے متبادل الفاظ کی فہرست تیار کر لی جائے۔ اب ہر اس اسم (اسم، اسم ِ ضمیر، اسم معرفہ، نکرہ، آلہ، تصغیر، تکبیر، وغیرہ) کے سامنے بنائی گئی فہرست کے ہر ایک لفظ کو استعمال کیے گئے لفظ کی جگہ پر رکھ کر دیکھا جائے کہ کون سا لفظ شاعر کی منشا یا مطلب کو براہ راست یا استعارہ یا علامت کے طور پر زیادہ واضح طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اب تنقید لکھتے ہوئے ان الفاظ کو زیر ِ بحث لایا جائے اور آخری پیرا گراف میں اپنی find­ings تفصیل سے لکھی جائیں۔ اس طریق کار کے تحت تنقید کا مضمون یورپ اور امریکہ میں پڑھایا جا رہا۔ یہ منظوم سلسلہ “خامہ بدست غالب” غالب کے کلام کو Vir­tu­al Tex­tu­al Prac­ti­cal Crit­i­cism کے تحت سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ ستیہ پال آنند

[/blockquote]

غالب کے اشعار پر ستیہ پال آنند کی نظموں پر مشتل سلسلے ‘خامہ بدست غالب’ میں شامل مزید نظمیں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

شعر
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا
الفاظ کی فہرست
‘بس کہ’ یعنی’ کہ عیاں ہے یہ بات’
‘کام’ یعنی کہ’ کوئی کارِ حیات’
کاروائی کوئی، کارگزاری کوئی فعل
اس کی تکمیل، نیابت نہیں ’آساں‘، یعنی
کوئی بھی کام ہو، ’دشوار‘ سدا ہوتا ہے
نظم
یہ اگر طے ہے کہ ہر کام بہت مشکل ہے
پوچھیں خود سے کہ بھلا کیسے کوئی آدم زاد
اپنا اعصاب زدہ خاکہ بدل سکتا ہے
ایک حیوان جو ‘ناطق’ تو ہے، لیکن پھر بھی
‘جیِنز’ میں اپنے وہی علم الابدن رکھتا ہے
جسے ہم عالمِ ناسوت کے اس بخرے میں
‘چلتی پھرتی ہوئی مخلوق’ کہا کرتے ہیں
جسم و خوں، گوشت، تنفس وہی، تجسیم وہی
وہی راحت، وہی تکلیف، وہی سُکھ، وہی دُکھ
تپ وہی، یخ وہی، مرطوب وہی، خشک وہی
فرق، ہاں، ہے تو سہی، سمجھیں تو۔۔۔۔
“آدمی کو بھی میّسر نہیں انساں ہونا”!

 

اِنس کیا ہے؟ فقط ہم وضعی؟
ذات یا شکل میں ملحق ہونا
نسلِ آد م کا ہی نطفہ ہونا؟
جی نہیں۔۔۔۔
“اِنس”، انسان کا وہ خاص توافق ہے، کہ جو
نسلِ آدم کو ہی ’انسب‘ میں بدل دیتا ہے
بہتری، شستگی، تہذیب، ثقافت جس کے
سولہ سنگھار ہیں، زیبائی، دلآرائی ہیں
خیر، انصاف، صدق، صلح صفائی جس کے
لعل، پکھراج ہیں، ہیرے ہیں، کھرے موتی ہیں
نیک پروین کوئی، نابغہ، ابطال کوئی
یہی ‘انسان’ ہے، جس کے لیے شاعر نے یہاں
جزع و فزع میں شاید یہ لکھا ہے مصرع
“آدمی کو بھی میّسر نہیں انساں ہونا”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *