یہ باغ شمال مغربی یعنی زیریں آسٹریا کے نسبتاً قدامت پرست علاقے میں واقع آلٹن برگ کی مانیسٹری کا حصہ ہے۔ باغِ مذاہب کی بصیرت اور وجہ تعمیر کی طرف آنے سے پہلے قارئین کی خدمت میں علاقے کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا چاہوں گا۔ آلٹن برگ کی یہ مانسٹری “ہارن” نامی گاوں کے نواح میں ہے۔ والڈوِرتل کہلانے والی اس برادری کے افراد پکے کیتھولک ہیں اور یہ دریائے ڈینوب کے شمال میں چیک ریپبلک تک کی اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ماضی میں یہ علاقہ محض پسماندہ دیہی آبادی پر مشتمل تھا لیکن گزشتہ دہائیوں میں یہاں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے آنے سے نہ صرف ترقی ہوئی ہے بلکہ علاقے میں سیاحتی سرگرمیاں بھی بڑھی ہیں۔ یہ علاقہ صدیوں سے اپنی زرعی پیداوار اور انگوروں کی کاشت کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
یہ باغ شمال مغربی یعنی زیریں آسٹریا کے نسبتاً قدامت پرست علاقے میں واقع آلٹن برگ کی مانیسٹری کا حصہ ہے۔
مانیسٹری کا سنگِ بنیاد 1144ء میں مقامی کاونٹیس کے عطیہ سے رکھا گیا تب سے یہ جگہ راہبوں کے لیے خدا کی عبادت، اور اُس کی ذات کو سمجھنے والوں کے لیے پناہ گاہ رہی یہاں تک کہ سترہویں صدی عیسوی کے پہلے حصے میں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کے درمیان خون ریز جنگ نے اِس مانسٹری کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابھی مانیسٹری کی عمارت اور اثاثوں کا دفاع کرتے ہوئے گزر جانے والے راہبوں کی تدفین سے فارغ ہوئے تھے کہ سلطنت عثمانیہ کی ترک فوجوں نے چڑھائی کر دی۔ اِن جنگوں نے راہبوں کے یقین اور ایمان سے کہیں زیادہ کلیسا کی عمارتوں کو نقصان پہنچایا۔ اٹھارہویں صدی کی تیسری دہائی میں ایبٹ پلاسیڈس منخ نے مانیسٹری کی تعمیرِ نو کی اور اِسے مکمل طور پر بحال کیا۔
مانسٹری ہابسبرگئین شہنشاہوں کے مہمان خانے کے طور پر بھی استعمال ہوئی اور اِسی وجہ سے ابھی تک مانیسٹری کی عمارتوں میں شاہ کا دیوان موجود ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ جگہ روسی فوجیوں کی چھاؤنی کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔1995 میں آسٹریا کے یورپی یونین سے الحاق کے بعد مقامی حکومت کی مالی معاونت سے اس عمارت کی عظمتِ رفتہ بحال کی گئی اور اب یہ عمارت اپنی شانِ رفتہ کے ساتھ الپ کے جنگلوں میں کھڑی ہے۔
ایسے ایک باغ کا خیال جس میں عیسائیت کے سوا باقی مذاہب کی باغیچے خوبصورتی سے بنائے جائیں ، نوجوان راہبوں کو دوسری ویٹیکن کونسل کے فیصلے سے ملا۔
ایک تو مانیسٹری اور اور اُس کے اطراف کی بیشتر اراضی صرف کلیسا کے لیے مختص ہے اوپر سے پڑوسی رہائشی آبادی تمام تر کیتھولک ہے اور پھر صدیوں سے جاری مذہبوں کے مابین جنگوں کی تاریخ کے پیش نظر ایسے باغ کی تعمیر کا خیال اور اِس کی ایک کٹرعیسائی علاقے میں موجودگی دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ ایسے ایک باغ کا خیال جس میں عیسائیت کے سوا باقی مذاہب کی باغیچے خوبصورتی سے بنائے جائیں ، نوجوان راہبوں کو دوسری ویٹیکن کونسل کے فیصلے سے ملا۔ اس فیصلے میں عالمی کیتھولک چرچ پہلی دفعہ اپنے علاوہ باقی ادیان، مذاہب اور اُن کی موجودگی کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ جستجوئےحق اور نسلِ انسانی کی انتہائی مشکل پہیلیوں کو سلجھانے میں اُن کے ساتھ خود کو برابر کا شریک بھی ٹھہراتا ہے۔ 2002 میں آنے والے ایک بڑے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد راہبوں نے ملنے والی مالی امداد سے اِس باغ کی تعمیر شروع کر دی۔ اسلام اور یہودیت کے ساتھ موجود ہزار ہا سالہ مجادلہ نظر انداز کر کے اُن کی حرمت کا اعتراف کیا گیا اور بدھ مت، ہند مت کی ابراہیمی روایت سےعدم مماثلت کے باوجودان کی تقدیس کے لیے ایک ایک حصہ مختص کیا گیا۔ قریب دس سال اِس کی نگہداشت کی گئی اور پھر ہر خاص و عام کے لیے اِس کے دروازے کھول دیے گئے۔
