Laaltain

باچا خان؛ ایک ‘غدار’ کی سوانح عمری

20 فروری، 2016
سن اٹھارہ سو نوے عیسوی کو ہشت نگر کے اتمان زئی گاﺅں کی ایک نامور شخصیت خان بہرام خان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی، جس کا نام انہوں نے خان عبدالغفار خان رکھا۔ دنیا آج اسے باچاخان کے نام سے جانتی ہے۔ خان عبدالغفارخان کی پیدائش کے وقت اس علاقے میں تعلیم و تعلم کا کوئی خاص بندوبست نہیں تھا۔ البتہ ”مسجدوں میں کسی قدر مذہبی تعلیم کے نام سے درس و تدریس کا تھوڑا بہت انتظام تھا۔ لیکن وہ ملا لوگوں کے لئے تھا اور اکثر لوگ یہ تعلیم امامت کے لئے حاصل کیا کرتے تھے۔ عام پختونوں کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی“۔ ( آب بیتی خان عبدالغفارخان صفحہ۹)۔

 

اس دور کے علمائے کرام جدید علم کو کفر کہہ کر ہر وقت یہ شعر گنگناتے تھے ۔

 

ملا بے چارہ تو خود ہی علم وادب سے بے بہرہ اور لکھنے پڑھنے سے عاری تھا وہ بھلا مجھے کیا پڑھاتا اور لکھاتا۔
سبق چہ دمدرسے وائی پارہ دپیسے وائی
جنت کے بہ زائے نہ وی دوزخ کے بہ گھسے وہی

 

”جو لوگ مدرے میں سبق پڑھتے ہیں وہ پیسوں کی خاطر ایسا کرتے ہیں۔ ان کو جنت میں جگہ نہیں ملے گی وہ دوزخ میں دھکے کھاتے رہیں گے“۔

 

خان عبدالغفار خان کی عمر ابھی پانچ چھ برس تھی تو والدین نے انہیں مسجد میں ملا کے ہاں داخل کرایا اوریوں ان کی تعلیمی زندگی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ البتہ مولوی صاحب کی اپنی علمیت کا یہ عالم تھا ”ملا بے چارہ تو خود ہی علم وادب سے بے بہرہ اور لکھنے پڑھنے سے عاری تھا وہ بھلا مجھے کیا پڑھاتا اور لکھاتا۔ اسے قرآن شریف کی چند ایک سورتیں یاد تھیں نیز وہ قرآن پڑھ تو سکتا تھا، لیکن معنی و مطلب بالکل نہیں سمجھتا تھا۔ ملا صاحب نے مجھے سپارہ پڑھانا شروع کر دیا“( آب بیتی ۔ص 9)

 

کچھ عرصے بعد خان عبدالغفار خان نے قرآن ختم کیا۔ چونکہ علاقے میں مزید تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا، البتہ بڑے شہروں میں کہیں کہیں مدرسے ہوا کرتے تھے۔ لیکن رسم ورواج کی بندشوں میں جکڑے ہوئے لوگ اپنے بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کر کے ’دوزخ کاایندھن‘ بنانا نہیں چاہتے تھے اور انہیں جاہل رکھ کر اگلے جہان کے لئے جنت حاصل کرتے تھے۔ خان بہرام خان نے روایت کے ان بتوں کو توڑتے ہوئے اپنے فرزند کو جدید تعلیم کے لئے مدرسے میں داخل کرایا۔ باچاخان نے سکول کی ابتدائی تعلیم پشاور کے میونسپل ہائی سکول سے حاصل کرنے کے بعد پشاور ہی میں واقع مشن ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ وہاں میٹرک کا امتحان دے رہے تھے تو اسی دوران ان کے سر پر فوج میں شامل ہونے کا بھوت سوار ہو گیا۔ ڈائریکٹ کمیشن کی درخواست دی جو منظور ہوئی لیکن اپنے باغیانہ خیالات کی بنا پر وہ فوج کی نوکری کو عمربھر کے لئے دل سے نکال باہر پھینکا۔ بعدازاں مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ چلے گئے اور وہاں کسی کالج میں داخلہ بھی لیا لیکن بعد میں اسے بھی خیر باد کہہ دیا۔

