Laaltain

ایٹوموسو

11 نومبر، 2016
مکمل دیوانگی اور ہوش میں ایک ایسا عالم بھی ہوتا ہے کہ جب آپ ایک خلا میں ہوتے ہیں جب آپ کو نہ تو دیوانہ کہاجاسکتا ہے اور نہ ہی عقلمند۔

 

ایسے عالم میں آدمی یا تو بے حد بولنے لگ جاتاہے یامکمل خاموشی اختیار کرلیتا ہے۔ پہلے پہل بہت بولنے والے جب دیوانے ہوتے ہیں تو انہیں گہری چپ آن گھیرتی ہے اور جو پہلے پہل خاموش رہتے ہیں دیوانگی ان کے لیئے آوازوں کا تحفہ ساتھ لاتی ہے سو وہ چیختے ہیں چلاتے ہیں۔ آپ کبھی پاگل خانے جائیں توآپ کو دو ہی طرح کے پاگل ملیں گے بہت خاموش یا بہت باتونی۔ لیکن بہرحال کہلاتے سب پاگل ہی ہیں۔

 

وہ بھی آج کل ایسے ہی خلا میں تھااسے محسوس ہوتا تھا کہ چند روز اور اگر وہ اسی کرب میں گزارے گا تو عین ممکن ہے مکمل پاگل ہوجائے، لیکن وہ پاگل ہونے سے ڈرتا بھی تھاکہ پاگل تو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ وہ بہت ڈرتا تھا۔
بہت سی باتیں اسے بھولنے لگ گئیں تھیں کبھی کبھار تو اسے یوں لگتا کہ جیسے وہ اپنا نام تک بھول گیا ہو فوراً جیب سے شناختی کارڈ نکالتا، نام پڑھتا اور کہتا حد ہے یہی نام تو مجھے یاد ہے بھلا آدمی اپنا نام تھوڑی بھول سکتا ہے۔۔۔

 

راستوں میں وہ خود کلامی کرتا دکھائی دیتا اور جونہی اسے یہ خیال آتاکہ وہ کافی اونچی آواز میں خود سے باتیں کر رہا ہے اور اسے لوگ دیکھ رہے ہیں تو وہ فورا خاموش ہوجاتا اور لوگوں کی طرف یوں دیکھتا کہ جیسے کہہ رہا ہو، آپ کو غلط فہمی ہوئی میں ابھی پاگل نہیں ہوا۔

 

وہ جب بہت اونچی آواز میں خود کلامی کرتا تو کچھ اس طرح کے بے ترتیب جملے لوگوں کو سننے کو ملتے۔

 

“میں نہیں ڈرتا۔۔۔۔ نہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔میں نہیں، نہیں، نہیں ڈرتا۔۔۔۔نہیں،نہیں۔۔۔۔پھر اسے خیال آجاتا کہ اسے لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔۔”

 

نیند اسے اب بہت مختصر ٹکڑوں میں آتی، ذرا سے شور سے بھی وہ جاگ جاتا اس کے خواب سارے پریشان تھے اتنے پریشان کہ وہ چیخ اٹھتا ایسے خوابوں کے بعد بھلا کون سو سکتا ہے۔

 

ایک وقت تھا کہ وہ ایک زندہ دل آدمی تھا، خوش باش، بھرپور انداذ میں زندگی گزارنے والاانسان۔ لوگوں میں گھل مل جانا اس کے لیئے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔

 

لیکن اب وہ دن نہیں رہے تھے۔ اسے اب لوگوں سے خوف آتا تھا۔ حتیٰ کہ چوک میں کھڑی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں سے ڈرتاتھا۔ لوگوں کو بہت غور سے دیکھتا۔ اب اسے کسی پر اعتبار نہیں تھا۔کیا ساری دنیا بے اعتباری ہے؟؟؟

 

اس کا یہی خیال تھا۔۔

 

وہ بہت راستے تبدیل کرتا ہر موڑ پر کوئی موٹرسائیکل کھڑی ہوتی جو اس کا راستہ روک لیتی۔۔۔ وہ پریشان تھا لیکن وہ ڈرتا تھا۔ وہ بیچارا بہت عجیب تھا۔

 

وہ آوازوں سے اتنا خوفزدہ تھا کہ کانوں میں ہر وقت روئی ڈالے رکھتا لوگ اس کی حالت پر افسوس کرتے اور اس کے ماضی کی خوشگوار باتوں کو یاد کر کے آہیں بھرتے۔ لوگوں نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو اس قدر خوف انسان کو مارڈالتا ہے اور نہیں ضرور حوصلے سے کام لینا چاہیئے اور اس طرح کی اور بہت سی عام باتیں۔۔۔ لیکن وہ ڈرتا تھا ہر آواز سے، ہر شور سے۔

 

ایک روز جب دسمبر کی خوشگوار دھوپ نکلی ہوئی تھی، اس کا دل چاہا کہ صحن میں بیٹھا جائے اور دھوپ کے مزے لوٹے جائیں، کافی عرصے بعد اس کے دل میں کوئی خواہش اٹھی تھی۔

 

سو وہ صحن میں موجود ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کرلیں، دسمبر کی دھوپ یقینا خوشگوار ہوتی ہے اس نے سوچا اور آنکھیں کھولیں او ر دیکھا کہ دیوار پر چند چڑیاں بیٹھی چہچہا رہی ہیں، مجھے یقینا اب ڈرنا نہیں چاہیئے اور پرندوں کی خوبصورت آوازوں کوسننا چاہیئے، اس نے ڈرتے ڈرتے کانوں سے روئی نکال کر پھینک دی اور آنکھیں موند لیں، یہ آوازیں اور یہ دھوپ کتنی بھلی معلوم ہوتی ہے۔۔۔

 

اور مجھے اب ڈر بھی نہیں لگتا۔۔۔مجھے اب اس خوف سے نکلنا ہوگا۔
باہر گلی میں بچے کھیل رہے تھے انہوں نے ایک پٹاخے کو آگ لگائی اور پٹاخہ اند ر صحن میں پھینک دیا۔۔۔۔

 

یہ دھوپ کتنی خوشگوار ہے، یہ چڑیاں کتنا خوبصورت گاتی ہیں، اور مجھے اب ڈر بھی نہیں لگتا۔۔۔

 

ڈزز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایک چیخ۔۔۔۔ ایسی دلدوز چیخ کہ چڑیاں اڑ گئیں، بچے ڈر کے بھاگ گئے۔

 

اور وہ کرسی پر ہی بے ہوش ہو گیا۔ پچھلے دھماکے میں بھی وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نوٹ: (ایٹوموسو فوبیا: ایک فوبیا ہے جس میں انسان کو دھماکے کاخوف لاحق ہوتا ہے)
(Ato­m­oso­pho­bia is the Fear of Bomb Blast)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *