قسط اول
اکیسویں صدی کی شاعری کا منظر نامہ اردو شاعری کے افق پر ایک ایسی تشکیل کے عمل سے گزر رہا ہے جس کی بنیادوں میں جہاں مابعد جدید عہد کا اجماعی لاشعور کار فرما ہے وہیں انفرادی انسانی جبلتوں کے نقوش بھی بدرجہ اتم دیکھے جا سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو شاعری کی نئی کھیپ کسی مخصوص فکر۔ تحریک یا نظریے کی پابند نظر نہیں آتی ہے۔ وہ اپنے تمام تر نطری و فکری بیانیے میں مکمل آزادی کی ظرف پیش قدمی کرتی نظر آتی ہے اور یہی آزادی وہ اپنے صوتی و فکری آہنگ کو بھی دینے کی قائل نظر آتی ہے۔آج کے شاعر نے اپنے بدن سے روایتی، گھسی پٹی کلیشے زدہ معاشرتی ، سیسی، نظریاتی، اور فکری پابندیوں کی ردا اتار پھینکی ہے۔ وہ موجودہ عہد سے اپنی فظری بالیدگی کے ساتھ سنجیدگی سے مکالمہ آراءہے۔ یہ مکالمہ کہیں اسے نفسیاتی کشمکش میں مبتلا کرتا اور کہیں اسے بے معنویت اور تہذیبی مغائرت کی دیواروں سے سر ٹکرانے پر اکساتا ہے۔آج کا شاعر اپنے اندر دبی ہوئی ان تمام چیخوں کو آواز دینا چاہتا ہے جنہیں کبھی قومیت کے نام پر، کبھی مذاہب کے نام پر، کبھی نطریاتی فریم ورک کے نام پر اور کبھی مفادات اور مصلحت کے نام پر دبایا جاتا رہا ہے۔
اکیسویں صدی کی شاعری کا منطر نامہ اردو شاعری کے افق پر ایک ایسی تشکیل کے عمل سے گزر رہا ہے جس کی بنیادوں میں جہاں مابعد جدید عہد کا اجماعی لاشعور کار فرما ہے وہیں انفرادی انسانی جبلتوں کے نقوش بھی بدرجہ اتم دیکھے جا سکتے ہیں۔
آج کے شاعر کے پاس بہت سے سوالات ہیں ان سوالات کی کوکھ سے جنم لیتا اضطراب اور بے چینی ہے شکستگی کا اظہار ہے ۔سماجی، فکری اور جنسی تفاوت کی فضا میں تصادم آمیز اظہاریہ سے احتجاج کا شعلہ بر آمد ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ اس شعلے سے آج کی غزل سے برآمد ہوتے ہوئے معنیاتی کینوس پر معروف معانی سے غیر معروف یا غیر مانوس معانی کی بر آمدگی اپنی جگہ پر ایک الگ اکتشافی عمل کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
اپنے سے ما قبل بیانیے سے مختلف ہونااس کے لیے ایک ضروری عمل کے طور پر سامنے آیا ہے،یہ اور بات کہ اس انفرادیت کے حصول میں وہ کہیں اپنی جمالیات کا سودا کرنے پر تیار ہے اور کہیں وہ اسے اپنی تخلیقی بازیافت کے عمل کا لازمی جزو مانتے ہوئے اسے روایت کے شعور سے منطبق کر کے اپنی تخلیقی پیشکش کا قائل ہے۔
آج کی شاعری میں موضوعاتی ، فکری اور نظری سطح پر جتنا تنوع نظر آتا ہے اس کے تحقیقی پس منظر کی تلاش بذات خود ایک فکری کلامیہ کو جنم دیتا ہوا نظر آتا ہے ۔۔ابہام، سریت، پر اسراریت، فرد کا ملال، تنہائی ، وجودی مسائل، مقامی تہذیبی استعارے و علامات، انسان ، تہذیب ، مابعد الطبعیاتی انفعالیت جیسے مختلف رجحانات ہماری روایت میں اپنے اپنے عصری منطرنامے کے زیر سایہ ایک محدود کینوس پر شعری اظہاریے کا حصہ رہے ہیں مگر آج کی شاعری میں یہ تمام رجحانات اپنی بھرپور تخلیقی بالیدگی اور شدت احساس کے ساتھ ایسے اظہاریے کی تشکیل کرتے ہیں جو ہمارے مابعد جدید عہد کے اجتماعی لاشعور میں نمو پذیر ہوتے فکری کلامیے کی جہات کو متعین کرتا ہے اور ان پر اپنے تخلیقی رد عمل بھی ظاہر کرتا ہے۔
ایک اور سظح پر ایک پہلو جو اکثر ہمارے سنجید قارئین کے ذہن میں اٹھتا ہے جو بہت اہم اور قابل توجہ ہے کہ نئی غزل میں آپ کو احساس اور لہجہ کی سطح پر انسلاک نظر آتا ہے اوراحساس کی سطح پر اجتماعیت کا پہلو نکلتا نظر آتا ہے اور یہاں آ کر وہ جدیدیت کے انفرادیت کے پہلو سے احساس کی سطح پر بغاوت کرتی محسوس ہوتی ہے شاید یہی احساس کی انفرادی پیشکش کا غیاب ہمارے بعض نئے لکھنے والوں کے مصرعہ سازی پر اثر انداز ہوتا ہے اور ایک تاثر یہ برآمد ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ایک ہم اہنگ اسلوب میں جکڑے لگتے ہیں اور ان شاعروں کی غزلیات سے اگر نام ہٹا لیا جائے تو ہم شناخت نہیں کر پاتے کہ کس کی نمائندہ غزلیات ہیں مگر یہ تاثر بہت بڑے پیمانے پر اجاگر نہیں ہو پاتا۔