 

انیس سو دس عیسوی میں انگریزوں نے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کو پنجاب سے علیحدہ کر کے یہاں”فرنٹیر کرائم ریگولیشن ایکٹ“یعنی ایف سی آر نافذ کر دیا جو وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں تاحال رائج ہے۔ باچاخان اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں۔ ”جو آدمی انگریزکو ناپسند ہوتا تھا اس پر پولیس ایک فرضی مقدمہ بنا دیتی ایسے مقدموں میں ثبوت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ فرنگی اس آدمی پر جرگہ بٹھا دیا کرتا تھا، اہلِ جرگہ بھی ان کے اپنے ہی آدمی ہوا کرتے تھے جو اس آدمی کو چودہ سال قید کی سزا دے دیتے تھے۔“( آب بیتی،خان عبدالغفارخان صفحہ ۹۱)

 

جو آدمی انگریز کو ناپسند ہوتا تھا اس پر پولیس ایک فرضی مقدمہ بنا دیتی ایسے مقدموں میں ثبوت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
اس کالے قانون کے خلاف جگہ جگہ ردِ عمل سامنے آیا۔ لیکن انگریز اور ان کے دیسی بہی خواہ ایف سی آر کی مدد سے کسی بھی ردِ عمل کو سختی سے کچل ڈالتے تھے۔ انیس سو اکیس عیسوی میں باچاخان نے دوستوں کے ہمراہ اتمان زئی میں ایک آزاد ہائی سکول کی بنیاد ڈالی، اس سکول میں باچاخان کے ساتھ قاضی صاحب عطااللہ، میاں احمد شاہ، حاجی عبدالغفار، خان محمد عباس خان، عبدالاکبر خان، تاج محمد خان، عبداللہ شاہ اور خادم محمد اکبر جیسے لوگ شامل تھے۔ اسی دور میں باچاخان نے پشتونوں کی علمی اصلاح کے لئے ’انجمنِ اصلاح الافاغنہ‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل انیس سو دس میں مولوی عبدالعزیر اور باچاخان کی کوششوں سے اتمان زئی میں ایک قومی مدرسہ قائم ہوا تھا۔ انہی کی کوششوں سے صوبہ بھر میں اوربھی بہت سارے مدرسے قائم ہوئے۔ ”رفتہ رفتہ لوگوں میں تعلیم کا شوق پیدا ہو گیا اس زمانے میں ظفر علی خان کے اخبار ’زمیندار‘ اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ’الہلال‘، ’البلاغ‘ اور ’مدینہ‘ کو دنیائے صحافت میں بڑی شہرت حاصل تھی اور انہیں ہم بھی منگوایا کرتے تھے“(آپ بیتی ۔ص۵۲)

 

پشتون کا اجراء:
زبان و ادب کسی بھی قوم کی پہچان ہوتے ہیں اور زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں اخبارات اور جرائد کا اہم کردار رہا ہے۔ پشتو زبان و ادب کے فروع کی خاطر باچاخان نے مئی انیس سو اٹھائیس کو ’پشتون’ نامی اخبار کا آغاز کیا جس نے پشتو زبان کی ترقی و ترویج میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ اخبار اپنی اشاعت کے تھوڑے ہی عرصے میں ہر دلعزیز حیثیت اختیار کر گیا۔

 

خدائی خدمت گار تحریک کا آغاز:
خدائی خدمت گار تحریک نے باچاخان کی شخصیت کو ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا موقف تھا کہ دنیا میں ترقی کا انحصار انفرادیت پسندی کی بجائے اجتماعیت پر منحصر ہے۔ کیونکہ انفرادیت پسندی سے انسان ذاتی خوشحالی حاصل کرتا ہے لیکن اس طرزعمل سے بحیثیت مجموعی سماج ترقی نہیں کر سکتا۔ باچاخان کا خیال تھا کہ پشتون انفرادیت پسندی سے نکل کر قومی فلاح و بہبودکے لئے مل جل کرکام کریں۔ جس کے لئے طویل غور و حوض کے بعد خدائی خدمتگار تحریک کی بنیاد رکھی گئی،”ہماری ایک جماعت پہلے ہی موجود تھی ’اصلاحِ افاغنہ‘، یہ جماعت ہمارے صوبے میں تعلیم پھیلانے کا کام کر رہی تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ جماعت تو یہی کام کرتی رہے کیونکہ یہ کام بڑا ضروری تھا لیکن ہماری قوم میں اور بہت سی سماجی کمزوریاں اورعیب ہیں، سماجی طور پر ہم بہت پسماندہ ہیں۔ ان مسائل کو دور کرنے کے لئے ہمیں ایک الگ سماجی تحریک شروع کرنی چاہئے چنانچہ ہم نے ’خدائی خدمت گار‘ جو ایک سماجی تحریک تھی، کی بنیاد رکھی“۔(آپ بیتی ص۳۹)۔

 

پشتو زبان و ادب کے فروع کی خاطر باچاخان نے مئی انیس سو اٹھائیس کو ’پشتون’ نامی اخبار کا آغاز کیا جس نے پشتو زبان کی ترقی و ترویج میں کلیدی کردار ادا کیا۔
خدائی خدمتگار تحریک شروع کرنے کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے خان عبدالغفار خان لکھتے ہیں۔ ”ہم پٹھانوں میں پارٹی بازیاں، باہمی دشمنیاں، بغض وعناد، بری رسمیں اور برے رواج موجود تھے۔ ہمارے درمیان لڑائی جھگڑے اور فسادات بھی چلتے تھے اور جوکچھ ہم پیدا کرتے تھے وہ سب کچھ ہم برے رسم ورواج، جھگڑے فسادات اور مقدمہ بازی کی نذر کرتے تھے اور خود اسی طرح بھوکے پیاسے، ننگے اور بدحال رہ جاتے تھے۔ ہم نہ تو تجارت کرتے تھے اور نہ ہی زراعت اور نہ ہی ان کاموں کے لئے ہمیں فرصت تھی۔ بڑی سوچ بچار اور صلاح مشورے کے بعد انیس سو انتیس عیسوی میں ہم نے یہ جماعت بنائی اور اسے ہم نے ’خدائی خدمتگاری‘ کا نام دیا۔ یہ نام بھی اس جماعت کا ہم نے ایک خاص غرض سے رکھا تھا کیونکہ پٹھانوں میں خدا کے واسطے اپنی قوم وملک کی خدمت کا جذبہ مفقود تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ پٹھان متشدد تھے اور ان کا یہ تشدد غیروں کے لئے نہیں بلکہ ان کا سارا تشدد اپنی قوم اور اپنے بھائی بندوں ہی کے خلاف تھا۔ جو آدمی بھی ان کا بہت قریبی رشتہ دار ہوتا تھا وہ ان کے تشدد کے ہاتھوں ہمیشہ آگ میں کھڑا جلتا رہتا۔ ان کے تشدد کی ساری آگ اپنے بھائی اور عزیر ہی کے اوپر برستی تھی۔ علاوہ ازیں ان کے رجعت پسندانہ رسم و رواج انہیں تباہ وبرباد کر رہے تھے۔ ان میں انتقام کا جذبہ بھی غیر معمولی تھا اور ان میں اچھے اخلاق اور اچھی عادات کا بھی فقدان تھا“۔ ( آپ بیتی، صفحہ ۴۹)۔

 