مانیسٹری کی روایتی تاریخی عمارت کے سامنے زائرین سیاحوں اور طالبِ علموں کے لیے یہ باغ ایک پر کشش مقام ہے ۔ باغ کے چار حصے ہیں جن میں سے دو ابراہیمی ادیان یہودیت اور اسلام کے لیے مختص ہیں جبکہ بقیہ دو حصوں میں مشرقی مذاہب میں سے ہندومت اور اور بدھ مت کی نمائندگی کی گئی ہے۔ اِن مذاہب کے فلسفہ حیات اور اِن کا عیسائیت سے تعلق، مختلف علامات، نشانات، پھولوں سے سجی کیاریوں اور تراشے گئے راستوں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ کلیسا کے راہبوں نے انتہائی محنت اور لگن سے اِس علاقے میں دیگر ادیان کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس باغ کی تزئین و آرائش کی ہے۔ یہ باغ اُن لوگوں کے لیے ایک مثالی نمونہ جو جو بین المذاہب پر امن فضا قائم کرنے اور خوشگوار علمی کاوشوں کے لیے کوشاں ہیں۔ باغ میں موجود مذاہب کے یہ باغیچے ان مذاہب کے پروکاروں کے لیے امن کی دعوت ہیں۔ یہ باغ سیکولر دنیا میں کیتھولک چرچ کی طرف سے قبولیتِ عام کا عملی ثبوت بن چکا ہے۔
باغ میں موجود مذاہب کے یہ باغیچے ان مذاہب کے پروکاروں کے لیے امن کی دعوت ہیں۔
میرے لیے اس باغ کی سیر دنیا پر جنت میں چہل قدمی کے مترادف ثابت ہوئی۔ میں باغِ مذاہب (Garden of religions) کے ایک باغیچے میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ گھاس پر اَدھ پکے سیب گرے تھے۔ خوبانیاں پک چکی تھیں، باغ سے باہر دور سورج مکھی کے کھیت اور افق تک پہاڑیوں پر پھیلا جنگل میرے سامنے تھا۔ فادر مشائیل نے باغ تک میری راہبری کی تھی۔ اِس دوران ان سے ملنے والی معلومات میں محفوظ کر چکا تھا۔ زندگی کی قدر و قیمت شاید ایسی جگہوں پر ہی معمول ہوتی تھی، جہاں آپ گویا جنت کے کسی باغیچے میں اُتر چکے ہوں۔ دھوپ چھاوں میں تیرتے چند بادل موسم کے رنگ تراش رہے تھے ، کیا جنت اِسی کا نام نہیں؟ جہاں سب باغیچے ساتھ ساتھ ہوں، جہاں ہمارے پڑوسی ہم سے خوش رہیں اور کیا یہی نہ تھی وہ زندگی جس کا وعدہ تھا؟ وہ بہار ، جس میں ابدیت کی آمیزئش تھی۔ نیلی اور سبز آنکھیں دائیں بائیں سے گزر گئیں۔باغ کے عقب میں بنی جھیل کے کنارے لگی آرام کرسی پر نیم دراز ہوا اور سورج ڈوبنے کا منظر دیکھنے لگا۔
آج اِس باغ کی نقالی کرتے ہوئے یورپ کے دوسرے حصوں میں بھی ایسے باغ تعمیر کیے جا رہے ہیں جو ایک طرف تو یورپ کی مذہبی آزادی کی علامت ہیں اور دوسری طرف عرب بہار، اور فرقہ وارانہ دہشت کے مارے پناہ گزینوں کے لیے خوش آمدیدی کا پیغام بھی ہیں۔ میری اپنے ہم وطنوں سے یہی درخواست ہے کہ امن کی آشائیں، محض آشائیں نہ رہنے دیں اور اپنے بڑے شہروں میں مذاہب کے باغ یا ایسے دوسرے سیاحتی مراکز تعمیر کریں جن سے عوام کو تکثیریتِ فکر اور مختلف المزاج مذاہب کو سراہنے کا موقع ملے!
آج اِس باغ کی نقالی کرتے ہوئے یورپ کے دوسرے حصوں میں بھی ایسے باغ تعمیر کیے جا رہے ہیں جو ایک طرف تو یورپ کی مذہبی آزادی کی علامت ہیں اور دوسری طرف عرب بہار، اور فرقہ وارانہ دہشت کے مارے پناہ گزینوں کے لیے خوش آمدیدی کا پیغام بھی ہیں۔ میری اپنے ہم وطنوں سے یہی درخواست ہے کہ امن کی آشائیں، محض آشائیں نہ رہنے دیں اور اپنے بڑے شہروں میں مذاہب کے باغ یا ایسے دوسرے سیاحتی مراکز تعمیر کریں جن سے عوام کو تکثیریتِ فکر اور مختلف المزاج مذاہب کو سراہنے کا موقع ملے!