اپنے سے ما قبل بیانیے سے مختلف ہونااس کے لیے ایک ضروری عمل کے طور پر سامنے آیا ہے،یہ اور بات کہ اس انفرادیت کے حصول میں وہ کہیں اپنی جمالیات کا سودا کرنے پر تیار ہے اور کہیں وہ اسے اپنی تخلیقی بازیافت کے عمل کا لازمی جزو مانتے ہوئے اسے روایت کے شعور سے منطبق کر کے اپنی تخلیقی پیشکش کا قائل ہے۔
آج کی شاعری میں موضوعاتی ، فکری اور نظری سطح پر جتنا تنوع نظر آتا ہے اس کے تحقیقی پس منظر کی تلاش بذات خود ایک فکری کلامیہ کو جنم دیتا ہوا نظر آتا ہے ۔۔ابہام، سریت، پر اسراریت، فرد کا ملال، تنہائی ، وجودی مسائل، مقامی تہذیبی استعارے و علامات، انسان ، تہذیب ، مابعد الطبعیاتی انفعالیت جیسے مختلف رجحانات ہماری روایت میں اپنے اپنے عصری منطرنامے کے زیر سایہ ایک محدود کینوس پر شعری اظہاریے کا حصہ رہے ہیں مگر آج کی شاعری میں یہ تمام رجحانات اپنی بھرپور تخلیقی بالیدگی اور شدت احساس کے ساتھ ایسے اظہاریے کی تشکیل کرتے ہیں جو ہمارے مابعد جدید عہد کے اجتماعی لاشعور میں نمو پذیر ہوتے فکری کلامیے کی جہات کو متعین کرتا ہے اور ان پر اپنے تخلیقی رد عمل بھی ظاہر کرتا ہے۔
ایک اور سظح پر ایک پہلو جو اکثر ہمارے سنجید قارئین کے ذہن میں اٹھتا ہے جو بہت اہم اور قابل توجہ ہے کہ نئی غزل میں آپ کو احساس اور لہجہ کی سطح پر انسلاک نظر آتا ہے اوراحساس کی سطح پر اجتماعیت کا پہلو نکلتا نظر آتا ہے اور یہاں آ کر وہ جدیدیت کے انفرادیت کے پہلو سے احساس کی سطح پر بغاوت کرتی محسوس ہوتی ہے شاید یہی احساس کی انفرادی پیشکش کا غیاب ہمارے بعض نئے لکھنے والوں کے مصرعہ سازی پر اثر انداز ہوتا ہے اور ایک تاثر یہ برآمد ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ایک ہم اہنگ اسلوب میں جکڑے لگتے ہیں اور ان شاعروں کی غزلیات سے اگر نام ہٹا لیا جائے تو ہم شناخت نہیں کر پاتے کہ کس کی نمائندہ غزلیات ہیں مگر یہ تاثر بہت بڑے پیمانے پر اجاگر نہیں ہو پاتا۔
ہر کانفرنس ہر تقریب ہر مشاعرے میں صرف انہی چہروں کی تقریب رونمائی سو سو بار کرا کرا کر ان کے اصل چہروں کو اتنا مسخ کر دیا گیا ہے کہ اب ان کو دیکھ کر لفظوں کو بھی گھن آتی ہے۔
ہماری شاعری پر تنقید کو دیکھا جائے تو آج کی نسل کا تخلیقی مقدمہ لڑنے کو کوئی سقہ بند نقاد تیار نظر نہیں آتا۔مخصوص لابیاں ہیں جن میں صرف انہی لوگوں پر بات کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے جو ان کی دادا گیری اور سلطنت عیاراں میں توسیع کا باعث بن سکتے ہیں۔ادب کو ہمارے نام نہاد ادبی حلقوں، آرٹس کونسلوں اور ابی اکیڈمیوں میں صرف محدود اشرافیہ کے نوازے ہوئے باسی مضامین کی جگالی کرتے چار چار پانج پانچ دہائیوں سے غاصبانہ قابض صرف انہی لوگوں کی لونڈی بنا دیا گیا ہے جن کی عیارانہ زنبیل میں بیس بیس سالوںسے ایک دو غزلوں یا نظموں کے سوا کچھ نہیں نظر آتا۔ ہر کانفرنس ہر تقریب ہر مشاعرے میں صرف انہی چہروں کی تقریب رونمائی سو سو بار کرا کرا کر ان کے اصل چہروں کو اتنا مسخ کر دیا گیا ہے کہ اب ان کو دیکھ کر لفظوں کو بھی گھن آتی ہے۔ دو تین معیاری رسالہ جات کے علاوہ نمائندہ ادبی رسالے جن کو ان جغادری ادیبوں اور بین الاقوامی ادبی تقریبوں کے منتظمین کی آشیرباد حاصل ہے ان میں کوئی چیز چھاپنے سے پہلے بھلے وہ کس تخلیقی کرب اور محنت سے لکھی گئی ہو، یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس چیز کے لکھنے والے کو سلظنت عیاراں کے کس بڑے پادری کی سند حاصل ہے اور یہ لکھنے والا کس لابی سے تعلق رکھتا ہے۔اسے بعض دفعہ مسلک ،بعض دفعہ نظریاتی وابستگی اور بعض جگہ مولویانہ پن ( دونوں انتہاؤں کا) اور کبھی زاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)