ان حالات میں باچاخان نے ساتھیوں کے ہمراہ جب ’خدائی خدمتگاری‘ کی بنیاد رکھی تو ان کے سامنے ایک انتشار زدہ پشتون قوم تھی جو نفاق اور عداوت کے مارے ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھی۔ اس پشتون قوم کو یکجا کرکے اپنے قدموں پر کھڑاکرنے جیسا مشکل کام ان کے سامنے تھا۔ خدائی خدمتگار تحریک کا رکن بننے کے لئے ضروری تھا کہ درخواست دہندہ میں حلم، صبر وبرداشت، تحمل، بھائی چارگی اور ایک دوسرے کا احترام موجود ہو۔”ان حالات کے پیشِ نظر ’خدائی خدمتگار تحریک‘ کا رکن بننے کے لئے امیدوار کو یہ قَسم لینا اور یہ وعدہ کرنا پڑتا تھا۔

 

ہم نے اسی وجہ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے سامنے اگر کوئی ریفرنڈم کرانے کی تجویز رکھتا ہے تو بسم اللہ وہ میدان میں آئے اور ’پشتونستان اور پاکستان‘ کے موضوع پر ریفرنڈم کر لیا جائے
1: میں خدائی خدمتگار ہوں اور چونکہ خدا کو خدمت کی ضرورت نہیں ہے لہٰذا خداکی مخلوق کی خدمت ہی خدا کی خدمت ہے۔ لہٰذا میں خلق خدا کی خدمت بغیر کسی غرض و مطلب صرف خدا کے واسطے کروں گا۔
2: میں تشدد کی راہ اختیار نہیں کروں گا اور نہ ہی کسی سے انتقام لوں گا۔ مجھ پر کوئی خواہ کتنا ہی ظلم اور زیادتی کرے میں اسے معاف کردوں گا۔
3: میں باہمی پھوٹ، گروہ بندی اور دشمنی و خانہ جنگی سے دور رہوں گا۔ اور ہر ایک پختون کو اپنا بھائی اور دوست سمجھوں گا۔ میں رسم ورواج چھوڑدوں گا، سادہ زندگی بسر کروں گا، نیک کام کروں گا اور برائیوں سے جان بچاﺅں گا۔ اور یہ کہ میں اپنے اندر اچھے اخلاق اور اچھی عادات پیدا کروں گا۔ میں بےکاری کی زندگی نہیں بسر کروں گا“(آپ بیتی، ص ۴۹)۔

 

اس کے علاوہ خدائی خدمتگار کی یہ بھی ذمہ داری بنتی تھی کہ چاہے وہ امیر کبیر ہویا غریب دن میں کم ازکم دو گھنٹے جسمانی مشقت کرنا ہر رکن پر لازم تھا۔

 

صوبہ خیبر پختونخوا (صوبہ سرحد) کا ریفرنڈم:
1945-46ء کے انتخابات متحدہ ہندوستان کے آخری انتخابات تھے جو پاکستان اور متحدہ ہندوستان کے ایجنڈے کے تحت لڑے گئے۔ ان انتخابات میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں مسلم لیگ کو کانگریس(خدائی خدمتگاروں) کے مقابلے میں بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ ”ہماری اس کامیابی کا مطلب اس کے سوا کیا نکلتا ہے کہ ملک کی اکثریت ہماری پشت پر کھڑی تھی لیکن اس کے باوجود جب ہماری نمائندگی کے سلسلے میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں پھر سے ریفرنڈم کا حکم ہم پر ٹھونس دیا گیا تو ہمیں قدرتی طورپر اس صریح ظلم کے خلاف غصہ آیا اور ہم نے ریفرنڈم میں حصہ نہ لینے اور اس کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ دنیا کو ہمارے قہر، غصے اور ہمارے ساتھ کی گئی ناانصافی کا علم ہو جائے۔

 

وائسرائے کا یہ حکم نہ صرف منطق اور دلیل کے خلاف تھا بلکہ ایک امتیازی یا استثنائی سلوک بھی تھا جو پشتونوں سے انگریزوں نے جاتے وقت روا رکھا جسے ہم ہر گز برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ جہاں سارے ہندوستان میں ہر ایک صوبے کے ان نمائندوں سے جو اسمبلی میں موجود تھے پوچھا گیا کہ آیا وہ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں، یا پاکستان میں جانا چاہتے ہیں وہاں صوبہ سرحد کی اسمبلی کو یہ حق نہیں دیا گیا“(آپ بیتی صفحہ ۵۷۱(

 

یہاں تو مذہبی ٹھیکدار قائم اعظم کو ’کافرِ اعظم‘ اور پاکستان کو ’ناپاکستان‘ قرار دیتے رہے تو باچاخان ان الزامات سے کیسے بچ جاتے، جبکہ وہ کھلم کھلا سیکولر اور تکثیریت پر مبنی معاشرے کے قیام کی بات کر رہے تھے۔
”ہم نے اسی وجہ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے سامنے اگر کوئی ریفرنڈم کرانے کی تجویز رکھتا ہے تو بسم اللہ وہ میدان میں آئے اور ’پشتونستان اور پاکستان‘ کے موضوع پر ریفرنڈم کر لیا جائے“ (آپ بیتی صفحہ ۶۷۱)۔ یہیں سے باچاخان نے متحدہ ہندوستان کی تحریک سے ناکامی کے بعد پشتونوں کے لئے علیحدہ ریاست کے قیام کی جدوجہد شروع کی۔ جس کا اندازہ باچاخان کے اس بیان سے ہوتا ہے ’ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کا مسلم لیگ نے بائیکاٹ کیا تھا۔ میں نے مسلمان اراکین سے اس مسئلے پر بڑی بحث کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ آئیے! ہم آئین ساز اسمبلی میں چلے جائیں گے اور اس میں یہ تجویز پیش کر دیں گے کہ ہندوستان میں سوشلسٹ جمہوریت قائم کرنی چاہئے۔ نیز اگر ہندوﺅں نے ہماری یہ بات مان لی تو ہم فیڈریشن میں رہ جائیں گے، اور اگرانہوں نے ہماری یہ بات نہ مانی تو ہم اپنے اپنے صوبوں میں فیڈریشن سے جدا ہونے کی تجویز یں منظور کر لیں گے“۔(آپ بیتی صفحہ ۸۷۱)۔

 

لیکن بعض کانگریسی رہنماوں کی ہٹ دھری اور مسلم لیگیوں کی اَناپرستی کے باعث بالآخر اگست انیس سو سینتالیس کو ہندوستان تقسیم ہو گیا تو کانگریس سے مایوس ہو کر باچاخان اورخدائی خدمت گار تحریک نے پاکستان کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ایک محبِ وطن پاکستانی کے طورپر ملک و قوم کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ”بٹوارہ ہوچکا تو میں نے کہا اب جبکہ پاکستان بن چکا ہے اور کانگریس اور مسلم لیگ نے تقسیم مان لی ہے تو میں اور میری پارٹی کسی قسم کا حصہ مانگے بغیر ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ میری قوم پاکستان کے شہری اور وفادار رہیں گے اور ہم اس ملک کی تعمیر وترقی میں پورا حصہ لیں گے لیکن پاکستانی حکومت پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور الٹا مجھ پر یہ الزام لگایا گیا کہ میں تعمیر کی آڑ میں تخریب چاہتا ہوں لہٰذا مجھے گرفتار کر لیا گیا، مجھ پر قبائلیوں سے ساز باز کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا “(آپ بیتی ص۳۰۲)

 

یہ تھے خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان جس کی قوم پرستانہ اور اصلاحی خدمات کو ابھی تک بعض طبقے برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اگر خان عبدالغفار خان پر غداری و ملک دشمنی کے الزامات لگے تو اس میں حیرت کی کوئی وجہ نہیں۔ یہاں تو مذہبی ٹھیکدار قائم اعظم کو ’کافرِ اعظم‘ اور پاکستان کو ’ناپاکستان‘ قرار دیتے رہے تو باچاخان ان الزامات سے کیسے بچ جاتے، جبکہ وہ کھلم کھلا سیکولر اور تکثیریت پر مبنی معاشرے کے قیام کی بات کر رہے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *